ٹیلی ویژن اور پنجاب آرٹس کونسل کا قبلہ درست کرنے کیلئے جوحکمت عملی اپنائی ،اس کے اثرات و ثمرات سے فن کار اور ان اداروں کے ملازمین بھی فیضیاب ہوتے رہے اور فنون و ثقافت کی ترویج و ترقی کے دروازے کھلتے چلے گئے ۔ مزاح نگار، شاعر، دانشور، مدبر، مدیر ،سفیر ،سفرنامہ نگار، پروفیسر، ڈراما نویس اوربحر ِِ ثقافت و سیاحت کےشناور عطاء الحق قاسمی کی شگفتہ مزاجی،بذلہ سنجی،کالم نگاری، خوش لباسی ، رجائیت پسندی ، حُب الوطنی ،انسان دوستی ، خوش اخلاقی ، جرات و بے باکی ، کشادہ دلی ، خیرسگالی اور روشن خیالی کے کیا کہنے۔ دن رات صدقہ بانٹتے نظر آتے ہیں ۔ یہ بات وثوق کے ساتھ اس لئے کہی جاسکتی ہے کہ آپ انہیں کہیں بھی مل لیں ، ملاقات سرراہ ہو یا کسی محفل میں ، آپ کو ان کے چہرے پر مسکراہٹ سجی نظرآئے گی۔مسکرا کر ملتے ہیں، مسکراکر بات کرتے ہیں ، مسکرا کر خوش آمدید کہتے ہیں ۔اور اگر مسکرا نہ رہے ہوں تو یقین کیجئے قہقہہ لگارہے ہوتے ہیں اور ایسے وقت میں ان کا انگ انگ ، آنکھیں ، خدو خال سب قہقہہ زن محسوس ہوتے ہیں۔ جیتی جاگتی شخصیت ہیں ۔ جس محفل میں چلے جائیں جان پڑ جاتی ہے، جہاں سے اُٹھ کر چلے جائیں ،وہاں کی فضائیں دیر تک مسکراتی دکھائی دیتی ہیں ۔ پریشانی میں حوصلہ بھی اپنے مخصوص انداز میں بڑھاتے ہیں ۔ روتوں کو ہنساتے ہیں اور پورے ماحول کو گدگداتے ہیں ۔ یہ زندہ دلی زندہ دلان ِ لاہور سے انہوں نے مستعار لی ہے یا زندہ دلان ِ لاہور کو انہوں نے اُدھار دی ہے ، یہ فیصلہ لاہوری ہی کرسکتے ہیں ۔
عطاالحق قاسمی اردو اور پنجابی ادب کے رسیا ہیں اور ان دونوں مقبول زبانوں سے پیار کرنے والے ان سےبھی پیار کرتے ہیں۔ یہ پاکستانی ثقافت کے بھی دلدادہ ہیں اور پنجابی ثقافت کو پاکستانی ثقافت کے رنگا رنگ گلدستے کا ایک دلکش رنگ سمجھتے اور قرار دیتے ہیں۔دنیا بھر میں انہیں پاکستان کی نمائندگی کا دوچار، دس، بیس بار نہیں سینکڑوں بار اعزاز حاصل ہوچکاہے۔عالمی مشاعرے، عالمی کانفرنسیں، عالمی سیمینار، عالمی مزاح کانفرنسیں یا کسی بھی عنوان کے تحت کسی بھی دیس میں اگر بڑے پیمانے پر کوئی کانفرنس یا محفل سجتی تو اس میں عطالحق قاسمی ،امجد اسلام امجد،خالد احمد اور دیگرقدآور ادیب یاشاعر پاکستان سے ضرور جاتے۔ وہاں جا کر سائیڈ پروگرام کےطور پر دنیا بھرسےآئے ہوئے اہل ِ ادب سے ملاقاتیں اور کھل کھلا کر باتیں ہوتیں اور واپسی پرہمارے عطاالحق قاسمی صاحب اپنے ساتھ اتنا موادلے آتے کہ نئے غیر ملکی دورے پر روانہ ہونے تک ان کے لکھنے لکھانے خصوصاً روزن ِ دیوار سے جھانکنے اوردیکھنے دکھانے کا عمل جاری رہتا۔ انہوں نے کسی پاکستانی شخصیت کیلئے ایک تیکھا جملہ اپنے کالم میں لکھا تھا کہ وہ آج کل مختصر دورے پر پاکستان آئے ہوئے ہیں ۔ہمارے عطابھائی بھی جب مشاعروں اور عالمی ادبی کانفرنسوں کا دور جوبن پر تھا ، تو بعض دنوں میں اتنے تسلسل اور تواتر کے ساتھ غیرملکی دورے کرتے تھے کہ انہوں نے کئی ملکوں کواپنے لاہور کی گلی بنارکھا تھا۔ آج واپسی ہوئی اوراگلے دن پھر سمندرپار کسی دیس کیلئے روانگی ۔ایسے موسم میں ، میں اس وقت بھی ان کےانداز میں یہ سوچتا تھا کہ آج کل یہ مختصر دورے پر پاکستان آئے ہوئے ہیں ۔ ایک خاص بات جو میں نے ان میں دیکھی ،وہ یہ بھی ہے کہ یہ سیماب صفت ہیں ۔ کہیں ٹھہرتے نہیں ، ٹک کر نہیں بیٹھتے ۔ خود بھی سرگرم ہیں اور اپنے حلقہ ء یاراں کو بھی متحرک اور سرگرم رکھتے ہیں ۔ہر شہر میں ان کا حلقہء یاراں ہے ۔جہاں جائیں محفل سج جاتی ہے۔ کسی تقریب میں مدعو ہوں توان کا بے تابی کے ساتھ کیا جاتا ہے انتظار ۔ جب یہ وہاں پہنچتے ہیں تو بکھرے نظرآتے ہیں رنگ بہار ۔ چل پڑتا ہے گلشن کا کاروبار۔ اور جب کھلتے ہیں ان کے لب ِ اظہار تو ماحول دکھائی دینے لگتاہے شاندار ۔ وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ شخصیت ہے بڑی باغ و بہارجہاں جہاں اردو بولی، پڑھی، لکھی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں وہاں اِن کے نام، کلام اور کام کاچرچا ہے۔ شوق ِ آوارگی ان کی “پہلوٹھی “کی خوبصورت کتاب ہی نہیں ، آوارگی کاذوق و شوق ان میں کوٹ کوٹ کربھراہواہے۔ان کے مزاح میں سنجیدگی اور ان کی سنجیدگی میں ظرافت قارئین اورسامعین کے دامان ِ سماعت و بصارت کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔کئی دہائیوں پہلے کی بات مجھے یاد ہے محترم عطاالحق قاسمی صاحب کسی عالمی اردو مزاح کانفرنس میں شرکت کیلئے بھارت میں تھے۔دوردرشن والوں یا کسی اور بھارتی ٹی وی چینل نے ان کا انٹرویو کیا اور ان سے سوال کیا آپ کے خیال میں اس عالمی اردو مزاح کانفرنس کے پاک بھارت تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟جواباً محترم عطاالحق قاسمی صاحب نے صرف اتنا کہا کہ میرے خیال میں پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے عالمی مزاح کانفرنس کی نہیں، سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس پر محفل کشت ِ زعفران بن گئی۔
