اس کی آنکھیں بند ہیں . وہ تاریخ کے کنج میں اتر گیا ہے ..اہ ..تہذیبیں فنا ہو جاتی ہیں .ہندوستان میں پتھروں پر مصوری کی شروعات 40،000 سالقبل ہوئی۔ سندھ کی تہذیب ، کیا ہم بھول سکتے ہیں ..؟۔ یہ تہذیب کبھی اپنے عروج پر تھی اور اس زمانے کی سب سے بڑی تہذیبوں میں شامل تھی۔ آریہ ورت کے کتنے ٹکرے ہوئے .. اور یہ ٹکرے آج بھی ہو رہے ہیں .. اس کی آنکھیں اب بھی بند ہیں ..
کچھ الفاظ برفیلے ممالک کی پناہ میں چلے جاتے ہیں کچھ کو آفتاب کا گولہ کھا جاتا ہے .. اور کچھ چنگاریوں میں دفن ہو جاتے ہیں .. الفاظ کا چیخنا ، گیس کے شعلوں کی طرح ابھرنا جرم ہے کیا ؟
جرم .. اب قلندر گم ہے .. میں اب بھی اس کی آوازیں سن رہا ہوں ..
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
نیٹشے مشہور جرمن فلسفی کا فوق البشر یا مرد برتر – میں ایمس میں ہوں . کمرہ نمبر ١٠٨ . گھٹنے کا آٹھواں آپریشن . چہرے پر ذرا بھی رنج و غم کا نشان نہیں . ذوقی ، سگریٹ پی کر آتا ہوں . پھر باتھ روم جا کر تم بھی پی لینا . ہم دونوں کی سگریٹ ختم ہو چکی ہے . منور رانا اور میں اب آمنے سامنے .اب وہ اپنے خاص انداز میں اشعار سنا رہے ہیں . زیب غوری ، ناصر کاظمی ، عرفان صدیقی ، ان کے پاس خزانہ ہے . وہ بھول گئے ہیں کہ برسوں سے وہ گھٹنے کے مرض میں مبتلا ہے ، اور انکا گھٹنا ایمس کے ڈاکٹر اتنی بار کھول کے آپریشن کر چکے ہیں کہ ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونا چاہیے . آٹھواں ، پھر نواں آپریشن .. میں نے کبھی منور رانا کے چہرے پر الجھن یا پریشانی نہیں دیکھی . ایمس میں علاج کراتے ہوئے تین چار برس گزر چکے ہیں . یہ اپنی خودی کی تربیت و تشکیل کا وہ پڑاؤ ہے ، جہاں بڑا سے بڑا طاقتور انسان بھی شکست کھا جاتا ہے . میں اب سمجھتا ہوں کہ منور رانا کی ضرورت کیوں ہے ؟ ان پر ، ان کی شخصیت پر ، ان کے اشعار پر تہمت لگانے والے تو ہزاروں ہیں ، مگر یہ دیکھنے والا کوئی نہیں کہ مرد بر تر کی حیثیت سے جب بولنے کی باری آتی ہے تو منور رانا بولتا ہے . اور جب ہمارے دانشور شترمرغ کی طرح ریت میں منہ چھپائے پھرتے ہیں ، وہ اپنی بیٹیوں کو آزادی دیتا ہے کہ جاؤ ، میدان جنگ میں جاؤ . اور منور بھایی کی دونوں شہزادیاں ، ترمیمی بل کے خلاف لکھنؤ کے شاہین باغ میں انصاف ، ظلم ، اور حکومت کے تانا شاہ رویوں کے خلاف بارود کا مجسمہ بن جاتی ہیں . اور حکومت اس فراق میں ، کہ منور بھایی اور ان کی بیٹیوں کو گرفتار کیا جائے . جب بابری مسجد اور نا انصافی کی بات آتی ہے ، tv چینلوں پر جب منور رانا کو غدار کہا جاتا ہے ، وہ اینکروں کو منہ توڑ جواب دیتا ہے . میں اٹھارہ برس کا تھا .منور رانا اس وقت مغربی بنگال میں تھے . ماہنامہ سہیل نے منور رانا پر گوشہ کا اعلان کیا تھا . اس وقت تک منور رانا مشاعرے کے شاعر نہیں بنے تھے .ادبی رسائل میں ان کا کلام شایع ہوتا تھا .