بہت سے ممالیہ جانوروں کی نسلیں غیر متوقع طور پر سائز میں بڑی ہو رہی ہیں، اور یہ سب ہماری وجہ سے ہورہاہے۔
اس سے پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ انسانی سرگرمیوں نے دنیا بھر میں جنگلی جانوروں کے سائز کو سکڑ دیا تھا، لیکن ابھی ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شہروں کے قریب رہنے والے بہت سے ممالیہ، لمبائی اور وزن دونوں لحاظ سے مسلسل بڑے ہو گئے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج غیر متوقع ہیں۔ وسیع پھیلا ہوا شہری ماحول، دھوپ میں تپتے ہوئے سیمنٹ کے اپنے وسیع حصّوں کے ساتھ، قدرتی رہائش گاہوں کے مقابلے میں زیادہ گرم ہو سکتا ہے، اور ایسا گرم درجہ حرارت عام طور پر چھوٹے، زیادہ توانائی کی بچت کرنے والے ممالیہ جانوروں کو فائدہ پہنچاتا ہے – جو کہ ایک حیاتیات کے قانون، جسکو برگمین کے اصول Bergmann’s rule کے نام سے جانا جاتا ہے ، کے مطابق ہے۔
جیسے جیسے دنیا گرم ہوتی جا رہی ہے، کچھ سائنس دانوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ شہروں کے قریب رہنے والے ممالیہ جانور چھوٹے ہو رہے ہیں، جو ممکنہ طور پر ایک نسل کے طور پر ان جانوروں کی فٹنس کو کم کر رہے ہیں اور بلاشبہ، ان کے شکاریوں کی فٹنس بھی اسی تناسب سے کم ہورہی ہے۔
لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ بھی ایک ایسا عنصر موجود ہے جو درجہ حرارت کا حریف ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ وہ ان ممالیہ جانوروں کے سائز پر اثر انداز ہوتا ہے، ور وہ ہے ان جانوروں کی خوراک۔
گھنی آبادی والے شہروں میں اور اس کے آس پاس، جہاں زیادہ کیلوری والے انسانی غذائی باقیات زیادہ وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں اور شکاری کم اور دور دور پائے جاتے ہیں ،اس نئی تحقیق نے یہ دریافت کیا کہ شہری آبادی میں رہنے والے ممالیہ جانوروں کی زیادہ تر انواع جن پر ریسرچ کی گئی جیسے coyotes اور raccoons اپنے نارمل سائز میں بڑھ رہے ہیں بجائے اسکے کہ وہ جسامت میں سکڑ نہیں رہے۔
جانوروں کی اس اضافی جسامت کی مقدار کو پہلے بھی سائنسدانوں اور عوام دونوں نے نوٹ کیا تھا۔ لیکن اس تحقیق سے پہلے اس کی وجہ یا وجوہات شاذ و نادر ہی تلاش کی گئی تھیں۔پچھلے 80 سالوں میں میوزیم کے مجموعوں سے جمع کی گئی شمالی امریکہ کی 100 سے زیادہ انواع کی ایک محتاط پیمائش کے مطابق ان ممالیہ کے سائز میں بڑھوتری کی بنیادی وجہ شہر کا درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہے۔
اس کے بجائے، وزن اور جسم کی لمبائی میں سب سے زیادہ اضافہ ان ممالیہ جانوروں میں ہوتا ہے جو زیادہ تر انسانوں کے قریب رہتے ہیں، چاہے ان کا ماحول کتنا ہی گرم کیوں نہ ہو۔
جیسے جیسے آب و ہوا کی تبدیلی بدتر ہوتی جارہی ہے، یقیناً جانوروں کے حالیہ رویے میں تبدیلی کا امکان موجود رہےگا ، لیکن کم از کم ابھی کے لیے ایسا لگتا ہے کہ شمالی امریکہ میں بھیڑیے، کایوٹی ، ہرن، چوہا، چمگادڑ اور دیگر ممالیہ جانور شہر کی آبادی سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں بجائے شہر کے موسم سے متاثر ہوکر انکی جسامت میں بدلاؤ آئے۔
فلوریڈا میوزیم میں بائیو ڈائیورسٹی انفارمیٹکس کا مطالعہ کرنے والے رابرٹ گورالنک Robert Guralnick کا کہنا ہے کہ “یہ وہ چیز نہیں تھی جس کی ہم نے توقع کی تھی۔”
“لیکن حالیہ جدید شہرکاری کی وجہ سے قدرتی زمین کی تزئین و زیبائش، اس نئی خرابی کی نمائندگی کرتی ہے جو ہزاروں سال پہلے موجود نہیں تھی۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اس کا ایک بہت بڑا اثر ہو رہا ہے۔ اور یہ بہت بڑا اثر شہر کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے کسی بھی جاندار کے جسمانی سکڑاؤ کو متوازن کرتا دکھائی دیتا ہے۔ پچھلے مطالعات سے، محققین نے توقع کی تھی کہ درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ ہی زیادہ تر ممالیہ جانور چھوٹے ہو جائیں گے۔”
