پیدائش:01 اپریل 1936ء
کھنڈوا، ہندستان
وفات: 10 اکتوبر 2020ء
نئی دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام محمد ابوالمظفر، ڈاکٹر اور تخلص مظفر ہے۔ 01 اپریل 1936ء کو کھنڈوہ(مدھیہ پردیش) میں پید ا ہوئے۔ ان کا آبائی وطن ہسوہ، فتح پور(یوپی) ہے۔ 1960ء میں مدھیہ پردیش محکمۂ جنگلات میں ملازم ہوکر بھوپال منتقل ہوگئے۔ اسی ملازمت کے دوران انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے اور بھوپال یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کی تحقیق کا موضوع ’’شاد عارفی۔ شخصیت اور فن‘‘تھا۔ انھیں شاد عارفی سے تلمذ بھی حاصل ہے۔ 1976ء سے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں ریڈر کی حیثیت سے تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ 1989ء میں کلکتہ یونیورسٹی نے انھیں ’’اقبال چیئر‘‘ پروفیسر کی حیثیت سے فائز کیا۔ وہ اچھے افسانہ نگار، مترجم ، شاعر اور نقاد ہیں۔
10 اکتوبر 2020ء کو وہ اس دنیائے فانی سے رحلت فرماگئے۔
تصنیفات:
۔۔۔۔۔۔
شاعری:
۔۔۔۔۔۔
۔ (1) پانی کی زبان – 1968
۔ (2) تیکھی غزلیں- 1968
۔ (3) عکس ریز- 1969
۔ (4)صریرِخامہ-1973
۔ (5) دیپک راگ-1974ء
۔ (6)یم بہ یم-1979
۔ (7)طلسمِ حرف- 1980
۔ (8)کھل جا سم سم-1981
۔ (9)پردہ سخن کا-1986
۔ (10)یااخی-1997
۔ (11)ہاتھ اوپر کیے
۔ 2002
۔ (12)پرچمِ گرد باد
۔ 2002
۔ (13)آگ مصروف ہے
۔ 2004
۔ (14) ہیرے ایک ڈال کے
۔ 2011
۔ (15)کمان (کلیات-1)
۔ 2013
۔ (16) چنیدہ-2015
۔ (17)مظفر کی غزلیں
۔ (ہندی )-2000
۔ (18) تیزاب میں تیرتے پھول
۔ (کلیات -جلد-2)
۔ 2013
۔ (19)مظفر حنفی کی منتخب غزلیں
۔ (انگریزی)-2013
۔ (20)مرچ غزل پر
۔ (ہندی)-2016
۔ (21) غزل دستہ (ہندی)
۔ 2016
۔ (22) غزل جھرنا (ہندی)
۔ 2017
۔ (23) غزل دریچہ
۔ (ہندی)-2018
۔ (24)غزل دھارا
۔ (ہندی)-2018
افسانے
۔۔۔۔۔۔
۔ (25)اینٹ کا جواب-1967
۔ (26) دوغنڈے-1969
۔ (27) دیدۂ حیراں- 1970
۔ (28) بھولی بسری کہانیاں
۔ 2015
برائے اطفال
۔۔۔۔۔۔
۔ (29) بندروں کا مشاعرہ
۔ 1954
۔ (30) نیلا ہیرا-1983
۔ (31)کھیل کھیل میں-2005
۔ (32)چٹخارے- 2007
۔ (33)نرسری کے گیت-2007
۔ (34) بچوں کے لیے-2007
۔ (35)حلوا چور-2011
۔ (36) بول میری مینا-2018
۔ (37)چندا ماموں-2019
تحقیق و تنقید
۔۔۔۔۔۔
۔ (38)شاد عارفی شخصیت اور فن
۔ 1976
۔ (39)نقد ریزے-1978
۔ (40)جہات و جستجو- 1982
۔ (41)تنقیدی ابعاد-1987
۔ (42) حسرت موہانی-2000
۔ (43)غزلیاتِ میر حسن
۔ 1992
۔ (44)ادبی فیچرز اور تقریریں
۔ 1992
۔ (45)محمد حسین آزاد
۔ (مونوگراف) -1994
۔ (46)باتیں ادب کی-1994
۔ (47)لاگ لپیٹ کے بغیر
۔ 2001
۔ (48)وضاحتی کتابیات-1980
۔ (49)وضاحتی کتابیات-1984
۔ (50)وضاحتی کتابیات
۔ (1981-1999)
۔ (51)وضاحتی کتابیات-2003
۔ (52)شاد عارفی فن اور فنکار
۔ 2001
۔ (53)سوالوں کے حصار میں
۔ 2008
۔ (54)میر تقی میر-2009
۔ (55)مضامینِ تازہ-2010
۔ (56)ہندستان اردو میں
۔ 2007
۔ (57)گفتگو: دو بدو
۔ 2013
۔ (58)تنقیدی نگارشات
۔ 2014
۔ (59)شاد عارفی (مونوگراف)
۔ 2016
