ملتان کی دلپذیر ادبی یادداشتوں کا قصہ اور میجر غلام نبی اعوان
میجر غلام نبی اعوان نےاپنی خود نوشت سرگزشت ۔۔ کیا کیا ہمیں یاد آیا۔۔۔چند روز قبل مجھے بھیجنے کی اطلاع دی اور پھر دو ہی دن بعد فون کرکے یہ تصدیق کیئے بغیر کہ کتاب مجھے ملی بھی یا نہیں سرزنش کی کہ میں نے انہیں وصولی کی اطلاع ہی نہیں کی! ایک دبنگ فوجی افسر ۔۔ریٹائرڈ ہی سہی۔۔کی دوستانہ لیکن مرعب کن آواز نے اس قدر دہلادیا کہ بدحواسی میں وصول یابی کا اس طرح اقرار کیا جیسے کوئی ناپختہ مجرم پولیس کے سامنے ناکردہ گناہوں کا بھی فرفر اقرارکرتا چلا جاتا ہے ۔ اب رائے دینے کا حکم ہوا اسی بے حواسی میں اسکا بھی اقرار کیا اور کتاب کی اصل وصول یابی پر اس کا سرسری مطالعہ کرنے کا ارادہ کیا اور ان کے بارے میں کتاب کے آغاز میں چھپے رعب اور دبدبے والے نامور اہل قلم کے تحسینی تبصروں سےبڑی کوشش کرکے نظر بچاکر سیدھا اصل متن تک پہنچا تو اسکے طرز بیان کے سحر نے ایساجکڑا کے بس پڑھتا ہی چلا گیا اور دو چار نشستوم میں خوبصورت چھپی ہوئی یہ ساری کتاب پڑھ ڈالی ۔اک ذرا دکھ ہوا کہ اعوان صاحب کو ان دیمک زدہ بیساکھیوں کی چنداں ضرورت نہیں تھی جن کی انہوں نئ کتاب کے آغاز ہی میں نمایش لگا دی اور کافی صفحات ان سپیڈ بریکروں کی نطر کردئیے۔ سیدھے سبھاو کتاب کا متن پڑھنے کا مجھے کئی طرح سے فائیدہ ہوا ایک تو میں نے کسی بھاری بھرکم نقاد کی رائے سے متائثر ہونے سے پہلے اصل متن کو پڑھ کر براہ راست لطف اٹھایا دوسرے غلام نبی اعوان کے بارے میں میری کئی ایسی غلط فہمیاں کافی حد تک دور ہو گئیں جو ایک مخصوص دور کے سیاسی عہد کےتناطر میں ایک فوجی کے بارے میں پیدا ہو جانا فطری سی بات تھی۔ تیسرے ایک فوجی افسر اور اوپر سے اعوان ہونے کا ان کا جو رعب مجھ پر جما ہوا تھا وہ بھی بہت کچھ کم ہوا اور اب ان سے دوستانہ کلام کا آغاز ہوا ہے۔۔۔ فوجیوں اور اعوانوں سے کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر میں مرعوب ہو جاتا ہوں لیکن بہرحال یہ اس درویش کا یہ خالص نجی معاملہ ہے۔
غلام نبی اعوان کی یہ کتاب زیادہ تر انکے قیام ملتان کے دورانیے میں ان کی ادبی سرگشت کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ 1980 کے عشرے کےان ابتدائی جند برسوں میں ان کی کی یادداشتوں پر مبنی ہے جب وطن عزیز میں جنرل ضیاء الحق کا اسلامی مارشلا اپنے عروج پرتھا اور یار لوگ اپنا اپنا اسلام الم نشرح کرتے پھر رہے تھے کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔۔ اسی عرصے میں ایک خوش شکل خوش پوش اور بےتکلف شخص نے اردو اکادمی اور دیگر ادبی محفلوں میں آنا شروع کیا اور اپنا تعارف کیپٹن غلام نبی اعوان کے نام سے کروایا ۔ خاص طور پر بائیں بازو سے تعلق کی شہرت رکھنے والوں کے کان اور رونگھٹے کھڑے ہو گئے کہ خدا خیر کرے کیوں کہ کوئی فوجی اس دور میں کہیں آنے جانے لگتا تو خیریت کی بات ہوتی نہیں تھی ۔اگرچہ آعوان صاحب اپنے قول و فعل میں بہت لبرل لگتے تھے لیکن یہ بھی ایک بہروپ ہو سکتا تھا بیٹوں کا اس وقت خیال یہی تھا ۔