اور مجھے ان کا انداز پسند تھا . سہیل کے منور رانا نمبر میں اٹھارہ برس کی عمر میں میرا بھی مضمون شایع ہوا تھا . یہ رشتہ برسوں کا ہے .صدیوں کا ہے . میں نے ان کی مقبولیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے . ایک دن بعد گھٹنوں کا آپریشن تھا . شام کے چھ بجے تھے .منور بھایی نےپوچھا ، گاڑی لائے ہو . ڈرائیور ہے ؟ میں نے ہاں میں جواب دیا . بولے ، چلو ، پرانی دلی چلتے ہیں . کریم کی نہاری کھاتے ہیں . بھیڑ تھی .ہم کچھ پہلے اتر گئے .منور بھیی مخصوص بیساکھی کے ساتھ تھے . کسی کی نظر پڑی .پھر ہجوم اکٹھا ہو گیا .ٹریفک جام .. دو منٹ کا راستہ ایک گھنٹے میں طئے کیا .بھیڑ انھیں ایک نظر دیکھنے کے لئے پاگل ہو رہی تھی . کل آپریشن آج نہاری ..باطن سے نئے جہانوں کی سیر پر نکلا مسافر .وہ طاقت کہ زندگی کے راز اس پر منکشف ہوتے رہتے ہیں . بابری مسجد پر اس کا بیان سامنے آیا کہ حکومت سے زیادہ زمین دینے کے لئے میں تیار ہوں . جب ایوارڈ واپس کیے جا رہے تھے ، اس زمانہ میں بھی نشانہ صرف منور بنے . ایک ادیب ایسا بھی تھا جو مہاراشٹر اردو اکادمی کے انعام کوساہتیہ اکادمی کا انعام بتا کر واپس کر رہا تھا . نشانہ بنے صرف منور رانا . وہ چٹانوں سے شعر نکالتا ہے . وہ سادگی کو ہنر بناتا ہے . اس سے مہاجروں کا درد دیکھا نہیں جاتا . آسمان میں چھائے رنگین ستاروں کی جگہ اس کی آنکھیں بنات النعش کا تعاقب کرتی ہیں . وہ قدیم ہندوستان کی مسرتوں میں نئے ہندوستان کا چہرہ پڑھتا رہتا ہے . مہاجر نامہ سے یہ اشعار دیکھئے ..
مہاجر نامہ
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں
نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں
یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی
کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں
جنابِ میر کا دیوان تو ہم ساتھ لے آئے
مگر ہم میر کے ماتھے کا قشقہ چھوڑ آئے ہیں
وہ تاریخ کے صفحے پلٹتا ہے تو گویٹے کے مشہور ڈرامے فاوسٹ سے لے کر ہٹلر کی خوں آشام کہانیوں کے اوراق اس کی نظروں کے سامنے ہوتے ہیں … آر ایل سٹوینسن کے مشہور ناول ڈاکٹر جیکل اینڈ مسٹر ہائیڈ کا کردار ہٹلر اور مودی کی طرح رنگ بدلتا ہوا سامنے ہوتا ہے ..ایک انسان کے باطن میں پوشیدہ ایک بیڈ مین یا ڈریکولا .. وہ سوال کرتا ہے تو خون کی طرح شعر ابلتے ہیں .وہ سوچتا ہے …. کیا ایک پوری تنظیم اس وقت ڈریکولا یا ڈاکٹر جیکل کے جسم میں پوشیدہ بری روح بن کر ہندوستان کی اقلیتوں کا خون چوس رہی ہے ..؟ اور وہ بھی کھلے عام ؟ ایک مہذب عھد میں ، جہاں اقوام متحدہ ، انٹرنیشنل قانون ، انسانی حقوق جیسی تنظیمیں بھی اپنا کام کر رہی ہیں ..؟ پورا ہندوستان ایک خونی ویمپائر کے تماشے کو بند آنکھوں سے کیسے دیکھ سکتا ہے ؟میں نے یہ سوال سنے ہیں . اور میں اس کے قلندری رنگ سے واقف ہوں .