۔ (60)کتاب شماری-2012
۔ (61)کچھ انٹرویو-2019
تراجم
۔۔۔۔۔۔
۔ (62)پراسرار قاتل-1955
۔ (63)چوروں کا قاتل-1955
۔ (64)دہری سازش -1956
۔ (65)تارِ عنکبوت-1956
۔ (66)شرلاک ہومز-1956
۔ (67) گلاگ مجمع الجزائر
۔ (جلد-1)
۔ (68)گلاگ مجمع الجزائر
۔ (جلد-2)
۔ (69)گلاگ مجمع الجزائر
۔ (جلد-3)
۔ (70)سخاروف نے کہا
۔ 1976
۔ (71)گجراتی کے یک بابی ڈرامے
۔ 1977
۔ (72)اڑیا افسانے-1980
۔ (73) بیداری- 1980
۔ (74)بھارتیندو ہریش چند
۔ 1980
۔ (75)بنکم چندر چٹرجی
۔ 1988
ترتیب:
۔۔۔۔۔۔
۔ (76) چیف ایڈیٹر نئے چراغ
۔ (کھنڈوا)-1958-59
۔ (77)ایک تھا شاعر-1959
۔ (78)نثر و گلدستہ-1967
۔ (79)شوخٰیِ تحریر -1971
۔ (80)شاد عارفی کی غزلیں
۔ 1974
۔ (81)کلیات شاد عارفی
۔ 1975
۔ (82)جدیدت: تجزیہ و تفہیم
۔ 1985
۔ (83)سیشٹھ ایکانکی-2000
۔ (84)جائزے-1985
۔ (85)آزادی کے بعد دہلی میں
۔ طنز و مزاح-1992
۔ (86)شاد عارفی ایک مطالعہ
۔ 1992
۔ (87) روحِ غزل-1993
۔ (88)کلیات ساغر نظامی
۔ (جلد 1)-1999ء
۔ (89)کلیاتِ ساغر نظامی
۔ (جلد 2)- 2000
۔ (90)کلیاتِ ساغر نظامی
۔ (جلد 3)- 2000
۔ (91)منتخباتِ شاد عارفی
۔ 2015
۔ (92)مکاتیب و مضامینِ شاد عارفی
۔ 2016
۔ (93)کلیات شاد عارفی
۔ (نظرثانی شدہ)-2016
۔ (94)سالک لکھنوی-2018
سفرنامہ
۔۔۔۔۔۔
۔ (95) چل چنبیلی باغ میں
۔ 1998
۔۔۔۔۔۔
مظفر حنفی پر کتابیں
۔۔۔۔۔۔
۔ (96) مظفر حنفی شخصیت و فن
۔ ڈاکٹر محبوب راہی-1984
۔ (97)مظفر حنفی ایک مطالعہ
۔ 1999
۔ (98)مظفر حنفی فن اور فنکار
۔ 2006
۔ (99) مظفر حنفی شخصیت و فن
۔ 2010
۔ (100) مظفر حنفی بنام محبوب راہی
۔ 2012
۔ (101) مظفر حنفی حیات و جہات
۔ 2014
۔ (102) مظفر حنفی:شخصیت اور فکر و فن
۔ (ڈاکٹر جاوید اختر)-2019
مظفر حنفی پر رسائل کے خصوصی شمارے
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)صدائے اردو(بھوپال)
۔ (2)انتساب (سرونج)
۔ (3)سفیر اردو (برطانیہ)
۔ (4)بیسویں صدی (دہلی)
۔ (5)چہارسو(پاکستان)
۔ (6)اوراق(پاکستان)
۔ (7)اردو ادب (جرمنی)
۔ (8)اقدار (پاکستان)
۔ (9)CONTEMPORARY
۔ VIBES (چندی گڑھ)
۔ (10)KAVYAKUMBH
۔ (دہرہ دون)
اعزازات:
۔۔۔۔۔۔
۔ (1) پرویز شاہدی نیشنل ایوارڈ
۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی،کولکاتا
۔ (2)غالب پریم چند ایوارڈ
۔ کلچرل سوسائٹی بنگلور
۔ (3) قومی ایوارڈ
۔ قومی کونسل برائے تعلیم اطفال، دہلی
۔ (4)اسپیشل ایوارڈ
۔ انٹرنیشنل فرینڈ شپ سوسائٹی
۔ (5) اسپیشل ایوارڈ
۔ انڈو برما پیٹرولیم لمیٹڈ
۔ (6) فخرالدین علی احمد ایوارڈ
۔ غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی
۔ (7) افتخارِ میر ایوارڈ- لکھنو
۔ (8) سراج میر خاں ساحر ایوارڈ
۔ بھوپال
۔ (9) بھارتیا بھاشا پریشد ایوارڈ
۔ کولکاتا
۔ (10)ملک حیدرر ایوارڈ
۔ کلچرل اکاڈمی، گیا
۔ (11)نباضِ ادب
۔ ایم سی میموریل کمیٹی، کھنڈوا
۔ (12)ماہرِ اقبالیات- صدا لندن
۔ (13)قومی ایوارڈ برائے شاعری
۔ دہلی ارودو اکاڈمی
۔ (14)وضاختی کتابیات
۔ دہلی اردو اکادمی ایوارڈ
۔ 2005
۔ (15)اترپردیش اردو اکیڈمی ایوارڈ
۔ برائے دیپک راگ-1974
