ممبئی کا چور بازار تاریخی نوعیت کا تجارتی مرکز ھے۔ یہ بنڈی بازار کے قریب واقع ھے۔ اس بازار کی عمر لگ بھگ 155 سال ھے۔ یہ موٹن اسڑیٹ پر ھے۔ جو ایس وی پٹیل ، مولانا شوکت علی روڈ اور محمد علی اسٹریٹ کے قریب ھے ۔ چور بازار صبح گیارہ بجے سے شام ساڑھے سات بجے تک کھلا رہتا ھے۔ جمعے کے دن نماز جمعہ ادا کرنےکے لیے یہ بازار چند گھنٹوں کے لیے بند کردیا جاتا ھے ۔یہ مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ ھے۔یہان بوہری فرقے کے لوگ بھی بڑی تعداد میں رہائش پزیر ہیں۔ اور اس علاقے میں جیب کتروں کی بہتات ھوتی ھے۔ شروع میں اس کا نام " شور بازار" تھا ۔کیونکہ یہاں شور بہت ھوتا تھا۔
چور بازار کی پہلی گلی میں نادر و نایاب قیمتی سامان فروخت ہوتا ہے۔ یہاں کم از کم چار نسلوں سے یہ دکانیں چلی آرہی ہیں۔
ان دکانوں میں آپ کو وہ سب مل جائے گا جو بھارت کے کسی کونے میں آپ کو نہیں مل سکتا ہے۔ 200 برس پرانی گھڑیاں اور گراموفون کے علاوہ ماچس کی دو ڈبیاں بھی موجود ہے جس پر شوبھنا سمرتھ اور لیلا چٹنس کی تصاویر بنی ہیں۔
مشہور غیر ملکی فنکاروں کی پینٹنگز بھی ہیں اور پرانی ممبئی کے نقشے اور پرانے ستاروں کی تصاویر بھی لیکن یہاں کسی بھی چیز کا دام مقرر نہیں ۔ دکاندار گاہک کو بھانپ کر بولی لگاتے ہیں اور کبھی ردی کا سامان بھی وہ لاکھوں میں فروخت کر لیتا ہے۔
یہاں اشیاء کی تقریبا 100 دکانیں ہیں اور لوگ یہاں شمالی حیدرآباد ، گجرات ، کولکتہ کے علاوہ لندن سے بھی آتے ہيں۔ ایک گلی میں اوزار ، مشینیں فروخت ہوتی ہيں ۔ تیسری گلی میں پرانے گرم کپڑے ، اور جوتے ملتے ہیں۔
ممبئی کی گلیوں میں گجراتی عورتیں برتن لیکر گھومتی ہيں جو پرانے کپڑ ے لے کراس کے بدلے میں برتن دیتی ہیں۔ وہ کپڑے یہاں فروخت ہوتے ہيں ۔ اسکے علاوہ بندرگاہ سے بھی پرانے کپڑوں کی گانٹھیں آتی ہیں جو تھوک کے داموں پر فروخت ہوتی ہیں ۔ دکاندار اسے اٹھا لیتے ہیں اور پھر یہاں فروخت کرتے ہيں۔
اس بازار میں ایک غریب شخص 100 روپے میں گرم کوٹ ، پینٹ اور جوتے خرید سکتا ہے۔ اس بازار کی ایک اور اہم گلی ہے جہاں موٹرگاڑیاں اور اسکے پارٹس ملتے ہيں ۔
یہاں کے دکاندار اس سے انکار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پہلے جب بھی کوئی گاڑی چوری ہوتی تھی وہ یہیں آکر بیچی جاتی تھی اور منٹوں میں یہاں کے لوگ اسکا انجن نکال کر گاڑی توڑ دیتے تھے اور پھر انجن کی نشانی بھی مٹا دی جاتی تھی ۔
اب یہاں پولیس ٹیم رجسٹر لے کر بیٹھتی ہے اور توڑنے والی’ سکینڈ ہینڈ‘ گاڑی کے کاغذات دیکھتی ہے ۔
فلموں میں گاڑیوں کو بم سے اڑاتے ہوئے آپ دیکھتے ہیں وہ گاڑیاں یا تو یہاں سے جاتی ہیں یا پھر بم سے اڑائی گاڑیوں کے جلے ہوئے ڈھانچے یہاں فروخت ہوتے ہیں۔
کہنے کو یہ چور بازار ہے لیکن یہاں ہزاروں دکانیں ہيں اور دکاندار انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ادا کرتے ہيں ۔ لاکھوں کروڑوں روپے کا روزانہ کاروبار ہوتا ہے اور ان گلیوں کی خاک چھاننے امیر اور غریب دونوں ہی آتے ہيں ۔ یہی ممبئی اور چور بازار کی شان ہے۔