وہ اب بھی سوچ رہا ہے کہ ایڈولف ہٹلر نے جرمنی میں طاقت حاصل کی اور ایک نسل پرست سلطنت قائم کی، جس میں یہودیوں کو ذیلی انسان قرار دیا گیا اور ہٹلر کی خوفناک تانا شاہی نے انہیں انسانی نسل کا حصہ نہیں سمجھا. جرمنی کی طرف سے 1939 میں عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد، ہٹلر نے یہودیوں کو ختم کرنے کے لئے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا … اس کے فوجیوں نے بعض علاقوں میں یہودیوں کا پیچھا شروع کیا. انہیں کام کرنے کے لۓ، انہیں جمع کرنے اور انہیں مارنے کے لئے خصوصی کیمپوں کا انتظام کیا گیا تھا، . یہودیوں کو ان خطرناک کیمپوں میں لے جایا جاتا اور بند کمرے میں رکھا جاتا ،اذیت دی جاتی .. گیس چیمبر میں انکو مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا .. جو یہودی کام کے قابل نہیںہوتے تھے تھے، انھیں گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا .، باقی یہودیوں بے روزگاری ، فاقے ، بھوک اور بیماری سے مر جاتے .ہٹلر دستاویزات نے انکشاف کیا کہ جنگ کے بعد ہٹلر کا مقصد یہودیوں کو ساری دنیا سےختم کرنا تھا.اس کی آنکھیں بند ہیں ..میں اسے بولتے ہوئے سن رہا ہوں .
فلسطین ، افغانستان ، عراق ، لیبیا ، میانمار کی کہانیاں اسے زخمی کرتی ہیں .
لکھنو کے چوک علاقے میں کلاک ٹاور کے پاس سی اے اے مخالف مظاہرے کرنے والی جن خواتین کے خلاف پولیس نے مقدمہ درج کیا ان میں مشہور شاعر منور رانا کی دو شہزادیاں بھی شامل تھیں .. میں نے منور بھایی کو بہت قریب سے دیکھا اور جانا ہے . وہ سیماب صفت سے زیادہ قلندر صفت انسان ہیں .
گھٹنے کا میجر آپریشن تھا . ایک ہفتہ تک کچھ ہوش نہیں . ایک ہفتے کے بعد ای سی یو سے کمرے میں شفٹ ہوئے . میں ملنے گیا تو چہرے پر وہی مسکراہٹ . بہت سارے اخبارات ان کے بستر پر تکیہ کے قریب پڑے تھے . ان کے لہجے میں افسردگی چھائی تھی ..
کچھ کرنا ہوگا . غزل کہنے یا افسانہ لکھنے سے اس وقت کچھ حاصل نہیں ہوگا ..
حکومت کچھ بھی کرنے نہیں دے گی .. میں آھستہ سے بولا .
سیاست پر منور بھایی کی گرفت ہے .وہ بولتے جا رہے ہیں .. اس وقت ایمس ، آی سی یو ، آپریشن ، ان کے دماغ میں کچھ بھی نہیں ہے . انکے ذہن میں دھماکے گونج رہے ہیں .. خاموش رہے تو سب کچھ ختم ہو جائے گا . وہ مسلمانوں کو حاشیہ پر رکھنا نہیں چاہتے ، بلکہ یہ وو لوگ ہیں جنہیں مسلمان قبول نہیں .