عطاءالحق قاسمی صاحب نے کالم نگاری کاآغاز روزنامہ نوائے وقت لاہور سے کیا۔وہ روزن ِ دیوار سے جوکچھ دیکھتے ، اسے اپنے مخصوص پیرائے اور خوبصورت کالم کی شکل میں سب کو دکھادیا کرتےتھے۔ ان کاانداز اپنا تھا اور آج بھی اپنا ہے ۔اسےکل بھی بڑا پسند بھی کیا جاتا تھا۔اور آج بھی پسند کیاجاتاہے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب نوائے وقت میں کارکنوں کو تنخواہیں وقت پر نہیں ملاکرتی تھیں اور جب ملتی بھی تھیں تو آسان قسطوں میں ۔یہ صورت حال ملازمین اور کارکنوں کیلئے بڑی پریشانی کاباعث تھی ،وہ یہ شکایت زبان پراس لئے نہیں لاتے تھے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اگر خوگر ِ حمد سے تھوڑا ساگلہ بھی ہوگیا تو انہیں ملازمت سے فارغ کردیا جائے گا۔ان حالات میں محترم عطاالحق قاسمی صاحب کبھی مایوس نہیں ہوئے اور شعری پیرائے میں اپنے دکھ بیان کرکےدل کابوجھ ہلکا کرتے رہے۔مگر یہ “مخصوص شاعری” ان کے دوستوں، اہل ِ ادب اور نوائے وقت کے ملازمین تک ہی پہنچتی رہی۔پھر ان پر شوق ِ آوارگی کاجنون سوار ہوا تو انہوں نے سیرسپاٹے کا پروگرام بنالیا اور امریکا کیلئے رخت ِ سفر باندھا ۔ ان کے بہت سے ساتھی نہیں چاہتے تھے کہ یہ سمندر پار جائیں ، اس لئے نہیں کہ وہ انہیں اونچی اڑان بھرتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے بلکہ اس لئے کہ وہ مشکل حالات میں اپنی شگفتہ مزاجی اور بذلہ سنجی سے سب دوستوں کی پریشانیوں کو ہوا میں اڑا دیا کرتے تھے۔ لوگ سوچتے تھے اگر وہ بھی چلے گئے تو مشکلات میں جینا آسان نہیں رہے گا۔ بہرحال انہیں جانا تھا تو ان کے اعزاز میں دوست احباب نے نوائے وقت کی دفتری حدود ہی میں ان کیلئے ایک الوداعی تقریب سجا لی ۔ان دنوں مجید نظامی صاحب اور کارکنوں کے درمیان زیادہ فاصلے نہیں تھے۔فیصلہ کیاگیا کہ مجید نظامی صاحب کو بھی بلالیاجائے ۔چنانچہ انہیں بھی دعوت دے دی گئی ،وہ آئے تو ان کے آنے کےبعد بھی عطاءالحق قاسمی صاحب کی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی کےرنگ فضاءوں میں بکھرتے رہے۔ کسی دوست نے شرارتاً فرمائش کردی کہ نوائے وقت کے حوالے سے آپ نے اقبال کے کلام میں جو تضمین کی ہے، وہ سنائیں ۔عطاالحق قاسمی صاحب نے ٹلادیا اور جب مجید نظامی صاحب نے کہا ،ضرور ،ضرور، آپ سنائیں۔عطاءالحق قاسمی صاحب نے کہا ہم جب ماہانہ تنخواہ لینے کےلئے اکائونٹنٹ کے پاس جاتے ہیں تو وہ کبھی پوری تنخواہ یکمشت نہیں دیتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں ، وہ بتائےدیتاہوں ۔اور یہ کہہ کرانہوں نے ایک شعر شرکائے محفل کی نذرکیا۔آپ بھی سُن لیں۔
بنتے ہیں تیرے چار سو، فی الحال چار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے اُمید ِ بہار رکھ
یہ کلام سن کر مجید نظامی صاحب بھی بظاہر بڑے محظوظ ہوئے۔ آپ دیکھئے کہ اس شعر میں بھی عطاءالحق قاسمی صاحب کی رجائیت پسندی بولتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔
اس محفل میں شرکت کے بعد عطاءالحق قاسمی صاحب کی زندگی میں ایک نیا موڑ آگیا ۔وہ سمندر پار چلے گئےاور وہاں جاکر سیرسپاٹوں کے ساتھ انہوں نے سفر نامہ نگاری شروع کردی۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے احمد ندیم قاسمی صاحب نے اس سفر نامے کو فنون کے صفحات کی زینت بنایا۔ فنون میں یہ سفر نامہ قسطوں میں اہتمام کے ساتھ شائع کیا جاتا رہا۔ اس وقت فنون ،سیپ، اوراق، نقوش،چٹان،ادب ِ لطیف ،محفل، افکار اور ایسے کئی جرائد تھے ،جو بھارت کےشہر شہر میں بھی مقبول تھے۔اس لئے عطاءالحق قاسمی صاحب کی شہرت کو بھی چارچاند لگتے چلےگئے۔ مجھے یاد ہے میرے بڑے بھائی سیدعارف معین بلے کوایک بڑی کامیابی پر میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے نے جوکتاب بطور انعام یاتحفتاًدی تھی، وہ شوق ِ اوارگی ہی تھی اور یہ بھی کہا تھاکہ اس میں ایک باب ایسا بھی ہے کہ پتھردل بھی پڑھ لےتواس کی آنکھوں سےآنسووں کاچشمہ پھوٹ پڑےگا۔اور پھرواقعی ایسا ہی ہوا ۔اولڈ پیپلزہوم پڑھ کرعارف بھائی مجھے اپنے آنسوبار بار رومال سے خشک کرتے نظرآئے۔اور جب ابو دفتر سے آئے تو انہوں نے کہا واقعی آپ نے صحیح فرمایا تھا ۔اولڈ پیپلزہوم نے تو مجھے رُلاکررکھ دیا۔
عطاالحق قاسمی صاحب نے انشائیے تو نہیں لکھے لیکن جو ۔عطائیے۔ لکھے ہیں ، وہ انشائی رنگوں سے بھرپور ہیں ۔ڈاکٹر وزیرآغا اور احمد ندیم قاسمی دونوں اردو ادب کےدو مختلف مکاتب فکر سے وابستہ تھے ۔اوران دونوں مکاتب ِ فکر نے انشائیہ نگاری کی جو تعریف کی ہے، وہ ایک دوسرے سے بڑی مختلف ہے ۔اس حقیقت کے اعتراف کے ساتھ میں سمجھتاہوں کہ ان دونوں مکاتب ِ فکر سے وابستہ دو شخصیات ایسی ہیں ،جن کی گفتگو ہی انشائیے سے کم نہیں ۔یایوں کہیے کہ اگر کوئی یہ پوچھے کہ انشائیہ کیا ہوتا ہے تو انشائیے کی خوبیاں اور اس کے خدو خال اجاگر کرنے کے بجائے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اگر آپ نے سرگودھا شہر کے ادیب، شاعر اور نقاد پروفیسر غلام جیلانی اصغر اور ہمارے محترم عطاءالحق قاسمی کی گفتگو سنی ہےتو بس اتنا جان لیں کہ یہی انشائیہ ہے۔بلکہ بولتا ہوا انشاِئیہ ہے۔اب اگر آپ نے کبھی انہیں نہیں سنا تو ان کےکالم پڑھ لیں، عطائیے پڑھ لیں، روزن ِ دیوار سے عطاالحق قاسمی صاحب کی مزاحیہ،طنزیہ، شگفتہ اور شائستہ تحریروں کو پڑھ لیں ،آپ کو پتا چل جائے گا کہ انشائیہ کیا ہوتا ہے۔پروفیسر غلام جیلانی اصغر تو باقاعدہ انشائیہ نگار تھے اور انشائیے لکھ کر انہوں نے ادبی مجلے اوراق کے ساتھ ساتھ دنیائے ادب میں دھوم مچائے رکھی۔فنون، جنگ اور نوائے وقت میں اپنے یہی تخلیقی رنگ عطاالحق قاسمی صاحب نے دکھائے اور خود کو بطور انشائیہ نگار متعارف کرانے سے گریزاں رہے ۔ انشائیے لکھتے ضرور رہے ۔اور کالموں یا دیگر شگفتہ نگارشات کی صورت میں انہیں منظرعام پر لاتے بھی رہے۔میرے اس موقف کی تائید کے لئے ۔خند ِ مکرّر،کالم تمام ،آپ بھی شرمسار ہو،دھول دھپا، سرگوشیاں ،جرم ِ ضعیفی کافی ہیں ۔بازیچہء اطفال ،حبس ِ معمول،بارہ سنگھے،مزید گنجے فرشتے، ہنسنا رونا منع ہے،علی بابا چالیس چوراور اپنے پرائے بھی ان کی ایسی شاندار کتابیں ہیں ، جن میں آپ کو ان کی شخصیت کے بہت سے دلکش رنگ نظرآئیں گے۔
