عاشق علی فیصل کا شمار عہد حاضر کے ممتاز شعراء میں ہوتا ہے انہوں نے نہ صرف پنجابی شاعری کی بلکہ اردو ادب میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔وہ پنجابی زبان کے ایک انتھک اور متحرک شاعر اور لکھاری ہیں جن کا قلم اور دماغ ہر وقت مصروف رہتا ہے ۔۔ عاشق علی فیصل کا خاندانی نام عاشق علی ہے ۔ جو ان کے دادا جمال دین نے رکھا تھا ۔ جبکہ قلمی نام عاشق علی فیصل ہے ۔، 22 نومبر 1971ء کو لوہان بھرائیوالا تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ (اب ضلع نارووال) میں پیدا ہوئے جبکہ سرکاری کاغذات میں ان کی تاریخ پیدائش 2 فروری 1974ء درج ہے ۔ جسمانی طور پر کمزوری اور زبان کا توتلا پن اس کا باعث بنا ۔ جنگی حالات کے باعث انہیں اپنا گاؤں چھوڑنا پڑا ۔ ان کے ابا جان سب کو لائل پور لے آئے جہاں وہ لال پور کاٹن ملز میں ملازم تھے ۔ ملز کے کوارٹرز میں شفیع چوک کے قریب رہائش پذیر ہوئے ۔ 1982ء میں حالات نے ایک دفعہ پھر پلٹا کھایا ۔ اس بار نارووال واپسی کے بجائے ان کو فیصل آباد سے جانب مشرق 50 کلومیٹر دور اپنے ننھیالی گاؤں 644 گ ب صوفی دی کوٹھی میں جا آباد ہوئے ۔ گاؤں میں “احاطہءِ صوفیا میں رہائش پذیر ہوئے ۔
ان کی امی جان حفیظاں بی بی 7 فروری 1989ء کو اس فانی دُنیا سے رخصت ہوئیں ۔ ان کے چہلم والے دن ان کا دسویں کا پہلا پیپر تھا ۔ جو کہ اول سے لیکر ہر جماعت میں اول یا دوم درجہ میں پاس ہوتا رہا ، دسویں کے امتحان میں سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوئے ۔ اس کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ بے قاعدہ ہوگیا ۔
چند روز قبل ان سے ملاقات کرنے کا موقع ملا جو علمی و ادبی گفتگو ہوئی ہے وہ نذر قارئین ہے ۔
سوال : آپ نے کس مضمون میں ایم فل کیا ہوا ہے ۔ ؟
جواب : جی اظہار بھائی! اعلٰی تعلیم کا یہ سلسلہ 25 سالوں پر محیط ہے ۔ میں نے میٹرک کا امتحان 1989ء میں فیصل آباد بورڈ سے کیا ۔ لاہور بورڈ سے ایف اے 1993ء میں پاس کیا ۔ اس کے بعد تعلیمی سلسلہ پھر تاخیر کا شکار ہوگیا ۔
بی اے کا امتحان علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے 2010ء میں جب کہ ایم اے پنجابی 2013ء میں سرگودھا یونیورسٹی سے اعزاز کے ساتھ (810/1000)
نمبر لے کر پاس کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا ۔ جب کہ ایم فل کے لئیے بھی اوپن یونیورسٹی ہی میرے لیئے مہربان بنی ۔ اسلام آباد آنے جانے کا کرایہ ، یونیورسٹی کی فیس اور ورکشاپس کے دنوں میں ہوسٹل کے اخراجات ۔ ذرائع آمدنی بہت محدود تھے ۔ مگر اس اعلٰی تعلیم کے سفر میں میرے بچوں اور خصوصاً میری اہلیہ نے میرے حوصلے کو بلند کیا ۔
سوال : اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں ۔ ؟
جواب : میری شادی 6 ستمبر 1996ء کو نرگس بی بی کے ساتھ ہوئی ۔ میرے سسرال جڑانوالہ شہر میں ہیں ۔ میری چھ بیٹیاں ہیں جبکہ ایک بیٹا محمد علی فیصل ہے ، جو سب سے چھوٹا ہے ۔ میں غزالی سکول چک نمبر 30 گ ب جڑانوالہ میں 2009ء سے بطور معلم منسلک ہوں ۔
جبکہ اس کے علاوہ جامعہ مسجد گُلزارِ مدینہ 30 گ ب میں پچھلے 13 سال سے دین کی خدمت کر رہا ہوں ۔
سوال : آپ نے ادب کی راہ کیسے اختیار کی ۔؟
جواب : جب میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو گھر میں وارث شاہ کی ہیر ، مولوی غلام رسول عالمپوری کی یوسف زلیخا ، دائم اقبال دائم کا” شاہنامہ کربلا “اور بہت سے پنجابی قصہ جات کے علاوہ منظوم دینی کتب اور قصے بھی پڑھنے کو ملے ۔ ادب کے ساتھ ساتھ دین کا فہم بھی ملا ۔ اسکول کے زمانے میں قلمی دوستی کا شوق پیدا ہوا ۔
