درباری………..
……………………..اساطیری شہر تلمبہ….. ایک طرح میری جنم بھومی ہے…… پل پل گزرتی دنیا میں ابھی تک یہ رابطہ پل دائم ہے….. اگرچہ نقل مکانی ہوے سالہا سال بیت گئے مگر….. والد گرامی خادم رزمی کے شاگرد اور میرے اور میرے بھایوں کے ھم جماعت چاہت کی شبنمی بوندوں سے…. من ٹھار….. رکھتے ہیں……………………. شادی و غم…. جہان میں توام ہیں اور یاد نگر کے جزیرے ہیں……… کوی ناگزیر مجبوری پاؤں کی زنجیر نہ بنے تو یہ زمین زادہ اپنی گم گشتہ جنت میں کھوے ہوے ھجر کو وصل سے ثمر آ ور ضرور کرتا ہے………….
میرا ایک مسکراتا ہوا روایتی جاگیردار گھرانے کا سکول فیلو……. گھوڑےپر سکول اپنی عمر سے زیادہ خدمت گزار کے ساتھ ھم… پیدل ھم جماعتوں….. کے کمرہ جماعت میں تو ھنس بول لیتا…. مگر تفریح ہوتی تو اپنے ملازم کے پاس اپنے سجاے دستر خوان پر اکیلا ہی میزبان اور مہمان ہوتا…….. پھر ھم نے ہلہ بولا اور…… صفائ نصف ایمان ہے…… پر یوں عمل کیا کہ باقی عرصہ تعلیم مل کر لزت کام و دہن کی داد دیتے…….. ھمارے بچپن کی اپنایت مہر طاہر سنپال کے چھوٹے بھای جو سیاسی اور معاشرتی طور پر ھمیشہ خوشگوار اور پرجوش معانقہ اور مصافحہ سے ان کے ڈیرے پر نہ أنے کے مسلسل اور متواتر شکوے سنتے تھے……. اپنے بیٹے محسن منیر رزمی…… کے ساتھ ……شادی غم……….. میں شریک قل خوانی ہوے……. مہر طارق سعید سنپال….. کو مخدوم یوسف رضا گیلانی سمیت ہزاروں افراد یاد کر رہے تھے….. تو میرے دلبر کلاس فیلو نے پرسہ پردکھ کا فسانہ سنایا……….
میرے سکول فیلوز جن کے بال میری طرح سفید اور دل جوان تھے….. باد صبا کی طرح ضیا بار کر گئے……………. سو…… لب سوختہ… لب ریز اور لبالب…….. فنجان اور جلیب کے ساتھ ایک علم دوست استاد گھرانے کے گرمجوش….ریسرچ سکالر قیصر فاروق تگہ نے سواگت کیا…… تگہ….. راجپوت نہیں بلکہ ھندو مزہب کے برہمن تھے….. جن کے ایک نیک روح بزرگ نے مندر کی کمائ پر دھرم کا سودا کرنے کی بجاے….. رزق حلال کے لئے زمیندارہ شروع کیا تو…… تیاگ… تگ…. اور تگہ…… بن گئے….. حسینی برہمنوں کا معاملہ معلوم نہیں……….. اگلا قیام…… ہید سدھی نئی….. کے پل پر تھا……….
