1990کی دہائی میں ایک چھوٹے سے ریڈیو سے بڑھ کر اور کیا تفریح ہو سکتی تھی ۔۔رات کے آخری پہر سونے سے پہلے تھکا ماندہ جسم جب ایک بینڈ کے چھوٹے سے ریڈیو کو آن کرتا تو ایک ہی آواز کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ۔۔۔پھر یہ معمول بن گیا کہ یہ آواز نہ سنی جائے تو شاید نیند نہیں آئے گی ۔۔۔۔۔ان کی پر مغز ، پر فکراور ادبی گفتگو سن کر یقینا علم و ادب میں اضافہ ہوتا تھا ۔۔اور میرا یہ مشغلہ کئی سالوں پر محیط رہا ۔ وہ نام تھا اپنے وقت کے بہترین ریڈیو کمپیر ممتاز میلسی کا ۔۔ ۔۔۔۔۔۔ممتاز میلسی کا نام ذہن کے نہاں خانوں سے کچھ ایسے چپک گیا تھا جس کو بھلانا نہ ممکن سا تھا۔وہ اپنے پروگراموں میں پاکستان کے مختلف شہروں کا سفرنامہ کی صورت میں احوال کچھ اس طرح بیان کرتے کہ لگتا کہ ہم بھی سفر میں ان کے ساتھ ساتھ ہیں ۔۔۔معلومات پہ معلومات ، شہروں کا تعارف بہت قرینے سے کرتے کہ گمان ہوتا کہ ہم بھی ان شہروں کی رونقوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ان کی باتیں سن کر مزہ آ جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر وقت کی دوڑ میں ہم اپنے تعلیمی مشاغل اور پیشہ ورانہ مصروفیات میں ایسے الجھ گئے کہ ممتاز میلسی کا پروگرام بھی بھول بھلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بینڈ کے چھوٹے ریڈیو کی ہمارے لڑکپن میں وہی حیثیت تھی جو آج سمارٹ فون کی ھے اور ہمیں خوش قسمتی سے یہ عیاشی نصیب تھی۔
چھت پہ سوتے میں رات گئے ممتاز میلسی بطور کمپئیر اپنے پروگرام کے ساتھ حاضر ہوتے اور ہم گویا ریڈیو پاکستان کے اسی سبزہ زار میں پہنچ جاتے جس کا ذکر وہ اکثر ہی کرتے تھے۔۔اپنے پروگرام میں وہ زیادہ معلوماتی باتیں کیا کرتے تھے ۔
کمپئرز کی دو اقسام ہوتی ہیں ۔ ایک جن کی گفتگو کے دوران آپ اگلے گانے کا انتظار کرتے ہیں اور دوسرے جن کی باتوں کا انتظار آپ کو گانے کے دوران رہتا ھے۔۔وہ ان میں بعد والی خوبی کے مالک تھے ۔۔
آج اچانک ان کا نام ذہن کے دریچوں میں دستک دینے لگا تو محسوس ہوا کہ ان کے بچھڑنے سے پانچ لوگ فوت ہوۓ تھے ۔۔ایک کمپئیر، دوسرا پروڈیوسر، تیسرا اسٹیشن ڈائیریکٹر چوتھا کنٹرولر اور پانچواں ہمارا لڑکپن کا دوست اور کشادہ ظرف انسان۔
ریڈیو پاکستان میں ایک زمانے میں انکا رات کو نشر ہونے والا پروگرام اسٹوڈیو بارہ بہت مقبول ہوا تھا اور وہ اپنے طور پر ایک منفرد طرز کے براڈکاسٹر تھے۔
ممتاز میلسی یکم فروری 1953 کو میلسی پنجاب میں پیدا ہوئے تھے اور 2013 میں ریڈیو سے وہ اپنی ذمیداریاں نبھانے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔ انہوں نے 16 جون 1979 میں ریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کی اور 15مارچ 1987کو سینئر پروڈیوسر بنے
ممتاز میلسی نے اپنی مسکراتی شخیصیت کے باعث دوست احباب کا ایک بڑا حلقہ پیدا کیا ہوا تھا
وہ ریڈیو پاکستان میں پروڈیوسر کے طور پر آئے اور کنٹرولر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ، وہ کنٹرولر ایکسٹرنل اور کنٹرولر سی پی یو بھی رہے
ممتاز میلسی اسٹیشن ڈائیریکٹر اسلام آباد بھی رہے ۔لیکن مختلف انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے سامعین سے اپنے ایک پروگرام کے ذریعے تعلق استوار رکھا ۔۔