پنجابی ڈرامہ نگار اور مزدور کسان پارٹی کے صدر میجر اسحاق محمد ، سلیم تواریخ “تاریخِ آرائیاں “کے مصنف اکبر علی صوفی کا تعلق بھی ہمارے گائوں سے تھا ۔ پنجابی سیوک حنیف شاکر (مسعود کھدر پوش ٹرسٹ والے) کی پنجابی زبان سے لگن نے بھی مجھے متاثر کیا ۔ 1990ء میں پہلی پنجابی غزل ماہنامہ” رویل “میں جب کہ پہلی پنجابی نظم ماہنامہ “لکھاری “میں شائع ہوئی ۔ گورنمنٹ کالج جڑانوالہ میں پنجابی کے استاد پروفیسر محمّد ریاض شاہد کے توسط سے رفاقت حسین ممتاز کی شاگردی اختیار کی ۔ نثر میں چودھری الیاس گھمن اور ڈاکٹر جمیل پال نے میری رہنمائی کی ۔
سوال : آپ کا ادبی حوالہ کیا ہے۔؟
جواب : شاعر ، ادیب ، کہانی کار ، کالم نگار ، ایڈیٹر اور ترجمہ نگاری میرے ادبی حوالہ جات ہیں۔
سوال : ادبی صحافت میں آپ کی خدمات کیا ہیں ۔؟
جواب : مجھے بہت سے ادبی جرائد و رسائل میں مختلف حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا ۔
سوال : آپ کی ادبی خدمات ۔؟
1: چیف ایڈیٹر پنجابی رسالا “کُوک” جڑانوالا (12 شمارے)
2: اسٹنٹ ایڈیٹر ماہنامہ “رویل” لاہور پنجابی
3: اسٹنٹ ایڈیٹر ماہنامہ “میٹی” لاہور (پنجابی بال رسالہ)
4: اسٹنٹ ایڈیٹر ماہنامہ “پکھیرو” لاہور (پنجابی بال رسالہ)
5: اسٹنٹ ایڈیٹر ہفت روزہ “صدائے عام” سیالکوٹ (اردو)
6: ایڈیٹر الغزالی ستیانہ فیصل آباد ( سکول میگزین)
سوال : اپنی تصانیف کے بارے میں بتائیں؟
جواب : بار بار کی ہجرت نے میری لائبریری کی سینکڑوں نایاب کتب کے ساتھ ساتھ میری شاعری کے مسودات بھی مجھ سے چھین لیئے ۔ میں شائع شدہ کتب کے نام بتائے دیتا ہوں ۔
1 “لکیراں” 2018ء پنجابی نظم
2 “گُلزارِ مدحت ” 2022ء اردو نعت
3 ” پیرس دی پیاس” (التھا) سنتوکھ سنگھ سنتوکھ 1998ء
4 “ظُلم کہ انصاف” (اُلتھا) گردیپ سنگھ متھڈا 2008ء
5 ” گلزار ترگڑی” 2023ء (منقبت پیر پنجابی)
سوال: آپ عصر حاضر کے شعراء میں سے کس سے متاثر ہیں ؟ اور آپ کے پسندیدہ شعراء کون سے ہیں ۔؟
جواب: میں سبھی لکھنے والوں کو پسند کرتا ہوں۔ میرے استاد محترم رفاقت حسین ممتاز پنجابی غزل نظم کے حوالے سے علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ سلطان کھاروی۔ بشیر باوا، غلام مصطفے بسمل، خالد محمود عاصی، واصف علی واصف، اثر انصاری، ریاض احمد قادری اور محبوب سرمد کی شاعری سے متاثر ہوں۔ اس کے علاوہ نقیبی کاروان ادب کے روحِ رواں غلام مصطفٰے آزاد نقیبی بھی میرے آئیڈیل ہیں۔
سوال: آپ ایک پنجابی رسالہ ” کوک” کے نام سے نکالا کرتے تھے ۔ وہ کب تک چلا اور کیسے بند ہوا۔؟
جواب : “کوک” رسالے کا اجراء میں نے 1994ء میں کیا تھا ۔ اس کام کے لیئے میرے استاد مکرم ڈاکٹر محمد ریاض شاہد کی حوصلہ افزائی اور پنجابی زبان و ادب کی ترویج و ترقی کا جذبہ شاملِ حال تھا۔ وقتاً فوقتاً اس کے 13 شمارے شائع کیئے۔ “کوک” کا آخری شمارہ 2013ء میں شائع ہوا۔
سوال: ادبی زندگی اور مولانا والی زندگی دونوں کو کیسے وقت دیتے ہیں۔ تھوڑا اظہارِ خیال فرمائیں۔؟
جواب : اللہ پاک کے فضل وکرم سے دونوں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں ۔ مسجد نے مجھے ایک پہچان دی ۔ اور مصلٰے ءِ رسول نے مجھے نعت لکھنے کی سعادت بخشی ۔میں اپنی اس خوش بختی پہ نازاں ہوں ۔
تیرے فضل و کرم صدقہ میری ایہ ٹوہر ساری اے
مینوں تیرے مصلے دا سہارا یارسول اللہ
سوال: ادب میں پنجابی زبان اور اردو کو کیسا محسوس کرتے ہیں۔؟
جواب: ادب تو دُنیا کی ہر زبان میں لکھا جاتا ہے۔ مگر اپنی زبان میں لکھا ادب اور زیادہ خوبصورت لگتا ہے۔ پنجابی میری مادری زبان ہے اس نے مجھے ایک شناخت دی ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ الحمدلللہ میں نے دونوں زبانوں میں خوب لکھا ہے۔
سوال: آپ اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں نعتیں سنا کرتے تھے۔ اب آپ کے گھر میں بھی میلاد کی محفلیں سجتی ہیں۔ اس پر آپ کیا کہیں گے۔؟
