آج – ٢٠ ؍مئی ؍ ١٩٦٩
ممتاز اردو شاعر، قطعات کے لئے مشہور، نثر نگار اور معروف شاعر” نریش کمار شادؔ صاحب “ کی برسی…
نام نریش کمار، تخلص شادؔ ہے، شادؔ کی پیدائش ۱۱ دسمبر ۱۹۲۷ء کو ہوشیار پور پنجاب میں ہوئی ۔ ان کے والد دردؔ نکودری بھی شاعر تھے اور حضرت جوشؔ ملسیانی کے خاص شاگردوں میں سے تھے ۔ گھر کے شعری ماحول نے شاد کو بھی شاعری کی طرف مائل کردیا اور وہ بہت چھوٹی عمر سے ہی شعر کہنے لگے ۔ شاد کی تعلیم لاہور میں ہوئی انہوں نے گورمنٹ ہائی اسکول چونیاں ضلع لاہور سے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک کا امتحام پاس کیا ۔ اس کے بعد بہ سلسلۂ ملازمت راولپنڈی اور جالندھر میں مقیم رہے لیکن جلد ہی سرکاری ملازمت ترک کرکے لاہور آگئے اور وہاں ماہنامہ ’ شالیمار ‘ کی ادارت کے فرائض انجام دینے لگے ۔ تقسیم کے بعد شاد کچھ مدت کانپور میں رہے اور یہاں حفیظ ہوشیارپوری کے ساتھ مل کر ’چندن‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالا ۔ اس رسالے کے بند ہو جانے کے بعد دلی اگئے اور بلدیو متر بجلی کے ماہنامہ ’ راہی ‘ سے وابستہ ہوگئے ۔ ایک رسالہ ’ نقوش ‘ کے نام سے بھی نکالا ۔ آخر ہاؤسنگ اینڈ رینٹ آفس میں ملازمت اختیار کی ۔
شعری مجموعے : بتکدہ ، فریاد ، دستک ، للکار ، آہٹیں ، قاشیں ، آیات جنوں ، پھوار ، سنگم ، میرا منتخب کلام ، میراکلام نو بہ نو ، وجدان ،
نثری کتابیں : سرخ حاشیے ، راکھ تلے ، سرقہ اور توارد ، ڈارلنگ ، جان پہچان ، مطالعے ، غالب اور اس کی شاعری ، پانچ مقبول شاعر اور ان کی شاعری ، پانچ مقبول طنز ومزاح نگار ۔
ادب اطفال : شام نگر میں سنیما آیا ، چینی بلبل اور سمندری شہزادی ۔
۲۰ مئی ۱۹۶۹ کو شادؔ، جمنا کے کنارے پر مرے ہوئے پائے گئے ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
معروف شاعر نریش کمار شادؔ کی برسی پر منتخب اشعار بطورِ اظہارِ عقیدت..
اتنا بھی نا امید دلِ کم نظر نہ ہو
ممکن نہیں کہ شامِ الم کی سحر نہ ہو
—–
خدا سے لوگ بھی خائف کبھی تھے
مگر لوگوں سے اب خائف خدا ہے
—–
اللہ رے بے خودی کہ ترے پاس بیٹھ کر
تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی
—–
زندگی سے تو خیر شکوہ تھا
مدتوں موت نے بھی ترسایا
—–
طوفانِ غم کی تند ہواؤں کے باوجود
اک شمع آرزو ہے جو اب تک بجھی نہیں
—–
گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی مگر یا رب
تری نگاہِ کرم کو بھی منہ دکھانا تھا
—–
محسوس بھی ہو جائے تو ہوتا نہیں بیاں
نازک سا ہے جو فرق گناہ و ثواب میں
—–
محفل ان کی ساقی ان کا
آنکھیں اپنی باقی ان کا
—–
کسی کے جور و ستم کا تو اک بہانا تھا
ہمارے دل کو بہرحال ٹوٹ جانا تھا
—–
یہ سوچ کر بھی ہنس نہ سکے ہم شکستہ دل
یارانِ غم گسار کا دل ٹوٹ جائے گا
—–
حیات ہے کہ مسلسل سفر کا عالم ہے
ہر ایک سانس میں وحشی غزال کا رم ہے
—–
پھولوں کی دل کشی ہو کہ تاروں کی روشنی
پرچھائیاں ہیں سب مرے حسن خیال کی
—–
ترا تذکرہ سو بہ سو کیوں کریں ہم
محبت کو بے آبرو کیوں کریں ہم
—–
جن کو ہمدرد سمجھتے ہو ہنسیں گے تم پر
حال دل کہہ کے نہ اے شادؔ پشیماں ہونا
نریش کمار شادؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