۔ (16)شاد عارفی فن اور شخصیت پر
۔ اترپردیش اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1978
۔ (17) یم بہ یم پر
۔ اتر پردیش ارود اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1979
۔ (18)یم نہ یم پر
۔ آندھرا پردیش اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1979
۔ (19)وضاحتی کتابیات پر
۔ بہار اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1980
۔ (20)طلسم حرف پر
۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1980
۔ (21)کھل جا سم سم پر
۔ اترپردیش اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1981
۔ (22)کھل جا سم سم پر
۔ کلچرل اکاڈمی، گیا سے ایوارڈ
۔ 1981
۔ (23)بیداری پر
۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1981
۔ (24) گلاگ مجمع الجزائر پر
۔ بہار اردو اکادمی ایوارڈ
۔ 1981
۔ (25) جہات و جستجو پر
۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1982
۔ (26) نیلا ہیرا
۔ (بچوں کی کہانی) پر
۔ دہلی اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1983
۔ (27) نیلا ہیرا
۔ (بچوں کی کہانی) پر
۔ بہاراردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1983
۔ (28) نیلا ہیرا
۔ (بچوں کی کہانی) پر
۔ اترپردیش اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1983
۔ (29)وضاحتی کتابیات
۔ (جلد 2) پر
۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 1984
۔ (30) پردہ سخن کا پر
۔ دہلی اردو اکاڈمی کی طرف سے
۔ سال کی بہترین کتاب کا ایوارڈ
۔ 1986
۔ (31)پردہ سخن کا پر
۔ اترپردیش اردو اکیڈمی سے
۔ بہترین کتاب کا ایوارڈ
۔ 1986
۔ (32)آزادی کے بعد دہلی میں
۔ اردوطنز و مزاح پر
۔ مغربی بنگال ارودو اکیڈمی ایوارڈ
۔ 1990
۔ (33) حسرت موہانی پر
۔ دہلی کے اردو اکیڈمی ایوارڈ
۔ 1990
۔ (34) باتیں ادب کی پر
۔ بہار اراڈ اکیڈمی ایوارڈ
۔ 1994
۔ (35)یااخی پر
۔ مغربی بنگال ارود اکیڈمی ایوارڈ
۔ 1998
۔ (36) چل چنبیلی باغ میں پر
۔ مغربی بنگال اردو اکیڈمی ایوارڈ
۔ 1999
۔ (37)چل چنبیلی باغ میں پر
۔ اتر پردیش اکیڈمی ایوارڈ
۔ 1999
۔ (38) ساغر نظامی پر
۔ مغربی بنگال اردو اکیڈمی ایوارڈ
۔ 1999
۔ (39) شاد عارفی فن اور فنکار پر
۔ دہلی سے ایوارڈ-2001
۔ (40) حسرت موہانی پر
۔ دہلی اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 2003
۔ (41) ہندستان ارودمیں پر
۔ دہلی اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 2007
۔ (42) نشانِ جنگ، کراچی
۔ (43) دہلی اردو اکادمی کا
۔ مجموعی خدمات کا ایوارڈ
۔ 2009
۔ (44) قومی ایوارڈز دہلی اردو اکاڈمی
۔ 2010
۔ (45) بہار اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 2011
۔ (46)اترپردیش اردواکاڈمی ایوارڈ
۔ 2010
۔ (47)ہیرے ایک ڈال کے پر
۔ اترپریش اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 2011
۔ (48) 2012 میں
۔ بہار اروڈو اکاڈمی سے ایوارڈ
۔ (49) 2013 میں
۔ شولہ پور سے قومی ایوارڈ
۔ (50) 2013 میں
۔ الہ آباد سے مہیشوری ایوارڈ
۔ (51)کلیات شاعری پر
