سید انجم معین بلے جن کا تعارف اس خوبصورت نظم سے کرتے ہیں۔۔جس کا کرب یقیناَ آپ سب پڑھ کر محسوس کیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے!سید محمد انجم محمد بلے نے مصورانہ اور شاعرانہ جلوے دکھانے کے بعد فرانس یاترا لکھ کر سفرنامہ نگاری میں بھی خود کو یکسر منفرد ادیب تسلیم کروایا۔ یہ سفر نامہ بہت سے حوالوں اور زاویوں سے منفرد قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سفر نامے کا قاری سفرنامہ شروع کرتے ہی یہ راز بھانپ جاتا ہے کہ یہ کسی عام ناظر کی لکھی ہوئی منظر کشی نہیں ہو سکتی بلکہ سفرنامہ نگار نے مصورانہ بصارت سے کام لیا ہے اور فنکارانہ ذہن و قلب سے محسوس کر کے شاعرانہ قلم سے ایک شاہکار تراشہ ہے۔ مصورانہ بصارت اور شاعرانہ قلم کے کمالات قاری کو مسلسل اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں۔
ان کا تعارف اس خوبصورت نظم سے کرتے ہیں۔۔جس کا کرب یقیناَ آپ سب پڑھ کر محسوس کیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے!
🌷نظم :اِک سمندر درمیاں ہے
نظم نگار: سید انجم معین بلے
… No 1 …….
تُو وہاں کیسی ہے؟ مجھ کو ، کیا بتائے گا جہاں
کیسے تیری یاد پھیلی ، ہر گلی اور ہرمکاں
چاہتاہوں پھول بھِیجوں ،پَر تجھے کیسے وہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No. 2 ……………
غم کے بادل آگئے ہیں ، اب بھلا کیسے چھٹیں
ہجرتوں کی زد میں آکر رات دن کیسے کٹیں
فاصلوں کی مٹھیوں میں آگئی ہے داستاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No.3 …………
زندگی سے حسرتوں کا ساتھ کیسے چھوڑدیں
ہم امیدوں کے شجر سے پھول کیسے توڑدیں
دیکھو تنہا رہ گئی مونا وہاں، اور میں یہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
.No .4 ………………
مجھ کو اب تک تیرے وعدے تیری قسمیں یاد ہیں
چاہتوں کے دم سے میرے سب جہاں آباد ہیں
اب تِری آہٹ نہیں ہے ،جس سے کھولوں کھڑکیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No.5 ………………
راحتوں نے آنکھ کھولی کس طرح ہنستے ہوئے
ہر نظر پتھرا گئی ہے راستہ تکتے ہوئے
اب یہاں ملتے نہیں ہیں، تیرے قدموں کے نشاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-6…………
توگئی تو ساتھ اپنے، ہر خوشی ہی لے گئی
وقت کی دہلیز پر اک نا اُمیدی دے گئی
بے بسی سے دیکھتا ہوں میں زمین و آسماں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-7………
وہ گئے دن کی مسافت ساتھ چلنے کا جنوں
ایک لمحے کی جدائی ، چِھن گیا میرا سکوں
رہ گئی ہیں ساتھ تیری یاد کی پرچھائیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-8…………
برتھ ڈےمونا مبارک ،اے مِری جان ِ وفا
اب اگرچہ کٹ گیا ہے گفتگو کا سلسلہ
سب درو دیوار ،آنگن ہوگئے ہیں بے زباں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-9…………
ہر مسرت، ہر خوشی ، ہر اِک تمنا ،آرزو
ناامیدی کے سفر میں کھوگئی ہے جستجو
دوریوں میں کھو گئی ہے زندگی کی کہکشاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-10……………
میں نے سوچا ہی نہیں تھا اس طرح ہوجائے گا
سارا رستہ دو قدم کے بعد ہی کھو جائے گا
چہچہاتے گلستاں میں، ایک سونا آشیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-11…………
لمبی شامیں رہ گئی ہیں میرے جلنے کے لیے
دن ملے ہیں مجھ کو اب تو ہاتھ ملنے کے لیے
مولا ، کتنا رہ گیا ہے ؟ زندگی کا امتحاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-12………………
اک تڑپ رہتی تھی تجھ کو مجھ سے ملنے کے لیے
ہمسفر جس کو چنا تھا ساتھ چلنے کے لیے
اب تو تیری یاد میں ہی بس رہا ہےیہ جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-13……………
پھول پتے چاند تارے یاد کرتے ہیں تجھے
راستوں کے پیڑ سارے یاد کرتے ہیں تجھے
تیری یادیں، تیری سوچیں، تیرے سپنے جان ِ جاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-14…………………
تیری جانب قافلوں کا راستہ چلتا نہیں