عطاالحق قاسمی صاحب کی جراءت و بے باکی کے نقوش میرے دل و دماغ میں محفوظ ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ صدر ضیاءالحق کےدور میں ایک حاضر سروس جنرل کاشعری مجموعہ منظرعام پر آیا تواس کی تقریب ِ رونمائی میں انہیں بھی اظہار ِ خیال کی دعوت دی گئی ۔ یہ اُس دور کی بات ہے جب نوے دن کیلئے اقتدار میں آنے والے ضیاء الحق انتخابات کرانے سے کنی کترارہے تھے۔انکاری تو نہیں تھے لیکن اقتدار چھوڑنا بھی نہیں چاہتے تھے۔اس آمرانہ دور میں کسی لگی لپٹی کے بغیر میرے محترم عطاالحق قاسمی صاحب نے حاضر سروس جنرل کے ایم عارف کے شعری مجموعے کے حوالے سے کہا یہ کتاب میں نے پڑھی اور اس میں سے کوئی شعر منتخب نہیں کرپایا تو مجھے احساس ہواکہ واقعی “انتخاب ” کرنا اور کرانا آسان کام نہیں ۔یہ جرات اور بے باکی بلاشبہ انہی کاخاصا ہے ۔انہوں نے ضیاء الحق کےتمام عزائم کوایک جملے میں بے نقاب کردیا۔
عطاء الحق قاسمی کے تخلیقی رنگ(2)
تحریر: ظفر معین بلے جعفری
عطاء الحق قاسمی صاحب کے کچھ اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں ۔یہ خوبی بہت کم شعراء کے نصیب میں آئی ہے۔عصر ِ حاضر ہی کے ایک اور شاعر ہیں شعیب بن عزیز۔ ان کا ایک شعر بھی ایسا ہے جو موقع محل کی مناسبت سے بڑی بڑی ہستیوں کی زبان پر ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب سے بھی کئی محفلوں میں ان کا یہ شعر سنا گیا ۔ شعر یہ ہے
اب اُداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے ، اس طرح کے کاموں میں
بات ہورہی ہے محترم عطاالحق قاسمی صاحب کے ضرب المثل اشعار کے حوالے سے اوران کے دوست شعیب بن عزیز صاحب تک پہنچ گئی۔ کیوں ؟ محض اس لئے کہ
اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں
وزیراعظم شہباز شریف تو اکثر محفلوں میں موقع محل کی مناسبت سے اشعار پڑھتے ہیں اور دنیا نے ٹی وی پر ان سےمختلف مواقع پر عطاءالحق قاسمی صاحب کا کلام سنا ہے ۔ ان کی ایک غزل تو وہ اکثر محفلوں میں سناکرمجمع سے دادوتحسین سمیٹتے ہیں ۔ اور بعض اوقات تو بڑا زور دے کر یا گنگنا کر بھی وہ یہ شعر پڑھتے یا پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ پوری غزل ہی بڑی مرصع ہے اور ہمارے معاشرے میں جو ظلم کا بازار گرم ہے اور اس کے باوجود انصاف نہیں ملتا، اس کی جھلک اس کے آئینے میں دیکھی جاسکتی ہے۔آپ کی یادداشت کو تازہ کرنے کیلئے یہ غزل پیش ِ خدمت ہے ۔ بلاشبہ زبان سادہ اور بیان بڑا اثر انگیز اور دل میں اتر جانے والا ہے ۔آپ پہلےعطاء الحق قاسمی صاحب کی یہ غزل ملاحظہ کیجئے۔پھر اس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف سے ایک درخواست بھی کرنی ہے۔
خوشبوؤں کا اک نگر آباد ہونا چاہیئے
اس نظام ِزر کو اب برباد ہونا چاہیئے
ان اندھیروں میں بھی منزل تک پہنچ سکتے ہیں ہم
جگنوؤں کو راستہ تو یاد ہونا چاہئیے
خواہشوں کو خوبصورت شکل دینے کے لئے
خواہشوں کی قید سے آزاد ہونا چاہیئے
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیئے
وزیراعظم شہباز شریف سے گزارش صرف اتنی سی ہے کہ آپ صرف اسی غزل پر اکتفا نہ کریں ، آپ کو عطاءالحق قاسمی صاحب کے کلام میں سے بہت سی ایسی جاندار غزلیں مل سکتی ہیں ۔جن میں آپ کو اورشرکاءے محفل کو عوام کے دلوں کی دھڑکنیں بھی سنائی دیں گی۔ اس لئے امید ہے کہ وہ آئندہ ان کی دیگرغزلوں کو بھی پیش کرکے دادو تحسین سمیٹنے کی کوشش ضرور کریں گے۔
انسان اپنی صحبت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ عطا بھائی کے قریبی دوستوں میں بہت سی ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجد ، اجمل نیازی اور محترم خالد احمد تین ایسے نام ہیں ، جنہیں ہدف ِ محبت بنانے سے وہ نہیں چوکتے تھے۔ سفر اور حضر میں بھی اکثر یہ احباب ان کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔لوگ کہتے تھے ایسا لگتاہے کہ ان کے بغیر عطا بھائی کی روٹی ہضم نہیں ہوتی ۔خالد احمد کی کتاب ایک مٹھی ہوا کا فلیپ بھی عطاالحق قاسمی صاحب نےلکھا اور اپنے مخصوص انداز میں ان کی شخصیت کے تمام رنگوں کا بڑی خوبصورتی اور استادانہ چابکدستی کے ساتھ احاطہ کرلیا۔اب آپ ملاحظہ فرمائیے ، محترم خالد احمد کی کتاب ایک مٹھی ہوا ،کے ٹائیٹل کی پشت پر سجا عطاالحق قاسمی صاحب کا فلیپ۔
مجھے علم نہیں کہ خالد احمد کو اپنی کون سی حیثیت زیادہ پسند ہے۔ وہ غزل گو شاعر ہے ، انوکھی نظمیں لکھتا ہے ، مداح خوان ِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ، تنقید میں کسی کو گراتا اور کسی کو اٹھاتا ہے ، دنیا بھر کے بچوں سے والہانہ محبت کرتا ہے۔ اس میں ازراہ ِ لطف و عنایت اس نے اپنے بچے بھی شامل کر لیے ہیں۔ کچھ بڑوں کی عزت کرتا ہے اور جب وہ سیکھ جاتے ہیں تو انہیں نوندریں مارنے لگتا ہے۔ جلوے میں قہقہے لگاتا اور خلوت میں آنسو بہاتا ہے ، جو کماتا ہے گھر سے دفتر جاتے ہوئے مستحقین میں تقسیم کر دیتا ہے ، رات گئے تک جاگتا ہے اور دوپہر تک سوتا ہے۔ جھوٹ بولتا ہے ، ایسے جھوٹ بھی جو سچ سے افضل ہوتے ہیں۔ وہ نارمل نہیں اور اس کی شاعری بھی نارمل شاعری کے ذیل میں نہیں آتی۔ ٹیڑھے میٹھے رستوں پر چلنے والے خالد احمد کی شاعری ہمیں کم آمیز مناظر کی طرف لے جاتی ہے۔ کم آمیز مناظر ، بے چین اور مضطرب لوگوں پر کھلتے ہیں۔ ان پر موجود سے مطمئن نہیں ہیں اور تلاش کے عمل میں ہیں۔ صبح سے شام تک تلاش میں نکلنے والے خالد احمد کی شاعری زمانے سے الگ ، ممتاز اور دلکش ہے ، بالکل اس طرح جس طرح خالد احمد بھری محفل میں سب سے الگ ، ممتاز اور دلکش نظر آتا ہے۔ میں نہیں جانتا اسے اپنی کون سی حیثیت زیادہ پسند ہے۔ مجھے تو سارے کا سارا خالد احمد اچھا لگتا ہے اور اس کی ساری کی ساری شاعری میرے اندر ہلچل پیدا کرتی ہے۔
