ممتاز احمد طاہر کی زندگی کاآفتاب بھی ڈوب گیا لیکن اپنے پیچھےشفق کے رنگ چھوڑ گیا ہے۔ ان کانام ہی ممتاز نہیں تھا ۔ان کے بہت سے کام بھی ممتاز رہے۔ آپ انہیں اسم ِ بامسمیٰ بھی کہہ سکتے ہیں ۔انہوں نے بڑی بھرپورزندگی گزاری۔کئی ادوار دیکھے۔آمرانہ دور میں بہت سی مشکلات سےبھی گزرنا پڑا۔آج جو ستارے میڈیا کے آسمان پرجھلملارہے ہیں ،ان میں وہ بھی شامل ہیں ،جنہوں نے ان کےزیرسایہ اپنے صحافتی سفر کاآغاز کیا۔وہ اپنی ہرکامیابی کا کریڈٹ اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو دیا کرتے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں انہوں نے اپنا روزنامہ آفتاب ملتان سے جاری کیا۔عوامی مسائل کی نشان دہی کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھےبلکہ ان مسائل کےحل کیلئے بھی ان کی ٹیم سرگرم نظر آتی تھی۔روہی چولستان کے آفاقی شاعر خواجہ غلام فریدرحمۃ اللہ علیہ کے افکار و خیالات کی روشنی اجاگرکرنے کیلئے وہ خصوصی مضامین بھی ادیبوں اور دانشوروں سے لکھوا کر روزنامہ آفتاب ملتان کے صفحات کی زینت بنایا کرتے تھے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت سےان کادل سرشار نظرآتاتھا۔پنجتن ِ پاک سے عقیدت کایہ عالم تھا کہ جب بھی کسی محفل میں ان کاذکر ِ جمیل ہوتا تو ان کی پلکیں بھیگ جاتی تھیں او رآنکھوں سےآنسو اتنے بہتےکہ ریش ِ مبارک تر ہوجاتی تھی۔ ہر شخص کی زندگی میں بہت سے ادوار آتے ہیں اور ان کی زندگی میں بھی بہت سےادوار آئے ۔کئی چیلنجز کاسامنا بھی کرنا پڑامگر کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے کیونکہ وہ لاتقنطوامن الرحمۃ اللہ کےمسلک پر گامزن تھے۔
اولیاء اللہ کی دھرتی ملتان شریف سے انہیں بڑا پیار تھا۔اور ملتان ہی کیا ؟اس سے جڑے علاقوں روہی چولستان سے بھی وہ بہت محبت کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ سرائیکی بیلٹ کےتمام علاقوں پر مشتمل ایک نیا صوبہ سرائیکستان بننا چاہئیے اورجب تک ایسا نہیں ہوتا ،اس خطے کے عوام کی محرمیاں دور نہیں کی جاسکتیں۔ان کی اسی سوچ کےنتیجے میں جب روزنامہ آفتاب آسمان ِ صحافت پر طلوع ہوا تو احساس ِ محرومی کے شکار جنوبی پنجاب کے عوام کو بھی زبان مل گئی۔
میرے والد ِ بزرگوار سید فخرالدین بلے مرحوم سے بھی ان کا محبت و احترام کا تعلق قائم رہا۔اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مجھے ان کی محبت ورثے میں ملی ہے۔اورمیرے ملتان کو خیرباد کہنے کے باوجود ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔اسد ممتاز سیال اور محسن ممتاز سیال سےکیاتعزیت کروں ؟ایسے الفاظ میرے پاس نہیں کہ جو میرےجذبات اور تاثرات کی ترجمانی کرسکیں۔یہ دونوں صاحبزادگان اپنے والد بزرگوار ممتاز احمد طاہرمرحوم کے دست و بازو ،ان کی آنکھیں، ان کے کان ،ان کی زبان اور ان کے ترجمان تھے۔وہ ان کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے تھے اور ان دونوں نے بھی ان کے اعتماد کو کبھی دھچکا نہیں پہنچنے دیا۔