جس طرح ماں بچے کو اللہ بولنا اور اسے دین سے محبت کرنا سکھاتی ہے، اسی طرح ریڈیو پاکستان اپنی زبان کے اتار چڑھاؤ کو صوت کی زمین پہ سازوں کے ساتھ بولنا اور پڑھنا سکھاتا ہے، آواز میں جذبات کی ہم آہنگی کی مہک بساتی ہے، لفظ،جملہ اور معنی آواز کے سامنے بچھاتی ہے، چاند کو جھیل میں اتارنا اور ستاروں کو پلکوں پہ ٹانکنا آواز کی طاقت سے لہجے کی لوچ سے، لطافت کے کمال سے، ہونٹوں کے گرداب سے سکھاتی ہے۔ ریڈیو صوتی موسیقیت سے دنیا بھر میں مقناطیسی کشش رکھتا ہے۔
ریڈیو کی پالیسی میں مصدقہ ذرائع سے حاصل شدہ خبریں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، اخلاقیات کا دائرہ نشریات سے متعلقہ اداروں میں بہت تنگ ہوتاہے،قینچی کے دندانے بہت تیز کئے جاتے ہیں تاکہ سماعتوں کے نازک اور حساس پردوں پہ لطافتوں کی مُہر ثبت ہوتی رہے، براڈکاسٹنگ کے ادارے میں پیوندکاری نہیں ہوتی یہاں تہذیب و تمدن، روایات، دین اور معاشرت ، انسانی احساسات اور ادب وآداب کو بردباری اور متانت سے نبھایاجاتا ہے۔آواز کے اس شیش محل میں شخصیات قیمتی موتیوں کی طرح جَڑے ہوتے ہیں۔
براڈکاسٹنگ کے ادارے میں پیوندکاری نہیں ہوتی یہاں تہذیب وتمدن، روایات، دین اور معاشرت ، انسانی احساسات اور ادب و آداب کو بربادی اور متانت سے نبھایاجاتا ہے۔۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر تمام قومی رہنماؤں کی تقاریر،زبانوں کے نادرنمونوں پرمشتمل ڈرامے، مشاعرے، مذاکرے دیگر تخلیق کاروں کے ادبی پروگرام یہاں پہ محفوظ ہیں۔ ملک بھر میں کرکٹ کے ساتھ جنون کی حد تک کی وابستگی میں ریڈیوکمنٹری کا بہت ہاتھ رہا۔ بچوں کی کہانیوں میں منی آپا اور اصلاحی ،تنقیدی ڈراموں میں (تلقین شاہ) اشفاق احمد کا خصوصی کردار بہت اہمیت کا حامل تھا۔ یاسمین طاہر کے "صبح سویرے " پروگرام اپنی پسندیدگی کی بنا پر تین دھائیوں سے زائد چلتا رہا ۔۔ملک بھر میں ریڈیو سننے والے ،گھڑیوں کی سوئیاں خاص ردھم کی ٹک ٹک سے ملایا کرتے۔ دیہات میں پگڈنڈیوں پہ چلنے والے کسان کندھے پہ صافہ ڈالے ہاتھ میں ریڈیو تھامے اونچی آواز میں گانے سنتے جاتے، صبح کی تلاوت اور دینی پروگرام سنتے سنتے مرد حضرات تیار ہوتے اور مائیں ناشتہ بناتیں اور بچوں کو تیارکرتیں۔ ایک طرف رسوئی میں ریڈیو لگا ہوتا اور خواتین کھانا بنا رہی ہوتیں، ریڈیو کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ہر عمر کے لوگوں کیلئے ان کے مزاج اور وقت کی ضرورت کے مطابق اسے ایسے فنی محاسن استعمال کرتا ہے ۔۔۔۔۔اب وہ لوگ جو ریڈیو سے پیار کرتے تھے ۔رخصت ہو گئے ہیں یا خال خال رہ گئے ہیں ۔۔۔
بڑھتی ہوئی تاریکی اور گھسٹتے ہوئے ریڈیو کو زندگی اور اس کا شعور دینے اور دے کر مطمئن رھنے والی ہستی ممتاز میلسی بھی عالم بقا کی طرف رخصت ہو گئے ۔
9جنوری 2016ء کو یہ سحر بھری آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ۔۔ تین دھائیوں سے زائد اپنی آواز اورانتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی یگانہ روزگار ہستی کو H..11..اسلام آباد کی سر زمین نے انپے دامن میں ہمیشہ کے لیے چھپا لیا ۔۔۔
۔ یہ دنیا چلو چلی ہے ۔۔اچھی یادوں کا خزانہ انسان کے بعد بھی اس کی گواہی دیتا ہے ۔ممتاز میلسی انھی خوش بخت لوگوں میں ایک تھے ۔۔۔۔۔۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ کریم ان۔ کی مغفرت کرے اور درجات کی بلندی سے نوازے ۔۔آمین ۔
¢ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
“