۔ 2014 میں
۔ اترپردیش اردو اکاڈمی سے ایوارڈ
۔ (52) گفتگو:دوبدو پر
۔ دہلی اردو اکیڈمی ایوارڈ
۔ 2014
۔ (53) محفلِ صنم دہلی کی طرف سے
۔ 2016 میں
۔ تاحیاتی خدمات ایوارڈ
۔ (54) شاد عارفی پر
۔ یوپی اور دہلی اردو اکاڈمی ایوارڈ
۔ 2016
۔ (55) شیکھر سمن
۔ مدھیہ پردیش حکومت کی طرف سے
۔ 2016
۔ (56) آفاق احمد لائف ٹائم
۔ اچیومنٹ ایوارڈ
۔ برائے 2019
۔ (57)بزم صدف انٹرنیشنل ایوارڈ
۔ 2019
مظفر حنفی
۔۔۔۔۔۔
ایک صاحبِ طرز فنکار
۔۔۔۔۔۔
کلیم حاذق
۔۔۔۔۔۔
کسی فنکار کو بڑا بننے کے لئے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ اس کے یہاں تخلیقی توانائی ہو یا تخلیق کرنے کا اپنا رنگ ڈھنگ اور اپنا اسلوب ہو۔ یہ سب باتیں تو ہر اس فنکار کے یہاں مل ہی جائیں گی جو فن کو ہنر مندی کے ساتھ استعمال کرنے کا گُر جانتا ہو۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں یہ تمام باتیں ممکن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آسانی سے کسی فنکار کی بڑائی تسلیم کر لینے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں لیکن اگر کسی فنکار کی تخلیقی توانائی کئی دہائیوں تک قائم رہتی ہے اور اس کا اثاثہ ٔ کلام اسلوب کی رنگا رنگی کا نگار خانہ قائم کرنے لگے تو پھر پس و پیش سے بچنے کا جواز خود ہی پیدا ہوجاتا ہے ۔ میں یہاں اس بات کو ذرا واضح کردوں کہ اسلوب کی رنگا رنگی سے یہ مراد نہیں ہے کہ مختلف اسالیب آپس میں مدغم ہوکر خود اسلوب کی انفرادیت پر سوالیہ نشان لگا رہے ہوں بلکہ میرا نکتہ نظر یہ ہے کہ فنکار کا کسی ایک Style کا اسیر ہونا بعض اوقات اپنے نکتۂ عروج کے بعد سپاٹ پن کی طرف لے جاتا ہے اور اس کی بڑائی حاشیے پر چلی جاتی ہے لیکن اگر کوئی فنکار اپنی تخلیقی توانائی کو تادیر بر قرار رکھنے کا ہنر جانتا ہو اور تخلیق کرنے کے طور طریقوں میں رنگا رنگی پیدا کرتا رہتا ہے، اس کے مختلف shades ابھارتا رہتا ہے ایسا فنکار جس کے اندر وقت پھیلتا جاتا ہے اس کی بڑائی تسلیم کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ میرے خیال میں مظفرؔ حنفی ایسے ہی فنکاروں کی ذیل میں آتے ہیں جن کا تخلیقی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ان دہائیوں میں کئی پڑائو آئے، کتنے تخلیقی مسافر وقت کے غبار میں کھو گئے لیکن بقول گوپی چند نارنگ حنفی صاحب نے کسی پڑائو کو منزل بننے نہیں دیا۔ ان کے اندر کا تخلیق کار اگر اپنے تخلیقی کارناموں پر مطمئن ہوجاتا تو پھر ’یا اخی‘ جیسا شعری مجموعہ کلام اردو دنیا کو میسر نہ آتا جس کے لئے پوری اردو دنیا اور شعرو ادب کے شائقین ان کے شکر گزار ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں مظفرؔ حنفی صاحب کی شاعری اور ان کے فن کے چند گوشوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کروں آئیے ذرا گزشتہ دہائیوں میں اردو شاعری اور خصوصاً اردو غزل کن راستوں سے گزر کر ارتقاء کے منازل طے کر رہی ہے اس کا مختصر جائزہ آپ کے سامنے پیش کروں۔
