آج – ١٨ ؍مئی ؍ ١٩٨٨
اردو کے منفرد لب و لہجہ کے مقبول عوامی پاکستانی شاعر ، کم عمری میں وفات پائی اور ممتاز شاعر” اقبال ساجدؔ صاحب “ کا یومِ وفات…
نام محمد اقبال ساجد اور تخلص ساجدؔ ہے۔ ۱۹۳۲ء میں لنڈھورا، ضلع سہارن پور(یوپی) میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور منتقل ہوگئے۔ میٹرک تک تعلیم پائی۔ کچھ دنوں ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ کالم نویسی بھی کی۔ اقبال ساجد نے مجبوری میں اپنا کلام بہت سستے داموں بیچ دیا تھا۔ انھیں اس بات کا دکھ بھی تھا۔ جب اقبال ساجد نے اپنے اشعار بیچنا چھوڑ دیے تو مجبوری میں انھیں ایسے پیشے اختیار کرنا پڑے جسے ہمارے معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ نازش حیدری ان کے استاد تھے۔ فاقہ کشی اور کثرت شراب نوشی کے باعث ۱۸؍مئی ۱۹۸۸ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ مجموعۂ کلام ’’اثاثہ ‘‘ کے نام سے بعد ازمرگ مرتب کیا گیا۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:271
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
عوامی شاعر اقبال ساجدؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار
لفظ ننگے ہو گئے شہرت بھی گالی ہو گئی
—
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
—
اندر تھی جتنی آگ وہ ٹھنڈی نہ ہو سکی
پانی تھا صرف گھاس کے اوپر پڑا ہوا
—
اپنی انا کی آج بھی تسکین ہم نے کی
جی بھر کے اس کے حسن کی توہین ہم نے کی
—
بڑھ گیا ہے اس قدر اب سرخ رو ہونے کا شوق
لوگ اپنے خون سے جسموں کو تر کرنے لگے
—
درویش نظر آتا تھا ہر حال میں لیکن
ساجدؔ نے لباس اتنا بھی سادہ نہیں پہنا
—
ایک بھی خواہش کے ہاتھوں میں نہ مہندی لگ سکی
میرے جذبوں میں نہ دولہا بن سکا اب تک کوئی
—
فکر معیار سخن باعث آزار ہوئی
تنگ رکھا تو ہمیں اپنی قبا نے رکھا
—
میں آئینہ بنوں گا تو پتھر اٹھائے گا
اک دن کھلی سڑک پہ یہ نوبت بھی آئے گی
—
میں ترے در کا بھکاری تو مرے در کا فقیر
آدمی اس دور میں خوددار ہو سکتا نہیں
—
مرے ہی حرف دکھاتے تھے میری شکل مجھے
یہ اشتہار مرے روبرو بھی ہونا تھا
—
ساجدؔ تو پھر سے خانۂ دل میں تلاش کر
ممکن ہے کوئی یاد پرانی نکل پڑے
—
وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا
کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا
—
سورج ہوں چمکنے کا بھی حق چاہئے مجھ کو
میں کہر میں لپٹا ہوں شفق چاہئے مجھ کو
اقبال ساجدؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