پاکستان ٹیلی وژن لاہور سینٹر اور ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز آفس کے بالمقابل اعلی معیار کی پرنٹنگ کا مرکز ٹریک اینڈ ٹائی بھی تھا۔ ہائی نون لیبارٹریز سےوابستگی کے باعث ہفتہ بھر میں چار ، پانچ وزٹ تو میرے لازمی ہوتے تھے۔ ٹریک اینڈ ٹائی میں ہماری جناب عمران منظور صاحب اور اسد صاحب سے ملاقات ہوا کرتی تھی ، گپ ، شپ ، چائے اور بعض اوقات تو عمران منظور صاحب کے اصرار پر (اگر ہم لنچ کے ٹائم پر وارد ہوتے تھے) تو جوائن کرنا پڑتا تھا۔ وہاں کبھی کبھار برادر محترم جناب خالد احمد صاحب سے بھی ملاقات ہوتی تھی ۔ بلکہ ایسا بھی ہوا کہ عطاء بھائی ، برادر محترم خالد احمد اور میں نے کہیں نہ کہیں بیٹھ کر چائے بھی پی اور گپ شپ بھی کی۔ ایک روز جب ہم وہاں پر پہنچے تو جناب عمران منظور صاحب نے کہا کہ آج آپ نہیں ،میں بات شروع کروں گا اور یہ کہہ کرانہوں نے بتایا کہ خالد احمد بھائی نے آپ کے لیے اپنا شعری مجموعہ ایک مٹھی ہوا بھجوایا ہے اور اس پر ان کا آٹو گراف بھی ہے۔ ہم نے بصد احترام جناب خالد احمد صاحب کی کرم فرمائی کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد سے عمران منظور صاحب کو بھی ہمارے اور خالد احمد بھائی کے مراسم اور روابط کا کچھ اندازہ ہوتا چلا گیا۔
بات ہورہی ہے برادر محترم خالد احمد اور عطاءالحق قاسمی کی اور ذرا دور نکل گئی ۔ان دونوں میں ایک قدرمشترک یہ بھی ہے کہ ان دونوں کی ولادت قیام پاکستان سے چار برس پہلے یعنی انیس سو تینتالیس میں ہوئی لیکن ہمارے عطا بھائی ، جناب خالد احمد سے عمر میں چار ماہ اور چار دن بڑے ہیں۔عطاء الحق قاسمی صاحب یکم فروری 1943ء کو اور نامور شاعر خالد احمد 5 جون 1943ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔دونوں نے اپنے بزرگوں کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور میں ڈیرہ ڈال لیا۔ برسوں پہلے کی بات ہے کہ برادر محترم خالد احمد کے اعزاز میں ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اعلی پائے کے مضامین پڑھے گئے تھے لیکن عطاءالحق قاسمی صاحب کا مضمون بہت پسند کیا گیا تھا۔ بطور نمونہ ان کا ابتدائی جملہ اور اختتامی سطور حاضر خدمت ہیں ۔
خالد احمد کے ساتھ میری دوستی جتنی پرانی ہے ، اتنی پرانی تو کسی کے ساتھ دشمنی بھی نہیں ہوتی۔
اب ملاحظہ کیجئے عطاالحق قاسمی صاحب کے مضمون کے اختتامی کلمات۔
“مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ خالد احمد کے بارے میں زیادہ جاننے کا دعوی کرنا ، خود کو اور دوسروں کو دھوکے میں مبتلا کرنا ہے۔ بچپن سے باپ کی شفقت سے محروم ہوجانے کے بعد سرد و گرم زمانہ چکھتے چکھتے خالد احمد نے اپنی ذات میں پناہ لے لی ہے۔ داتا گنج بخش کا قول ہے کہ اے انسان تیرا خود کو پہچاننا ، خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے لیکن خالد احمد کے حوالے سے یہ بات اس طرح کہی جاسکتی ہے کہ اے انسان تیرا خالد احمد کو پہچاننا خود کو مزید ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ چنانچہ مجھے خالد احمد کو پہچاننے کی کیا ضرورت ہے۔ اپنے دکھ تھوڑے ہیں کہ اب خالد احمد کے دکھوں کی چتا میں بھی خود کو جلایا جائے”۔
میں نے محترم عطاالحق قاسمی صاحب کی شخصیت، فن ، خدمات اور ان کے شعروسخن پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا تو یکلخت یادوں کی کھڑکیاں کھل گئی ہیں ۔یہ بات بھی بتادوں کہ وہ میرے والد ِ بزرگوار ادیب ، شاعر، دانشور، ماہر تعلقات ِ عامہ اور ڈیڑھ سو سے زیادہ مطبوعات کے مولف سید فخرالدین بلے کے تین چار پسندیدہ ترین کالم نگاروں کی فہرست میں سے ایک ہیں ۔ اور ان کا کالم پڑھنے کے بعد وہ اس میں بین السطور جو کچھ لکھا گیا ہوتا تھا، کبھی کبھار اس کی نشان دہی بھی کردیا کرتے تھے۔ اور اگر کالم چھپا ہواور وہ عدیم الفرصتی کی بنا پر نہ پڑھ پاتے تو ایک کمی سی محسوس ضرور کرتے تھے اور اس کااظہار کرکے اپنا غم غلط کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ ان کے فن و سخن سےبھی پیارکرتے تھے اور اسی لئے ان کی محبت مجھے ہی نہیں ہماری فیملی کو ورثے میں ملی ہے ۔ ان سے ملنے ملانے کے حوالے سے میرے بہن بھائیوں کی بہت سی یادیں مشترک ہیں ۔ اورکچھ یادیں قافلے کے پڑاؤ کے حوالے سے ہیں ۔ دراصل میرے والد بزرگوار ادب و ثقافت کے دلدادہ تھے اور محفلیں سجانے کے شوقین بھی ۔ اسی لئے میری آنکھ ایسے ماحول میں کھلی کہ گھر میں ادیبوں ،شاعروں ، دانشوروں ، ذاکروں ، فن کاروں کا جمگھٹا لگارہتا تھا۔ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، فیض احمد فیض ، جوش ملیح آبادی ، جون ایلیا ، قتیل شفائی ، مرتضیٰ برلاس ، طفیل ہوشیار پوری ، اداکار محمدعلی ، اداکار منور سعید ، محسن بھوپالی ، ڈاکٹروزیرآغا ، مصور اور سفرنامہ نگاراسلم کمال ، صادقین ، پروفیسر عاصی کرنالی ، عرش صدیقی ، اصغر ندیم سید، مسعود اشعر ، انورسدید اور اسی پائے کی علمی ادبی شخصیات ہمارے گھر میں سجنے والی محفلوں کی رونقیں دوبالا کئے رکھتی تھیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ 1980انیس سو اسی کی دہائی میں انہوں نے ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم قافلہ ہی بنالی ، تاکہ زندگی کی ہنگامہ خیزیوں کے ساتھ قافلہ تنظیم کے تحت ماہانہ بنیا دپر نشست کا اہتمام مستقل بنیادوں پر جاری رکھا جاسکے اور یہ سلسلہ دس برس سے زیادہ جی۔ او آر تھری شادمان لاہور میں جاری رہا بھی۔ قافلے کے تحت سجنے والی محفلوں کو انہوں نے پڑاؤ کا نام دیا ۔اس قافلے کے پڑاؤ بڑی باقاعدگی کے ساتھ جی اوآر تھری شادمان لاہور میں ہوا کرتے تھے اور جب اقامت گاہ بدل گئی تو یہ سلسلہ فصیح روڈ پر برسوں جاری رہا۔ قافلے کےبہت سے پڑاؤ میں محترم عطاءالحق قاسمی صاحب نے شرکت کی۔ بڑے بڑے ادیب ، شاعر اور دانشور اس محفل میں شریک ہوکر اپنا رنگ جماتے اور دکھاتے تھے ۔اس محفل کےحوالے سے اسرارزیدی کی رپورٹیں اخبارجہاں میں چھپا کرتی تھیں۔ بیدار سرمدی اور سرفراز سید بھی اپنے کالموں میں اس کے رنگ دکھاتے تھے۔ اخبارخواتین میں بھی تفصیلی رپورٹیں شائع ہوتی تھیں ۔ یہی نہیں ہفت روزہ آواز ِ جرس لاہور کے بانی مدیراعلیٰ میرے والد بزرگوار ہی تھے۔اور اس کی ادارت کی ذمےداریاں انہوں نے میرے ناتواں کندھوں پر ڈال دی تھیں۔قافلے کے پڑاءو کے حوالے سے بعد میں باتیں ہوں گی ۔ پہلے بات ہوجائے اس یادگار مکالمے کی جو میں نے کیا ۔ دراصل میں نےہفت روزہ آواز ِ جرس کا ایک خصوصی گوشہ محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کی شخصیت اور فن کے حوالے سے شائع کرنےکا ارادہ کیا۔ ہفت روزہ آوازِجرس میں خصوصی گوشے شائع کرنے کےلیے بطور خاص اسکیج بنوانے کی روایت بھی قائم کی گئی تھی۔ اس روایت کی پاسداری بھی تو ہم ہی نے کرنی تھی ۔خصوصی گوشے کیلئے میں نے محترم عطاءالحق قاسمی صاحب کو فون کیا اور عرض کیا آپ سے ملنے کےلیے آنا چاہتاہوں ۔ ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ ٹی وی اینکر کی طرح عطاءالحق قاسمی صاحب نے ہماری بات کاٹتے ہوئے فرمایا آپ کو بتانے ۔پوچھنے یا اجازت لینے کی ضرورت کب سے ہوگئی ۔ ہم نے مودبانہ انداز میں عرض کیا جس وقت آپ کی گھر میں موجودگی یقینی ہو ،وہ وقت بتادیجے ۔ہم حاضر ہوجائیں گے کیونکہ ہمارے ارادے کچھ نیک نہیں ہیں ۔ عطاءالحق قاسمی صاحب اپنے مخصوص انداز میں ہنسے اور فرمایا دھمکی آمیز لہجہ ہے آپ کا ، لیکن ہم واقف ہیں سید فخرالدین بلے صاحب اور ان کے خانوادے سے ۔ ہم جانتے ہیں انہوں نے کن خطوط پر اپنے بچوں کی تربیت فرمائی ہے۔ ظفر بیٹا ،آپ کل شام سات بجے کے بعد سے رات ایک بجے تک کسی بھی وقت تشریف لائیے بلکہ ہماری خوشی تو اس میں ہوگی کہ آپ ہمارے ساتھ ہی کھانا بھی کھائیں ۔ہم نے نہایت عاجزی سے گزارش کی آپ کھانےکا تکلف نہ فرمائیے۔ البتہ ہم چائے ضرور پیئیں گے۔ عطاء صاحب نے اس کے جواب میں بس یہی فرمایا کہ پہلی مرتبہ سن رہا ہوں کہ کوئی اپنے گھر میں بھی پوچھ کر آتا ہے اور تکلف کرتا ہے ۔ ٹھیک ہے طے ہوگیا ، کل شام سات بجے ملتے ہیں ۔اگلے روز ہم وقتِ مقررہ پر عطاءالحق قاسمی صاحب کے دولت خانے پر پہنچے۔ ہمیں یہ دیکھ کرخوشی ہوئی کہ عطاء صاحب ہمارے منتظر تھے ۔ کم و بیش ڈھائی تین گھنٹے ہمارا ان کے دولت کدے پر قیام رہا اور اس دوران زبردست اور ذائقہ دارچائے کے ساتھ لذیز اورہماری من پسند چیزوں سے تواضع کی گئی ۔ ہم نے ان کا انٹرویو لیا۔ کھل کرباتیں ہوئیں ۔ ان کا کلام بھی سنا اور انٹرویو سے ہٹ کر نئے ادبی رجحانات پر بھی ان کے خیالات اور تاثرات سے آگاہی سمیٹی ۔ قصہ مختصر پھر جب ہم نے اجازت چاہی تو عطاءالحق قاسمی صاحب نے اجازت تو دیدی لیکن خوش دلی سے نہیں ، ان کی خواہش تھی کہ جس ماحول اور انداز میں مکالمہ جاری ہے ، وہ جاری ہی رہتا اور بےشک خواہش تو ہماری بھی یہی تھی لیکن ہماری مجبوری یہ تھی کہ والد گرامی کو ماہر امراض قلب ڈاکٹر کمال کے پاس لے جانا تھا ۔ بالکل رخصت ہوتے ہوئے ہم دروازے سے لوٹ کر واپس ان کے ڈرائنگ روم میں آگئے اور ڈرائنگ روم کی دیوار پر آویزاں عطاءالحق قاسمی صاحب کی بڑی سی تصویر اتار لی اور نہایت احتیاط سے بغل میں داب کر عرض کیا اس وقت تو بس یہ ڈکیتی کرنی تھی۔ پھر ہم نے آوازِ جرس کے مصور جناب طاہرنقوی کے سر پر سوار رہ کر غالبا ًسات دنوں میں اس ۔ مقبوضہ تصویر ۔سے ایک اسکیچ تیار کروایا اور عطاءالحق قاسمی صاحب کے گھر جاکر ان کی فریم شدہ تصویرانہیں لوٹا دی۔ پھر اگلے ہی ہفتے ہم نے عطاءالحق قاسمی صاحب کے حوالے سے ہفت روزہ آوازِجرس لاہور میں خصوصی گوشہ شائع کیا ۔ جس میں عطاءالحق قاسمی صاحب کے فن اور شخصیت کے حوالے سے بہت سا مواد اور تصاویر بھی شامل تھیں اور اس گوشے میں یہ اسکیچ بھی شائع کیا تھا اوراس اسکیچ کے ساتھ قاسمی اور قاسمی بھی ۔ قارئینِ آوازِجرس اور عطاء الحق قاسمی صاحب نے اس خصوصی گوشے کو بہت پسند فرمایا ۔ چند روز بعد ہم نے یہ اسکیچ بھی فریم کرواکر عطا صاحب کو بطور تحفہ پیش کیا اور اس کے ساتھ اسی اسکیچ کا ایک چھوٹا سا پازیٹو بھی بنواکر انہیں پیش کیا اور عرض کیا جناب عطاءالحق قاسمی صاحب یہ پازیٹو اس لیے کہ یہ آپ کے کالم کے مونوگرام میں استعمال ہو ۔اور پھر اگلے ہفتے سے ہی یہ اسکیچ ان کے کالم کے مونوگرام میں انگوٹھی میں نگینے کی طرح سے سجا دیا گیا اور پھر اسی اسکیچ والا مونوگرام برسوں۔ روزن ِ دیوار سے۔ کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ ۔