ملتان میں اردو اکادمی پروفیسر عرش صدیقی کی سرپرستی میں چلنے کی بنا پر سرخوں کا مرکز سمجھی جاتی تھی حالانک عرش صاحب کی وضعداری اور رواداری کے باعث مختلف الخیال لوگ اکٹھے ہوتے تھے کھبے سجے موقع شناس سبھی انواع کے ادیب اور دانشور اس کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاسوں اور دیگر تقاریب میں شریک ہوتے تھے کیوں کہ یہ ان دنوں شہر ملتان کا سب سے زیادہ متحرک اور موءثر ادبی فورم تھا۔ اس کے اجالاسوں میں پروفیسر عاصی کرنالی پروفیسر جابر علی سید پروفیسر اسلم انصاری ارشد ملتانی علامہ عتیق فکری ڈاکٹر مہر عبدالحق سید حسن رضا گردیزی پروفیسر خلیل صدیقی پروفیسرعطاالحق عبدالرشید فیاض تحسین ڈاکٹر اے بی اشرف ڈاکٹر طاہر تونسوی پروفیسراصفرعلی شاہ پروفیسر مبارک احمد مجوکہ پروفیسرلطیف الزماں پروفیسر فاوق عثمان ڈاکٹر ظہور شیخ ڈاکٹر انوار احمد پروفیسر تاثیر وجدان پروفیسر فرخ درانی ڈاکٹر عبدالروف شیخ پروفیسر افتخار حسین شاہ ابن حنیف سلطان صدیقی اقبال ساغر صدیقی شبیر حسن اختر مظہر عارف پروفیسر انور جمال ممتاز اطہر حسین سحر پروفیسرخالد سعید اصغر شاہیہ نوشابہ نرگس ثمر بانو ہاشمی عزرااصغر اقبال گیلانی ارشد ملتانی ڈاکتر شمیم ترمذی ڈاکٹر مختار ظفر ڈاکٹر صلاح الدین حیدر پروفیسر عابد عمیق زوار حسین آرٹسٹ ڈولفقار علی بھٹی آرٹسٹ رشید قیصرانی اقبال ارشد ارشدحسین ارشد اختر جعفری الیاس عشقی عمرکمال خان فخر بلوچ سلیم الرحمان مشتاق شیدا وغیرہ ان سینئر ادیبوں کے علاوہ اس دور کے نوجوانوں میں سے ڈاکٹر احمد فاروق مشہدی سلیم خلجی جاوید اقبال جاوید اختر بھٹی اظہر علی ایم ایم ادیب محمودالحسن قریشی ڈاکٹر نعمت الحق ڈاکٹر محمود ناصرملک رضی الدین رضی مظہر سلیم مجوکہ اظہر سلیم مجوکہ ڈاکٹر خلیق آلرحمان پروفیسر نسیم شاہد ڈاکٹر شعیب عتیق ڈاکٹر امتیازبلوچ ڈاکٹر شوذب کاظمی ڈاکٹر عامر سہیل شاکر حسین شاکر ڈاکٹر شفیق آصف نوشی گیلانی رابعہ عارف قریشی صباحت مشتاق افشاں عباس وغیرہ(ان میں اکثر بعد ازاں ڈاکٹر اور پروفیسرہو کر نامور ہوئے اور کئی تخلیق اور تحقیق وتنقید کرکے صاحبان تصنیف پوئے ) اور اس خطے کے دیگر اکثر اہم ادیب و شاعر شریک ہو کر اردو اکادمی کی رونقوں میں اضافہ کرتے رہے اور ان میں سے اکثر اپنی تحریریں بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اعتدال پسند ادیب سمجھے جاتے تھے اور دائیں یا بائین کسی گروپ کے واضح نظریاتی اتحادی نہیں تھے یہ لوگ اردو اکادمی کے اجلاسوں میں بلا تکلف شریک ہوتے۔۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس دور کے مخصوص حالات میں بھی واضح طور پراور اعلانیہ دائیں بازو اور اسلامی نظریاتی ذہن رکھنے کے میں اے کے درانی نعیم چودھری اور محمد امین اور چند دیگر احباب تو اکادمی کی مجلس عاملہ کے بھی اہم رکن تھے ۔ اس دور پر اشوب میں مصلحت کے تحت محمد امین کو سکریٹری اردو اکادمی کی ذمہ داری سو نپی کئی جو اس مرد درویش نے ایک لمبے عرصے تک بہت تندہی سے نبھائی اور اردو اکادمی کی رونقوں کو باقی رکھا۔وہ سرشام ہی اجلاس کے انتظام کےلئے پہنچ جاتے اور اختتام تک موجود رہتے