اردو شاعری بالخصوص غزل کے تعلق سے جدیدیت ( آدھونکتا) ، جدت پسندی ، جدت جوئی اور پھر جدت طرازی کم و بیش آدھی صدی پر محیط ہے۔ فکری اور اسلوبیاتی مطمح نظر کی اس تبدیلی نے بلاشک و شبہ ہماری ادبی روایت میں ایک تابناک مقام محفوظ کرلیا ہے کہ نئے پن کی تلاش صرف ہمارے ہی عہد کا طرۂ امتیاز نہیں بلکہ یہ عمل انسانی ارتقا ء کی تاریخ میں بذاتِ خود ایک الگ تھلگ روایت کا درجہ بھی رکھتا ہے لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ اس دم توڑتی صدی میں فنونِ لطیفہ پر اثر انداز ہونے والی سماجی و ثقافتی تبدیلیا ںاتنی تیزی کے ساتھ صورت گیر ہوتی چلی گئیں جن کے زیر اثر ہر نئی نسل اپنی قریب ترین پیش رو نسل کا بھی آموختہ بننے کے لئے خود کو تیار نہیں پاتی کہ انسانی ذہن پر پے در پے تغیرات کے اس یلغار نے اسے ارتکاز(Concentration ) سے محروم کر دیا ہے اور اس کی کیفیت اس آبی پودے کی طرح ہوگئی ہے جو سطح دریا پر بہائو کے رخ پر تیرتا رہتا ہے۔ اس صورت حال میں یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ہر نئی نسل کے یہاں اپنے پیش روئوں سے کچھ مختلف اور کچھ منفرد ہونے کا رجحان اسے بے تکان صرف اور صرف ردِعمل کے طور پر فکر و اسلوب کا معکوس بننے کے لئے مہمیز کرتا رہا ۔ شوالے گرائے جانے لگے ، کج اساسی کی بنیاد پر نئے شوالوں کی تعمیر ہونے لگی ، معبود ایک رہا ،عبادت گاہیں بدلتی رہیں۔ ہر عابد بشارت دیتا رہا کہ صرف اسے ہی حقیقی عبادت کا شرف حاصل ہے کہ نئے معبد میں سجدہ ریزی کا لطف ہی کچھ اور ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فطری طور پر شوالوں کا منہدم ہوجانا اور غیر فطری طور پر خیالی دانش مندی کے جبر سے انسانی افعال کے کاغذی ڈھانچے تعمیر کرنا بجائے خود ایک غیر فطری عمل ہے کہ روایت کے گہرے شعور کے بغیر کچھ نیا اور کچھ منفرد پیش کرنے کی سعی فنکار کی تخلیقی توانائی کو اس آنچ سے محروم کر دیتی ہے جو روایت کے گہرے عرفان اور صدیوں پر پھیلے تخلیقی تجربات سے منقلب ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔ اردو غزل نے افراط و تفریط کے اس عہد کو جھیلنے کی صعوبت برداشت کی اور نکھر کر کندن ہوگئی۔ اس نازک صنف نے شمشیر و سناں ، زنجیر و زنداں ، دارورسن کی سخت گیریوں کو قاموسِ فکر کی گہرائی اور گیرائی عطا کی ، رسمیات کے شکنجوں سے خو د کو آزاد کیا اور تحیر کم ہونے لگا تو موجود کو ماورا کا ملبوس پہناکر ان گنت خال و خد کو تخیل کے پردے پر اتارنا شروع کیا۔ ایسے لمحات میں بھی ڈاکٹر مظفر حنفی کی شاعری دیر تک ٹھہرتی ہے اور ہمیں بھی ٹھہر کر لطف اندوز ہونے کی دعوت دیتی ہے۔
’’یا اخی‘‘ ڈاکٹر مظفر حنفی کا دسواں شعری مجموعہ ہے۔ پہلا مجموعہ ’ پانی کی زبان‘ ۱۹۶۷ میں شائع ہوا تھا، اس کے بعد ’تیکھی غزلیں‘ (۱۹۶۸) ’ عکس ریز‘ طویل طنزیہ نظم ۱۹۶۹ء ’صریر نامہ‘ (۱۹۷۳) ، دیپک راگ‘ ۱۹۷۴ ، ’یم بہ یم‘ ۱۹۷۹ ، ’طلسمِ حرف‘ ۱۹۸۰ ’کھل جا سم سم (۱۹۸۱) ، پردہ سخن کا۱۹۸۶ منظر عام پر آئے۔ آخری دو مجموعوں میں ایک دہائی کا فاصلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ مظفرؔ حنفی صاحب کتنے پُر گو ہیں اس کا اندازہ تو مجموعہائے کلام کی فہرست دیکھ کر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی احتمال بھی ہوتا ہے کہ تخلیقی رو میں خاروخس بھی آگئے ہوں گے لیکن ’’یا اخی‘‘ کے مطالعے سے حیرت ہوتی ہے کہ ان غزلوں کے معتدبہ اشعار کہیں خیال و فکر اورکہیں اسلوب و لہجے کی اثر انگیزی کے باعث دیر تک اپنی گرفت میں رکھتے ہیں ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ مظفر حنفی ہمارے عہد کے بے حد منتخب جدید شعرا ء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ کم بڑی بات نہیں کہ اپنے منفرد ، کاٹ دار اور توانا لہجے کی وجہ سے ان کی غزلیں دور سے پہچانی جاتی ہیں۔ ہر چند غزل جیسی لطیف ترین صنفِ سخن میں طنزیہ پیرائے میں اظہار کا عمل بذاتِ خود ایک جوکھم بھرا راستہ ہے۔ ہمارے بیشتر شعراء کے یہاں اس نوع کی شاعری میں بعض اوقات فکر وجذبے کی سرکشی ایک براہ راست عمل بن جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شعر نے مکالمے کی شکل اختیار کرلی ہے لیکن مظفر حنفی صاحب کی اردو غزلیہ روایت پر گہری نظر اور رموزِ فن پر قابلِ رشک دسترس نے غزل کی فضا کو مجروح ہونے نہیں دیا ہے۔ بیشتر اہلِ نظر نے ان کے لہجے کی نشتریت کو شاد عارفی کا ترکہ ضرو ر کہا ہے لیکن اس اعتراف کے ساتھ کہ اس کی ’’ بو قلمونی ، طرحداری اور ابعاد‘‘ مختلف ہیں۔
مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں:
ذرا سی روشنی مانگی تھی ، رات کاٹنے کو
چراغ اتنے جلے گھر ہی پھونک ڈالا مرا
ہم تو خوشبو کی طرح خود ہی بکھر جاتے ہیں
تم وہ دیوار کہ مزدور اٹھاتا ہے جسے
سچ بولنے لگے ہیں کئی لوگ شہر میں
دیواریں اٹھ رہی ہیں نئی ، قید خانے میں
بلا سے بجھے یا بڑھے تشنگی
سمندر کو آداب کرتے رہو
میرے گھر میں جو کچھ بھی ہے موجِ بلا ہے تیرا
لے جا جو چاہے، بے جا تفسیریں کیا کرتی ہے
ہم ستارے بنا کے نادم ہیں
آپ نازاں ہیں آبگینوں پر
طوفاں سے کیا باتیں کی ہیں پیارے ماجھی سچ بتلانا
دریا کو گروی رکھا ہے یا ساحل کو بیچ دیا ہے
جنوں تباہ نہ کر دے کہیں زمانے کو
یہ تیشہ دستِ ہنر میں رہے تو اچھا ہے
کیا دیر ہے، مجھ کو بھی اجازت ہو رجز کی
حرف آنے لگا نام و نسب تک مرے مولا
محولہ بالا اشعار جہاں مظفر حنفی صاحب کی تیکھی زبان اور کاٹ دار لہجے کی تمثیل پیش کرتے ہیں وہیں اس امر کا اثبات کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی غزلیں بے پناہ تخلیقی بصیرت کے باعث اس چیخ دھاڑ سے پاک ہیںجو عموماً اس نوع کی شاعری کا طرۂ امتیاز بن جاتے ہیں۔ اک ذرا بدلے اور منفرد انداز کے ان اشعار کی فضا بندی غزل کی رسمیات سے قطعی مختلف ہے ۔ لفظیات کے استعمال میں بھی آزادانہ روش اختیار کی گئی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تصورات کے سارے کلیسے ایک ہی آن میں زمین بوس ہوگئے ، کہاں روشنی روشنی کی تکرار کرتے اشعار اور کہاں یہ آگہی کہ چراغ اتنے جلے گھر ہی جل گیا ، ہمارے عہد کی ایک عجیب تصویر پیش کرتا ہے ۔ نئے حقائق کا ادراک ہوتا ہے۔ ان حقائق کا جو ہمارے آس پاس خوابیدہ نظر آتے ہیں۔
ذرا ان اشعار کے تیور دیکھیں!