جاویداقبال سہو…… وھاں کب سے حاتم طای بننے کے لئے شاعروں اور استادوں کے ساتھ….. مچھلی مچھلی کتنا پانی……. کی کشتی سے کوہ ندا بنا ہوا تھا…… کوہ ندا کی پکار پر واپسی کا راستہ داستانوں…… میں نہیں ملتا……… مگر ھم مہم جووں کے لئے کار جہاں دراز ہے……. اس جگہ پر میری یادو کا خزانہ دفن ہے……. اس دفینہ کو سفینہ چاہیے…. سینہ حاضر تھا مگر موسم سرد تھا….. ھمارے میزبان اور دیگر سجن…… مخدوم پور پہور اور کچا کھوہ کا موٹر سایکلوں کا سفر…. طول شب دیجورکو اس پریم پریت میں سد سکندری لگتا تھا………. سو طبل رخصت بجا اور ھم دریا کے دوسرے کنارے اور دوسرے ضلع کی میں مسافر دلنواز بن گئے……………. رچناوی….. قول فیصل کے لئے رابعہ زماں مائ صفوراں کے دربار کے دروازہ پر….. کنڈی…… ہلانے کو کافی و شافی سمجھتے ہیں…… یہ فقیر وہاں…… وولنر ہوسثل… اولد کیمپس جامعہ پنجاب.. لاھور کے پرانے باسی……. حاجی میاں صاحبزادہ ارشاد قمر صفوری….. کی مسند نشینی سے ملاقات کا ایک مدت سے متمنی تھا……….. بھلا ہو….. معروف استاد…. مقبول نقیب….. محبوب مزاج…. مخمور سفر نواز…… سیلانی مزاج…… ناول نگار….. وایس پرنسپل کامرس کالج میاں چنوں…… پروفیسر اقبال عابد…….. جس کی رفاقت میں سفر…. سقر نہیں رہتا…… خوشبو کا خواب بن جاتا ہے……… اس علاقہ کے جماندرو…… ڈ کشنری تھے……. اب وجد اس وسنیک میں کبھی زیرو تھے…. اب یہاں کے ہیرو….. زیروزبر ہو چکے ہیں اور اس کا سخی دل….. ان کے لئے شجر سایہ دار بن چکا ہے…………. ان کی پرجوش رھنمای اور گرم جوش رفاقت نے……. 30سال کے گم شدہ حبیب لبیب صاحب زادہ ارشاد قمر اور ان کے ڈیرے پر مبارک چہروں کی شیریں سخنی سے فیض یابی کا زریں موقع کو سبک رفتار بنایا………..
دیار دل میں یادوں کی پوٹلی سنبھالے….. ھم اب وھاں تنگ گلی کے بند دروازے پر کھل جا سم سم….. کے اسم کا ورد کر رہے تھے……. جہاں ایک ایسا دربار ھمارے لئے دل اور ڈیرے کے دروازے کھولے ہوے تھے……… دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولی…….. پیر مبارک شاہ بغدادی…………. عبدالحکیم…….. میل خودہ کپڑوں کو صاف کرتے تھے…… نگاہ مرد فقیر کے ساتھ……. وہ جسم کی میل بھی صاف کر دیتے بلکہ ……دہلی.کی جامع مسجد کے محراب کا خم بھی دور کر دیتے…… شکرانہ کے لئے دہلی سے پیادہ پا جماعت چلتی اور منزلوں کی گرد رہ گزر کو سرمہ چشم جانتی……. زمانے نے بہت رنگ وروپ بدلا مگر وہ سفر اب بھی جاری ہے….. بستی سنپال…. ابھی تک خدمت گزاری کا شکریہ ادا کر رہی ہے………..
جہاں سے کچھ فاصلے پر…….. عظیم مسلم نوجوان جرنیل…… محمد بن قاسم……. کو اس وقت پابند سلاسل کیا گیا تھا…. جب جامعہ تک امب….. میں شریک درس تھا جس درس گاہ کی شہرت اس زمانے میں ھند و چین تک مشہور تھی………
میں صدیوں کے سفر کے قدموں کی چاپ سینے میں لئے…….. برصغیر پاک وہند کے چار مخادیم میں سے ایک……. چشمہ صافی….. مخدوم عبدالرشید حقانی…………. کے سند یافتہ…… سلطان عبدالجکیم….. کے شہر میں تھا…… جس کے قرب میں…… ہرپہ اور موہن جودرو…… سے قدیم تہزیب…… جلیل پور…….. کے باقی ماندہ کھندرات بھی پاک چین دوستی کے مظہر….. موٹر وے کی بلندی کی نظر پستی کو أخری بار……. سدھنای میں مچھلی کے میزبان….. جاوید اقبال سہو کے کیمرےمیں…. مہر حق نواز ہراج اور قیصر فاروق تگہ……. اپنے آ نسووں کے سمندر میں غرقاب ہوتے سال گزشتہ ملول و دل گرفتہ اب تک ہیں…………. یہاں اس غرقاب تہذیب کے نشان عبرت کی