غلام نبی اعوان کے ملتان میں ورود کا یہی دور تھا ۔ وہ اردو اکادمی کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاسوں میں باقاعدگی سے آتے گفتگو میں حصہ لیتے اپنی تحریریں بھی پیش کرتےاور باقاعدہ نوٹس بھی لیتے رہتے ۔۔۔ شاید اپنی کالم نگاری کےلئے۔کیوں کہ اسی دوران میں انہوں نے روزنامہ امروز اور نوائے وقت میں بیک وقت کالم لکھنا شروع کردئیے تھے ان کی اس کالم نگاری کو بھی بظاہر خفیہ والوں کی پالیسی کا ایک انداز اور شاخسانہ سمجھا گیا۔۔ اور اس بات سے زیادہ تر لوگوں کا یہ یقین پختہ ہوا کہ کیپٹن غلام نبی اعوان کی ادیبوں پر خاص ڈیوٹی لگی ہوئی ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہم جیسے عامیوں اور عاقبت نا اندیشوں نے تو اپنی دانست میں ان سے گریز کا پہلو اختیار کیا اور ہم ویسے بھی اتنے جونئیر تھے کہ بڑوں میں ذرا کم ہی بیٹھا کرتےتھے اوریہ بھی کہ ہم پہلے ہی اس 1980 میں اہم چند دوستوں کے اشتراک سے شائع کردہ ایک چند ورقی ادبی رسالے۔ کی اشاعت کی پاداش میں بننے والے ایک مارشلائی کیس کی پاداش میں جیل جاتے جاتے بس اتفاق سے پچ گئے تھے لیکن ایک اچھی بھلی نوکری کھوکر پرسکون تھے کہ اب ڈر کاہے کا۔۔ رہا کھٹکا نہ چوری کا دعادیتے تھے رہزن کو ۔۔اس کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ کئی سیانوں نے جو ہمارے سینئر تھے کیپٹن غلام نبی اعوان میجر عرفان عزیز اور اسی طرح کے دیگر فوجی اور سول افسران کو خوب جپھا ڈالا اور بزعم خود دوستی کی پینگھیں بڑھائیں ۔ چند مسلمہ اور مشہور زمانہ سرخے اہل علم وقلم نے تو بالاہتمام علی گڑھ ماڈل سکول گلگشت کالونی جہاں اردو اکادمی کے اجلاس منعقد ہوتے تھے ۔۔کے بالمقابل مدرسہ قاسم العلوم کی مسجد میں باقاعدگی سے جمعہ نماز ادا کرنا شروع کر دی اور نماز کے بعد وہ کچھ مخصوص مڈہبی لوگوں کو اس طرح ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملتے جیسے نماز عید پر آئے ہوئے ہوں۔اسی دوران میں ایک اور مدرسے کے مہتمم مولانا قاسمی بھی ان احباب کے ہم نوالہ بنے۔۔۔ نوالہ عام طور پر خیرات کے پیسوں سے انہی مولانا کے دسترخوان کا ہوتا تھا ۔ یہ مولاناصاحب شاید ضیاء الحق کی نام زدکردہ مقدس مجلس شورئ کے رکن بھی تھے اور قومی سطح پر اہل ملتان کی نمائیندگی کرنے کا شغل فرماتے اور محسن ملتان کہلواتے تھے۔ اس عرصے میں وہ مخصوص محفلوں کی جان بنے ہوئے تھے کیوں کہ امیرالمومنین سے قربت کا ان کا دعوا تسلیم شدہ تھا اور ان کا قرب اوج کمال یا اس دور ستم گری میں کم از کم تحفط ذات کے حصول کا زینہ ضرور سمجھا جاتا تھا ۔۔ روشن خیال ادیبوں اور دانشوروں کے اس گروہ خاص نے ایک عرصہ ان موصوف کےشاندار علمی و ادبی ذوق اور فطری وضعداری اور فراخ دلی کا خوب چرچا کیاتھا۔نامعلوم اعوان صاحب کی یادداشتوں میں ان مولانا صاحب کا تذکرہ کیوں نہیں؟ ممکن ہے یار لوگ اس مرد صالح و عاقل سے ملنے کےلئے جاتے ہوئے انہیں بھی غچہ دے جاتے ہوں یا پھر کوئی اور معاملہ ہوواللہ اعلم۔۔ ۔۔