جواب : یہ سب اللّٰہ پاک کی کرم نوازی ہے ۔ یہ تحفہ مجھے والدین کی طرف سے وراثت میں ملا ہے۔ میری امی جان بہت درد اور سوز سے نعت پڑھا کرتیں تھیں۔ نور نامے، میلاد نامے، معراج نامے، شاہنامہ کربلا دائم اقبال دائم وہ مجھ سے شوق سے سنا کرتی تھیں۔ اُن کی طرف سے ملی یہ انمُلی سوغات میں نے اللّٰہ کے فضل سے اپنے بچوں میں بھی بانٹ دی ہے۔
سوال : آپ نے کن اصنافِ میں شاعری کو برتا۔؟
میری کتاب “لکیراں” آزاد نظموں پر مشتمل تھی۔ میری نعتیہ کتاب “گُلزارِ مدحت” غزل رنگ میں ہے۔ اس کے علاوہ میں نے غزل ، نظم اور گیت وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔
سوال : اپنا نمائندہ کلام عنایت کریں۔؟
جواب : اپنی کتاب “لکیراں” سے ایک نظم سنائے دیتا ہوں۔ نظم کا عنوان ہے
لکیراں
لکیراں ماردے پئے ہاں
تے بُتا ساردے پئے آں
آساڈے راہ لکیراں نیں
آساڈے ساہ لکیراں نیں
آساڈے کم لکیراں نیں
آساڈے دم لکیراں نیں
آساڈے دُکھ پئے روندے نیں
آساڈے غم لکیراں نیں
ایہ ڈنگر چاردے پئے ہاں
لکیراں ماردے پئے ہاں
تے بُتا ساردے پئے آں
میرے جہیا مسافر شال جگ تے کوئی نہ تھیوے
اپنے گھر دے وچ وی فیصل پھراں گواچا ہویا
بھلا کیہ کر لیا اے
بھلا کیہ کر گیا واں
میں جین چاہ رہیا ساں
میں تاہیوں مر گیا واں
سوال : آپ کی شاعری کا موضوع کیا ہے ۔؟
جواب : میں نے بچوں کے لیئے بھی لکھا ہے اور بڑوں کے لیئے بھی شاعری کی ہے ۔ عشق محبت پیار ہجر وصال کے علاوہ میں نے اپنے لوگوں کی بات کی ہے ۔ اخلاق و اقدار کی بات کی ہے ۔
سوال : آپ قاری کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔؟
جواب : میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ۔ ادب ہی زندگی ہےں۔ آج ہم نفرتوں کے خریدار بن چُکے ہیں ۔ پیار محبت عقیدت ادب احترام ہماری زندگیوں سے روٹھ چُکے ہیں ۔ بطور مسلم ہمیں اپنے پیارے نبی کی تعلیمات کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاشق علی فیصل کا نعتوں کا گلدستہ “گلزارِمدحت”
تبصرہ : ریاض احمد قادری
عاشق علی فیصل ؔ پنجابی ادب میں ایک بڑا نام کمانے کے بعد اب اردو نعت کی طرف آئے ہیں۔ان کے اردو نعتیہ مجموعہ کانام ’’ گلزارِ مدحت ‘‘ ہے
ان کے احوال و آثار کاجائزہ لیتے ہیں ۔ آپ کی پیدائش لوہان بھرائی والہ تھانہ نونار ضلع سیالکوٹ ( اب نارووال ) میں ہوئی۔عارف نوناروی وہاں کے ہی ہیں مسعود چودھری لوہان بھرائی والہ کے ہیں ۔ اس گائوں کا نام تاریخ پنجاب میں آیا ہے جو گنیش داس نے ۱۹۴۹ میں لکھی ہے جہاں سے حضرت سخی سرورؒ کے ماننے والے عقیدت مند سنگ لے کر نکلتے تھے اور ان کا پہلا پڑاؤ چونڈہ شہر میں ہوتا تھااس کو قدموں کا میلہ بھی کہتے ہیں۔بھرائی ڈھول بجاتے ہوئے حضرت سخی سرورؒ لعلاں والی سرکار پہنچ جاتے تھے۔آپ ۲۲ نومبر ۱۹۷۱ کو محمد انور کے گھرپیدا ہوئے لیکن سرکاری کاغذات میں ان کی تاریخ پیدائش ۲ فروری ۱۹۷۴ ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بچپن میں بہت کمزور تھے زبان توتلی تھی۔اس لئے گھر والوں نے تین سال کی عمر میں نام لکھوایا۔ دسویں جماعت تک زبان توتلی رہی۔ان کے والد محمد انور لال مل میں فور مین تھے۔ آپ راجپوت بھٹی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔دادا کا نام جمال دین تھا جو بھینس گائے اور مال مویشی کے تاجر تھے۔پردادا کا نام شاہ محمد ہےاسی وجہ سے لوگ انہیں شاہ کہتے ہیں اور کاغذات میں ان کا نام عاشق علی شاہ درج ہےابتدا میں ان کے والدین کی رہائش شفیع چوک لال مل فیصل آباد میں کالونی کوارٹرز میں رہی۔پہلی تین کلاسز ایم سی ہائی سکول باغ والا فیکٹری ایریا سے پاس کیں۔آپ کل تین بھائی ہیں بڑے بھائی ماسٹر شوکت تھے ۲۰۱۲ میں انتقال فرماگئے۔دوسرےبھائی مبارک علی محکمہ تعلیم میں درجہ چہارم کےملازم تھے وہ بھی انتقال فرماگئے۔ اور آپ ان میں سب سے چھوٹے ہیں۔