بس کہہ دیا کہ ہم نہ چلیں گے کسی کے ساتھ
پیچھے پلٹ کے دیکھ رہا ہے زمانہ کیوں
سفر کیسا کہ باہم بر سر پیکار ہیں سارے
ہمارے کارواں میں کارواں سالار ہیں سارے
بادی النظر ان اشعار پر محض تضادات کو جنم دینے کا گمان ہوگا لیکن عصری تقاضوں کا دروں بینی سے جائزہ لیا جائے تو ادراک ہوگا اس جبر کا جس نے اپنے آپ کو مختلف پردوں میں چھپا رکھا ہے ۔ اس اختتام پذیر صدی میں دنیا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ایک نئی جنگ سے نبرد آزما ہے جہاں ثقافت کے خوش رنگ کھلونے بطور ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ایک زمین ایک کلچر کے نام پر کس طرح دنیا کی رنگا رنگ تہذیب پر ایک مخصوص پاپولر کلچر غلبہ حاصل کرنے کی سعی کر رہا ہے، اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کے مقابل اپنی تہذیبی بقا کی جدوجہد میں کمزور طاقتوں کا انحراف کرنے کا رویہ اور اس صورت حال سے پیدا ہونے والی کشمکش ، بے اطمینانی اور قیادت کا بحران جیسے مسائل منظر نامے کو اور اجال دیتے ہیں ۔ ایسے کئی حوالے ان اشعار کے تعلق سے پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ ان اشعار کا قاری یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے کہ مظفر حنفی اپنے اردگرد کی دنیا کا کتنی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور ان خامیوں کو اپنے اشعار میں اجاگر کرتے ہیں جو خامیاں ہمیں منزل تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں اور ہم راستے کے پیچ و خم میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔
حنفیؔ صاحب کی شاعری کو محض طنزیت اور نشریت کے خانے میں محبوس کردینا میری نگاہ میں ایک بڑی نا انصافی ہوگی ۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے اکثر اشعار میں پہاڑی جھرنے کی طرح تیز رو بہنے کا عمل جاری و ساری نظر آتا ہے لیکن ان اشعار پر کیا کہیں گے۔
آگیا میں کسی جگنو کی نظر میں کیسے
بوند بھر نرم اجالا مرے گھر میں کیسے
وسعتیں مجھ کو خلائوں سے صدا دیتی ہیں
یہ نشمین کی گرہ پڑ گئی پر میں کیسے
قریب آئو کہ مہندی رچی ہتھیلی پر
ستارہ دیدۂ نمناک سے اتارا جائے
ساری بستی پہ نہ لے آئے وہ آفت کوئی
کون ہے ، کوہِ ندا روز بلاتا ہے جسے
اے گلِ تر شگفتہ باد میں تو چراغِ صبح ہوں
میری نجات کے لئے دامنِ باد کم نہیں
سانس لیتی ہے زمیں سن تو سہی
بیج پھوٹا ہے کہیں سن تو سہی
کہاں ہے تیرا قبیلہ کہ راہ پانی دے
عصا نہیں ہے تو جادو گروں سے جنگ نہ کر
ان اشعار میں وہی تخلیقی رچائو ہے جو ہماری جدید تر غزل کا خاص وصف ہے ۔ وہی پر اسرار دھند تہہ بہ تہہ نظروں کے سامنے حائل ہوتی ہوئی جو صدیوں سے انسانی نفسیات اور جبلت کا حصہ بنی ہوئی ہے جہاں سب کچھ ہویدا ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ انجانا محسوس ہوتا ہے جس سے ایک عجیب طرح کی سرشاری حاصل ہوتی ہے ۔ یہ اشعار ایسے جہانِ معنی کی سیر کراتے ہیں جہاں عزم و حوصلہ ہے صدیوں کی روایت میں سانس لیتی دھرتی میں نئے بیج پھوٹنے کی دھڑکن ہے، نئی امید اور تمنائوں کے حصول کے لئے جاگتے ذہن کی ہوشیاری ہے ۔ بوند بھر نرم اجالا نشیمن کی گرہ ، ستارے کا دیدۂ نمناک سے اترنا ، بیج پھوٹنے کو زمین کے سانس لینے سے عبارت کرنا ، گلِ تر کو چراغِ صبح سے تعبیر کرنا نیز ہر دو کی رعایت سے دامنِ باد کا ذکر ایسی تمثیلیں ہیں جو نشاط انگیزبھی ہیں اور کربناک بھی ۔ شاید بڑی غزل کے لئے راستہ کھل گیا ہے۔