ہمارے گھر قافلے کے ماہانہ پڑاؤ میں عطاءالحق قاسمی صاحب کے جگری یار بھی بڑی باقاعدگی کے ساتھ آتے تھے۔ ان میں خالد احمد ، امجد اسلام امجد اور ڈاکٹر اجمل نیازی شامل ہیں ۔ ڈاکٹر اجمل نیازی سے عطاءالحق قاسمی کی قرابت داری اور دوستی کے بہت سے قصے مشہور ہیں لیکن بیگم عطاء الحق قاسمی اور بیگم رفعت اجمل نیازی آپس میں دوپٹہ بدل بہنیں بھی ہیں۔ اس حوالے سے بھی عطاء الحق قاسمی نے تعلق داری کے ہر تقاضے کو فرض بھی سمجھا اور قرض بھی۔ ڈاکٹر اجمل نیازی دنیا سے کوچ کرگئے تو اہل ِ ادب نے انہیں بڑا دکھی دیکھا ۔ ان کی یاد میں آنسوؤں کو قلم میں ڈبو کر انہوں نے کالم بھی لکھے اور اپنی یادوں کو تازہ بھی کیا۔ میں لکھنے بیٹھا ہوں تو بہت سے بیتے ہوئے منظرآنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں ۔مال روڈ پر ایک اعلی معیار کا الائیڈ پرنٹنگ پریس تھا۔ وہاں جناب حسنین المکی اور جناب جواد المکی صاحب ہوا کرتے تھے۔ میرا اور عطاءالحق قاسمی صاحب کا وہاں عموما آنا جانا رہتا تھا ۔ عطاءالحق قاسمی کا مہینے میں الائیڈ پریس کا ایک وزٹ تو ضرور ہی ہوتا تھا۔ الائیڈ پریس کے مالکان ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ حسنین المکی اور جواد المکی کے بڑے بھائی کا ایک ادبی رسالہ نرگس بھی تھا۔ عطاءالحق قاسمی کے اور میرے ستارے ہمیشہ سے ہی ملتے ہیں، اگر سال شمار نہ کیے جائیں تو اس حساب سے عطاء الحق قاسمی مجھ سے دس روز بڑے ہیں کیونکہ ان کا یوم ِ ولادت یکم فروری اور میرا یوم ِ پیدائش گیارہ فروری ہے ۔جبکہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی اور میری تاریخ ولادت ایک ہی ہے۔ عطاء الحق قاسمی کا حلقۂ احباب بہت وسیع رہا ہے اور ان کے بے تکلفانہ مزاج کے باعث قربتیں اور محبتیں پنپتی ہی رہی ہیں لیکن حفیظ تائب ، اختر حسین جعفری اور سرکار احمد ندیم قاسمی سے ان کو حد درجہ محبت ، احترام اور عقیدت رہی اور اس کی جھلک ہمیں عطاء الحق قاسمی کی تحریروں اور گفتگو میں ملتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب سے قربت اور محبت کس نوعیت کی ہوگی ۔یہ عطاء الحق قاسمی صاحب کے خوبصورت کالم ، قاسمی اور قاسمی ، میں دیکھا جاسکتا ہے۔
میرے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کی غزل زیادہ توانا ہے یا نظم لہذا یہ فیصلہ بھی ہم نے قارئین پر ہی چھوڑا۔ ان نظموں کے انتخاب میں ہمیں ہرگز بھی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سید فخرالدین بلے اور ان کے فرزندان کے لیے کاپی رائٹس کے ضوابط کا اطلاق بھی نہیں ہوتا۔ حضرت جوش ملیح آبادی ، حضرت احمد ندیم قاسمی ، پروفیسر اقبال عظیم ، فیض احمد فیض ، جاوید احمد قریشی ، ڈاکٹر وزیر آغا ، طفیل ہوشیار پوری ، کلیم عثمانی ، حفیظ تائب ، ڈاکٹر سید مقصود زاہدی ، مرتضی برلاس ، برادر محترم خالد احمد ، محسن نقوی ، ڈاکٹر اجمل نیازی کی بیاضیں کئی کئی روز والد گرامی سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر رکھی رہتی تھیں۔ اگر کبھی ہفت روزہ آواز جرس لاہور یا ماہنامہ ادب لطیف لاہور یا کسی اور جریدے میں اشاعت کے لیے ان کا کلام درکار بھی ہوتا یا کسی اور مقصد یا حوالے کےلیے تب بھی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اور ان کے فرزندان کو مکمل طور پر با اختیار قرار دیا جاتا تھا کہ کسی بھی تخلیق کو جیسے اور جہاں چاہیں استعمال میں لا سکتے ہیں۔ امیریکہ (ہیوسٹن) میں مقیم عالمی شہرت کے حامل اور ہر دلعزیز شاعر سیدی عارف امام نے اپنی تمام تر تخلیقات کے جملہ حقوق ہمارے گویا کہ ظفر معین بلے جعفری کے نام کر رکھے ہیں جو کہ بلا شبہ ایک اعزاز بھی ہے اور اعتبار و اعتماد کی اعلی ترین مثال بھی۔ محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کے معاملے میں ہم نے ان کی تمام تر تخلیقات کے جملہ حقوق ازخود اپنے نام کر لیے ہیں۔ سلیکٹڈ پوئمز آف عطاء الحق قاسمی (عطاء الحق قاسمی کی منتخب نظمیں) محترمہ تعبیر علی صاحبہ نے انتہائی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ اور اصل تخلیق کی خوبصورتی کو برقرار رکھتے ہوئے ان نظموں کو اردو سے انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ راز اب تک تو محترم عطاء الحق قاسمی ، مترجم محترمہ تعبیر علی صاحبہ اور ہم تک ہی محدود تھا۔ ابھی اس کی اشاعت کا باضابطہ اعلان بھی نہیں ہوا لیکن ہم انہی میں سے ایک ، دو نظمیں قارئین کی دلچسپی کے لیے اس مضمون میں شامل کر رہے ہیں۔
نظم ……. ایک فلرٹ لڑکی
نظم نگار : عطاء الحق قاسمی
ترجمہ نگار : محترمہ تعبیر علی
Poem : A flirt damsel
Poet : Attaul_Huq Qasmi
Translated By : Madam. TaBeeR ALi
وہ لڑکی ، کیا لڑکی تھی
مجھ سے بھی وہ ملتی تھی
اس کے ہونٹ گلابی تھے
اس کی آنکھ میں مستی تھی
میں بھی بھولا بھٹکا سا
وہ بھی بھولی بھٹکی تھی
شہر کی ہر آباد سڑک!
اس کے گھر کو جاتی تھی!
لیکن وہ کیا کرتی تھی!
لڑکی تھی کہ پہیلی تھی!
الٹے سیدھے رستوں پر
آنکھیں ڈھانپ کے چلتی تھی
بھیگی بھیگی راتوں میں
تنہا تنہا روتی تھی
میلے میلے کپڑوں میں
اجلی اجلی لگتی تھی
اس کے سارے خواب نئے
اور تعبیر پرانی تھی
Poem : A flirt damsel
Poet : Attaul_Huq Qasmi
Translated By : Madam. TaBeeR ALi
How adorable that girl was !
Sometimes , she even came across me unexpectedly .
She had pretty pink lips
Or, she had intoxicated eyes
Once I was naive enough
Relatively , she was innocent so
Every densely populated road of the city
even went to her place
Then what would she do ?
Ridiculously, was she really a damsel or riddle ?