آپ کی تین بہنیں ہیں سلمیٰ رانی، نجمہ رانی،اور کوثر پروین جو سب سے بڑی ہیں۔آپ کی والدہ کا نام امت الحفیظ تھا نانی جان کا نام فاطمہ بی بی تھا اور نانا جان کا نام بشیر احمد تھاان کے والد کی شادی چک ۴۶۶ گ ب جڑانوالہ بچیکی میں ہوئی تھی یہ معروف ترقی پسند دانشور میجر اسحاق محمد کا گائوں ہے۔وہیں باقی کلاسیں پڑھیںآپ نے میٹرک کا امتحان۱۹۸۹میں ۴۸۵ نمبر لے کر پاس کیا والدہ محترمہ پیپرز کے دوران ہی انتقال فرما گئیں۔ پہلے پیپر والے دن والدہ کا چالیسواں تھا۔۱۹۸۲ میں آپ کے خاندان نے فیصل آباد چھوڑ دیا اور گائوں آگئے تب سے یہیں ہیں۔ اپنے تخلص کے متعلق بتاتے ہیں کہ مجھے میرے ماموں کی کتاب ملی تھی جس پر انہوں نے لیاقت علی فیصل لکھا ہوا تھا مجھے یہ نام پسند آیا اور میں نے تخلص رکھ لیا۔اس سے پہلے عاشق علی تبسم اور پرنس عاشق علی فیصل بھی لکھتے رہے ہیں۔چنچل پسروری اور ننھا لوہانوی کے قلمی ناموں سے مذاحیہ تحریریں اور گیت لکھتے رہے ہیں۔
۱۹۹۰ میں میٹرک کے بعد سپننگ ملز میں بطور پیکر سروس کی۔پھر رویل کے دفتر میں معروف پنجابی ناول نگار اور پنجابی سیواکار الیاس گھمن کے ہاں سروس کی اور پنجابی شعروداب میں بڑا نام کمایا۔آپ نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور ۱۹۹۳ میں ایف اے کا امتحان لاہور بورڈ سے پاس کیا بی اے کا امتحان ۲۰۱۲ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے پاس کیا ایم اے پنجابی کا امتحان سرگودھا یونیورسٹی سے ۲۰۱۵ میں ۸۱۰ نمبر لے کر پاس کیا اور یونیورسٹی بھر میں اول آئے اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔۲۰۱۹ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’ پنجابی وچ گلزار نامے‘‘ پر تھیسس لکھ کر ایم فل پنجابی کیا۔ ڈاکٹر احسان اللہ طاہرؔ آپ کے نگران مقالہ تھے۔
۱۹۹۶ میں آپ کی شادی ہوئی آپ کی زوجہ محترمہ کا نام نرگس بی بی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ۶ بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا فرمایا۔آپ کی والدہ ۱۹۸۹ میںآپ کی والدہ انتقال فرماگئیں جو چک ۶۴۴ گ ب جڑانوالہ میں مدفون ہیں اور ۲۰۰۰ میں والد صاحب انتقال فرماگئے جو پسرورشہر کے شاہ ببن قبرستان میں مدفون ہیں۔
عاشق علی فیصل کو شاعری کا شوق ۱۹۸۸ میں پڑا جب انہوںنے گھر میں پڑی ہوئی ہیروارث شاہ، احسن القصص،دائم اقبال دائم،ہدایت اللہ کی کتابیں نورنامے اور ہدایت نامے پڑھ لیں۔شاعری میں رفاقت حسین ممتاز سے اصلاح لی۔ ۱۹۹۰ میں پنجابی محقق اور استاد پروفیسر داکٹر ریاض شاہد سے ملاقات ہوئی جنہوں نے آپ کو پنجابی شاعری کی طرف لگا دیاعلم عروض بشیر باوا،اور غلام مصطفیٰ بسمل نے سکھایا۔۳۰ چک میں وارث علی وارث کی وساطت سے ۲۰۰۵ سےغزالی سکول اڈا پل ۹۳ میں پڑھانے لگے بعد ازاں ۲۰۰۹ میںوارث علی وارث ان کو اپنے گائوں چک ۳۰ گ ب کے غزالی سکول میں لے آئے پھرآپ نے وہیں مستقل رہائش اختیار کر لی اور آج کل آپ اپنے گائوں کے امام مسجد ہیں اور یہ وراثت انہیں اپنے پھوپھا مولوی نور محمد سے ملی جو ترگڑی شریف میں امام مسجد تھے ان کے بیٹے ماسٹر عبدالرشید بھی امام مسجد ہیں اور ان کا بیٹا طارق محمود آکاش افسانہ نگار ہے ’’ پیار کی برکھا ‘‘ ان کا افسانوی مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔
عاشق علی فیصل کی تنظیمی اور صحافتی خدمات بہت زیادہ ہیں آپ نے مشتاق قریشی کی سربراہی میں ادبی دائرہ پسرور قائم کی۔آپ نے رفیق باجوہ کے ہفت روزہ اخبارصدائے عام پسرور میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی کام کیا۔بچوں کے مہینہ وار رسالہ پکھیرو میں بھی اشرف سہیل کے ساتھ بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر کام کیا جڑانوالہ سے پنجابی کا خوبصورت ماہنامہ ’’ کوک ‘‘ نکالا۔آپ نے لاہور، شیخوپورہ،کھوج گڑھ للیانی قصور میں بطور ریسرچ سکالر اور لائبریرین بھی کام کیا۔
