اگر دھوکا دہی جعلسازی کا یہ مقدمہ زیر دفعہ 420 ضابطہ فوجداری پاکستان مجھ پر دایر ہوجاتا تو عدالتی پیشکار کی صدا یہی ہوتی ۔۔۔۔ منظر کچھ ایسا ہی ہوتا کہ میں پولیس کی تحویل میں دست بستہ رات بھر کی تفتیش سے نیم جاں کراچی کی کسی عدالت کے باہرمجمع عام میں کھڑا ہوتا اور ان تمام فراڈ کیا چوری کے مقدمات کا اعتراف کر چکا ہوتا جن کے مجرم پکڑے نہیں گۓ تھے یا شاید نظام انصاف چلا رہے تھے
جرم میرا یہ تھا کہ میں نے اصل دستاویزی نام کی جگہ کمایؑ کیلۓ احمد اقبال کا نام اختیار کر لیا تھا چنانچہ میں جعلسازی اور دھوکا دہی کا مرتکب ہورہا تھا۔۔،ہمارے قانون میں اس کی گنجایش آج بھی نہیں۔۔۔۔ یہ بات ہے 1975 کی ۔۔۔۔ اصل کہانی کچھ اور تھی
جب میں سرکار کی چاکری میں تھا۔۔(جو نہیں جانتے چاکری کیا ہے ان کی اطلاع کیلۓعرض ہے کہ نوکر کا نوکر مزید کمترہوکے چاکر کہلاتا ہے )۔۔تو محکمے کے سربراہ اچھے لوگ بھی ہوےؑ مثلا" مسعود کھدر پوش۔۔مرغوب احمد ، سلمیؑ ریؑیس الدین اور نذر محمد شیخ۔۔یہ سب اعلیؑ ترین منصب تک پہنچ کے رخصت ہوۓ۔۔انہی میں ایک یوسف الزماں صدیقی تھے جو پاکستاں کے پہلے امپورٹد وزیرخزانہ محمد شعیب کے سیکرٹری تھے۔۔دیگر وزراۓ خزانہ شوکت عزیز،شوکت ترین سلک بینک والے،یاحفیظ شیخ بعد میں ورلڈ بینک سےامپورٹ ہوۓ
میں پہلے اچھی انگریزی لکھنے کی وجہ سے اور بعد میں اردو میں نام کمانے سے یوسف صاحب کو پسند آیا ورنہ عموما" معتوب رہا کیونکہ نوکری کبھی اپنے مزاج کا حصہ نہ تھی،افسر اعلےؑ کی جاہلیت قابل برداشت کر سکتا تھا۔ فرعونیت نھیں موصوف نے مجھ سے ایک اسٹیج ڈراما لکھوایا ،شوق پورا ہونے کے ساتھ ان کہ آمدنی ہوی اورکچھ "مراسم" بھی بڑھے۔لیکن مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ان کو شوق نے پھر میرے سامنے سوالی بنا دیا مگر میری طرف سے کورا جواب ملا کہ پہلے سیدھے ہاتھ سے میرا حصہ نکالۓ پھر بات کیجۓ۔ ان کی افسرانہ انا ایسی مجروح ہویؑ کہ ۔۔۔ ؎ بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
ایکدن برہم ہوۓ تو پوچھ بیٹھے'مسٹر اقبال ۔۔تم نے گاڑی خریدی ہے؟تم جانتے ہو رولز کے تحت تم گاڑی نہیں رکھ سکتے؟"
میں نہیں جانتا کہ گورنمنٹ سرونٹ ایفی شنسی اینڈ کنڈکٹ رولز 1973ٗ آج لاگو ہیں یا نہیں لیکن اس وقت گریڈ 18 سے نیچے کا افسر گاڑی رکھنا تو در کناربریف کیس لے کر دفتر نہیں آسکتا تھا۔اب ذکر آگیا تو بتادون کہ شوکت نام کے ایک ساتھی معاون کی حیثیت سے مزار فنڈ یعنی"قاید اعظم میموریل فنڈ" کے اجلاس میں شرکت کرتے تھے جو اس وقت زیر تؑمیر تھا۔ ھٰذا من فضل ربی کہ ان کی بیگم نے مولوی مسافر خانے پر ریڈی میڈ کا بزنس کیا گاڑی خریدی اور سوسایٹی میں جو کوٹھی بنواؑی اس میں مزار کا ہی ماربل استعمال ہوا۔ان کا سب کچھ قانونی طور پر بیگم کےنام پر تھا چنانچہ وہ شوہر کو دفتر سے کچھ دور اتار کے فیکٹری چلی جاتی تھیں