Even on the uneven roads
She walked with veiled eyes
Still in the danked nights
She wept bitterly
Surely , in a scruffy clothes
She really looked dazzled
Nevertheless , she had beared new dreams
But she kept the elucidation old
Poem : A flirt damsel Poet : Attaul_Huq Qasmi Translated By : Madam. TaBeeR ALi
نظم ……. ایک فلرٹ لڑکی نظم نگار : عطاء الحق قاسمی ترجمہ نگار :محترمہ تعبیر علی
میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے جب عارضۂ قلب میں مبتلا ہوئے تو عطاءالحق قاسمی عیادت کے لیے سرگودھا تشریف لائے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کالم نگار بیدارسرمدی بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان دنوں ادبی مجلہ ۔ معاصر۔ منظرعام پر آچکا تھا اور دنیائے ادب میں اس کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ اس حوالے سے بھی ان سے گفتگو ہوئی ، باتیں تو وہ میرے والد بزرگوار سے کررہے تھے لیکن میں سرجھکائے سنتا رہا اوربہت سی باتیں اس حوالے سے اب بھی میرے حافظے میں محفوظ ہیں ۔ آنس معین کی منفرد لہجے کی خوبصورت شاعری کے حوالے سے عطاء الحق قاسمی مختلف مواقع پر اپنی گفتگو اور اپنے کالم روزن دیوار سے میں بہت کچھ فرما چکے ہیں۔ سید عارف معین بلے اور سید انجم معین بلے سے بھی انہوں نے ہمیشہ برادرانہ شفقت برتی ۔ اور رہی بات راقم السطور ظفر معین بلے جعفری کی تو ہمارا معاملہ ہمیشہ سے ہی بہت مختلف رہا۔ فرزندان فخرالدین بلے میں جتنی قربت ، محبت اور شفقت ہم نے سمیٹی ہے، وہ ہمارا ہی اعزاز ہے۔ ہم ہی ہیں جو عطا بھائی سے مسلسل بلکہ روزانہ کی بنیادوں پر رابطے میں ہیں یا رہے ہیں ۔ ہم ہی ہیں کہ جو ہر روز عطاء الحق قاسمی بھائی کی نیک تمناؤں اور دعاؤں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ جب ان سے بات ہو اور وہ والد گرامی ، جنت مکانی سید فخرالدین بلے کو اپنے مخصوص انداز میں خراج محبت پیش نہ کریں۔ آپ ہمیں بلا تردد عطاءالحق قاسمی کے لاڈلوں میں شمار کرسکتے ہیں ۔لاڈلا کے جو معنی عہد موجود میں مستعمل ہیں، ان میں تو ہر گز بھی نہیں۔
عطاء الحق قاسمی صاحب کو بحیثیت نظم گو شاعر کے بھی خوب پزیرائی حاصل ہوئی۔ نظم کے ایک توانا شاعر کے طور پر بھی ان کی انفرادیت کو برملا تسلیم کیا گیا۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ نظم نگاری بھی عطاء الحق قاسمی کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید اردو نظم میں بھی ان کا منفرد اور جداگانہ لہجہ ان کی پہچان بنا۔ اس مناسبت سے پہلے تو ملاحظہ فرمائیے عطاء الحق قاسمی صاحب کی ایک جاندار نطم ایک لانگ ڈسٹینس کال اور انگریزی زبان میں اس کا شاندار منظوم ترجمہ۔ محترمہ تعبیر علی صاحبہ نے کیا ہے۔ محترمہ تعبیر علی صاحبہ نے ماسٹرز انگریزی زبان و ادب میں کیا لیکن اردو ادب سے جنون کی حد تک ان کے لگاؤ نے بہت سے دشوار اور مشکل کام بھی کروا ڈالے۔ محترمہ تعبیر علی نے علامہ طالب جوہری ، احمد ندیم ندیم قاسمی ، سید فخرالدین بلے ، خالد احمد ، نسیم لیہ ، امجد اسلام امجد ، سید انجم معین بلے ، آنس معین ، محسن نقوی ، حمایت علی شاعر اور فیروز ناطق خسرو کی منتخب نظموں کے انگریزی میں خوبصورت منظوم تراجم کیے۔ محترمہ تعبیر علی نے اردو افسانے ، اردو نظم اور حتی کہ اردو غزل کو اس کے حقیقی اور اصلی حسن کو اور اعلی و عمدہ معیار کو برقرار رکھتے ہوئے قابل ستائش بلکہ شاندار انداز میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اب وہ ہاتھ دھو کر عطاء الحق قاسمی کی نظموں کے در ہے ہیں۔
نظم ……. ایک لانگ ڈسٹینس کال
نظم نگار : عطاء الحق قاسمی
ترجمہ نگار : محترمہ تعبیر علی صاحبہ
Poem : A long distance call
Poet : AttauL_Huq Qasmi
Translated By : Madam TaBeeR ALi
تمہارا خط مجھ کو مل گیا ہے
ابھی پڑھا ہے
مجھے تو بس اتنا پوچھنا ہے
اداس کیوں ہو اداس کیوں ہو
میں پوچھتی ہوں اداس کیوں ہو
تمہاری آواز اتنی مدھم ہے
ایسے لگتا ہے
جیسے اپنے ہی کان میں
کوئی بات کہہ کر سمجھ رہے ہو
کہ بات مجھ تک پہنچ گئی ہے
تمہاری آواز
راستوں کی مسافتوں میں بھٹک رہی ہے
نظم : ایک لانگ ڈسٹینس کال ، نظم نگار : عطاء الحق قاسمی ، ترجمہ نگار : محترمہ تعبیر علی صاحبہ
Poem : A long distance call Poet : AttauL_Huq QasmiTranslated By : Madam TaBeeR ALi
Received your letter
Just finished it
Listen I have to ask something of you
Only one question that why have you become so distressful
Why ,why have you emerged as mournful
With a low voice
It seems to be like that
As you are murmuring in your own voice
Or trying to convince yourself
That whether I understood and got cleared on your expression
Your voice
Continually disappearing while it is travelling towards me
نظم : ایک لانگ ڈسٹینس کال ، نظم نگار : عطاء الحق قاسمی ، ترجمہ نگار : محترمہ تعبیر علی صاحبہ
Poem : A long distance call Poet : AttauL_Huq QasmiTranslated By : Madam TaBeeR ALi
ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب عطاءالحق قاسمی صاحب کو ناروے کی سفارت سونپنے کا اعلان ہوا ۔اس پر بھی بہت واویلا ہوا ، مخالفت کرنے والوں نے شدت پسندانہ رویہ اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ لیکن دیگر محبان عطاءالحق قاسمی کی طرح ہم نے بھی ببانگ دہل عطاءالحق قاسمی کی بطور سفیر تعیناتی کے حوالے سے کھل کر حمایت میں لکھا۔ اور بار بار ۔عطاءالحق قاسمی کی ناروے اور ہماری شاہ عبداللطیف بھٹائی یونیورسٹی خیرپور پوسٹنگ اور بعد میں کراچی منتقلی کے بعد کبھی کبھار کا فون پر رابطہ تو برقرار رہا لیکن ملنے ملانے کے مواقع کم ہوگئے لیکن پھر عطاءالحق قاسمی کا ہر برس کراچی آنے کا شیڈول ہمارے علم میں آنے لگا ۔ کبھی مشاعروں کے حوالے سے، کبھی عالمی اردو کانفرنس کے حوالے سے اور یوں ہمارے تعلقات کا کنکشن بحال ہی نہیں ہوا بلکہ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ ہمیں احباب سے معلوم ہوتا رہا کہ عطاءالحق قاسمی نے اس تعلق داری کوکس خوبصورت انداز میں نبھایا ۔ جب جب اور جہاں کہیں موضوع چھڑا اور بات ہوئی تو انہوں نے محبت بھرے انداز میں سید فخرالدین بلے اور ان کی ادبی و ثقافتی خدمات کا ذکر فرمایا اور جب جب بھی ہم سے ملاقات ہوئی ہمیشہ بہت بڑے انسان ، بہت بڑے باپ کی اولاد کہہ کر ہی مخاطب کیا۔
ادبی تنظیم قافلہ کے زیر اہتمام احمد ندیم قاسمی کا جشن ولادت ایک دو نہیں ، تین نہیں بلکہ پانچ چھ مرتبہ منایا گیا۔ جس میں مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر سلیم اختر ، امجد اسلام امجد ، کلیم عثمانی ، شہزاد احمد ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، برادرم خالد احمد اور برادر محترم عطاءالحق قاسمی بھی شریک ہوئے ۔ اس جشن ِ ولادت میں احمد ندیم قاسمی صاحب کی شخصیت، افسانوں ، شاعری ، ڈراموں اوران کے کالموں کے حوالے سے ناقدین ِ ادب و صحافت نے کھل کر باتیں کیں ۔ ان سے بہت سی نظمیں ، غزلیں بھی سنی گئیں ۔ یہ دیکھ کر ان کی صاحبزای محترمہ ناہید قاسمی بولیں میں نے بابا سے کسی ایک نشست میں اتنا کلام نہیں سنا۔ واقعی بڑی خوبصورت محفل سجائی ہے آپ لوگوں نے اور پھر سرکار احمد ندیم قاسمی کی منہ بولی بیٹی محترمہ منصورہ احمد نے میرے والد ِ محترم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بلے بھئی بلے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث میں آج کی اس خوبصورت محفل میں شرکت کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا لیکن ایک تو محترم فخرالدین بلے صاحب کا حکم تھا اور دوسرے یہ کہ بیٹی منصورہ ، ظفر معین بلے ، نجیب احمد اور خالد احمد اس سازش میں شامل تھے۔ میری طبیعت کی خرابی سے واقف ہونے کے باوجود آج خالد احمد اور ظفر معین بلے اور منصورہ بیٹی نے فرمائش کر ، کر کے اتنا کلام سنا کہ میں کیا بتاؤں۔ جناب احمد ندیم قاسمی نے کہا خالد احمد اور ظفر معین بلے کے ساتھ مل کر شرکائے قافلہ پڑاؤ نے مجھے جو پزیرائی اور توانائی بخشی ہے میں اس کے لیے جناب فخرالدین بلے صاحب کا شکر گزار ہوں۔ عطاء الحق قاسمی صاحب نے بھی اس ایونٹ کو بہت انجوائے کیا اور ان کی مسکراہٹ بھی داد دیتی نظرآئی۔۔
عطاء الحق قاسمی کی نظم ٹریفک سگنل اپنے اندر ایک عجیب ، تاثر ، جاذبیت اور غم کی کیفیت سموئے ہوئے ہے۔ قاری یہ نظم پڑھ کر خود کو اداس محسوس کرنے لگتا ہے۔ اگر قاری حساس ہو تو وہ اپنی آنکھوں کو نمناک ہونے پر قابو نہیں رکھ سکے گا۔ ملاحظہ فرمائیے نظم ٹریفک سگنل
نظم : ٹریفک سگنل ، نظم نگار : عطاء الحق قاسمی ، ترجمہ نگار : محترمہ تعبیر علی
Poem : Traffic Signal , Poet : AttauL_Huq Qasmi , Translated By : Madam TaBeeR ALi
I am in search of the past gone
In the new books of temples
I do worship of the old expressions
I am an observer of the prophecies
It seems to be like the horizon of new
dawn
Or new songs
are, at present clarmouring on the dilapidated grave.
