ظفرؔ گورکھپوری کی پیدائش ٥ مئی ١٩٣٥ء کو ہوئی۔ بہت چھوٹی عمر میں ممبئی آگئے اور پھر یہیں کے ہورہے۔ درس وتدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ شروع سے ہی مختلف سماجی تنظیموں سے ان کی وابستگی رہی۔ 1951 ترقی پسند تحریک سے منسلک ہوئے۔ ممبئی میں سجاد ظہیر، علی سردار جعفری، کرشن چندر، مجروح سلطان پوری، راجندر سنگھ بیدی،کیفی اعظمی اور جانثار اختر کی صحبت میں ظفر کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ نئی فکر اور تازہ تر تخلیقی اظہار کی حامل ظفر کی شاعری سے اس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ظفر نے غزل کے علاوہ نظم اور دوہے کی صنف کو خوب برتا۔
ظفر گورکھپوری کے ۸ شعری مجموعے شائع ہوئے۔
’تیشہ‘ ’وادی سنگ‘ ’گوکھرو کے پھول‘ ’چراغ چشم تر‘ ’آپار کامنظر‘ ’زمین کے قریب‘ ’ناچ ری گڑیا‘ (بچوں کے لئے شاعری) ’سچائیاں‘ (بچوں کے لئے شاعری)
2017 میں انتقال ہوا۔
ترقی پسند شاعر ظفرؔ گورکھپوری کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین
آسماں ایسا بھی کیا خطرہ تھا دل کی آگ سے
اتنی بارش ایک شعلے کو بجھانے کے لیے
—
ابھی زندہ ہیں ہم پر ختم کر لے امتحاں سارے
ہمارے بعد کوئی امتحاں کوئی نہیں دے گا
—
اپنے اطوار میں کتنا بڑا شاطر ہوگا
زندگی تجھ سے کبھی جس نے شکایت نہیں کی
—
اسے ٹھہرا سکو اتنی بھی تو وسعت نہیں گھر میں
یہ سب کچھ جان کر آوارگی سے چاہتے کیا ہو
—
چھت ٹپکتی تھی اگرچہ پھر بھی آ جاتی تھی نیند
میں نئے گھر میں بہت رویا پرانے کے لیے
—
خط لکھ کے کبھی اور کبھی خط کو جلا کر
تنہائی کو رنگین بنا کیوں نہیں لیتے
—
سمندر لے گیا ہم سے وہ ساری سیپیاں واپس
جنہیں ہم جمع کر کے اک خزانہ کرنے والے تھے
—
دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے
اک آدمی تو شہر میں ایسا دکھائی دے
—
ذہنوں کی کہیں جنگ کہیں ذات کا ٹکراؤ
ان سب کا سبب ایک مفادات کا ٹکراؤ
—
شجر کے قتل میں اس کا بھی ہاتھ ہے شاید
بتا رہا ہے یہ باد صبا کا چپ رہنا
—
فلک نے بھی نہ ٹھکانا کہیں دیا ہم کو
مکاں کی نیو زمیں سے ہٹا کے رکھی تھی
—
میری اک چھوٹی سی کوشش تجھ کو پانے کے لیے
بن گئی ہے مسئلہ سارے زمانے کے لیے
—
میں ظفرؔ تا زندگی بکتا رہا پردیس میں
اپنی گھر والی کو اک کنگن دلانے کے لیے
—
نہیں معلوم آخر کس نے کس کو تھام رکھا ہے
وہ مجھ میں گم ہے اور میرے در و دیوار گم اس میں
—
کتنی آسانی سے مشہور کیا ہے خود کو
میں نے اپنے سے بڑے شخص کو گالی دے کر
—
کیسی شب ہے ایک اک کروٹ پہ کٹ جاتا ہے جسم
میرے بستر میں یہ تلواریں کہاں سے آ گئیں
—
کیسی شب ہے ایک اک کروٹ پہ کٹ جاتا ہے جسم
میرے بستر میں یہ تلواریں کہاں سے آ گئیں
—
کوئی آنکھوں کے شعلے پونچھنے والا نہیں ہوگا
ظفرؔ صاحب یہ گیلی آستیں ہی کام آئے گی
ظفرؔ گورکھپوری