آپ کے ہم عصر اور قریبی ساتھیوں میں وارث علی وارث،ریاض احمد خلجی،ڈاکٹر طارق آکاش سیالکوٹی،شاہد عمران ثمر،خالد فرہاد،خالد محمود عاصی، پروفیسر علی اعجاز،ڈاکٹر اکبر غازی اور محبوب سرمدشامل ہیں۔جن مشہور ادیبوں سےقریبی رابطہ رہا ان میں غلا م مصطفیٰ بسمل، رئوف شیخ، جمیل احمد پال، الیاس گھمن،شبیر احمد قادری، ، امین خیال،ڈاکٹر جگتار،غفور درشن،غفور شاہد، شوکت علی قمر، دلشاد چن،نور محمد کپور تھلوی، بری نظامی،منظور عباس ازہر،ناز خیالوی،رفاقت ممتاز، پروفیسر عظمت اللہ خان،ستنام سنگھ مانک،ہر بھجن سنگھ ہندل شامل ہیںجن کی دو کتابوں کا انتساب ان کے نام ہے۔
ان کی پنجابی شاعری کی کتاب ’’ لکیراں ‘‘ شائع ہوکر بے پناہ داد وصول کر چکی ہے جس پر انہیں متعدد ایوارڈز بھی مل چکے ہیں
اب اللہ کے فضل و کرم سے وہ نعتیہ مجموعہ ’’ گلزارِ مدحت ‘‘ شائع کر رہے ہیں ۔عاشق علی فیصل نے مسجد کے پاکیزہ ماحول میں منبر و محراب کی مطہر فضا میں نعت رسول کہی ہے ان کی نعت میں تقدس ہے۔ تطہیر ہے پاکیزگی ہے۔اس میں انہوں نے درس قرآن دیتے ہوئے اور قرآن پاک کی تعلیم وتدریس سے حدیث کے مطالعہ سے نعت رسول مقبول ﷺ کا خمیر اٹھایا ہے۔ نعت سراسر عطائے رسول ہے عطائے رحمان ہےنعت شہِ دیں ﷺکی عطا سے واسطہ ہے یہ ان کی کرم فرمائیوں کا سلسلہ ہے۔ وہی عطائوں کے خزینے نعت کی صورت میں عطا فرماتے ہیں ۔وہ عجز سے نعت کہتے ہیں عجز ان کی نعت میں زور بیان پیدا کرتا ہے
رواں قرطاس پر ہوتا ہے فیصلؔ عاجزی سے جب
قلم میرا عقیدت میں بڑا مشاق ہوتا ہے
بارک اللہ کی ردیف میں انہوں نے بہت خوبصورت اشعار نکالے ہیں
ارادت کے سہارے بارک اللہ
نظارے خوب دیکھے بارک اللہ
ثنا جب بھی مدینےمیں سنائوں
فرشتے بھی یہ بولے بارک اللہ
نعت اسوہ رسول پاک کو اپنانے کی ترغیب دیتی ہے۔ ان کی نعت صرف شاعری ہی نہیں بلکہ نعت برائے تبلیغِ دین ہے۔ محبت رسول ﷺ اطاعتِ رسول ﷺ کا نام ہے۔ اتباعِ خیرالانامﷺ ہے
مختص ہے اس کے واسطے فردوس میں محل
کرتا ہے اتباع جو شاہِ انام ﷺ کی
ہر گھڑی ہو خیالِ طاعت بھی
نعت قرطاس پر جو نازل ہو
نعت ان کے لئے درود کا درجہ رکھتی ہے اور نعت رسول مقبول ﷺ اردو کا درود سمجھ کر پڑھتے ہیں۔دل میں جب حبِ رسولﷺ مہکے تو نعت کا ظہور ہوتا ہے۔نعت سوچنے سے ہی سرور حاصل ہوجا تا ہے اور یہ فیصلؔ کا تجربہ ہے۔
ارے فیصلؔ درودِ نعت ہی سے
ملا کرتی دلوں کو راحتیں ہیں
دل میں حبِ رسولﷺ مہکے تو
نعت کا پھر ظہور ہوتا ہے
درود شریف ان کا حرزِ جان، ان کی عبادتوں کا مغز اور ریاضتوں کا عظیم وظیفہ ہے درود کے بغیر ہر عبادت ہر ریاضت ادھوری ہے
اگر رختِ سفر ہو بس درودی
تو رستہ اور بھی آسان ہوگا
درود طہارتِ دل کا ذریعہ ہے اور حاضری و حضوری طیبہ کے لئے ایک ضروری رختِ سفر ہے۔درودی فضائیں دل سے واہمے دور کرتی ہیںدعا کے مستجاب ہو نے کے لئے درود شرطِ اول ہے۔ درود فیصلؔ کی نعت کا لازمہ ہےان کے کلام میں جگہ جگہ ذکرِ درود ملتا ہے
جانا ہو جب بھی طیبہ تو لازم ہے عاشقو
دل کی درود سے ہو طہارت ہر ایک بار
کیوں نہ ہو مستجاب پھر فیصلؔ
جب دعا میں درود شامل ہو
عاشق حسین فیصلؔ کی نعت کا ایک اور اہم پہلو حضورﷺ کا امتی ہونے کے شرف کا بیان ہے وہ اس پر متعدد اشعار کہتے ہیں یہ بات باقی نعت گو شعرائے کرام میں نہیں ملتی لیکن فیصلؔاس بات کو خاص طور پر اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں کہ حضورﷺ کا امتی ہونا بہت بڑے اعزاز کی بات ہے اور یہ کوئی معمولی شرف نہیں ہے جو ہمیں حاصل ہے۔ اس شرف پر ہم امتی جتنا بھی شکرِ خدا ادا کریں کم ہیں اس شرف کی تمنا تو تمام انبیا ئے کرام نے بھی کی ہے
مجھے حاصل ہے نسبت امتی کی
بڑا اونچا یہ فیصلؔ مرتبہ ہے
ہے فیصل ؔ امتی الحمد للہ
نبیﷺ سے اپنے رشتے بارک اللہ
