……………….ایک محاورہ……………………….
………………………………اور
…………………………………تہزیبی لفافہ
ڈ ھول نہ ساز تے ڈ ھولا نہ راگ
……………………
دنیا میں کم وبیش…… 6 ہزار زبانیں…… بولی جاتی ہیں…… ساری زبانیں اور بولیاں…. رب ہنر کے جمال کے کمال ہونے کی نشانیاں ہیں……. اللہ کریم کے نزدیک تو یہ سب زبانیں اظہار محبت اور پیار کو بہار سمے عطا کرنے کا انعام ہیں……… یہ عاجز سب زبانوں کا قتیل ہے……..
لیکن ان چھ ہزار زبانوں میں سے….. سمجھ……. صرف دو زبانوں کی أتی ہے جن میں سے ایک….. طاقت کی زبان…….. اور دوسری دولت کی زبان ہے………… …………………..مگر ان دو زبانوں سے بھی زیادہ طاقت ور ایک اور زبان ہے جسے…….. علم کی محبت زبان کہتے ہیں…….
علم…….. ایک ایسی امانت ہے جو أگے پہنچا دینی چاہئے….. علم کے حصول کے لئے دین اسلام میں بہت تاکید کی گئ ہے…… اللہ کریم کی …..وحی کا پہلا فرمان ہی…… اقرا ء ہے یعنی پرھ…….
ھم مرکزی پنجابی بولی کی زبان…… رچناوی…… کی کتاب میں سے…… بار دے ڈ ھولے…… دیکھ رہے ہیں…… جس کا زیب عنوان ہے…….
چانجے چھتے………. اے. ڈ ی اعجاز
جنوری 2018ءمیں240صفحات پر یہ کتاب…… لوک ورثہ اسلام آ باد…… کی گم گشتہ جنت سے ناپید ہونے کے طویل عرصہ گزرنے کے باوجود….. اب پنجاب لوک لہر نے مرتب کی اجازت سے 500 کی تعداد میں چھاپی……… راجہ جہانگیر قمر (رچناوی تہزیب وتمدن کے….. اصلی سیوک……. اور تحریک انصاف ساہیوال کے سرگرم فعال ورکر رھنما) نے از راہ نوازش مطالعہ کے لئے دیگر لوازمات اور ادبی دوستوں کی ہمراہی میں چیچہ وطنی تقریب میں عطا فرمای………. 300 روپے قیمت کی یہ کتاب دوستی…… ایک گمنام درویش مگر ادب کے ایک پکے اور سچے پرچارک…… اختر خان….. نے ساہیوال پرنبنگ پریس سے چھاپی……….
کتابوں اور دوستوں کے …حسن انتخاب….. میں میری مثالیت جمال پسندی….. ہمیشہ سد رہ رہی ہے………….. کال بلیندی….. کی طرح…… چانجے چھتے…… کی اشاعت میرے متعصب اور متشدد جمالیاتی زوق پر تازیانے لگا رہی ہے………………. لیکن اس تاریخی اور انمول کتاب کی تلاش و ترجمہ نگار….. اے. ڈ ی اعجاز…… میرے زمانہ طالب علمی سے رفیق محبتی قسور مبارک بٹ …….خالی ھاتھوں میں ارض وسما تھامے ہوے ہیں اور میری معلومات کے مطابق…… کسی اور کے ایجندے کے کراے کے قلمی کارندے نہیں……….. اچھی کتاب کی نک سک سے تزین وأرایش اور مجھ جیسے تنک مزاج قاری کے زوق سلیم کو خرم مراد بنانے کے لئے مسایل کی گود میں وسائل کے پھول درکار ہیں……… یہاں قافیہ تنگ اس لئے حسب خواہش چھاپنے کا جامہ تنگ…………….. ویسے بھی میک اپ والی اکثر کتابیں…. قبر چونا گچ تے مردہ بے ایمان….. نکلتی ہیں….. سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط……………
صاحبو !!
أپ بھی بجا کہتے ہوں گے کہ کیا داستان لے بیٹھے ہو….. اب کیا عرض کروں کہ طول دینا ہی مزا ہے قصہ کوتاہ کا…………… اسی سے یاد أیا……….. رچناوی زبان…….. میری مادری زبان ہے…………
دنیا میں اب تک…. نظم کی سب سے ب ٹری صنف انگریزی کی.. سانیٹ …..کہی جاتی ہے جس کا ایک بند…… چودہ مصرعوں کا معروف ہے…………………………….. رچناوی ڈ ھولا ……..