حتی کہ بہت سارے ہائبرنیٹنگ ممالیہ جانوروں کو ،بہت زیادہ وقت زیر زمین گزارنے کے باوجود، بھی بیرونی درجہ حرارت سے متاثر ہونا چاہیے۔ درحقیقت، ان ممالیہ جانوروں کا سائز کچھ کمپیوٹر سمیولیشن میں زیادہ ڈرامائی طور پر سکڑتا دکھائی دیتا ہے۔
فلوریڈا میوزیم سے ماہر حیاتیات میگی ہانٹک Maggie Hantak کا کہنا ہے کہ “ہم نے سوچا کہ وہ انواع جو ٹارپور ( torpor ایک سستی یا بے حسی کی سی کیفیت) یا ہائبرنیشن کا استعمال کرتی ہیں وہ ناموافق درجہ حرارت میں اضافےکے اثرات سے چھپ سکتی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ حقیقت میں زیادہ درجہ حرارت کے لیے حساس ہیں۔”
“یہ مقالہ اس بات کی ایک اچھی دلیل ہے کہ ہم کیوں برگمین کے اصول کو نہیں مان سکتے یا صرف آب و ہوا ہی جانوروں کے سائز کا تعین کرنے میں اہم ہے۔”
برگمین نے جو یہ سادہ اصول بنایا اسے بہت سادگی سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن میملز کے علاوہ ،یہ تصویر اور بھی زیادہ پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
جب کہ کچھ مطالعات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ شہری گرمی کے جزیرے کا اثر کیڑوں اور دیگر حشرات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے، جیسے مکڑیاں، ان کے جسم کے مجموعی سائز کو حرارت کی بڑھتی مقدار سکیڑتی ہیں، لیکن شہروں میں کیڑے اور تتلیوں پر ہونے والی دیگر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چھوٹے نہیں بلکہ بڑے ہو رہے ہیں۔ مزید یہ کہ وجہ شاید درجہ حرارت نہیں ہے۔ اس کے بجائے، محققین کا خیال ہے کہ وسیع و عریض مناظر اڑنے والے کیڑوں کے بڑے پروں کے حق میں ہوتے ہیں،تاکہ یہ کیڑے زیادہ سے زیادہ جگہ کی تلاش کرکے اپنی غذا کی فراہمی جاری رکھیں۔
“جب ہم سوچتے ہیں کہ اگلے 100 سالوں میں ممالیہ کے جسم کے سائز کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، تو بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں جانور چھوٹے ہو رہے ہیں،” گورالنک کہتے ہیں۔”کیا ہوگا اگر یہ جسامت کی بڑھوتری سب سے بڑا اثر نہیں ہے؟ کیا ہوگا اگر یہ ہے کہ شہرکاری موٹے میملزکی طرف لے کر جا رہی ہے؟”
مصنفین کو امید ہے کہ ان کے نتائج مزید محققین کو جسم کے سائز کو تبدیل کرنے کے ان کے تجزیوں میں شہرکاری کو شامل کرنے کا اضافہ کریں گے۔ ایسے محققین شہروں کے آس پاس کے جانوروں کے سائز کا موازنہ دیہی علاقوں کے جانوروں سے کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، جہاں انسانی بچ جانے والی خوراک بھی آسانی سے دستیاب ہے۔
اس طرح کا مطالعہ اس بات کا تعین کرنے میں بھی مدد کرے گا کہ آیا یہ انسانی اسکریپ (غذائی بچ جانے والے اجزاء) اور نہ استعمال کیے جانے والے وسائل ہیں جنہوں نے سالوں کے دوران شہر کے جانوروں کو اتنا بڑا بنایا ہے، یا کوئی اور چیز انکے سائز میں اضافے کا سبب ہو رہی ہے۔
اگر ہم ان ممالیہ جانوروں کو مستقبل کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جو آج موجود ہیں، تو یہ ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ انسانی تہذیب ان کے سائز، رویے اور فلاح و بہبود کو کس طرح تشکیل دے رہی ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں، اس طرح کی معلومات کا مطلب جاری زندگی اور معدومیت کے درمیان فرق ہو سکتا ہے۔نیز کسطرح ماحول اور غذائی فراوانی جانداروں کے سائز میں بدلاؤ لاسکتا ہے۔
The study was published in Communications Biology.
سورس فائل
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...