اک حوالہ جس سے فیصل ؔ معتبر ہے ہر خیال
ہے تعلق امتی کا صاحب ِ لولاک ﷺ سے
نسبتیں امتی کے کام آئیں
نسبتوں پہ وہ ناز فرمائے
ثنا ان کے لئے تحائف کا درجہ رکھتی ہے جو دربارِ رسولﷺ سے آتے ہیں ۔ اب نعت ہی ان کی پہچان ہے
ثنائوں کے تحائف آرہے ہیں درِ الطاف دل پر کھل گیا ہے
ثنائے مصطفیٰ ﷺ پہچان میری مجھے پہچاننا آسان ہوگا
مدینہ ، مدینے کی گلیاں، مدینے کے صبح و شام اور مدینے کے مناظر اب ان کا مقصدِ نعت ہے انہوں نے ان کی تعریف میں جو بے ساختہ اشعار کہے ہیں وہ نہایت قابل تعریف ہیں اور شاندار ہیں وہ مدینے کی گلیوں کو آیاتِ قرآنی کہتے ہیں اور انہیں زبانی یاد کرنا چاہتے ہیں
بلائیں جب مدینے میں وہ مجھ کو
کرم ہوگا بڑا احسان ہوگا
انہیں ازبر کریں گی میری آنکھیں
مدینے کی یہ گلیاں آئتیں ہیں
سوالی اور گدا بن کر وہ حضورﷺ سے الطاف و عنایات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جو ان گلیوں میں مانگنے آئے وہ سلطان بن گئے جنہوں نے یہاں گدائی کی انہیں دارائی مل گئی۔ یہاں سارے جہان کی بادشاہی خیرات میں ملتی ہے۔
ادھر آئی سوالی روز لاکھوں
جو آیا اس کا کاسہ بھر گیا ہے
دیکھا ہے کوئے سرورِ عالم ﷺ کا یہ کمال
جو بھی فقیر آئے وہ سلطان ہو گئے
تہجد سے ان کا خاص ربط ہے تہجد کا وقت قبول، دعا کا وقت ہے۔ تہجد میں مانگی گئی دعائیں پوری ہوتی ہیں۔ وہ ایک عالمِ باعمل ہیں ان کا تہجد کے وقت میں ثنائیں کہنا ان کے کام آتا ہے ۔ تہجد کا ذکربھی ان کی نعتوں میں ملتا ہے جب وہ کہتے ہیں
تہجد سے پہلے طلوعِ سحر ہے
ہوا ایسے جلوہ نما سبز گنبد
تہجد میں جگائے وہ تصور
وہ سوئے، خواب جس کو آگیا ہے
ان کی نعتوں میں ذکرِ ملائکہ بھی خاص اہتمام سے ملتا ہے۔وہ اپنی ثنائوں میں نوریوں کا ذکر خاص احتیاط سے کرتے ہیں
جھکتے ہیں سلامی کو وہاں نوری بھی آکر
اک ناز سراپا ہے مدینے کا حرم
فرشتوں کی قطاروں میں کھڑا ہوں
مدینے میں جو اترے بارک اللہ
جہاں جبریلؑ نہیں آتے اجازت کے بغیر
اسی دہلیز کا ماتھے پہ نشاں چاہتا ہوں
سبز گنبد کے نوری تذکرے کے بغیر نعت مکمل نہیں ہوتی۔ فیصلؔ کی نعتوں میں بھی ذکرِ سبز گنبد خاص عقیدت و احترام سے ملتا ہے۔سبز گنبد ان کے شوق کی انتہا، مرکزِ لطفو عطا، ایک جلوہ نما،اور ان کا آسرا بن کر سامنے آتا ہے ۔ سبز گنبد چاندنی کا مرکز ہے روشنی کا محور ہے
سبز گنبد کی چاندنی مہکے
یادِ سرکارﷺ کو بکو ہو جائے
تمنا ہے فیصل ؔ یہی مدعا ہے
دکھائے سبھی کو خدا سبز گنبد
آنکھوں کو میری قندِ مکرر عطا کریں
نظارہ ہائے گنبدِ اخضر عطا کریں
خوشبو حضورﷺ کی پسندیدہ ترین تین اشیا میں سے ایک ہے۔ فیصلؔ نے اپنی نعتوں میں خوشبو کا ذکر بھی کیا ہے اور بڑی عقیدت سے کیا ہے۔
لوبان کی خوشبو سے مہکتا ہے وہ دل
جس دل میں سماتا ہے مدینے کا حرم
جا کے دیکھیں نبیﷺ کی مسجد میں
لمحہ لمحہ عطور ہوتا ہے
عنبریں عنبریں فضائیں ہوں
دل ثنائوں کاایسے حامل ہو
اشکِ رواں اور اشکِ ندامت عاصیوں کی متاع رہے ہیں نعتیں ہوں ذکرِ اشک نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے عشاق کے الفاظ اشکوں کی صورت ادا ہوتے ہیں جہاں الفاظ ساتھ چھوڑ جائیں وہاں اشک اظہاریہ بن کر سامنے آجاتے ہیں سرکارِ دوعالم ﷺ کواشکوں کی زبان بہت پسند ہے۔ عاشق علی فیصلؔ کی نعت میں بھی آنسوئوں کی جھڑیاں پھولوں کی لڑیاں بن کر ظہور پذیر ہوئی ہیں
نطقِ فیصلؔ نہ طبیعت پہ گراں بار رہے
ترجمانی کو فقط اشکِ رواں چاہتا ہے
رات جب بھیگتی ہے اشک رواں ہوتے ہیں
یہ حقیقت ہے وہی وقتِ دعا ہوتا ہے
روبرو میرے گنبدِ خضریٰ
آنکھ بھی شبنمی سی ہوتی ہے
فیصلؔ کا جذبہ، لہجہ، اور حسنِ بیاں مودب ہے وہ انتہائی ادب سے نعت کہتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ خدایا میرا حسنِ بیاں ادب سے بھرپور ہو۔وہ نعت رسول مقبول تمام رعنائیون کے ساتھ لکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا تحفہ بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں منظور ہوجائے۔
