14 دسمبر سن 1971 کو منیر چوہدری اپنے چھوٹے بیٹے کو نہلا کر اور اس کا بدن تولیے سے خشک کر کے اپنی مطالعے کی میز پر آکر بیٹھے۔ میز پر ٹرانسسٹر ریڈیو دھرا تھا۔ انہوں نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کی جانب دیکھا اور خود ہی بڑبڑائے، او ہو!! BBC سے خبروں کا وقت ہو گیا ہے۔ خبریں سن کر انہوں نے اپنی بیوی للی جو کہ برابر کے کمرے میں بستر پر لیٹی ہوئی تھیں کیونکہ اس کی تازہ تازہ سرجری ہوئی تھی مخاطب کر کے زور سے آواز لگائی، للی آزادی کے دن جلدی آنے والے ہیں۔ میں محسوس کر رہا ہوں ظلم و جبر کا وقت جلد ختم ہونے والا ہے۔ ہماری جدوجہد اب کامیابی سے ہمکنار ہونے والی ہے۔ منیر کی والدہ دوپہر کا کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔ اس اثناء میں دروازے پر دستک ہوئی۔ منیر کا چھوٹا بھائی دروازے کی طرف لپکا کہ دیکھے کون آیا ہے۔ منیر کی بیوی اور ان کی والدہ گھر کے اندر پردے کے پیچھے سے یہ منظر دیکھ رہیں تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں دو، تین لڑکے کھڑے ہیں جنہیں وہ نہیں پہچانتی تھیں۔ لڑکوں نے منیر کے بھائی سے پوچھا کہ کیا تم منیر چوہدری ہو؟ منیر کے بھائی نے نفی میں جواب دیا۔ لڑکوں نے کہا کیا تم اسے بلا سکتے ہو اور ہماری اس سے بات کروا سکتے ہو۔ اس دوران للی اور اس کی ساس نے گھر کے باہر سڑک پر ایک فوجی گاڑی کھڑی دیکھی۔ جو پوری طرح کیموفلاج تھی۔ اس دوران منیر اپنے مطالعے کی میز سے اٹھ کر کھانے کے کمرے میں آگیا جہاں اس کی ماں کا بنایا ہوا کھانا دستر خوان پر سجا ہوا تھا۔ جس میں چپاتی، سبزی اور مچھلی شامل تھی۔ دستر خوان پر بیٹھتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ سب گھر والوں کی توجہ سڑک کی جانب کھلنے والے مرکزی دروازے کی طرف مرکوز ہے۔ اس نے اپنی بیوی للی کو آواز دے کر پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ للی نے تمام صورتحال بتائی تو وہ دسترخوان سے اٹھا، سفید کرتا پہنا اور مرکزی دروازے کی طرف یہ کہتے ہوئے چل پڑا کہ “وہ بات کرنا چاہتے ہیں تو مجھے معلوم کرنے دو”۔ وہ جیسے ہی باہر نکلا تو تمام گھر والوں کے سامنے وہ لوگ منیر کو زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے۔ 14 سے 16 دسمبر 1971 کے درمیان منیر جیسے بہت سے لوگوں کو ڈھاکہ کے بیری بڈھ کے علاقے رائیر بازار میں لے جایا گیا تھا جہاں مغل دور سے کمہار رہتے آئے تھے کیونکہ اس علاقے کی سرخ زمین مٹی کے برتن بنانے کے لیے نہایت موزوں تھی۔ یہاں لائے گئے مردوں اور عورتوں کو بےپناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ انہیں دریائے تورگ کے قریب قتل کیا گیا جہاں پر ان کی لاشیں ٹھکانے لگا دی گئیں۔ ایک گواہ کے مطابق چوہدری کو آخری بار فزیکل ٹریننگ کالج محمد پور تھانہ ڈھاکہ میں دیکھا گیا تھا، جہاں اس کی انگلیاں مسخ کی گئی تھیں اور ان کی لاش ناقابلِ شناخت تھی۔
منیر چوہدری نے سن1941 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد 1946 میں اپنی بیچلر ڈگری حاصل کی اور فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن لی اور 1947 میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔ اسی سال انہوں نے کُھلنا کے برجالال کالج میں تدریسی کیریئر کا آغاز کیا۔ آپ بائیں بازو کی سیاست اور ترقی پسند ثقافتی تحریکوں سے وابستہ ہو گئے۔ 1948 میں آپ نے کولکتہ میں کمیونسٹ پارٹی کی اس کانفرنس میں شرکت کی جس میں پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ایک کا نام کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور دوسری کا نام کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان رکھا گیا۔
سن 1950 انہوں نے ڈھاکہ کے جگن ناتھ کالج کو جوائن کر لیا۔ اس دوران پاکستان میں بنگالی زبان کے حروف تہجی کو عربی حروف تہجی سے بدلنے کی تحریک چلی تھی۔ ایک ماہر لسانیات اور مصنف کے طور پر انہوں نے مشرقی پاکستان کی مادری زبان کو کمزور کرنے کے اس اقدام پر سخت احتجاج کیا۔