جاگنے تک یاد کا سورج کبھی ڈھلتا نہیں
اب فضا میں پھیلتا ہے ناامیدی کا دھواں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-15……………
میرے سر سے دور ہے اب راحتوں کا سائباں
دیکھ کر کیسےمیں چلتا تیرے قدموں کے نشاں
آرزوئیں کر رہی ہیں میرے دل کی دھجیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-16…………………
نقش ہے دِل پر مِرےعمّار کی ایک ایک بات
دورہےوہ مجھ سے پر،اب بھی ہے میرے ساتھ ساتھ
اُس کی یادوں کے اُجالوں سے ہے روشن یہ مکاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-17………………
ساتھ وہ تنہائی میں ہے،راز کی یہ بات ہے
لگتاہے کہ ہر قدم پر میرا بیٹا ساتھ ہے
فاصلوں میں قربتیں ہیں ، قُربتوں میں دُوریاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-18………………
مونا اور عمّار دونوں ہی اَثاثہ ہیں مِرا
رشتے تو باقی رہے ، ٹوٹا رہا پَر رابطہ
بے سہارا کھینچتا کیسے؟ وہاں تک بادباں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-19………………
مونا اور عمار بے شک ہیں مِرےگھر کے مکیں
دنیا والوں کو مگر ، دونوں نظر آتے نہیں
دَم قَدم سے ان کے ہی آباد ہے میرا جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-20……………
رب العزّت تجھ سے میری ایک یہ بھی ہےدُعا
رکھنا اِن پرگرمیوں کی دھوپ میں سایہ گھنا
میں کہوں پر تُو یہ مت کہنا اے ربّ ِ دو جہا ں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-21…………
کیا کہو ں عمار کی ہر اِک شرارت یاد ہے
مونا نے جتنی لُٹائی ہے محبت یاد ہے
میں بھی جی اُٹھتا ہوں اب تو یاد کرکے شوخیاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-22……………………
عید اور تہوار بے شک ، اب بھی آتے ہیں مگر
پیار میں کرتا ہوں جن سے، وہ نہیں آتے نظر
کس سے پوچھوں دور کیسے ہوں مِری تنہائیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-23………………
دیکھئے ، توجابسے ہیں دونوں مجھ سے کوسوں دور
موناہے دل کاسکوں ، عمار ہے آنکھوں کا نور
ختم کب ہوں گی ، خدا جانے مِری بے تابیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-24…………………
گھر کادروازہ کھلا رکھتا ہوں اکثر رات بھر
ملنے کو شاید چلے آئیں وہ ، مجھ سے اپنے گھر
عید سے پہلے ہی ہوگا ، عید کا گھر میں سماں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-25……………
جب بھی ہو ممکن چلے تم آؤ ، دونوں میرے پاس
کہہ رہی ہے میری آنکھوں کی نمی، دل ہے اداس
دور ہوسکتی ہیں ، یہ دونوں طرف کی دوریاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-26………………
مونا اور عمار کا رہتا ہے ہر دَم انتظار
جاچکا پت جھڑ ، نظر آنے لگے رنگ ِ بہار
تُم بھی لوٹ آؤ تو اب لوٹ آئیں گی رعنائیاں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No-27……………
دور ہو نظروں سے یوں دیدار کرسکتا نہیں
پیار تو کرتاہوں میں ،اظہار کر سکتا نہیں
کیا کہوں ؟ ہے بے زبانی جان ِ من میری زباں
ِاک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No… 28 ……………
دُوریاں تو مجھ سے ہوسکتی نہیں مولا ، عبور
بخش دے میری خطائیں اے مِرے رب ِ غفور
پھر سے تُوآباد کر دے ، یہ مِرا اُجڑا جہاں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No… 29 ………………
ہے سمندر پار انجم میری منزل کا نشاں
سامنے ہیں مونا و عمّار ، ملتے ہیں کہاں
ہوگیا ہے کارواں سے دور میر ِ کارواں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
No… .30 …………
ہے سمندر میں سفینہ ، دور تک ساحل نہیں
مولا تُندو تیز موجیں تو مِری منزل نہیں
ا لامان و الحفیظ ُ ، الحفیظ و الا ماں
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
نظم نگار: سید انجم معین بلے