چور بازار میں پرانی اور استعمال شدہ چیزیں ملتی ہیں۔ یہان ایک دوکان "منی مارکیٹ" کے نام سے مشہور ھے جہاں پر پرانی ھندوستانی فلموں کے پوسٹر ملتے ہیں۔ یہان ایک دکان "منی مارکیٹ" کے نام سے مشہور ہے جہاں پر پرانی ھندوستانی فلموں کے پوسٹر ملتے ہیں۔ کہتے ہیں مشہور اور تاریخیی فلم "مغل آعظم" کے سیٹ پر استعمال ھونے والی اشیاء مل جاتی تھیں۔ یہاں وکٹوریں طرز کے فرنیچر سے لے کر کاروں، موٹر سائیکلوں اور اسکوٹروں کے پرزے جات با آسانی دستیاب ھوتے ہیں یہاں وکٹوریں طرز کے فرنیچر سے لے کر کاروں، موٹر سائیکلوں اور اسکوٹروں کے پرزے جاتے مل جاتے ہیں ۔ یہ اصل میں "فلی مارکیٹ" ھے جہاں ھر وہ چیز مل جاتی ھے جو آپ کو کہیں نہ ملے۔ کہتے ہیں کہ ملکہ وکٹویہ کا ایک وائلن ممبئی سے لندن بھجواتے ھوئے غائب ھوگیا۔ اور یہ وائلن " چور بازار "میں فروخت ھوتے ھوئے پایاگیا۔ "چور بازار" کا تذکرہ Rohinton Mistry کی انگریزی ناول
Such a Long Journey میں کیا گیا ھے۔ اس پر فلم بھی بن چلی ھے۔ممبئی کے چور بازار پر 1954 میں بلیک ایند وائٹ فلم بھی بن چکی ہے۔ اس فلم میں ششی کپور، چترا اور سومیترا نے مرکزی کردار ادا کیے۔ اس فلم کے گانے شکیل بدایونی نے لکھے۔ ۔
چور بازار کی پہلی گلی میں نادر و نایاب قیمتی سامان فروخت ہوتا ہے۔ یہاں کم از کم چار نسلوں سے یہ دکانیں چلی آرہی ہیں۔
ان دکانوں میں آپ کو وہ سب مل جائے گا جو بھارت کے کسی کونے میں آپ کو نہیں مل سکتا ہے۔ 200 برس پرانی گھڑیاں اور گراموفون کے علاوہ ماچس کی دو ڈبیاں بھی موجود ہے جس پر شوبھنا سمرتھ اور لیلا چٹنس کی تصاویر بنی ہیں۔
مشہور غیر ملکی فنکاروں کی پینٹنگز بھی ہیں اور پرانی ممبئی کے نقشے اور پرانے ستاروں کی تصاویر بھی لیکن یہاں کسی بھی چیز کا دام مقرر نہیں ۔ دکاندار گاہک کو بھانپ کر بولی لگاتے ہیں اور کبھی ردی کا سامان بھی وہ لاکھوں میں فروخت کر لیتا ہے۔
یہاں اشیاء کی تقریبا 100 دکانیں ہیں اور لوگ یہاں شمالی حیدرآباد ، گجرات ، کولکتہ کے علاوہ لندن سے بھی آتے ہيں۔ ایک گلی میں اوزار ، مشینیں فروخت ہوتی ہيں ۔ تیسری گلی میں پرانے گرم کپڑے ، اور جوتے ملتے ہیں۔
ممبئی کی گلیوں میں گجراتی عورتیں برتن لیکر گھومتی ہيں جو پرانے کپڑ ے لے کراس کے بدلے میں برتن دیتی ہیں۔ وہ کپڑے یہاں فروخت ہوتے ہيں ۔ اسکے علاوہ بندرگاہ سے بھی پرانے کپڑوں کی گانٹھیں آتی ہیں جو تھوک کے داموں پر فروخت ہوتی ہیں ۔ دکاندار اسے اٹھا لیتے ہیں اور پھر یہاں فروخت کرتے ہيں۔
اس بازار میں ایک غریب شخص 100 روپے میں گرم کوٹ ، پینٹ اور جوتے خرید سکتا ہے۔ اس بازار کی ایک اور اہم گلی ہے جہاں موٹرگاڑیاں اور اسکے پارٹس ملتے ہيں ۔
یہاں کے دکاندار اس سے انکار کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پہلے جب بھی کوئی گاڑی چوری ہوتی تھی وہ یہیں آکر بیچی جاتی تھی اور منٹوں میں یہاں کے لوگ اسکا انجن نکال کر گاڑی توڑ دیتے تھے اور پھر انجن کی نشانی بھی مٹا دی جاتی تھی ۔
اب یہاں پولیس ٹیم رجسٹر لے کر بیٹھتی ہے اور توڑنے والی’ سکینڈ ہینڈ‘ گاڑی کے کاغذات دیکھتی ہے ۔
فلموں میں گاڑیوں کو بم سے اڑاتے ہوئے آپ دیکھتے ہیں وہ گاڑیاں یا تو یہاں سے جاتی ہیں یا پھر بم سے اڑائی گاڑیوں کے جلے ہوئے ڈھانچے یہاں فروخت ہوتے ہیں۔
کہنے کو یہ چور بازار ہے لیکن یہاں ہزاروں دکانیں ہيں اور دکاندار انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ادا کرتے ہيں ۔ لاکھوں کروڑوں روپے کا روزانہ کاروبار ہوتا ہے اور ان گلیوں کی خاک چھاننے امیر اور غریب دونوں ہی آتے ہيں ۔ یہی ممبئی اور چور بازار کی شان ہے۔