جب تحفہ کتاب کا ہو ۔۔۔۔ اور ہو بھی اچھے شاعر کی اچھی شاعری ۔۔۔ تو مطالعہ کا ذوق بڑھ جاتا ہے ۔۔۔۔۔
پروفیسر منور ہاشمی کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔
ڈاکٹر قمر الطاف صاحب کی محبت کے یہ کتاب عنایت کر کے شکریہ کا موقع عنایت کیا ۔۔۔۔۔ڈاکٹر الطاف قمر جہاں ایک مایہ ناز معلم ہیں وہاں اچھی کتاب چھایا کرنے میں بھی اپنا جواب آپ ہیں ۔۔۔اس کتاب کو مرتب بھی آپ نے کیا اور اس پر ایک خوبصورت دیباچہ بھی لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اگر آپ سے منور ہاشمی صاحب کے حالات زندگی پر بھی معلومات شٸیر کر لی جاٸیں تو یقینا کتاب کی اہمیت اور مقام و مرتبہ کو سمجھنے میں آسانی ہو جاۓ گی ۔ آپ نے یکم جنوری 1957ء کو ساہیوال کے ایک نواحی قصبے میں آنکھ کھولی ضلع پنجاب سے تعلق تھا یہی وجہ ہے لب و لہجے میں پنجابی کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔اگر میں اسے مہارت زبان کہوں تو مبالغہ نہیں ہو گا کیونکہ اردو زبان میں پنجابی کا تڑکا لگا کر ماحول کو خوشگوار کرنا علمیت والی بات کی طرف توجہ دلانا بلکہ سادہ لفظوں میں طلبا کو یاد کروا دینا صرف آپ کا خاصا ہے ۔آپ ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آپ کے اسلاف میں روحانیت کے نامور بزرگ گزرے ہیں ۔ آپ کے والد گرامی کا نام عبد الطیف شاہ تھا۔ابتداٸی تعلیم قرآن ناظرہ تو اپنے آباٸی علاقہ سے ہی حاصل کی ۔ بزرگوں کی نظر کرم کا ہی فیضان ہے کہ دنیاوی موضوعات کے ساتھ ساتھ اسلامی موضوعات پر بھی کثیر معلومات رکھتے ہیں ۔ آپ نے ایم اے (اردو) ملتان یونیورسٹی سے اور پی ایچ ڈی اردو ادب کی سند سندھ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ آپ کے تحقیقی مقالہ کا موضوع ۔۔۔۔۔اقبال کی اردو شاعری میں فطرت نگاری۔۔۔ ہے۔اقبال پر صرف ڈگری ہی نہیں حاصل کی بلکہ ماہر اقبالیات بھی ہیں ۔ اقبال کی اردو فارسی شاعری کی تشریح ایسے کرتے ہیں کہ سامع کو محسوس ہوتا ہے اقبال کی خود ان پر نظر کرم ہو ۔ دور حاضر میں آپ طلبا کے لیے ایک تابندہ ستارہ ہیں ۔شعبہ درس و تدریس میں بھی معاصرین آپ کے مقام و مرتبہ کے معترف ہیں ۔ اگرچہ زیادہ شہرت شعبۂ صحافت و ادب کی وجہ سے ہے مگر راقم آپ کے اس پہلو کو زیادہ جانتا ہے مشکل موضوعات کو بھی اس خوبصورتی سے سمجھاتے ہیں کہ تشنگی باقی نہیں رہتی ۔ آپ تقریباً 24 سال سے شعبۂ تدریس سے وابستہ ہیں اور آج کل نادرن یونیورسٹی نوشہرہ میں پروفیسر شعبۂ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ راقم فیڈرل اردو یونیورسٹی میں آپ کا شاگرد رہا ۔الحَمْدُ ِلله ،،
مزید برآں یہ کہ آپ ناصرف اقبالیات اور اردو ادب کے لیے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ جات کی نگرانی فرماتے ہیں بلکہ خود آپ کی شخصیت آپ کے ادبی کام پر بھی بہت سے طلبہ نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے پیش کیے ہیں۔ آپ کا ایک انفرادی مقام بحیثیت محقق یہ بھی ہے کہ آپ کے تحریر کردہ مقالہ جات ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ جرائد میں بکثرت شائع ہوئے ہیں، بکثرت کو یوں سمجھ لیجیے معاصر محققین میں سے تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ بلکہ بیرونِ ملک بھی مختلف بین الاقوامی جرائد میں آپ کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔ جب کوٸی شخص اپنی محنت اور قابلیت سے اپنا لوہا منواتا ہے تو باوجود ہزار حاسدوں کے اللہ اسے عزت و عظمت سے نوازتا ہے ۔ اللہ کریم نے جہاں آپ کو لوگوں کے دلوں کی سلطنت عطا فرماٸی ہے وہاں دنیا میں ناموری سے بھی نوازا۔آپ کو ادبی خدمات کے باعث مختلف ادبی تنظیموں سے مختلف موقعوں پر درج ذیل خطابات ملے ہیں ۔