میری بہت سی ملاقاتیں ان کی موجودگی میں ہوئیں ۔انہوں نے اپنی دھرتی کاقرض اتارنے کیلئے بہت سے خواب اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے۔یہ زیادہ پرانی بات نہیں ،انہوں نے فون پر کہا آج کل میں مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں ۔میں نے کہا میں حاضر ہوں ۔آپ فرمائیں ۔کہنے لگے فون پر نہیں باتیں آمنے سامنے بیٹھ کر ہی ہوں گی۔وقت طے ہوا۔یہ دونوں صاحبزادگان بھی موجود تھے۔ممتاز احمدطاہر سیال صاحب کی طبیعت کچھ ناساز تھی ۔پھربھی وہ تشریف لائے ۔کہنے لگے۔الیکشن قریب ہوں تو جنوبی پنجاب کوصوبہ بنانے کاشوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔الیکشن ہوجائیں تو ہمارے سیاستدان بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کاخواب بھی عوام کو دکھایا تھا۔میں نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ہوتو یہی کچھ رہا ہے۔آپ کے خیال میں اس مسئلے کاحل کیا ہے؟ فرمانے لگے۔میں اس کیلئے عوامی سطح پر شعور جگانا چاہتاہوں۔دانشوروں ،ادیبوں ، سول سوسائٹی کے نمائندوں،اس دھرتی سے محبت کرنے والوں ، وکلاء، اساتذہ، تلامذہ، زمینداروں ، کسانوں ، صحافیوں ، شاعروں اور سماجی، سیاسی ، دینی اورثقافتی تنظیموں کے سربراہوں اور دیگر فعال کارکنوں میں یہ احساس اجاگر کرنا چاہتاہوں کہ اگر نیا صوبہ بنتا ہے تو انہیں کیا فائدہ ہوگا اور اگر نہیں بنتا تو ان کی مشکلات بڑھنے کاسلسلہ کبھی نہیں تھمے گا ۔میں نے پوچھا کہ آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن ان تمام لوگوں تک آپ کا پیغام پہنچے گا کیسے؟ فرمانے لگے ۔میں اسلام آباد، لاہور، ملتان ،بہاول پور اور ڈیرہ غازی خان میں ایک گرینڈ ڈیبیٹ بڑے بڑے ایوانوں میں سجانا چاہتاہوں ۔ان میں کھل کر گفتگو ہوگی۔ اور جن شعبوں کا میں نے ذکر کیا ہے ،انہی میں سے منتخب اور مقتدر شخصیات نئے صوبے کے قیام کی حمایت یا مخالفت میں اظہارِ خیال کریں گی۔اورہم حکومت ِ وقت کے نمائندوں کوبھی شامل ِ گفتگو کریں گے ۔ اس کی کوریج روزنامہ آفتاب کرے گا۔ میں نے پوچھا کہ آپ جو گرینڈ ڈیبیٹ کرانے کارادہ رکھتے ہیں، اس کاموضوع یاعنوان کیا ہوگا؟ ممتازاحمد طاہر صاحب نے بلاتوقف فرمایا۔ گرینڈ ڈیبیٹ کاعنوان ہوگا۔
” کیاسرائیکستان صوبے کا قیام استحکام ِ وطن کیلئے ناگزیر ہے؟”
انہوں نے اپنی آخری ملاقات میں جو گفتگو کی تھی ، مجھے اس کی گونج اب بھی سنائی دے رہی ہے۔
میں نے اسی ملاقات میں ان سے یہ بھی پوچھا تھا کہ آپ سرائیکی صوبے کے قیام کیلئے اتنے سرگرم ہونے کیلئے پر کیوں تول رہے ہیں ؟ فرمانے لگے میں اب سرگرم نہیں ہورہا بلکہ روزنامہ آفتاب کےاجرا کے وقت سےمیں نئے صوبے کے قیام کو وقت کی ضرورت اور استحکام ِ وطن کیلئے ضروری قراردیتا رہاہوں اور روزنامہ آفتاب کے اخبارات اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے سرائیکی وسیب کے لکھاریوں، دانشوروں ،علماء، مشائخ ،وکلاء، اساتذہ، تلامذہ ،فلاحی کام کرنے والی تنظیموں کو ہمیشہ بہت اہمیت دی ۔اس خطے کے مسائل کو اجاگر کیا۔