دوسری طرف….. وہ تعلیمی ادارہ ہے جہاں مجھے اقتدار پرست نے اقدار پسند ھونے کا فسانہ بنانا اچھا…………. اسی تعلیمی ادارہ میں رچناوی زبان کی شہد أگیں مٹھاس میں شریک سفر ملنا…… جو نفسیات کا استاد تھا مگر نفسیاتی مریض نہ تھا……… مسکان لبوں پر…… بات کرتا تو پھول دامن میں بھر جاتے بلکہ دساور تک جاتے…….. زبردستی میزبانی کرنا پسندیدہ زوق اور شوق رکھنے والے…….. پیر شریف الدین……. معروف…. مقبول اور محبوب گھرانے……. پیر مبارک شاہ بعدادی……. کے پاس ھم چپ چاپ چاہ میں اچانک…… تشریف فرما….. ہوے…….. دلدار کے دیدار میں دلدر دور ہوے…………. ایک خطرناک فطین…. فہیم…… اصلی دانشور……. سردی کا شکار….. تازیانہ اپنایت سہنے کے لئے… طلب…… کیے گئے………………… راحیل فاروق…….. وہ کافر جو نہ سونپا جاے مجھ سے خدا کو بھی……….. انکسار اتنا کہ بچھ بچھ جاے……. علم اتنا کہ اپنے جہل کا اقرار کیے بات نہ بنے…….. دیکھنے میں کمزور لیکن عالم شہزور…….. عام سے قصبہ نما شہر میں کوی آتما….. جید….. بھی ہو سکتا ہے…… عربی….. فارسی…. انگریزی…. اردو…… میں گفتگو اہل زبان کی طرح کرے اور…… اصل میں جانگلی ہو…… رچناوی ہو…… پھر….. ہراج ہو….. اور عمر اور فکر….. ابھی جوانی کی دہلیز پر توجہ چاھتی ہو………. وہ جو سدھنای پر….. ایک شاعر کو شریک مچھلی سمجھا اور شاعری نہ سن کر شاعر پر ظلم عظیم کیا……. اس جرم بے داغ کی ضرب کاری کو….. صاحب زادہ ارشاد قمر صفوری…… کی چشم نیم باز نے کھولا اور تلافی ھمارے اصرار اور تکرار پر….. اس ادبی اور علمی جن…… راحیل فاروق……. نے دو بھرپور غزلوں اور پرشکوہ علمی گفتگو میں کیا……… ھاے ھاے کرے گا اس بات پر……. ھمارا کتابی چہرہ مہر حق نواز ہراج…….. اور خوش ہو گا جااقبال سہو کہ….. گپ شپ کے وقت کو علمی یافت کی نظر کر دیا……. اچھا لگا….. پالا بہت اور مؤثر سایکل کا سفر پل صراط بن جاتا ہے………….
……………..
درازی سخن میں فایدہ نہیں…… شاعروں کے نزدیک زلف یار… عاشقوں کے ہاں شب ہجر…. خطیبوں کے دوایر میں رشتہ کلام اور ادیبوں کے افق پر خیالوں کی پرواز اتنی لمبی ہوتی ہے کہ یہ سفر کسی منزل پر ختم نہیں پورا…… مگر…….. سماجی رابطہ پر طول کلام نہیں چلتا….. کر قصہ مختصر……. ھم پروفیسر شریف الدین کی محبت کی تانیں اراتے اور راحیل فاروق کی نک سک سے مالامال گفتگو سے اپنے دل کے آ مگن کو چمکاتے باھر نکلے…… تو…… دھند میں لپٹے…… گفتگو کے الاو سے سے…… خدا خدا کرکے.تلمبہ….پلٹے……. تو ماہ کے أخری دنوں کو تنخواہ کے ابتدای دن بنانے کے لئے…… عزیز القدر قیصر فاروق….. دیوار چین بن گئے…… چینیوں سے دوستی کی یاد گیری میں….. کھابہ پروری……. کو زندہ باد کیا…… اس کھابے کو زود اثر بنانے کے لئے سگریب کے دو پیکب زاد سفر بنے…………… میاں چنوں تک دھند اور باتیں ختم نہ ہویں تو بیگم صاحب نے شب بسری کی اجازت مرحمت فرمای……. رین بسیرا دو بجے شب…… چپ چپیتے اور روشن زہن….. مدبر استاد محمد ریاض سنپال….. سراپا اکرام کو دم رخصت سلام لسان کرتے…… پروفیسر اقبال عابد….. کے ستم زدہ….. زخم خوردہ اور چودہ لاشوں کے بے جرم گناہی…… چک …..میں شک اور یقین کے عفریت میں گزری……….. دہشت….وحشت…. کے توبہ شکن نشانات…. نوسال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود………… سوالیہ نشان……. ہیں……. کس سے افسوس کریں اور کس سے شکوہ کریں……… اللہ اللہ کر بھیا……..!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“