ان کی مثال سامنے رکھ کے میں نے کہا" سر گاڑی تو بیوی نے لی ہے در اصل"،
" اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟"
صرف ان کو مشتعل کرنے کے لۓ میں نے کہا"سر مجھے تو نہیں معلوم۔ پہشہ کرتی ہوگی۔میں تو دفتر میں ہوتا ہوں۔۔آپ معلوم کریں"
چراغ پا ہو کے بولے"مجھے پتا ہے تم لکھ کر اچھا خاسا کماتے ہو۔نوکری کیوں کر رہے ہو ہ استعفے دو اور گھر جاو'
میں نے کہا"یوسف صاحب میں آپ کا نوکر نہیں ہوں میں اور آپ دونو سرکار کے ملازم ہیں۔کام دھیلے کا ہم دونون نہیں کرتے لیکن آپ اس نوکری کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے لیکن میں سڑک پرریڑھی بھی لگا سکتا ہوں اور مجھ میں صلاحیت ہے" کہ ترقی کرکے ایک دن بھتہ دینے والے سے بھتہ لینے والا بن جاوں" اور واک آوٹ کر گیا
بس اس کے بعد توگویا جنگ عظیم چھڑ گیؑ۔یوسف صاحب نے پہلے ایک ماتحت افسر مولوی محراب علی خان کو میرا دماغ درست کرنے پر مامور کیا۔ اس کی کہانی پھر سہی۔ اس کندہ ناتراش نے میری جوابی معرکہ آراٰیؑ سے تنگ آکر میرا کیس ایف آیؑ اے کو بھیجا کہ یہ دہرے نام والا شخص فراڈ دھوکا دہی اور جعلسازی کر رہا ہے
ایف آی اے سے ایک ڈی اٰس پی یا ایس پی غلام علی یا غلام حسین تفتیش پر مامور ہوا ۔وہ ایک معقول شخص تھا،عالمی ڈایجسٹ میں عباس صاحب کا بیان لینے کے بعد میرا بیان لینےآیا تو شرافت سے پیش آیا مگر وہ قلمی نام سے ناواقف تھا۔اسے سمجھانے کیلۓ میں نے کہا "آپ دلیپ کمار کو تو جانتے ہونا؟
"ان کو کون نہیں جانتا۔۔،"
"ان کا اصل نام ہے یوسف خان۔۔اپنے سنتوش کمار ہیں سید۔۔"
وہ بولا "مجھے پتا ہے۔یہ ان کے فلمی نام ہیں"
"رایٹ۔۔ایسے ہی قلمی نام ہوتے ہیں" میں نے جون ایلیا، ابن انشا ،پظرس کی مثال دی
اس نے کسی کو نہیں پڑھا تھا۔ خاموشی سےچاۓ پیتا رہا
سب کے اصلی نام بتا کے پوچھا"آپ کے خیال میں میراجی ہندو ہے کہ مسلمان ؟ مرد ہے کہ عورت؟
اس نے سوچ کے کہا "کوی ایکٹرس ہے یہ بھی۔۔ھندو لگتی ہے ۔۔۔"
میں نے کہا'جناب یہ شاعر ہے۔اصل نام ثنااللہ خاں "
اس بات نے پانسہ پلٹ دیا۔ڈی ایس پی کو اصل بات معلوم ہوییؑ تو اس نے اپنی رپورٹ میں سب لکھا اور یوسف الزماں صدیقی صاحب کو لینے کے دینے پڑ گۓ ۔مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارا موجودہ نظام صرف"کمپیوٹرایزڈ" شناختی کارد پر لکھے نام کو تسلیم کرتا ہے
کہانی کا دوسرا حصہ بھی سنا ہی دوں۔تین ماہ بعد ایک دن ڈایریکٹر ایف آیؑ اے نے غریب خانے کا رخ کیا تو دنیا نظر میں اندھیر ہوگیؑ کو ۔۔۔۔۔اور لکھو کہانیاں احمد اقبال بن کے بیٹا۔۔اب ساری کمایؑ۔۔۔۔۔۔ کے راستے نکل جاۓ گی ۔۔۔لوح مزار پر لکھا جاۓ گا احمد اقبال جعلساز۔۔ کہانی کار نہیں۔۔۔۔ میں نے بیوی بچوں کو وصیت کی اب ملاقات عرصہؑ محشر میں ہو تو اچھا ہے ۔تھانے میں مجھے الٹا لٹکا زیر تفتیش دیکھنے مت آنا،رونا پیٹنا مچ گیا اور دل کے مرٰیض شاعر ابا کا خود صدمے سے حال خراب ہوگیا۔ "یا اللہ ۔ پاکستان میں ایسا ہوگا" مجھے ان کے الفاظ یاد ہیں۔