یہاں کے ٹیلنٹ کو دریافت بھی کیا اور اسے اجاگر کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔لوئر پنجاب کے لوگوں کو بعض ادوار میں جس طرح نظرانداز کیا گیا،اس پر جراءت کے ساتھ آواز بھی اٹھائی اورعلاقائی مفادات کے تحفظ کیلئے حکمرانوں سے ٹکر بھی لی۔ اس کی قیمت بھی اخباری کاغذ کےکوٹے اور سرکاری اشتہارات میں کمی کی صورت میں چکانی بھی پڑی
لیکن سرائیکی وسیب اور واسیوں کے خلاف کسی بھی حکومتی کارروائی پر خاموشی اختیارنہیں کی۔ بلکہ جس حد تک ممکن تھا، قلمی جہاد کیا۔ کچھ کوششیں رنگ بھی لائیں اور آہستہ آہستہ سرائیکستان کے صوبے کے قیام کیلئے ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو آواز اٹھانی پڑی اور انہیں سرائیکستان کے قیام کو اپنے انتخابی منشور کاحصہ بنانا پڑا ۔قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی نے بھی قراردادیں منظور کرلیں ۔زمین ہموار ہوگئی ہے اور انشاءاللہ العزیز یہ خواب جلد شرمندہء تعبیر ہوگا۔
اس گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کا جذبہ جوان تھا۔وہ ہمت نہیں ہارے۔اگر اسی برس کی عمر میں بھی وہ ہر پہاڑ سر کرنے کاعزم کئے ہوئے تھے توانہیں کوئی قوت آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی تھی۔اس سے پہلے بھی نئے صوبے کے قیام کے حوالے سےمختلف نشستوں میں ان سے گفتگو محترم اسد ممتاز سیال اور محسن ممتاز سیال کی موجودگی میں ہوئی،اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے والد ِ بزرگوار کے مشن کی تکمیل کیلئے ان کے بتائے وہ راستے پر اپنا سفر جاری رکھیں گے۔
ممتاز احمد طاہر صاحب صرف روزنامہ آفتاب ملتان کے چیف ایڈیٹر نہیں تھے۔ یہ اخبار تین اسٹیشنز ملتان ، کراچی اور لاہور سے بیک وقت شائع ہوتا ہے۔ وہ ایک اور اخبار ڈیلی بزنس نیوز کے بھی مدیر اعلیٰ تھے، جو ملتان، لاہور، اور کراچی سے بیک وقت شائع ہورہاہے۔اپنے صحافتی کیرئیر کے دوران وہ بہت سی صحافتی تنظیموں سے وابستہ رہےاور وہاں بھی اجتماعی مفادات کیلئےاہم خدمات انجام دیں ۔ چیئرمین اے پی این ایس ریجنل پریس کمیٹی کی حیثیت سے بھی انہوں نے بڑھ چڑھ کر کام کیا۔ نائب صدر آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی بِھی رہے۔ نائب صدر کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرزبن کر بھی انہوں نے صحافتی برادری کے اجتماعی مفادات کے تحفظ کیلئے جو کوششیں کیں، وہ کسی صورت فراموش نہیں کی جاسکتیں۔