نوٹ: اپنی لائف پارٹنر میمونہ المعروف مونا اور اپنے بہت پیارے بیٹے بلکہ میری آن ، بان ، شان ، جان اور پہچان عمار کی یاد میں چند آنسو ، جو ایک نظم کی صورت میں آپ کے سامنے آئے ہیں ۔۔ اک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں ۔۔ یہ میں نے لکھا اور سوچا ضرور لیکن کبھی عمار اور مونا کو خود سے دور نہیں جانا ، یہ دونوں میرے دل میں دھڑ کتے ہیں ۔ میری اس نظم میں بھی آپ نے میرے دل کی دھڑکنیں ضرور سنی ہوں گی کیونکہ میں نے صرف شاعری نہیں کی بلکہ اپنے احساسات اور دلی جذبات کو زبان دی ہے۔۔۔۔ سید انجم معین بلے
🌷یہ نظم ایک احساس ہے۔ایک کرب ہے،ایک پکار ہے ایک درد ہے تڑپ ہے۔ایک خلا ہے،جدائی کا خار سوزن ہے جو مستقل چبتا ہے۔تو کہیں یادیں خوشی کا لبادہ اوڑھ لیتیں ہیں۔اور وہ لمحہ جو گزر چکا وہ حال میں موجود ہوتا ہے جس میں بچھڑے لمحے زندہ ہوتے ہیں اور ان لمحوں میں سب ساتھ ہوتے ہیں۔ یہ نظم دراصل زندگی کا فلسفہ ہے
دکھ یہ ہے میرے یوسف و یعقوب کے خالق
وہ لوگ بھی بچھڑے جو بچھڑنے کے نہیں تھے ہم سے ایسے ایسے انمول ہیرے جدا ہوگئے اور دل سے آہ نکلتی رہ گئ ۔
درمیان میں ایک سمندر حائل ہو جاتا ہے۔۔ہم تڑپتے ہیں بلکتے ہیں ان انمول دنوں کو یاد کرتے ہیں جو زندگی کا سرمایہ ہے۔۔لوگ کیوں بچھڑتے ہیں ،کیوں دور چلے جاتے ہیں کیوں ان کے جانے کے بعد دل بیقرار رہتا ہے۔
اس نظم کی کیفیت کو محسوس کریں تو ہر کوئی اپنے درد کو بھی محسوس کریں گے۔
🌷آئیے اب سید محمد انجم معین بلے کی پروفائل کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ہم منظر کے ساتھ ساتھ پس منظر کے بارے میں بھی کچھ جان سکیں
نام :۔ سید محمد انجم معین بلےوالد کا نام :۔ سید فخرالدین بلے والدہ کا نام : مہر افروز بلے
بہن بھائی۔ اسمائے گرامی بالترتیب :۔ عذرا کمال ۔ سید انجم معین بلے ۔ اسما رضوان ۔ سید عارف معین بلے ۔ آنس معین ۔ ناز اظہر ۔ سیدہ آمنہ آصف چشتی ۔ ظفر معین بلے جعفری۔
مقام و تاریخ ولادت :۔لاہور۔ 3۔ نومبر 1955۔
تعلیم :۔ ایم۔ اے اردو۔آغاز مصوری :۔ 1970۔
آغاز شعر گوئی:۔ 1971۔اصناف سخن :۔ غزل اور نظم
مزاج کے اعتبار سے مشاعروں میں شرکت سے گریزاں ضرور رہے اور ہیں لیکن سلسلہ شعر و سخن بدستور جاری ہے۔
منتخب کلام :۔ مختلف ادبی رسائل و جرائد کے علاوہ انتخاب کلام، منتخب غزلیات اور سخنوروں کے انتخاب میں سید محمد انجم معین بلے کا کلام بھی شامل ہے۔
آغاز ملازمت :۔ 16۔ مارچ 1981 ادارہ :۔ پنجاب آرٹس کونسل۔
تعیناتی بحیثیت پروگرام افسر ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر : —— ملتان۔ بہاولپور۔ فیصل آباد۔ سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسلز میں خدمات انجام دیں
غیر ملکی سفر :۔ دبئی اور فرانس
فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے خدمات۔ 35۔ برس سے زائد عرصے پر محیط ہیں : ——- پنجاب آرٹس کونسل کی ڈویژنل شاخوں بہاولپور۔ سرگودھا۔ فیصل آباد۔ راولپنڈی۔ ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں بحیثیت پروگرام افسر / اے۔ ڈی/ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر خدمات انجام دیں۔
سفر نامہ نگاری: ————- فرانس یاترا کی شکل میں ایک خوبصورت سفرنامہ سامنے آیا۔
صحافت :۔ شعبہ ٔ صحافت سے وابستگی بھی کم و بیش پچیس تیس برس جاری رہی۔ انگریزی اور اردو اخبارات سے وابستگی کے ساتھ ساتھ رسائل و جرائد سے بھی اہم تعلق برقرار رہا۔
بحیثیت ریزیڈینٹ ڈائریکٹر :
بہاولپور، سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان آرٹس کونسلز میں بحیثیت ریزیڈینٹ ڈائریکٹر قابل ذکر خدمات انجام دیں
ریٹائرمنٹ :۔ 2۔ نومبر۔ 2015۔
ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل طور پر سکونت ملتان میں اختیار کر رکھی ہے۔
سید محمد انجم معین بلے صاحب کی ایک غزل سے چند اشعار
غزل۔ سید انجم معین بلے
غم کی فصلیں اگ جاتی ہیں کاٹیں گے ہم خوشیاں کیسے
اجیارے کو ڈس جاتی ہیں مایوسی کی رتیاں کیسے
ہر اک چڑیا اڑ جائے گی گھر کے پھیلے آنگن سے
تنہائی کے ڈیروں میں ہم ڈھونڈیں گے وہ سکھیاں کیسے