قصہ مختصر اسی شک شبہے کے ماحول میں غلام نبی اعوان کی بھی آوبھگت بڑی گرمجوشی سے ہوئی تو انہوں نے بجا طور پر اسے ملتانیوں کی وضع داری سمجھا ۔۔۔ لیکن ان چند ازلی سمجھدار لوگوں کے ان اطوار کا ذکر کر کے میں اہل ملتان کی عمومی سادگی وضع داری اور وفاکیشی پر سوالیہ نشان ہرگز نہیں لگا رہا۔ یہ جبر کے ایک ماحول میں چند خاص لوگوں کے خوددفاعی طرزعمل کا معاملہ تھا اور بس ۔۔ ان میں سے اکثر کا کوئی قصور بھی نہیں تھا کہ اس دور ابتلا میں ایک سفید پوش شریف آدمی اور کر بھی کیا سکتا تھا کیوں کہ جسے گھر میں خاتون خانہ نہ بہٹھنے دے اس نے ایسی ہی محفلوں اور جھمیلوں میں پناہ لینی ہے۔
اس سلسلے میں ہمارے ممدوح مصنف نے پروفیسر عرش صدیقی کا تذکرہ تھوڑا منفی انداز میں کیا ہے کہ انہوں نے ملتان کےپعض نامور احباب کو ان سے بدگمان کرنے کی نامشکور کوشش کی جس کی اطلاع انہیں ان کے ایک مخلص دوست اور معروف افسانہ نگار نے کر دی اور یوں مخلص دوستوں میں پھوٹ ڈلوانے کی پروفیسر عرش صریقی کی اس مفروضہ سازش کو ناکام بنا دیا۔۔وہ بےبدل قصہ گو اپنی قابل رشک کامیاب زندگی میں ایسی بہت سی قبیح ساذشوں کو منکشف کرنے اور ناکام بنانے مین بہت نامور ہوئے۔۔۔شاید اعوان صاحب کو یہ علم نہ ہو یہی صاحب عرش صریقی سےمسلسل فائیدے اٹھا کر آگے بڑھتے رہے اور مارشلاء لگنے کے بعد خود اپنی دلاوری ثابت کرنے کےلئے ان پر مصلحت اندیشی اور سرکار دربار سے بنا کر رکھنے کی عادت کے الزام لگاتےرہتے تھے لیکن اس دوران میں بھی خود اپنی ہی ایسی عادتوں کے باعث کسی مسئلے کا شکارہوتے تو پھر عرش صدیقی ہی کے چرنوں میں بیٹھے ہوتے کہ اور کہیں جائے امان نہ ملتی تھی ۔ ۔ ان کی افسانہ نویسی کی معراج یہی رہی کہ انہیں خود اپنی بات دوسروں کے نام لگا کر بتانے سنانے کا ہنر خوب آگیاتھا جسے وہ اس وقت اور پعد میں بھی اپنی ہر گفتار اور تحریر میں برتتے ہوئے دوسروں پر جملےبازی بہتان تراشی اور تضحیک کےلئے خوب استعمال کرتے رہے۔ لگتا ہے اس بات کا کچھ تجربہ اور اندازہ خود اعون صاحب کو بھی ہوا ہوگا کیوں کہ وہ ان کو ایک دو جگہ اپنا گہرادوست اور یار کہنے کے باوجود ان کا کچھ تفصیلی تذکرہ کرنے سے پہلو بچاگئے اور ان کے اعزازمیں دو ایک حملوں ہی کو کافی سمجھا ۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب۔