ممتاز احمد طاہرصاحب نے صحافت کی اعلیٰ اقدار کو فروغ دیا۔ بے زبانوں کی زبان اوراحساس ِ محرومی کے شکار طبقات کے ترجمان بھی بنے ۔وہ خواجہ غلام فریدکے آفاقی پیغام کو عام کرنا چاہتے تھے۔ صدر خواجہ فریدکلچرل فورم پاکستان کی حیثیت سے انہوں نے سرائیکی تہذیب و ثقافت کے رنگ فضائوں میں بکھیرے۔سرائیکی ادب کو فروغ دیا ۔کلام ِ فرید میں مخفی معانی کے مطالب و معانی کو عام کرنے کیلئے ادیبوں ، نقادوں اور دانشوروں کی نگارشات کو اپنے اخبار کی زینت بنایا۔ کلام ِ فرید کااردو میں ترجمہ کراکے لوگوں کو اس سے فیضیاب ہونے کےمواقع فراہم کئے۔ ان کے اخبار پر کبھی کسی ایک سیاسی جماعت کی چھاپ نظر نہیں آئی لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تحریک ِ نظام ِ مصطفیٰ کی کمان دینی رہنماءوں نے سنبھال لی تو انہوں نے اپنے اخبار کو تحریک ِ نظام ِ مصطفیٰ کی کامیابی کیلئے وقف کردیا۔ اس لئے بھی کہ ان کادل اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی ء اخرالزماں صلی اللہ علیہ ّ آلہ وسلم کے عشق سےلبریز تھا۔امام ِ اہل سنت اور غزالیء زماں علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی نے جمعیت العلمائے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی ۔ بعد میں مولانا شاہ احمد نورانی اس کے صدر بن گئے ۔ ان دونوں نامور علمائے دین سے ممتاز احمد طاہرصاحب کے بڑے قریبی مراسم رہے۔انہی سے کیا ؟مولانا عبدالستار نیازی اور اس وقت کے بہت سے علمائے دین کی صحبت ِ بابرکت میں ان کا وقت گزرتا تھا۔، صاحبزادہ سید مظہرسعید کاظمی، صاحبزادہ سیدحامد سید کاظمی بھی ان کے حلقہ ء یاراں میں شامل رہے۔میرے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے مرحوم کے پاس ممتاز احمد طاہر صاحب کا آنا جانا لگا رہتاتھا ۔ان کے حوالے سے میں نے بہت سی باتیں اپنے والد بزرگوار سے بھی سنی تھیں۔ اُس وقت میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دن وہ دونوں اس دنیا میں نہیں ہوں گے اور یہ باتیں میرے تعزیتی مضمون کا حصہ بنیں گی۔
ممتاز احمد طاہر صاحب جہاں جہاں اور جس جس علاقے میں رہے۔قریبی مسجد کی تعمیرو تزئین کیلئے فراخدلی کے ساتھ مسجد انتظامیہ کےساتھ تعاون کرتے رہے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں درودوسلام کی محفلیں سجاتے رہے ۔یہ سلسلہ انہوں نے کب شروع کیا، یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن میں نے پچیس تیس سال انہیں اسی روش پر گامزن دیکھا۔لاہور میں ان کی جہاں رہائش تھی ، اس کی قریبی مسجد میں ایمانی اور روحانی محفلیں سجانے کی سعادت بھی انہیں حاصل رہی۔میں نے انہیں اور ان کے چھوٹے بھائی محترم عزیزانجم کو بہت نوجوانی کے عالم میں بھی دیکھا تھا۔ اس وقت عزیزانجم صاحب ملتان پریس کلب کی سیاست میں بڑے سرگرم تھے۔مظہرجاویدسیال بھی بعد میں ان کے قافلے میں شامل ہوگئے۔عزیزانجم صاحب تو قسمت کی ریکھائیں سیدھی کرنے کو زمیں کی الٹی جانب جابسے۔بقول شاعر
قسمت کی ریکھائیں سیدھی کرنےکو
لوگ زمیں کی الٹی جانب آن بسے