دن ڈھلنے کے سارے موسم آنکھ میں پنہا رہتے ہیں
بیٹھ کے خالی دروازے پر یاد کروں وہ گلیاں کیسے
جو سردی کی راتوں میں تھی ہم دونوں کی سرگوشی
لیٹ کے تنہا بستر پر میں یاد کروں وہ بتیاں کیسے
وعدے کرنے والے اب تو پاس نہیں ہیں جو پوچھیں
ہم تو خود سے پوچھ رہے ہیں چار ہوئیں تھیں انکھیاں کیسے
رفتہ رفتہ پھیل رہی ہے ویرانی گلدانوں میں
دھیرے دھیرے جھڑ جاتی ہیں پھولوں سے یہ پتیاں کیسے
آئیے شاعر شب میں آج کی شب نام کرتے ہیں سید محمد انجم معین بلے کے اور سجاتے ہیں آج کی شب ان کی شاعری سے
میری طرف سے ان کی اس نظم کا منظوم ترجمہ انگریزی زبان میں
نظم نگار: سید انجم معین بلے
منظوم ترجمہ : محترمہ تعبیر علی
An Ocean In The Amidst
Poet : Syed Anjum Moeen Balley
Translation By : Mohterma TaBeeR ALi
… No 1 …………… …………
Who shall tell me, how do you do Over there
Then how I shall get to know that your remembrance has been prevailed by every nook and cranny of people’s lives .
However I want to send you the flowers , but to where ?
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
No. 2 ………………………………………………….
The clouds of grief are prevalent by, then how it will be pass by.
How the days and nights get ended up, after being clenched migration.
All the myths have got now in the clutch of distances
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
No.3 ………………………………………
Is this possible to get rid of the aspirations from life
Or is it possible to pluck off the flowers from the trees of expectations.
Look at the desperate Mona , she remained all alone over there and I am in here .
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
.No .4 ………………………………………
Still you have been on my mind and your promises and swears too .
Therefore all this universe has settled down from the power of this love too
So there is no utterance of yourself , as to which I could open the casement
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us.
No.5 ………………………………………….
The happiness opened its eyes while aiming at making laugh
It made every eye to be confused, while chasing the road pathway
Even it could not be found the mark of yours footprints.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us
No-6…………………………………………….
You have taken away all the happiness with yourself after you moved down.
Besides, gave me a constant disappointment on the cusp of the moment.
And now I feebly look at the sky and earth.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us
No-7……………………………………………
After awaited the energetic past days or the enthusiasm of having together in the past.
In fact this separation for a little while, that all have left me and my peace solely bereaved.
And now what I am nothing but a mere and only Shadow of an untold reminiscence.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us
No-8…………………………………………
Many greetings on your birthday Mona, my beloved!!
Now as if the live contact has got disconnected in between us.
And all the walls and yards have become noise less yet.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
No-9………………………………………………
All the pleasures and blissfulness, and all the longings and yearnings,
And above all else the striving have lost forever on the voyage of distressness.
Or the cluster of life has vanished all in between, because of the separation.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us
No-10…………………………………………….