So, put the lamp out as the red sun is rising up
Someone is sloping down towards the heart
Either new or old words are on the tip of my tongue
But I am unaware from all these tastes
I am unskilful
I am either red coloured or green coloured
Somehow I am nobody
نظم : ٹریفک سگنل ، نظم نگار : عطاء الحق قاسمی ، ترجمہ نگار : محترمہ تعبیر علی
Poem : Traffic Signal , Poet : AttauL_Huq Qasmi , Translated By : Madam TaBeeR ALi
میں عہد رفتہ کو ڈھونڈھتا ہوں
نئی کتابوں کے معبدوں میں
پرانے لفظوں کو پوجتا ہوں
میں منظر ہوں بشارتوں کا
مری زبان پر میں صبح نو کے افق کے نئے جہاں کے
نئے ترانے
پرانی قبریں چٹخ رہی ہیں
دیے بجھاؤ کہ سرخ سورج ابھر رہا ہے
دلوں میں کوئی اتر رہا ہے
نئے پرانے ہیں لفظ میری زباں پہ لیکن
میں ان کی لذت سے بے خبر ہوں
میں بے ہنر ہوں
میں سرخ بھی ہوں میں سبز بھی ہوں
میں کچھ نہیں ہوں
نظم : ٹریفک سگنل ، نظم نگار : عطاء الحق قاسمی ، ترجمہ نگار : محترمہ تعبیر علی
Poem : Traffic Signal , Poet : AttauL_Huq Qasmi , Translated By : Madam TaBeeR ALi
زیر نظر مضمون عطاء الحق قاسمی کے تخلیقی رنگ کے لیے ہمارے ایک ادب دوست اور ہمارے کرم فرما جناب پروفیسر آکاش مغل صاحب نے ہماری خصوصی فرمائش پر عطاء الحق قاسمی صاحب کے دو انتہائی شاندار ، جاندار اور باکمال (پورٹریٹس) مصورانہ شاہکار تخلیق کیے ہیں۔ پروفیسر آکاش مغل کا تعلق سندھ دھرتی سے ہے۔ وہ گورنمنٹ کالج کے شعبۂ اردو میں بطور استاد خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر آکاش مغل نے متعدد علاقائی اور صوبائی زبانوں کے افسانوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور ایسا کرکے خود کو ایک معتبر مترجم ثابت کیا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق پروفیسر آکاش مغل صاحب نے ڈیڑھ سو ، دو سو سے متجاوز مشاہیر ادب کہ جن میں حضرت جوش ملیح آبادی ، احمد ندیم قاسمی ، عطاء الحق قاسمی ، فیض احمد فیض ، سید مصطفی علی ھمدانی ، سید فخرالدین بلے ، حمایت علی شاعر ، امجد اسلام امجد ، مختار مسعود علیگ ، ضیاء محی الدین ، اشفاق احمد ، آنس معین ، بانو قدسیہ ، سید عارف معین بلے ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، سید محمد انجم معین بلے ، انتظار حسین ، صدیقہ بیگم ، صادقین ، طارق عزیز ، مصطفی زیدی ، راقم السطور ظفر معین بلے جعفری ، جبکہ سروں اور سنگیت کی دنیا کے بے تاج بادشاہوں اور ملکاؤں کہ جیسے استاد مہدی حسن ، لتا منگیشکر ، روبن گھوش ، میڈم نیرہ نور ، میڈم نور جہاں ، مہناز بیگم ، جگجیت سنگھ ، ناہید اختر اور ٹیلی وژن اور فلمی دنیا کے روشن ستاروں کہ جیسے محمد علی ، وحید مراد ، شاہد ، سلطان راہی ، مصطفی قریشی ، طالش ، افضال ، سہیل اصغر شامل ہیں کے مصورانہ شاہکار تخلیق کرکے دنیائے مصوری میں ایک ریکارڈ بھی قائم کیا ہے اور تاریخی کارنامہ بھی سرانجام دیا ہے۔
دل تو کررہا ہے کہ جو بھی ۔ کہنا ہے کہو ، پھر اَن کہا رہ جائے گا ۔ لیکن طوالت کا خوف مجھے یہ مضمون یہیں ختم کرنے پر مجبور کررہاہے۔ بہت سی باتیں مجھے یاد آرہی ہیں جو مجھے لکھنی تھیں اور میں نہیں لکھ پایا۔ اس لئے میرے اندر کے ظفر معین بلے جعفری نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ نیا مضمون ، میں نئے عنوان کے تحت لکھوں تاکہ حسرت نہ رہے۔اب آخر میں پیش کررہاہوں میں محترم عطاءالحق قاسمی صاحب کی ایک خوبصورت غزل۔ آپ بھی پڑھئے اور سردُھنئے اوراگر ممکن ہوتو شہباز شریف صاحب تک پہنچوادیں تاکہ وہ آئندہ محفلوں میں اس کی بنیاد پر بھی شعر سناکر میلہ لوٹ سکیں ۔
عطاء الحق قاسمی کی ایک غزل خوبصورت شاعر
جو بھی کہنا ہے کہو پھر اَن کہا رہ جائے گا
قربتوں کے درمیاں بھی فاصلہ رہ جائے گا
وہ گُزر جائے گا اِن رستوں سے مثلِ بادِصبح
اور تُو اِن رہگزاروں میں کھڑا رہ جائے گا
بند کانوں سے سُنے گا تُو کھنکتی گفتگو
بھیگی آنکھوں سے اُسے بس دیکھتا رہ جائےگا
چھین لے گی صبح اِک آہٹ کا جھوٹا خواب بھی
آنکھ کی سُونی گلی میں رتجگا رہ جائے گا
تتلیاں ہجرت کریں گی موسموں کے ساتھ ساتھ
اور شہرِ گل میں آشوبِ ہوا رہ جائے گا
بادلوں سے آگ برسے گی فضائے شہر پر
نقش مٹ جائیں گے اِک نقشِ فنا رہ جائے گا
وقت نے مہلت دی تو میں عطاالحق قاسمی صاحب کے ٹی وی ڈراموں اور خصوصاً خواجہ اینڈ سنز کے حوالے سے الگ سے ایک مضمون لکھوں گا اور اس حوالے سے جو تاثر عام ہے کہ اس میں ان کی اپنی سوانح ِحیات کی کچھ جھلکیاں بھی ہیں ، اس پر نئے زاوئیے سے بات ہوگی۔