عرش صاحب کے بارے میں اعوان صاحب تک یہ معلومات شاید نہیں پہنچ سکیں کہ ان کی مصلحت اندیشی یہ تھی کہ وہ ملتان کے شاید واحد سینئر ادیب تھے کہ جنھیں ضیاء الحق کے دور میں ہونے والی سبھی بڑی سرکاری کانفرنسوں میں شرکت کے دعوت نامے اور ٹکٹ بھیجے گئے لیکن وہ وہاں جانے سے گریز کرگئے۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں اکادمی ادبیات کی ایک کانفرنس مین کجھ نئی جمہوریت کی بحالی کے وہم میں اور کچھ احباب کےتقاضے پر چلے تو گئے لیکن بعد میں پچھتاتے رہے کہ کاش نہ ہی جاتے تو اچھا تھا اور وہ پھر زندگی بھر ایسی کسی بھی کانفرنس میں نہیں گئے۔۔۔ کینسر کے جان لیوا مرض میں مبتلا ہوئے تو سرکاری امداد کی رقم کااچیک شکر یے کے ساتھ واپس کردیا۔۔یہ جملہء معترضہ طویل ہو گیا لیکن ریکارڈ پر آئی ہوئی اس بات پر کلام ضروری تھا کہ یہ ملک کے ایک نامور اور وضع دار شاعر افسانہ نگار اور ترقی پسند دانشور جو ایک عرصے تک ملتان کی ایک بڑی شناخت رہے کا معاملہ تھا ۔
اگرچہ اسی طرح شاید غلام نبی اعوان کی ان یادداشتوں کے پعض مندرجات سے چاہے اختلاف کے کچھ اور پہلو بھی نکل آئیں گے لیکن اس کی ملتان سے محبت اور خلوص سے انکارممکن نہیں جو اس کے لفظ لفظ سے پھوٹتے محسوس ہوتے ہیں ‘ یہاں کےشب و روز یہاں کے موسم یہاں کے لوگوں کی محبت اور خلوص پینتیس برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی رگ رگ میں سمائے ہوئے ہیں کیوں کہ ان کا خمیر بھی تو دراصل سرائیکی خطے کی مٹی سے اٹھا ہے اور انہی فضاؤں میں وہ پلے بڑھے تھے ۔رحیم یار خان اور بہاولپور کی فضاؤں کی مٹھاس ان کے وجود کا لازمی حصہ ہے اس لئے وہ ملتان کو اب تک بھولے نہیں اور اس درویش جیسے عامیوں کو بھی اپنی کتاب کا خوبصورت تحفہ ارسال کر رہے ہیں۔وہ بہاول پور کی روایتی ریاستی تہذیب اور بےتکلف شائیستگی کا عملی نمونہ ہیں جسے ملتانیوں سے ان کے تعلق اور ان کی خوئے وفا ومہر نے مزید نکھار دیا اسلئے ملتان کی وضع داری کے ایک نشان ارشد ملتانی کا یہ شعر ان کے دل پر نقش ہو گیا کہ
ڈھونڈے سے نہ پاوگے ارشد جہان میں
خوئے وفا ومہر جو ملتانیوں میں ہے
اعوان صاحب نے اس دور میں ملتان کے گلی کوچوں محلوں بازاروں کو چھوٹی چھوٹی جزئیاٹ کےساتھ اس انداز سے مصور کیا ہے ان کا پورا نقشہ آنکھوں میں کھچ جاتا ہے اور جس نے اس دور کا ملتان دیکھ رکھا ہے وہ مصنف کی پنرمندی کا قائل ہوئے بنا رہ نہیں سکتا۔
اعوان صاحب کی تحریر کا اسلوب اک توشہ ء خاص ہے جو خود انہی سے مخصوص قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ان کی طبعی زندہ دلی ‘ بے تکلفی خلوص اور حسب موقع دردمندی اور ہمدردی ان کی تحریر کی دلکشی میں اضافہ کرتی ہے ان کی آٹھ نو کتابوں میں یہ واحد کتاب ہے جو میں نے ان کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے پڑھی اور تھوڑا قلق ہوا کہ اب تک ان کے بارے میں میرا اندازہ صیحح نہیں تھا نہ شخصیت کے بارے میں نہ انکی تحریر کے بارے میں ۔۔۔ ایک ذرا سا تعصب ہمیں کیسے اچھے لوگوں سے دور کر دیتا ہے اور کیسے کیسے جغادریوں کے شکنجوں میں پھنسا دیتا ہے اسکا تجربہ پہتوں کو ہوتا ہے لیکن اس کا ادراک کم لوگوں کو ہوتا ہے۔۔۔ غلام نبی اعوان ایک وضع دار انسان ہے اس لئے اس نے اپنی اس ادبی سرگزشت میں لوگوں کو اچھا اچھا ہی دیکھا اور دکھایا ہے۔۔ وہ کہیں بھی کسی کی عیب جوئی نہیں کرتے بس محبتیں وصول کرتے اور بانٹتے نظر آتے ہیں