1952 میں انہیں پولیس کے جبر اور بنگلہ زبان کی تحریک پر طلباء کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار بھی کیا گیا۔ ان کی یہ گرفتاری دو سال تک برقرار رہی اور قید کے دوران ہی انہوں نے بنگالی ادب میں ماسٹرز کے امتحان میں شرکت کی اور فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ جیل سے رہا ہونے کے کچھ برس بعد سن 1958 میں انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے لسانیات میں اپنی تیسری ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ 1962 میں ریڈر، 1970 میں پروفیسر اور 1971 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی کے ڈین بھی رہے۔
تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ انہوں نے بہت سے ڈرامے بھی تخلیق کیے۔ سن 1965 میں منیر چودھری نے اس وقت کے مشرقی جرمنی کے ریمنگٹن ٹائپ رائٹرز کے ساتھ مل کر بنگلہ ٹائپ رائٹر کے “کی بورڈ” کو نئے سرے سے ڈیزائن کیا جس کا نام Munier Optima Keyboard رکھا گیا۔ 1966 میں انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے سول ایوارڈ “ستارہ امتیاز” سے بھی نوازا گیا۔ 1967 میں انہوں نے پاکستان کی حکومت کی جانب سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ٹیگور کے گانوں پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا۔ 1968 میں ایک فوجی آمر جنرل ایوب خان پاکستان کے حکمران تھے۔ بنگلہ دیش جو اب ایک آزاد ملک ہے اس وقت پاکستان کا ایک صوبہ تھا اور مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک چلی اور ملک میں ایک بار پھر سے مارشل لاء لگا دیا گیا اور اس بار جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال لیا۔ نئی مارشل حکومت نے 1970 میں لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت الیکشن کروانے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ یہ انتخابات آئین ساز اسمبلی کے لئے تھے جس کے بعد 120 دن میں آئین تشکیل دیا جانا تھا۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شیخ مجیب کی عوامی لیگ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ اب اقتدار کی منتقلی عوامی لیگ اور شیخ مجیب کو ہی ہونی تھی۔ اس میں جنرل یحییٰ اور ان کی ٹیم کا کردار خاصا مشکوک رہا اور وہ لیت و لعل سے کام لیتے رہے۔ پھر مارچ 1971 میں مشرقی پاکستان کا فوجی حل نکالنے کی کوشش کی گئی جو آخر کار بھارت کی فوجی مداخلت اور پاکستان پر حملے کی صورت اختیار کر گئی۔ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔
جب جنگ اپنے اختتام کے قریب پہنچی تو بنگلہ دیشی قوم کے مستقبل کے رہنماؤں کو ختم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دانشوروں کو ہلاک کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ دستاویزات کے مطابق مورخہ 14 دسمبر سن 1971 کو بنگلہ دیش کے تقریباً دو سو سے زیادہ دانشوروں بشمول پروفیسرز، صحافیوں، ڈاکٹروں، فنکاروں، انجینئروں اور ادیبوں کو البدر ملیشیا اور پاکستانی فوج نے ڈھاکہ میں ان کے گھروں سے جبری طور پر اٹھا لیا۔ ان متاثرین میں معروف ناول نگار شاہد اللہ قیصر اور ڈرامہ نگار منیر چودھری بھی شامل تھے۔ ان لوگوں کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر میرپور، محمد پور، نکھل پاڑہ، راجر باغ اور دوسرے مقامات پر قائم ٹارچر سیلز میں لے جایا گیا اور بعدازاں انہیں اجتماعی طور پر بےدردی سے قتل کر دیا گیا۔ اسی لیے بنگلہ دیش میں ہر سال 14 دسمبر کو ان شہید کیے جانے والے دانشوروں کی یاد منائی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 14 دسمبر کے قتل کی منصوبہ بندی میجر جنرل راؤ فرمان علی نے کی تھی۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد گورنر ہاؤس میں چھوڑی گئی ان کی ڈائری کے ایک صفحے میں بنگالی دانشوروں (جن میں سے زیادہ تر کو 14 دسمبر کے دن سفاکی سے قتل کر دیا گیا تھا) کی فہرست بھی دریافت ہوئی تھی۔ اس فہرست کی موجودگی کی تصدیق میجر جنرل راؤ فرمان علی نے خود کی تھی۔ اس بات کی تصدیق سابق پاکستانی بیوروکریٹ الطاف گوہر نے بھی اپنی کتاب میں کی ہے۔
فوج کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے دانشوروں کی کُل تعداد کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا گیا ہے؛
ماہرینِ تعلیم: 991
صحافی: 13
معالجین: 49
وکیل: 42
اور دیگر ادبی شخصیات، فنکار اور انجینئر:16۔
بنگالی دانشوروں کا یہ قتل تاریخ کے سب سے وحشیانہ قتل عام میں سے ایک ہے۔
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار،
خون کے دھبّے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد!!