1۔ محسنِ اردو
2۔ خادمِ اردو
3۔ اردو ادب کا شیخ سعدی
4۔ سفیرِ ادب
5۔ استاذالاساتذہ
آپ کو اب تک تقریبا 13 مختلف ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے ۔
1 نشانِ اردو
2۔ رومی ایوارڈ
3۔ بولان ایوارڈ
4۔ اہلِ قلم ایوارڈ
5۔ دھن چوراسی ایوارڈ
6۔ بہترین استاد
7۔ نشانِ فضیلت /سفیر علم و فضیلت
8۔ محسنِ اردو ایوارڈ
9۔ نشانِ جامعہ ( سندھ یونیورسٹی)
10۔ ایشین آرٹ ایوارڈ
11۔ نشانِ اقبال/اقبال ایوارڈ
12۔ نشانِ کارکردگی ایوارڈ ( وفاقی اردو یونیورسٹی )
13۔ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ لاہورکا نام رکھنے کا ایوارڈ
راقم کو تو اسی بات پر فخر ہے کہ آپ کی شاگردی کا شرف پا چکا ہوں الحَمْدُ ِلله کثیر دعا لینے والے طلبا میں بھی شامل ہوں ۔اللہ کریم اس مرد مجاہد کا سایہ تا ابد ہم پر قاٸم رکھے جن کی نظر کا فیضان ہے کہ اللہ نے ہمیں بھی قلم سے نوازا ۔اگر حرف آخر یوں کہوں تو مجھے کچھ ہچکچاہٹ نہ ہوگی ۔ اے میرے پیارے معلم
آپ کا منور چہرہ
میرے دل کو سرور بخشتا ہے
آپ کا مسکرانا
میرے دل کو تازگی دیتا ہے
آپ کی نظر فرمانا
مجھے زندگی دیتا ہے
آپ ہمیشہ شاد آباد رہیں
آپ وہ رحمت بھرا شجر ہیں
جس کے ساۓ اور پھل سے
اس وطن عزیز کی ایک بڑی تعداد
نفع اٹھا رہی ہے
اے میرے رہبر و محسن
آپ خیر الناس من ینفع الناس
کے معیار پر پورا اترتے ہیں
میں اپنے کریم رب کی بارگاہ میں ملتمس ہوں
آپ کو صحت و سلامتی والی
لمبی عمر عطا ہو
اس کی رضا کے ساتھ ساتھ
بارگاہ نبوی ﷺ میں آپ کی نعت
مقبول ہو ۔۔۔
والسلام
شاگرد ۔۔۔۔ ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
منور ہاشمی کے چند نمونہ کلام
غزل
سب کی آواز میں آواز ملا رکھی ہے
اپنی پہچان مگر سب سے جدا رکھی ہے
جانے کس راہ سے آ جائے وہ آنے والا
میں نے ہر سمت سے دیوار گرا رکھی ہے
ایسا ہوتا ہے کہ پتھر بھی پگھل جاتا ہے
تو نے سینے میں مگر چیز یہ کیا رکھی ہے
زخم خوردہ سہی افسردہ سہی اپنی جبیں
جیسی بھی ہے تیری دہلیز پہ لا رکھی ہے
اس نے مجھ سے بھی تری ساری کہانی کہہ دی
جس نے تجھ کو مری ہر بات سنا رکھی ہے
میرے سینے میں منورؔ ہے اسی شوخ کا غم
جس کے سینے میں مرے غم کی دوا رکھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور غزل
۔۔۔۔۔
ایک ہی مسئلہ تا عمر مرا حل نہ ہوا
نیند پوری نہ ہوئی خواب مکمل نہ ہوا
شہر دل کا جو مکیں ہے وہ بچھڑتا کب ہے
جس قدر دور گیا آنکھ سے اوجھل نہ ہوا
آج بھی دل کی زمیں خشک رہی تشنہ رہی
آج بھی مائل الطاف وہ بادل نہ ہوا
روشنی چھن کے ترے رخ کی نہ مجھ تک پہنچے
ایک دیوار ہوئی یہ کوئی آنچل نہ ہوا
جن کو اک عمر کا نذرانہ دیے بیٹھے ہیں
آج تک اس سے تعارف بھی مفصل نہ ہوا
ان سے ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں پھر ملتے ہیں
زندہ رہنے کا عمل ہم سے مسلسل نہ ہوا
جس پہ رکھنا تھی مجھے اپنی اساس ہستی
اپنی قسمت میں منورؔ وہی اک پل نہ ہوا۔۔۔۔۔۔