مملکت اسلامیہ پاکستان میں چادر اور چار دیواری کے اندر بھی عورت محفوظ کیوں نہیں ؟
آج کل ایک منہاج القرآن کی وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں قادری صاحب کے نائب ، گنڈاپور ، خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی تمام حدیں پھلانگتیں دکھائے گئے ہیں ۔ چادر اور چار دیواری کے اندر یہ سب کچھ ؟ گنڈاپور ایک ان تمام مردوں کی علامت ہے جو عورتوں کو ابھی بھی ایک پراپرٹی یا commodity کی مانند ہانکنا چاہتے ہیں ۔
دیہی علاقوں میں چلے جائیں وہاں باپ اور بھائ یہ رول ادا کر رہے ہیں ۔ مجھے تو یہ لکھتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے کہ گھر کے اپنے افراد جو زیادتیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں ۔ بہت سارے کیسوں میں تو وہ خود اسقاط حمل یا abortion کا سبب بن رہے ہیں ۔
عورت ملازموں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اُس استحصال کو تو معاشرہ ہر طور پر جائز سمجھتا ہے ۔مجھے امریکہ میں جو بات بہت پسند آئ ، کسی بھی گھر میں نے یہ نہیں سُنا ماسی چائے لاؤ ۔
آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے عورتوں سے یہی سلوک ہو رہا تھا جب پیارے نبی ، تشریف لائے اور ایک دم نقشہ ہی بدل دیا ۔ بچیوں کو پیدائش پر زندہ گاڑا جاتا تھا ، ان کی تجارت عام تھی ، جائیداد سے محروم رکھا جاتا تھا ۔ ظلم اور تشدد کیا جاتا تھا ۔ آپ صلعم نے سب کچھ یکسر بدل دیا ۔ عورت کو عزت دی ، حصہ دیا اور سب سے بڑا کام ہر قسم کے استحصال سے آزاد کروایا ۔
مغرب کو دیکھ لیں ، میں ۱۹۹۸ میں ہالینڈ میں عالمی قانون کا طالب علم تھا وہاں میں نے ایک مقالہ لکھا تھا جس پر مجھے بہت سراہا گیا تھا ، عنوان تھا ؛
“کیا عورتوں کے حقوق بھی انسانی حقوق ہیں “
انگریزی میں تھا ۔ اُن دنوں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے عورتوں کے حقوق کو انسانی حقوق میں شامل کرنا تھا تو اُس کے لیے اس موضوع پر بہت نشستیں اور سرگرمیاں جاری تھیں ۔
کچھ دن پہلے ہی میں نے امریکہ کے قانون sexual harassment پر لکھا تھا ۔ مجال ہے امریکہ میں خاتون کو کوئ چھیڑ چھاڑ کر جائے ۔ شادی کی صورت میں تمام اثاثے اور مالی زمہ داریاں آدھی آدھی ۔ یہاں عورت ایک independent entity ہے commodity for trade نہیں ۔ بیشک امریکہ میں طلاق کی شرح بڑھ جائے اس کی اپنی زندگی ہے کوئ موت یا قیامت نہیں آ جائے گی ۔ وہ آزادانہ ، عزت کے ساتھ روزگار کما سکتی ہے ۔ پاکستان میں تو والدین شادی کے وقت کہتے ہیں اب وہاں سے تیرا جنازہ ہی آنا چاہیے ۔
چین اور مغرب میں تو دفتروں اور باقی مقامات پر عور تیں مردوں کے برابر کام کر رہی ہیں ۔ بلکہ چین میں اس وقت بہت ساری بڑی کمپنیوں کی CEOs عورتیں ہیں ۔ میں ۲۰۰۷ میں ایران گیا تھا عورتوں کی تعداد دفتروں میں مردوں سے زیادہ تھی ۔ سعودی عرب بھی بلآخر یہی کرنے جا رہا ہے ۔
پاکستان اور ہندوستان وہ دو واحد ملک ہیں جہاں عورتوں کے لیے زندگی قیامت سے کم نہیں۔ مودی کے بیت الخلا بھی rape نہیں روک سکے ۔ اب تو انڈین ڈراموں میں عورت پر والد یا بیٹے کی زیادتیاں کھلے عام دکھائ جا رہی ہیں ۔
کل میرے سے لاہور سے ایک بچی بات کر رہی تھی ، ایک تو میرے بلاگز کا شکریہ ادا کر رہی تھی کہ یہ ہمارے لیے ایک تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ، دوسرا کوس رہی تھی پاکستانی نظام کو ، کہ ایک تو لائبریریاں کم ہیں دوسرا باہر نکلنا عزاب ۔ آج سے دس سال پہلے ایک روسی ڈاکٹر عورت سے لاہور میں ملاقات ہوئ وہ شادی کروا کر پاکستان آئ ۔ کہتی تھی باقی تو خیر ہے لیکن میری کلینک کوئ دو فرلانگ دور ہے کوئ سو کے قریب لڑکا مجھے چھوڑ کر آتا ہے اور واپسی پر بھی اتنے ہی گھر پہنچاتے ہیں ۔ اور اوپر سے پاکستانی مردوں کی آنکھوں میں کوئ شرم و حیا نہیں ۔
ہم سب اس کے قصوروار ہیں ، عورتوں کے حقوق کی تنظیموں نے پیسہ لُوٹا اور کچھ نہیں کیا ۔ حکومت کے تو یہ ویسے ہی حق میں تھا ان کا تو کھیل اور تماشا ہی عورتوں سے شروع ہوتا ہے اور ان پر ہی ختم ہوتا ہے ۔ جنرل رانی سے لے کر آج ماروی میمن کس کے ساتھ ہے ، کشمالہ طارق کا خرچہ کون چلا رہا ہے ، عائلہ ملک نے کہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔ تہمینہ درانی پورے شہباز شریف دور میں کوئ دس فیصد وزیر اعلی رہی ۔ اور کام صرف شہباز کا عورتوں کا سٹاک ختم نہ ہونے دینا ۔ مولویوں کو جب لونڈے بازی سے فرصت ملے گی تب کچھ اس بارے میں بھی سوچیں گے ۔
میرا سوال یہ ہے آپ سب سے ، کہ کیا ہمارے ضمیر مطمئن ہیں کہ معاملات ایسے ہی رہیں؟ عورت سے جانوروں سے بھی بدتر برتاؤ کیا جائے ؟۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ عورت نے تو ہماری آنے والی نسلوں کی تربیت کرنی ہے؟ اگر اس کا اپنا مستقبل محفوظ نہیں تو کیسی تربیت کیسا مستقبل کا پاکستان ؟کہیں اس کے خاوند نے اسے یرغمال بنایا ہوا ہے کہیں والدین نے اور زیادہ تر معاشرہ نے ۔ کاش ہم سمجھیں کے وہ بھی ایک آزاد سوچ رکھتی ہے ۔ ایک عدد روح ہے اس میں بھی ۔ وہ تو آپ کے بچوں کی ماں ہے ، اس کے پاؤں تلے تو جنت رکھ دی گئ ، اُس کی تو پوُجا اسی کھاتے میں ہی کر دی جائے ۔ ضرور سوچئے اس پر وگرنہ پورا معاشرہ اس گند میں غرق ہو جائے گا ۔ اس موضوع پر تو لکھنا بھی taboo بن گیا ہے ، ممنوع ہے ۔
اللہ نگہبان ۔ بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