I don’t even think that it would happen to me like that.
Or probably it would loose all in the mists of time.
There are chattering orchards and a silent lodge all in the air at present
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us.
No-11……………………………………………
There is only prolonged evenings for smouldering me
And the days are given only for repenting me.
Oh Lord , how much time has been left for this trial to be ended.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
No-12…………………………………………
Dear, you always became restive to meet me.
As you were the chosen one for always to accompanied with me.
And now it is only yours commemoration in which this world is housed.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
No-13……………………………………………
All the flowers, leaves, moon and stars are just recalling you.
Since then all the trees of that path still recall you.
Therefore, I still remember your boisterous memories , your stimulated thoughts and lasting memories.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us
No-14……………………………………………
The caravan did not find the way of course towards you.
Or the Sun of your memories didn’t set till I waked up.
Now the fumes of dismay have been disseminated out in the atmosphere.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
No-15……………………………………………
The contentment of shadow is far away from me now
Until it was hard to move on, as your footprints were set over there.
And all the aspirations have got ripped off now,
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
No-16……………………………………………
Each and every words of Ammar, has still engraved on my heart.
Although he is at distant away of me, but his appearance is still not too away.
And so the splendid light prevaild by this house through the brightness of his memories.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
No-17……………………………………………
It is confidential that he is in solitary with me.
And it seems like that my son is on every step with me.
There is nearness in farness, or remoteness in closeness .
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us
No-18………………………………………………….
Mona and Ammar , both are assets to me.
The relations remained as ever but to get through with always remained disintegrated.
It was difficult to be dragged as for the mast over there.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
No-19……………………………………………
Mona and Ammar , both are indwellers to my home .
And somehow, both are unable to be seen by this world .
So that’s why I regarded them the whole world to me.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us
No-20………………………………………………….
Almighty God, there is one more plea to you
Oh God, keep the dense tranquilization on them in this sultry journey of life .
Oh Supreme Ruler, be more kind and kindly don’t even do that,
if I would say something to harsh .
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us.
No-21………………………………………………….
What would I say now, still I remember all Ammar’s mischiefs .
Nevertheless, I remember all Mona ‘s devotion .
I do always feel in high spirit as to think over all the merriments
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us.
No-22……………………………………………
All the festivals and Eids, may certainly come .
But to whom I love , they didn’t come into sight of me.
Or to whom I "ll ask that how all these disparations will come to an end ?
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us .
No-23………………………………………………
Just look at them , the two went on for million miles away
Let me say Mona is the peace of my heart than Ammar is the beauty of my eyes
When it will get finished, all my miseries, who knows better .
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us.
No-24………………………………………………
I keep the doorway of my house open up, very often at every night.
Might be, they come to visit me, at my home
Therefore, it will be dazzled around before Eid
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us.
No-25…………………………………………
Please you both may come to me , as and when it is possible.
The damped eyes are retorting, as my heart is sorrowful.
It will be gotten abolished, the separation from both sides.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us.
No-26………………………………………………….
I am awaiting for both, Mona and Ammar, every moment, every time.
As the season of falling leaves went away or the blooming flowers are seen to be yet.
Please if you shall come back to me then all the golden enchantments will come to me.
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us
No-27………………………………………………….
So far, you are far away from my eyes, so I could not see you anymore.
I do adore you but I could not express it to you anymore.
But what could I say now, when I am quite unfathomable.
Still an Ocean is in the amidst, yet it is in between us
No… 28 ……………………………………………
Oh, the Supreme Being, now it is difficult to be wade through the distances.
Oh the Honourable Creator, please pardon me for all my errors
Oh my Lord, please do resolve this and comfort desolate world
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us.
No… 29 …………………………………………
I have got the emblem of that destination, which is Anjum , far across the sea
How could I get them , although Mona and Ammar are just before me
And now this caravan has detached from the caravan, i own
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us.
No… .30 ……………………………………
There is Vessel in the sea, and the sea shore is far away of visibility.
Oh God, the swift waves or the rough ones, they are never my destination.
Oh the Preserver or protector, Oh the Protector or Preserver .
Still an ocean is in the amidst, yet it is in between us.
اِک سمندر درمیاں ہے ، اِک سمندر درمیاں
نظم نگار: سید انجم معین بلے
منظوم ترجمہ : محترمہ تعبیر علی
An Ocean In The Amidst
Poet : Syed Anjum Moeen Balley
Translation By : Mohterma TaBeeR ALi