جس کے شاعر…. عام اور ان پٹرھ کھیتوں میں کام کرنے….. بھینس اور بکریاں چرانے والے…. ایالی….. کے ایک ایک بند کے…… 42 مصرعے……. کہتے ہیں…………. بار دے ڈ ھولے….. یہی حسن اعجاز کی دستک ہے…………
ھمیں…. جانگلی….. فرمانے والے…….. زرا انصاف فرمایں کہ…… میری مادری زبان رچناوی……. میں شاعری کی ایک صنف کا نام………….. سولھرا……. ہے جو…… 100 مصرعوں پر مشتمل ہوتا تھا………
سولھرے (قار ی ھر پر ٹ ڈ ال کر مطالعہ فرمایں….. مزید برأں زیر زبر شد مد پیش کے اعراب زہن میں رکھیں……)
ہر لفظ چہرے کی طرح الگ پہچان دیتا ہے. اس کے ہجے نہیں کیے جاتے……………. یک صد مصرعے کی تخلیق یوں ہوتی تھی کہ…….. ایک زمانے میں اونٹ سوار (لادی) رات کے لئے ایک سو اونٹوں کی لمبی قطار کے ساتھ سامان باربرداری لاد کر سفر کو نکلتے تو سب سے اگلی قطار کا ڈ کھنا….. بلند أھنگ میں اپنی افتاد طبع میں شب کے سنانے میں کوئ مصرعہ موزوں کرتا اور اس قطار میں شریک سفر دوسرا لادی مصرعہ ثانی جورتا…… باری باری مصرعہ پر مصرعہ ترتیب سے خامشی خوشبو بکھیرتا اور اس قطار کے أخری…. لادی…… مصرعہ پر گرہ در گرہ کو قطرہ قطرہ متاع الفت میں جنم بھومی کو…… وادی سخن سے شاداب کر دیتا…….. سفر کی یادگار کو سوغات کا جامہ پہنایا جاتا….. قند مکرر سماعت میں رس گھولتا…… یوں ہوا کی دوش پر سخن فہمی اور سخن شناسی کا چراغ…………………. رچناوی شاعری…….. کو جگمگ جگمگ کرتا رھا………….
مگر فلک کج رفتار نے یہ دن دکھاے کہ ھم…… جانگلی…… کہلاے گئے……. اور پنجاب کی مرکزی بولی اور معیاری لہجہ……. رچناوی…….. کو …….چناں قحط سال زا اندر دمشق….. کہ یاراں فراموش کردند زا اندر عشق………. بنا دیا…………..
رچناوی………….ابن خلدون….. کے مطابق (اصل تہذیب اور بلیغ زبان تو….. دیہاتیوں….. اونٹ.. بھیر… بکریاں… بھینسیں…. گائے………. چرانے والوں کے پاس ہوتی ہے)……………… اسی لئے تو قریش مکہ قبول اسلام سے پہلے بھی اپنے نوزایدہ بچوں کو شہری زندگی سے دور…….. خالص اور نرول زبان کی فصاحت و بلاعت کے لئے….. دیہاتی زندگی…… میں شوق سے بھجواتے تھے……………… مشرقی پنجاب.. لاھور…. راولپندی… ملتان کے….. میدیا اور دانش خوروں نے اپنی اپنی مضافاتی بولیوں کو مکمل زبانوں کا درجہ منوا لیا……… حالانکہ…… رچناوی زبان………… أج بھی پاکستانی پنجاب کے سب سے زیادہ علاقے کی زبان ہے………..
اے. ڈ ی اعجاز…….. کنار راوی……. ہرپہ…. کے باسی اور رچناوی تمدن کی روایت کے سچے پارکھ ہیں…….. اس عشق نے ان سے…… کال بولیندی…….. جیسی انقلابی اور بے مثل ڈ ھولوں کی کتاب مرتب کرای……. انگریز سامراج اور أزادی دشمنوں کے خلاف……. جنگ آزادی کے گیت گانے….. دار پر نعرہ مارتے…. اس چمن کو لالہ زار کرنے والے مجاہدین کی گمشدہ اوازوں کو….. زبان….. دی………….. اور اب….. چانجے چھتے…… کے عنوان سے بار کے عام ڈ ھولے……. زوق سماعت کی نظر کیے ہیں………. اس کی ایک اور منفرد خوبصورتی یہ بھی ہے کہ مرتب نے مترجم کا فریضہ بھی انجام دیتے ہوے اسے……. عام رسائ کے لئے میری عزیز تر زبان…… اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی زبان…… اردو…… کو سرفراز کیا ہے…… تاکہ….. ادب کے قارین کو….. خبر اور نظر……. ملے کہ میری مادری زبان…… رچناوی…….. خیال کو آ نگن دیتی ہے……..
برگ آ وارہ……. منیر ابن رزمی
چیچہ وطنی…….. جمادی الاولی 1439 ھ
…………….
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“