اور یہ مکالمہ صرف بند کمرے کا مکالمہ نہیں تھا . یہ بیان انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں بھی دیا . مسلمانوں کو صرف یہ یاد رہا کہ یہ شخص نریندر مودی سے ملا تھا . ان کے جوتے اٹھانے کی بات کر رہا تھا . مگر یہ جملہ کس سلسلے میں ادا ہوا ، یہ کسی نے یاد نہیں رکھا . منور بھائی کی بین الاقوامی پہچان ہے . ایسا شخص کسی سے بھی مل سکتا ہے . سونیا گاندھی ان کی مزاج پرسی کرنے گھر آ سکتی ہیں . منور بھائی نے لکھنؤ سے روزنامہ اخبار بھی نکالا مگر کامیاب نہیں ہوئے . آج مصیبت کی ان گھڑیوں میں مسلمانوں کی آواز اٹھانے والا تو مجھے دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا . راحت اندوری کو جو بولنا ہوتا تھا ، وہ اشعار میں کہہ دیتے تھے .لیکن منور رانا تو بول رہا ہے . بیمار ہونے کے باوجود . اس کی شہزادیاں بول رہی ہیں . آج جبکہ سب سویے پڑے ، نڈھال ہیں ، ایک آواز جو آسمان میں شگاف پیدا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ، وہ آواز منور بھایی کی ہے .
منور رانا اگر صرف مشاعروں کا شاعر ہوتا تو وارث علوی جیسا نقاد اس کے قصیدے نہیں پڑھتا .وارث علوی کے طویل مضمون سے کچھ جملے یہاں نقل کر رہا ہوں ….منور رانا کے یہاں بلند آہنگی نہیں۔ لب و لہجہ نرم اور دل پذیر ہے۔ شاعری میں وہ بیانات نہیں دیتے، باتیں کرتے ہیں، آہستہ آہستہ اور باتوں کے دوران جو مسکراہٹیں ہیں، وہ بھی زیرِ لب ۔ان کی ایک اپنی منفرد حِس مزاح ہے لیکن وہ مزاحیہ شاعر نہیں ہیں۔ ان کی نظر میں شاعری بلند مقام اور احترام کی مستحق ہے اور شاعر بلند مقام اور احترام ،فن کی قدر پہچاننے اور منوانے سے ہی پاتا ہے۔ تو ایک بڑی خصوصیت منور رانا کی یہ ہوئی کہ مشاعروں کے مقبول شاعر ہونے کے باوصف انہوں نے اپنی شاعری کے ادبی معیار کو تفریح کی سطح پر گرنے نہیں دیا۔ان کی دوسری امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے غزل کو وسعتِ بیان عطا کی۔ اسے عشق و عاشقی کی روایتی جکڑ بندیوں سے آزاد کراکر اس کے دامن کو اپنے وقت کے اہم موضوعات اور مضامین سے بھر دیا۔ ان کا یہ اجتہا د شعوری تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی نثری تحریروں میں کیا ہے۔ منور رانا کی غزل اپنے وقت کا آئینہ ہے۔ یہ ہماراتمہارا اور منور رانا کا جو زمانہ رہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ، ٹوٹتے انسانی رشتوں، معاشرتی زوال، سیاسی چیرہ دستیوں، بے محابا تشدد، افلاس، بیکاری اور ہجرتوں کا، اس کا پورا درد اور کرب منور رانا کی شاعری میں سما گیا ہے۔ غزل سے انہوں نے وہی کام لیا ہے جو ان سے پیشتر انقلابی شاعر نظموں سے لیا کرتے تھے۔ انقلاب کے نغمے فیض اور مجروح نے بھی اپنی غزلوں میں گائے ہیں لیکن منور رانا کے متعلق میں جو بات کہہ رہا ہوں ، وہ ان ترقی پسند شعرا سے انہیں مختلف بناتی ہے۔ ان کا سفر کوئے یار سے دار کی طرف نہیں بلکہ اس گلی کی طرف ہے، جہاں سے وہ لہو میں نہا کر نکلتے ہیں ۔ اس گلی میں بچوں کو ذبح کیا گیا ہے۔ عورتوں کو بھوکے بھیڑیوں کی طرح پھاڑ کھا یا گیا ہے۔ منور رانا سن شعور اور شاعری کو پہنچے تو وقت بدل گیا، تاریخ بدل گئی۔ لال جھنڈے کو خود جھنڈے اٹھانے والوں نے آخری سلام کیا۔ اب ترقی پسندی سے چمٹے رہنا یا تو مجاوری تھا یا مرے ہوئے گھوڑے کو چابک مارنا۔ جدید شاعروں کی نسل نے یہ دونوں کام کرنے سے انکار کردیا۔