خیر ڈرایینگ روممیں ایا تو ایک شایستہ شخص احترام میں کھڑا ہوگیا"میں قمرااسلام ہوں۔۔ڈایریکٹر ایف آی اے"
میں بھونچکا۔۔۔۔۔ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے "جناب نے کیسے زحمت کی" بہ مشکل تمام کہا
یکلخت دنیا بدل گیؑ۔۔سورج مغرب سے نکلا۔۔زمیں اوپر اصمان نیچے۔۔سب خواب کی صورت تھا۔ اس نے کہا "میں ایک فلم بنارہا ہون،کالے دھن کو سفید کرنے کیلۓ۔اپنے پاس سے سوالاکھ لگاوں گا۔۔پونے چار لاکھھ فلم فنانس کارپوریشن کا قرض دکھاوں گا اور فلم بنے گی دس لاکھ میں۔۔ؐحمد علی نے بیان دیا ہے کہ کراچی میں فلم بنے تو معاوضہ نہیں لوں گا۔۔معاوضہ اسے پورا ملے گا۔۔ایگریمنٹ ہوگا ایک روپے کا۔۔اس کے مقابل ممتاز ہوگی۔۔موسیقا نثار بزمی یا ایم اشرف ۔۔ ۔۔سب طے ہے۔۔کہانی آپ کو لکھنی ہے"
میں نے سب خواب کی صورت سنا لیکن بولنے تک میں سنبل چکا تھا۔عرض کی "اپ کا حکم سر آنکھوں پر۔۔انکار کرکے پھانسی چڑھ جاوں۔۔یہ منظور نہیں لیکن یہ فرماییۓ کہ بفرض مھال فلم بن بھی گیؑ تو مجھے کیا ملے گا؟ یہوں تو خود محمد علی کے پیسے مار گۓؑ یار لوگ اور حمایت علی شاعر کو فلم "لوری" میں سیٹھ غفار دانا والا نے چہنا لگا دیا"
وہ ہنسنے لگا۔"اپ کی بات بالکل درست۔۔ایک سادہ کاغز لاییۓ"
میں نے پیش کردیا۔۔وہ اس پر کچھ لکھتا رہا۔۔پھر وہ کاغز میری طرف بڑھا دیا "یہ آج لے جاییں "پہلی بھیت آیل ڈپو" والے کے پاس۔لالو کھیت میں ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا۔۔وہ آپ کو بیس ہزار ابھی دے دیگا۔۔آپ کا معوضہ ایڈوانس آپ کل سے کام شروؑع کردیں"
میں دم بخود اختیار کے اس بلینک چیک کو دیکھتا رہا۔۔کس کی مجال تھی کہ اسے کیش نہ کرتا۔۔ لیکن میرے لۓ ایک اور ازمایش۔۔؎ اک اور درا کا سامنا تھا منیر مجھ کو۔۔ میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔۔ کچھ دیر بولنے کی ہمت کرتا رہا۔۔پھر صاف بات کی کہ جناب۔۔ کل سے کہانی نہیں لکھ سکتا۔۔وجہ یہ کہ "عالمی ڈایجسٹ" کا ناول نمبر آرہا ھے اور میں اس کیلۓ لکھ رہا ہوں۔۔دو ماہ بعد یہ کام کر سکتا ہوں"
وہ مایوس ہو کے کھڑا ہوگیا"نہیں میں اتنا انتظار نہیں کر سکتا'
میں نے بلینک چیک اسے واپس کیا اور وہ ہاتھ ملا کے رخصت ہوگیا۔اس فرشتہ سیرت ژکص سے میں پھر کبھی نہیں ملا۔وہ چاہتا تومجھ سے بلا معاوضہ بھی کہانی لکھوا سکتا تھا اور تھانت کی حوالات میں بٹھا کے۔۔کچھ لوگ مجھے احمق گردانیں گے جس نے خوش نصیبی کی دروازے پر دستک دینے والی دیوی کو دھتکار دیا۔۔کیونکہ میں فرض کی زنجیر سے بندھا ہوا تھا اور اسے توڑنا نہیں چاہتا تھا حالانکہ توڑ سکتا تھا
وہ فلم بعد میں "کافی ہاوس" کے نام سے ریلیز ہویی اور ایک سپر ہٹ فلم تھی۔۔جعلساز احمد اقبل کو افسوس آج بھی نہیں۔۔اللہ اس پر ہمیشہ مہربان رہا۔۔۔ آج بھی ہے۔۔ پتا نہیں کیوں۔۔۔
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/1049475008467850