کوئی خامی، کوئی کوتاہی نہ باقی رہ جائے
ان ﷺ کی تعریف میں یوں حسنِ بیاں چاہتا ہے
مرا جذبہ، مرا لہجہ ہوں وفا کے مظہر
جس میں ملحوظ ادب ہو وہ فغاں چاہتا ہے
جذبے مرے لہجے کی سفارش بن جائیں
خاموش بیانی کو شناسائی عجب ہے
ان کی نگائیں نقوشِ پائے مصطفیٰﷺ پر جمی ہیں وہ ہر لمحہ اپنی نظریں ان راستوں پر جمائے رکھنا چاہتے ہیں جہاں جہاں سے حضورﷺ گزرے ہیں۔وہ راستے ہجرت کے ہوں یا معراج شریف کے شاعر کی نظر ان پر جمی ہوئی ہے۔بدر اور احد کی راہوں سے گزر منزلِ مدینہ ملتی ہے۔
جدھر سے قافلہ ہجرت کا گزرا
انہی رستوں پہ چلتی ہیں نگاہیں
بدر کی راہ سے گزریں احد کی منزلیں دیکھیں
مدینے میں پہنچنے کا بھی استحقاق ہوتا ہے
معراج کا واقعہ نعت گو شاعروں کو تخیلاتی طور پر بہت ثروت مند کرتا ہے یہ سب کاسب واقعہ مضامینِ نعت سے لبریز ہے فیصلؔ نے بھی واقعہ معراج سے استفادہ کیا ہے اور شاندار اشعارِ نعت کہے ہیں۔
ہروقت ہی آمادہ ٔ پرواز ہے فیصلؔ
معراجِ تصور کا تماشائی عجب ہے
خوب فیصل سکھائیں گے پرواز
بے پروں کو جو پر لگاتے ہیں
نظر میں ہر گھڑی رکھیں وہی معراج کی راہیں
وہ منظورِ نگاہ، خالق و خلاق ہوتا ہے
نبیﷺ کا ا سمِ گرامی کا ورد ہے وہ اسے ایک ذکر کی صورت جپتے ہیں ۔ صلِ علیٰ ان کاصبح و شام کا وظیفہ ہے جو انہیں تمام مشکلات سے بچاتا ہے۔ ان کا حجلہ جاں وردِ اسمِ محمدﷺ سے بقعہ نور بن گیا ہے
وہ اسم کہ اوراد میں شامل جو سدا ہے
فیضان عطا ہو کہ تمنائی عجب ہے
وردِصلِ علیٰ کریں تو پھر
حوصلے اپنے دل میں پاتے ہیں
جب پڑی مشکل رہا وردِ زباں صلِ علیٰ
ورنہ بن پڑتا نہ تھا کچھ اس دلِ صد چاک سے
انہوں نے نہایت خوبصورت ردیفیںتخلیق کی ہیں ۔ ان کی ردیفوں میںروضے پر،سے کہنا ہے، تک آگیا ہوں ،قسمت ہے،آقاﷺ،ہونا ہے، دیتا رہے،میں آئیں،میں ہیں،جبریل ؑ کے مہبط پر،ہے گرویدہ،لے جا، نرالے،ہے گرویدہ،لے جا،حرم کی طرف،میں رہتے ہیں،ہوتا ہے،بارک اللہ،دیارِ حبیبﷺ میں،کچھ اور ہوتی ہے،دی جائے،کے انداز،ہوئی ہے،کرتا ہے،ہوجائے،کرتا ہے، سبز گنبد،ہے مدینے کا حرم،چاہتا ہوں ، ہر ایک بار،ہوگئے،عطا کریں ،عجب ہے، شامل ہیں نہوں آسان اور سہل ممتنع میں لکھا ہے۔سلیس اور رواں زبان میں آسان فہم الفاظ ، سادہ مفاہیم کے ساتھ نعت کہی ہے تاکہ عوام الناس کی سمجھ میں ان کی بات آسکے۔
ان کے قوافی بھی منفرد ہیں، آرائی، پذیرائی، تمنائی، تماشائی، افلاک، پوشاک،ادراک،خاشاک، نمناک،صدچاک، شہپر، بوذر، محشر، اخضر،قندِ مکرر،سامان، مہمان، سلمان،فاران،طبیعت، طہارت، مہارت،لطافت،حکایت،نہایت،سحر، معتبر،سربسر،ہنر،خواہ، نگاہ، شاہ، پناہ، مہروماہ،واہ واہ ، چاہ،صباحت، صحت، شدت، حلاوت،رنگ و بو، نمو، آرزو،کوبکو،یقیں ، امیں ، وہیں،بہتریں، دل نشیں،انداز، ہمراز، دمساز،شہباز، جاں باز،شب، عرب، ڈھب،طرب،ادب ، سبب،ساحل، دل، منزل،بسمل،قابل، حاصل،محفل،ان کے علاہو انہوں نے مشاق، استغراق،میثاق،شاق،استحقاق، خلاق،اوراق جیسے مشکل قافئے بھی بڑی سہولت اور خوبی سے نبھا دئے ہں اور ان میں نہایت عمدہ اور منفرد مضامین ادا کئے ہیں ۔مردف نعتوں کے علاوہ انہوں نے غیر مردف نعتیں بھی کہی ہیں ان میں بھی انہوں نے ادبی چاشنی کا خیال رکھا ہے۔
حضورﷺکا انعامِ شفاعت حاصل کر نے کے لئے ہم کو پابندِ وفا ہونا ہے۔جب لمعہ ٔ عرضِ تمنا روشنی دیتا ہے تو دل ارضِ طیبہ میں حاضری دیتا ہے۔
لمعہ ٔ عرضِ تمنا روشنی دیتا رہے
ارضِ طیبہ میں مرا دل حاضری دیتا رہے
اس شعر میں جہاں لمعہ ٔ عرضِ تمنا جیسی گراں پایہ ترکیب سازی ہوئی ہے وہاں عرض اور ارض کے استعمال سے صنعت بھی استعمال ہوئی ہے ایسا یقینا بے ساختہ ہوا ہے ۔ محوِ حسنِ منظرِ فاراں جیسی خوبصورت ترکیب بھی فیصل کے ذہنِ رسا کی تخلیق ہے