لیکن دم ِ واپسیں تک ہراہم مرحلے اور موڑ پر ممتاز احمد طاہر سیال صاحب نے انہیں یاد رکھا ۔بعض اوقات تو ایسا لگتا تھا کہ عزیز انجم صاحب امریکا میں نہیں ، بلکہ اب بھی ان کے ساتھ ساتھ ہیں۔دو بھائیوں میں ایسی ہی محبت اسد ممتاز سیال اور محسن ممتاز سیال میں نظرآتی ہے ۔ محترم مظہرجاوید سیال کے ساتھ بھی ان دونوں کا برادرانہ اور پیشہ ورانہ تعلق استوار ہےبلکہ اس پیار اور محبت کو یارانے کےسواکوئی اورنام نہیں دیا جاسکتا۔یہ امر حوصلہ افزاء ہے کہ یہ تینوں ایک پیج پر ہیں ۔اسی لئے پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے وہ سندر خواب ضرور پورے ہوں گے جو ممتاز احمد طاہر صاحب مرحوم و مغفور نے سرائیکی وسیب کو نیا صوبہ بنانے اور اس دھرتی کےواسیوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کیلئے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے ۔
یہ دنیا دار ِ فانی ہے۔ جو اس دنیا میں آیا ہے ،اس نے عالم ِ جاودانی کی طرف جاناہے۔ممتاز احمد طاہر صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اسد ممتاز، محسن ممتاز اور مظہرجاوید صاحب نے بتایاکہ اس رمضان المبارک میں وہ علیل تھے لیکن پھر بھی ہمیشہ کی طرح صوم و صلوٰۃ کے پابند رہے۔اس متبرک مہینے میں ان کا بیشتر وقت عبادت و ریاضت میں گزرا۔رات دن درودوسلام کاوردکرتے نظرآتے تھے۔تہجد کےبعد قرآن حکیم کی تلاوت کررہےتھے یااس کی تیاری میں تھے کہ رب العالمین کا بلاوا آگیا۔داتا کی نگری میں انہوں نے لب ِ خاموش سے لبیک اللھم لبیک کہا۔ اورابدی نیند سوگئے۔ پھر لاہور میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کاجسد ِ خاکی مدینۃ الاولیاء ملتان لے جایا گیا۔اور وہاں بھی نماز ِ جنازہ ادا کی گئی اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنےوالی شخصیات نے بڑٰی تعداد میں شرکت کی اور انہیں ان کے آبائی قبرستان میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد ِ خاک کردیا گیا۔وہ دنیا سے تو رخصت ہوگئے لیکن اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں تادیر زندہ رہیں گے۔
ممتاز احمد طاہر صاحب خود کو دھرتی کا قرض دار سمجھتے تھے ۔اسی مناسبت سے مجھے اپنےوالد ِ بزرگوار سیدفخرالدین بلے کی ایک نظم یاد آرہی ہے، جس کاعنوان ہے،مٹی کاقرض ۔اور اسی نظم پر میں اپنے مضمون کوختم کررہاہوں ۔
مٹی کا قرض … سید فخرالدین بلے
اس دھرتی کی ہر شے پر ہے اس مٹی کا قرض
میرے لئے ہے فرض سے پہلے اس مٹی کا قرض
کیوں نہ دھرتی سیوا کرکے خون پسینہ بوئیں
ممکن ہے کچھ کم ہو جائے اس مٹی کا قرض
اکِ مدت سے دیکھ رہی ہیں میری بھیگی آنکھیں
بڑھ جاتا ہے جب مینہ برسے اس مٹی کا قرض
پیا ملن کو مانگ رہی ہے دھرتی ہار سنگھار
کم کر دیں گے سبز دو شالے اس مٹی کا قرض
میرے لئے جب بارِ امانت ہے شانوں پر سر
سر سے میرے کیسے اترے اس مٹی کا قرضِ
ارضِ وطن سے پوچھو ہم سب ہیں کب سے مقروض
پنجند نے تو اب مانگا ہے اس مٹی کا قرض
جہلِ خرد کے اندھیاروں میں گھٹ تو سکتا ہے
پلکوں پہ جلدیپ سجا کے اس مٹی کا قرض
قوم کو گروی رکھنے والو ، خوب چکایا ہے
مٹی کا کشکول بنا کے اس مٹی کا قرض
روز و شب مقروض ہیں میرے ، سانسیں تک مقروض
مجھ کو تو ورثے میں ملا ہے اس مٹی کا قرض
جیتے جی ہے اس مٹی کا قرض چکانا مشکل
بڑھ جائے گا قبر میں جا کے اس مٹی کا قرض