مجھے بھی پیاس کے صحرا میں بھٹکایا گیا ہے
مگر ایڑی سے میری معجزہ باندھا نہیں ہے
فرحین چوہدری صاحبہ
ممتاز ادیبہ، افسانہ نگار و شاعرہ
یوم پیدائش: 19 دسمبر. 1960
جائے پیدائش: کوئٹہ بلوچستان
۔……………………………..
گفتگو و تعارف : آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرحین چوہدری صاحبہ ایک دبنگ قسم کی ممتاز پاکستانی ادیبہ، افسانہ نگار، ناول نویس ، اسکرپٹ رائٹر ، سفر نامہ نگار اور شاعرہ ہیں جن کی شہرت بیرون ممالک تک پھیلی ہوئی ہے۔ وہ 19 دسمبر 1960 کو ، کوئٹہ بلوچستان میں پیدا ہوئیں جہاں ان کےوالد انور مبشر صاحب ایک بینک آفیسر کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ان کی مادری زبان ہندکو ہے مگر وہ اردو، پنجابی، انگریزی اور فارسی زبانیں روانی سے بولتی ہیں. فرحین چوہدری کا اصل نام شہابہ انور ہے شادی کے بعد شہابہ گیلانی بنیں لیکن پی ٹی وی کراچی سینٹر کے ڈائریکٹر قاسم جلالی صاحب نے ان کا نام شہابہ انور سے تبدیل کر کے فرحین چوہدری رکھ دیا حالانکہ فرحین چوہدری بننے سے قبل ان کا بہت بڑا مواد شہابہ انور اور شہابہ گیلانی کے نام سے چھپ چکا ہے۔ فرحین چوہدری نے اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی سے انٹر نیشنل ریلیشنز میں ایم اے کر رکھا ہے۔ انہوں نے دوران تعلیم 7 سال کی عمر سے ہی اپنے ادبی سفر کا آغاز کر دیا۔ وہ بچپن سے اب تک ادب تخلیق کر رہی ہیں ۔افسانہ ، شاعری ، خاکے ، کالم نگاری اور سکرپٹ میں انہوں نے سخت محنت کی بدولت قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک منفرد مقام حاصل کر لیا ہے۔ لٹریری آرٹ اور کلچرل سنںڈیکیٹ کی بانی چئرپرسن کے طور پر بھی گزشتہ 12 سال سے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں پیش پیش رہیں ۔ وہ ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب جیسی دیوقامت ادبی اور روحانی شخصیات کے بہت قریب رہی ہیں اور ان کی تنظیم” رابطہ” کی پہلی کم عمر ترین رکن اور بعد میں خاتون سیکریٹری رہیں۔ وہ” حلقہ ارباب ذوق” کی دوسری خاتون سیکریٹری بھی منتخب ہوئیں۔ فرحین چوہدری نے سارک ممالک میں کئی سال تک ادبی و ثقافتی طائفوں کی سربراہی کرنے صوفی کانفرنسز کے سیشن کی صدارت کرنے کا بھی اعزاز حاصل کیا ہے۔ 2013 میں سنگارپور میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس میں پہلی خاتون پاکستانی لکھاری کی حیثیت سے شرکت کی اور ” جنوبی ایشیا میں خواتین لکھاری اور ان کے موضوعات” کے عنوان سے انگریزی میں مقالہ پڑھا ۔
لوک ورثہ میں پروگرام ایگزیکٹو ، مین ہیٹن انٹرنیشنل میں ڈائرکٹر پروڈکشن، ایورنیو کانسیپٹ میں ڈائرکٹر پروڈکشن اور پنجاب اور اسٹار ایشیا ٹی وی چینل کی سٹیشن ہیڈ اسلام آباد کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں۔ ۔ پی ٹی وی کے لئے کئی مشہور سیریل، سیریز اور ٹیلی فلمز لکھیں ۔ جن میں دام رسائی ، ماٹی کی گڑیا ، اشتہار لگانا منع ہے ، چاند میرا بھی تو ہے ، خوشبو ، خواب جو د یکھے آنکھوں نے وغیرہ شامل ہیں ۔ “پانی پہ نام” سیریل لکس سٹائل انٹرنیشنل ایوارڈ کے لئے بھی نامزد ہوا تھا۔ آئی ایس پی آر اور آئی او ایم کے لئے ڈاکومنٹریز کے علاوہ بھی کئی ڈاکومنٹریز اور ٹی وی پروگرامز بطور ڈائرکٹر بنائے ۔ چار افسانوی مجموعے ، سچے جھوٹ آدھا سچ میٹھا سچ ، شوگر کوٹڈ شعری مجموعہ، سورج پہ دستک اور یاداشتوں کی کتاب ، “مفتی جی اور میں ” چھپ چکی ہیں ۔ 2013
میں سارک لٹریری اور کلچرل ایوارڈ 2019 ممتاز مفتی گولڈ میڈل برائے ادب 2022 گولڈ میڈل منجانب امن کمیٹی برائے بین المذاہب ہم آہنگی گورنمنٹ آف پاکستان کی جانب سے نوازا گیا ۔ اس کے علاوہ 23 ایوارڈ مختلف اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں دیے گئے ۔ ان کی 4 نئی تصانیف جلد منظر عام پر آنے والی ہیں۔ فرحین صاحبہ گزشتہ طویل عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہیں ان کے دو بیٹے ہیں اور دونوں شادی شدہ ہیں۔ ان کے بڑے فرزند مسقط اومان میں مقیم ہیں جبکہ ان کے چھوٹے فرزند ان کے ساتھ اسلام آباد پاکستان میں مقیم ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمونہ کلام
ہم سادہ دل تھے لوگ سکھی
ہمیں دھوکہ دے گئے لوگ سکھی
ہم ہنس کر بازی ہار گئے
کیوں جیت بناتے روگ سکھی
جو راہ ہمارا حصہ تھی
اس راہ میں پڑگئے لوگ سکھی
یہ جیون کھیل تماشا ہے
ہمیں لینے پڑ گئے جوگ سکھی
خود اپنے آپ کو مار دیا
پھر ہم نے منایا سوگ سکھی
اب کیا پرواہ کس حال میں ہیں
اب کیا کہتے ہیں لوگ سکھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بھی پیاس کے صحرا میں بھٹکایا گیا یے
مگر ایڑی سے میری معجزہ باندھا نہیں ہے
مجھ میں پھیلے ہوئے صحرائوں کی وسعت ہے عجب
ایک درویش کی مٹھی میں سما جاتے ہیں
وہاں کاغذوں کے گھر تھے
جہاں آگ جل رہی تھی