لوک دانش اور جدید سائنسی ڈیٹا۔
————
برطانوی بچے تنہا کیوں مرجاتے ہیں
جدید سائنس بھی ڈیٹا کے نام پر آج کل محض کارپوریٹ مقاصد پورے کررہی ہے۔کچھ دن پہلے بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی کہ برطانوی خاندانوں میں بچوں کو تنہا سلانے کی روایت ہے۔ یہاں ہر سال کئی بچے سوتے میں موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
اسی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی اور ہندوستانی خاندانوں کی اکثریت اپنے بچوں کو ساتھ سلاتی ہے اور ان ایشیائی باشندوں میں سوتے ہوئے بچوں کی اموات کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔
آگے اسی ریسرچ ادارے کا کامن سینس ملاحذہ کریں جو کہتا ہے کہ گو کہ ابھی ہمیں معلوم نہیں کہ بچوں کو ساتھ سلانے سے اور علیحدہ سلانے سے ان اعدادوشمار میں کوئی فرق پڑے گا تو ہم اسے وجہ تسلیم نہیں کررہے۔
اب ان احمقوں کو کوئی بتائے، مجھے اب سے پانچ سال پہلے ملتان کی ایک دیہاتی عورت نے کہا تھا کہ کمسن بیمار بچوں کو ماں سے الگ نہیں کرنا چاہیے، وہ سہم کر مرجاتے ہیں۔
جو بات ہمارے خطے کی ایک انگھوٹا چھاپ دیہاتی عورت کو معلوم ہے اس کے لیے یہ ابھی ڈیٹا کا انتظار کررہے ہیں، تب تک بچوں کو مرنے کے لیے اکیلا کمروں میں چھوڑا جائے گا۔
مطلب ٹھیک ہے آپ نے بیماریوں کے علاج میں بہت تیزی سے پیش رفت کج ہے، لیکن یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ بیماریاں بھی بے لگام سرمایہ دارانہ پھیلاؤ کے سبب بڑھی ہیں۔
تو بھائی آپ کے پاس لیبارٹریاں ہیں، ہمارے پاس قدیم ذہانت اگر آپ اپنی ان لیبز کو استعمال کرکے قدیم کو جدید کو ہم آہنگ کردیں اور سرمایہ دار کی بنائی ادوایات اور اشیا کے استعمال کو کچھ کم کردیں تو مہربانی ہوگی