اک ستارہ اور ٹوٹا آسمانِ فکر کا
آج – 10؍اکتوبر 2020
ممتاز جدید شاعروں میں معروف ”مظفرؔ حنفی صاحب“ آج دہلی میں انتقال کر گئے…
نام محمّد ابوالمظفر ، ڈاکٹر اور تخلص مظفرؔ ہے۔ یکم؍اپریل 1936ء کو کھنڈوہ(مدھیہ پردیش) میں پید ا ہوئے۔ان کا آبائی وطن ہسوہ، فتح پور(یوپی) ہے۔ 1960ء میں مدھیہ پردیش محکمہ جنگلات میں ملازم ہوکر بھوپال منتقل ہوگئے۔اسی ملازمت کے دوران انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے اور بھوپال یونیورسٹی سے ایم اے ، ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کی تحقیق کا موضوع ’’شاد عارفی۔ شخصیت اور فن‘‘تھا۔انھیں شاد عارفی سے تلمذ بھی حاصل ہے۔ 1976ء سے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو میں ریڈر کی حیثیت سے تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ 1989ء میں کلکتہ یونیورسٹی نے انھیں ’’اقبال چیئر‘‘ کے پروفیسر کی حیثیت سے فائز کیا۔وہ اچھے افسانہ نگار، مترجم ، شاعر اور نقاد ہیں ۔ وہ تیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں ۔ چند نام یہ ہیں:
’پانی کی زبان‘، ’تیکھی غزلیں‘، ’عکس ریز‘، ’صریرخامہ‘، ’دیپک راگ‘، یم بہ یم‘، ’کھل جا سم سم‘ (شاعری)، ’دوغنڈے‘، ’دیدۂ حیراں‘ (افسانے) ، ’نقد ریزے‘، ’جہات وجستجو‘، ’باتیں ادب کی‘، ’لاگ لپیٹ کے بغیر‘، ’وضاحتی کتابیات‘، ’غزلیات میرحسن‘ ، (تحقیق وتنقید)، ’’روح غزل‘ (انتخاب)، ’شاد عارفی۔ ایک مطالعہ‘، ۔ ان کی مجموعی خدمات کے اعتراف میں مغربی بنگال اردو اکادمی نے ان کو کل ہند’’پرویز شاہدی ایوارڈ‘‘ ،غالب انسٹی ٹیوٹ (دہلی) نے کل ہند فحرالدین علی احمد’’غالب ایوارڈ‘‘ برائے تحقیق وتنقید پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں مختلف ریاستی اردو اکادمیوں سے اٹھارہ انعامات ملے۔ کل ہند میر اکادمی لکھنؤ کا ’’میرؔ ایوارڈ‘‘ بھی ملا۔
(مظفرؔ حنفی آج 10؍اکتوبر 2020 کو دہلی میں اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ تدفین بٹلا ہاؤس قبرستان میں۔)
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:313
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر مظفرؔ حنفی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
سنائیے وہ لطیفہ ہر ایک جام کے ساتھ
کہ ایک بوند سے ایمان ٹوٹ جاتا ہے
—
کانٹوں میں رکھ کے پھول ہوا میں اڑا کے خاک
کرتا ہے سو طرح سے اشارے مجھے کوئی
—
سنتا ہوں کہ تجھ کو بھی زمانے سے گلہ ہے
مجھ کو بھی یہ دنیا نہیں راس آئی ادھر آ
—
سوائے میرے کسی کو جلنے کا ہوش کب تھا
چراغ کی لو بلند تھی اور رات کم تھی
—
جب سرابوں پہ قناعت کا سلیقہ آیا
ریت کو ہاتھ لگایا تو وہیں پانی تھی
—
روتی ہوئی ایک بھیڑ مرے گرد کھڑی تھی
شاید یہ تماشہ مرے ہنسنے کے لیے تھا
—
شکست کھا چکے ہیں ہم مگر عزیز فاتحو
ہمارے قد سے کم نہ ہو فراز دار دیکھنا
—
کھلتے ہیں دل میں پھول تری یاد کے طفیل
آتش کدہ تو دیر ہوئی سرد ہو گیا
—
اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ
کس حال میں لکھی ہے مرے پاس آ کے دیکھ
—
اپنی اس کم ظرفی کا احساس کہاں لے جاؤں میں
سن رکھا تھا الجھن کچھ کم ہو جاتی ہے رونے سے
—
ہاتھوں میں سجتے ہیں چھالے جیسی تیری مرضی
سکھ داتا دکھ دینے والے جیسی تیری مرضی
—
آغاز تمنا ہو کہ انجام تمنا
الزام بہر حال ہمارے ہی سر آیا
—
بابِ طلسم ہوش ربا مل گیا مجھے
میں خود کو ڈھونڈتا تھا خدا مل گیا مجھے
—
وجودِ غیب کا عرفان ٹوٹ جاتا ہے
صریر خامہ سے وجدان ٹوٹ جاتا ہے
—
بکھرا ہوا ہوں وقت کے شانے پہ گرد سا
اک زلف پر شکن ہوں سنوارے مجھے کوئی
—
فرق نہیں پڑتا ہم دیوانوں کے گھر میں ہونے سے
ویرانی امڈی پڑتی ہے گھر کے کونے کونے سے
—
بنے ہوئے ہیں فصیلِ نظر در و دیوار
ہر اک طرف در و دیوار پر در و دیوار
—
یہ اضطراب دیکھنا یہ انتشار دیکھنا
سحر نہ ہو کہیں ذرا پسِ غبار دیکھنا
—
کیا کرتا میں ہم عصروں نے تنہا مجھ پر چھوڑ دیا
سب نے بوسہ دے کر سچ کا بھاری پتھر چھوڑ دیا
—
کیا وصل کی ساعت کو ترسنے کے لیے تھا
دل شہر تمنا ترے بسنے کے لیے تھا
—
آلامِ روزگار کا منہ زرد ہو گیا
ہر زخم کا علاج ترا درد ہو گیا
—
اے مظفرؔ مجھے تا عمر رہی فکر سخن
جب کہ فرصت تھی میسر نہ تن آسانی تھی
—
نا گفتنی لکھی ہے مظفرؔ نے عمر بھر
جو کچھ زبان کہہ نہ سکی ہات کہہ گیا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
مظفرؔ حنفی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