جیساکہ میں نے عرض کیا کہ مظفر حنفی صاحب کے یہاں بیان کی رنگا رنگی اور دل کشی ان کی ہر غزل میں ایک وصف بن کر ابھرتی ہے۔ نئی نئی تراکیب تراشنا ، پرانی تشبیہات کو نیا رنگ و آہنگ دینا اور سب سے بڑھ کر لفظیات کا وسیع تر اور خلاقانہ استعمال نئے نئے موضوعات خود بخود پیدا کر دیتا ہے۔ ہر غزل میں ایک نئی بات بالکل نئے پیرائے سے صرف تاریخی تلمیحات ہی نہیں روز مرہ کی بولیوں ،محاورات اور ضرب المثل میں شعریت تلاش کر لینا اور انہیں تخلیقی دھارے سے گزارکر زندہ جاوید کر دینا مظفر ؔ حنفی صاحب کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
دشمن بن کر لکھتا ہوں میں خود اپنے اعمال
لاکھ فرشتہ آزو بازو بیٹھا رہتا ہے
کُل بُل کُل بُل امتحان کا کمرہ بچوں سے
برفیلا موسم پنچھی چٹیل میدان ہوا
حبس کی برف آخر پگھلنے لگی
کنمنائی ہوا دیکھتے دیکھتے
ہونے لگا ہے ماں کی دعا میں غلط اثر
بیٹی تو گھر میں بیٹھی ہے بیٹا نکل گیا
مسلسل یوں نہ پی آنسو مبادا
تری آنکھوں میں پارا بیٹھ جائے
کیسے کیسوں کو مٹی نے سیدھا کیا
اچھے اچھوں کی یاں رستمی رہ گئی
تونے بہتیرا سمجھایا ، موٹی کھال گرہ میں مال
اے دنیا کیسے آجاتے ہم تیرے بہکانے میں
ان سے دھیان لگائے رکھنا ، اس حالت میں لازم ہے
فرصت ہی فرصت ہے ہم کو تیری تو چاندی ہے دل
گھوم رہا ہوں دیپک لے کر
قریہ قریہ سن سن کرتا
سناٹے اوڑھے بیٹھا ہوں
تن اکتارہ جھن جھن کرتا
سائے سائے میں چھپ کر وہ
جلوہ درپن درپن کرتا
ان اشعار پر اگر غور فرمائیں تو محسوس ہوگا کہ اردو کی شعری روایت میں فارسیت کا غلبہ کم ہو رہا ہے اور اردو ہندی میل جول سے پیدا ہونے والی خوشبو زبان میں مٹی کی خوشبو داخل ہو رہی ہے ۔ یہ وہ ارضیت ہے جو ہماری سائیکی کا حصہ بن چکی ہے اور ہمارے صاحبِ نظر فنکار ان سے عرق کشید کر رہے ہیں۔ اس نوع کی شاعری میں ہماری آس پاس کی جیتی جاگتی دنیا ہے، ہمارے اپنے مسائل ہیں، اپنے دکھ سکھ کی باتیں ہیں۔ یہ شاعری اوڑھی ہوئی نہیں بلکہ زندہ و توانا لگتی ہے اور خود بھی ہمیں جاگنے اور زندہ رکھنے کے اسباب فراہم کراتی ہے۔ مظفر حنفی صاحب اس مقام پر سب سے الگ تھلگ نہیں بلکہ اس مٹی کی آواز معلوم ہوتے ہیں۔
منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔
روتی ہوئی ایک بھیڑ مرے گرد کھڑی تھی
شاید یہ تماشہ مرے ہنسنے کے لیے تھا
—
سوائے میرے کسی کو جلنے کا ہوش کب تھا
چراغ کی لو بلند تھی اور رات کم تھی
—
شکست کھا چکے ہیں ہم مگر عزیز فاتحو
ہمارے قد سے کم نہ ہو فراز دار دیکھنا
—
کانٹوں میں رکھ کے پھول ہوا میں اڑا کے خاک
کرتا ہے سو طرح سے اشارے مجھے کوئی
—
کھلتے ہیں دل میں پھول تری یاد کے طفیل
آتش کدہ تو دیر ہوئی سرد ہو گیا
—
آلامِ روزگار کا منہ زرد ہو گیا
ہر زخم کا علاج ترا درد ہو گیا
—
جاں بہ لب ویسے ہی تھے اور ہمیں مار چلا
دھوپ کے ساتھ کہاں سایۂ دیوار چلا
—
کیا وصل کی ساعت کو ترسنے کے لیے تھا
دل شہر تمنا ترے بسنے کے لیے تھا
—
خبر کارواں کی نہ ہو رہزنوں کو
یہی سوچ کر میں نے مشعل بجھا دی
—
باب طلسم ہوش ربا مل گیا مجھے
میں خود کو ڈھونڈتا تھا خدا مل گیا مجھے
—
وجود غیب کا عرفان ٹوٹ جاتا ہے
صریر خامہ سے وجدان ٹوٹ جاتا ہے