انہوں نے نہایت عقیدت و احترام اور قرینے سے نعت کہی ہے۔ میں انہیں ’’ گلزارِ مدحت ‘‘ کی شاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں
ریاض احمد قادری
Aftab Ahmad Butt رنگ گھُل گئے کتنے زیست کی کہانی میں
چوم لی ہتھیلی جب اس نے بے دھیانی میں
__ڈاکٹر شبّیر احمد قادری ” کتب مینار”کے َعنوان سے ” گلزار مدحت” کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ عاشق علی فیصل ادبی رسائل ” رویل ” ، ” میٹی ” ، ” ساہت ” اور ” صداے عام ” کی مجلس صدارت کا حصہ رہے ہیں۔ اپنا ایک رسالہ ” کوک” کے نام سے شائع کر رہے ہیں ، اس پنجابی رسالے کا اجرا 1993 ء میں کیا ۔ وہ رویل ادبی اکیڈمی ، جڑانوالہ کے نگران ہیں ۔” ماں کی توجہ اور اساتذہ کی مہربانی کی وجہ سے انہیں مسجد میں اذان پڑھنے اور کبھی کبھار نعت سنانے کی سعادت بھی مل جاتی ۔ زبان کی لکنت یا توتلا پن نہ اذان میں رکاوٹ بنتا ، نہ پڑھنے میں ۔ ان کے ابا جی ان کے شوق کو دیکھتے ہوۓ انہیں اعظم چشتی ، عبد الستار نیازی اور صائم چشتی کے نعتیہ کلام لا کر دیتے ۔ الغرض نعت پڑھنا اور سننا انہیں اچھا لگنے لگا ۔
ڈاکٹر احسان اللہ طاہر دیباچے میں ایک مقام پر لکھتے ہیں : ” عاشق علی فیصل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے تعلق ، نسبت اور دامنِ کرن وابستگی کے رشتے کو بڑے فخر سے بیان کیا ہے ۔ وہ ہر وقت در رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں اور درودی جذبوں ، نغموں اور اپنے اندر روح و دل میں محفل نعت سجاۓ نظر آتا ہے ۔ اس کے خیال میں فہم و فراست رکھنے والا بس وہی شخص ہے جو اپنے آپ کو دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نعت کہتا ہوا ، نعت پڑھتا ہوا اور نعت سنتا ہوا رکھے اور محسوس کرے ۔ موصوف کی شاعری میں قرآن پاک کی سورتوں کے نام بڑی خوبصورتی سے استعمال میں آۓ ہیں ۔ ” ( ” عاشق علی فیصل کا اردو نعت میں نقش اولیں ” گلزار مدحت ” ” ، (ص 10 ) ،
سید اعجاز حسین عاجز نے عاشق علی فیصل کو ہدیہ تبریک پیش کیا ہے .” انہیں قبیلہ حضرت حسان میں شمولیت نصیب ہوئی ۔ ” گلزارِ مدحت ” ان کا پہلا اردو مجموعہ نعت ہے جو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے والہانہ عشق و محبت کا مظہر ہے ۔ ” ( ص 13 ) ،
پروفیسر ریاض احمد قادری کے مطابق : ” فیصل کا جذبہ ، لہجہ اور حسن بیاں مودب ہے ۔ وہ انتہائ ادب سے نعت کہتےہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ خدایا میرا حسن بیاں ادب سے بھرپور ہو ۔ وہ نعت رسولِ مقبول تمام رعنائیوں کے ساتھ لکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا تحفہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں منظور ہو جائے ۔۔۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اسم گرامی کا ورد ہے ۔ وہ اسے اپنے ایک ذکر کی صورت جپتے ہیں ۔ صل علی ان کا صبح و شام کا وظیفہ ہے جو انہیں تمام مشکلات سے بچاتا ہے ۔ ان کا حجلہ جاں ورد اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بقعہ نور بن گیا ہے ۔ ” ( ” عاشق علی فیصل کا گلزار مدحت ” ، (ص 26-27 ) ،
ڈاکٹر ارشد اقبال ارشد لکھتے ہیں ۔” عاشق علی فیصل کا یہ مجموعہ شائع کرتے ہوۓ مجھے اپنے بابا جی کی بہت یاد آرہی ہے کیونکہ جس طرح وہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کر نعت کہتے تھے ۔ جیسے ان کی نعتیہ شاعری میں ذکر مدینہ پایا جاتا تھا ، فیصل نے بالکل وہی انداز اختیار کیا ہے ۔ محبت ، عقیدت ، عاجزی ، انکساری اور چاہت سے لبریز یہ نعتیں پڑھتے ہوئے قاری کے دل میں عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات واحساسات پیدا ہونا ایک نعت گو شاعر کی کامیابی بھی ہے اور اعزاز بھی ۔ “