غزل کو وسعتِ بیان عطا کی. وہ انقلابی شاعروں -اے الگ شناخت رکھتا ہے . یہ میں نہیں ، وارث علوی کہ رہے ہیں . اپنے طویل مضمون نے وارث علوی نے منور رانا کی ہزار خوبیوں کا ذکر کیا ہے . وہ زمین ، بازار ، گلی کوچہ سے نیی علامتیں کشید کرتا ہے . نئے استعاروں کا جال پھیکتا ہے . اس کی نظمیں ماں پر بھی ہیں . ہجرت پر بھی .اس نے مہاجر نامہ لکھا اور مہاجروں کے تعلق سے شاید ہی کوئی صفحہ گمنام رہا ہو گا .
مرزا فرحت اللہ بیگ نے دلی کا یادگار مشاعرہ لکھ کر مختلف شخصیات کی جامع تصویر پیش کی مگر یہ بھی بتا دیا کہ ان مشاعروں نے تھذیب کی آبیاری میں نمایاں مثالیں پیش کی ہیں اور مشیروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا . ایک زمانہ تھا جب عرب کے عکاظ کے میلے میں بڑے شعرا اپنا کلام بھی سناتے تھے ، داد بھی حاصل کرتے تھے .عکاظ کے میلے کے وقت بھی اگر غور کریں تو کنزیومر ورلڈ کا نقشہ ابھر کے سامنے آتا ہے . یعنی شاعروں کو شعروں کی اچھی اجرت مل جاتی تھی . ایران کے دربار میں بھی شاعری فروغ ملا . امیر خسرو کے یہاں بھی یہ روایت چلی . غالب ، میر اور اس وقت کے تمام بڑے شعرا لکھتے بھی تھے ، فیضیاب بھی ہوتے تھے . یانی شاعری کا تعلق زندگی کے حیلے ، بہانے ، وسیلے اور مشاعروں سے براہ راست رہا . اب اسی راستے میں منور رانا کا گھر بھی آتا ہے . میں نے اٹھارہ برس کی عمر میں ان پر مضمون لکھا .یہ وہ دور تھا جب منور رانا کی شاعری مسلسل ادبی رسائل میں شایع ہو رہی تھی . میں نے ان کی شناخت مشاعروں سے نہیں کی تھی .ادبی رسائل سے کی تھی .بشیر بدر کے زمانے تک مشاعرہ بازار سے وابستہ ہو چکا تھا .اسپانسر آنے لگے تھے .مشاعرے کی تھذیبی روایت کی جگہ تفریح کے اصولوں کو سامنے رکھا گیا . ملک زادہ منظور احمد تک روایت کا جو حسین سلسلہ قائم تھا ، اس کی جگہ پھوہڑ لطائف نے لے لی . دبیی سے امریکہ اور لندن تک مشاعرہ تفریح بن چکا تھا . مشاعرے پر بازار حاوی تھا . اب اس پس منظر میں منور رانا کو دیکھئے تو وہ مشاعرہ کے شاعر ہونے کے باوجود الگ تھلگ نظر آتے ہیں .ان کی دلچسپی نثر میں بھی ہے .انہوں نے مزاح اور انشائیے بھی لکھے . ہندی میں انکی ایک ضخیم کتاب کچھ برس قبل شایع ہوئی ، جسے میر کہتے ہیں صاحبو . یہ سوانح ہے مگر اسلوب کی سطح پر ناول کا لطف ملتا ہے . اور اسی لئے میں نے ہزاروں مثالوں میں سے ایک وارث علوی کی مثال دی کہ وارث بھی منور رانا کی اہمیت کے قائل تھے . طویل مضمون میں وارث علوی نے منور رانا کی شاعری سے جو انتخاب پیش کیا ، اس انتخاب سے کچھ اشعار آپ کے سامنے رکھتا ہوں .
یہ منظر بھی دیکھے ہم نے اس دنیا کے میلے میں
ٹوٹا پھوٹا ناچ رہا ہے اچھا خاصا ٹوٹ گیا
اس میں بچوں کی جلی لاشوں کی تصویریں ہیں
دیکھنا ہاتھ سے اخبار نہ گرنے پائے
انہیں فرقہ پرستی مت سکھا دینا کہ یہ بچے
زمیں سے چوم کر تتلی کے ٹوٹے پَر اُٹھاتے ہیں
عدالتوں ہی سے انصاف سرخ رو ہے مگر
عدالتوں ہی میں انصاف ہار جاتا ہے
شاید جلی ہیں پھر کہیں نزدیک بستیاں
گذرے ہیں کچھ پرندے ادھر سے ڈرے ہوئے
چاہئے اب اور کیا صحرا نوردی یہ بتا
تجھ کو وحشت لے کے ویرانے تلک تو آگئی
مدت سے ترے پاﺅں کی آہٹ سے ہے محروم
یہ دل بھی کسی بانجھ کے آنگن کی طرح ہے
تجھے اکیلے پڑھوں کوئی ہم سبق نہ رہے
میں چاہتا ہوں کہ تجھ پر کسی کا حق نہ رہے
دکھ بزرگوں نے کافی اٹھائے مگر میرا بچپن بہت ہی سہانا رہا
عمر بھر دھوپ میں پیڑ جلتے رہے اپنی شاخیں ثمردار کرتے ہوئے
اسٹیشن سے باہر آکر بوڑھی آنکھیں سوچ رہی ہیں
پتے دیہاتی رہتے ہیں ، پھل شہری ہو جاتے ہیں
دہلیز پر سر کھولے کھڑی ہوگی ضرورت
اب ایسے میں گھر جانا مناسب نہیں ہوگا
بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں پر
غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال لیتی ہے
حالانکہ ہمیں لوٹ کے جانا بھی نہیں ہے
کشتی مگر اس بار جلانا بھی نہیں ہے
وہ تاریخ کے بوسیدہ صفحات سے خائف ہے . وہ جنگ کے میدان میں اترا ہوا سپاہی ہے . وہ بہت حد تک بے نیاز ہے . اور ہندوستان کا تحفظ چاہتا ہے …
کیا میں ٹائم کیپسول کو دیکھ سکتا ہوں ؟
کیوں نہیں …
ٹائم کیپسول معلومات کا ایک تاریخی ذخیرہ ہے ، جو مستقبل میں آثار قدیمہ کے ماہرین ، بشریات یا تاریخ دانوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ اصطلاح 1938 سے شروع ہوئی .
کیا ادب کے ذخیرے میں یہ کیپسول محفوظ ہے ؟
وقت گزر جائے گا .ممکن ہے ، مستقبل کے بلیک ہول میں ہمارے لئے ایک دنیا بن کر تیار ہو . ممکن ہے ، جنگوں کے خوفناک دروازے کھلیں تو کچھ بھی باقی نہیں بچے گا . میں اسے ٹائم کیپسول میں رکھا ہوا دیکھ رہا ہوں …
یہ تاریخ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے . ہم جن چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں ، کچھ لوگ ان عذابوں کو وقت کے کیپسول میں رکھنے کا انتظام و اہتمام کر رہے ہیں .