میجر اعوان طنزومزاح کے مختلف رنگوں سے اپنے اسلوب کی تصویر کو دلکش بناتے ہیں کبھی کبھی طنز اور عمومی طور پر زیر لب تبسم کا سا مزاح جو گاہے گاہے خندہ آور ہو جاتا ہے لیکن یکسر مضحکہ خیز نہیں بنتا۔ ایک اہم بات یہ کہ وہ طنزومزاح کا نشانہ زیادہ تر خود اپنی ذات کو یااپنی پیشہ ورانہ زندگی کو بناتے ہیں یہ حوصلہ اور انداز ہمارے خودپرستانہ سماجی ماحول میں اب رہ نہیں گیا ورنہ دوسروں کا مضحکہ اڑا کر سمجھا جاتا ہے کہ طنزومزاح کا کارنامہ سر انجام پاجکا۔۔ ان کو پڑھتے ہوئ چاہے کہیں مشتاق احمد یوسفی یاد بھی آجائیں تب بھی ان کا انداز ان سے اتنا ہی الگ ہے جس قدر ایک اکل کھرے فوجی اور ایک وضعدار اور اہل زبان بینک افسر کا طرز گفتار و بیان مختلف ہوتا ہے۔یوسفی صاحب ہر ہر لفظ ہر جملے کو خوب ناپ تول کر اس کے مختلف تلازمات پر نظر رکھ کر کےان سے اپنی تحریر کو چست اور سڈول بناتے ہیں لیکن اعوان صاحب کی تحریر فطری انداز میں رواں دواں رہتی ہے جس میں کچھ زیادہ کاوش کا احساس نہیں ہوتا اسلئے ان کی تحریر میں اہل نقد کو بعض جگہوں پر جملوں کی ساخت کا انداز اور لفظوں کی نشست وبرخاست اردو روذمرہ اور محاورہ سے زیادہ کبھی سرائیکی اور کبھی پنجابی کے قریب لگے گی اکثر تو یہ انداز بھی پر لطف لگتا ہے۔
اعوان صاحب بیان واقعہ سےبھی مزاح پیدا کرتے ہیں اور الفاظ کے اندازاستعمال سے بھی مسکراہٹوں کے مواقع پیدا کرتے ہیں ۔۔۔ تحریر میں حسب موقع سرائیکی پنجابی اور دیگر کئی زبانوں کے الفاظ وہ اس بےتکلف دوانی سے برت جاتے ہیں کہ واقفان حال پھڑک اٹھیں گے ۔ یہ الفاظ ایسے روانی میں لائے گئے ہیں جیسے اس خطے کے لوگوں کی روز مرہ گفتگو میں آتے چلے جاتے ہیں۔
وہ اس قدر وضع دار اور بامروت انسان ہیں کہ کہیں کوئی ایسی بات نہیں کرتے اور نہ ہی ایسا انداز اختیار کرتے ہیں کہ جس سے کی دوسرے کی دل آزاری کا شائبہ ہو اس اس لئے بیان واقعہ اکثر جگہوں پر وک شخصیت مذکور کا نا لینے سی گریز کرتے ایک ادبی تقریب میں وقت ہر پہنچ جانے پر ایک کمشنر صاحب کی مضحکہ خیز صورت احوال کا ملبہ بھی اگرچہ انہوں نے خود پر ڈال لیا ہے پھر بھی ان کا نام نہیں لیا۔لیکن وہ حسنی نسبی اعوان بھی تو اسلئے اگر جذبات میں اجائیں تو پھر اس رکھ رکھاو کو کچھ دیر کےلئے ایک طرف بھی رکھ دیتے ہیں اور آستینیں چڑھا کر مخالفوں سے نمٹنے کے لیے ان پر جھپٹ بھی پڑتے ہیں ۔ ان کی زور آزمائی کے یہی مواقع ان کی تحریر کے انداز کی طاقت کو کمزوری میں بدل دیتے ہیں ۔ اس کتاب میں جب بھی ان کا اعوانی غصہ یا وفور محبت ان پر حاوی ہوئے ہیں ان کا مخوص دلکش اسلوب پسپا ہو کر کھڈے لائن لگ گیا ہے۔۔۔ اپنے ادارے یعنی فوج کے دفاع کا مرحلہ اس سرگشت کے متن کے سیاق وسباق میں بایکسر زائید ہے اور ان کے زندہ دلانہ اسلوب کی بھی نفی ہے۔ اگرچہ یہاں انہوں نے فوج کا بطو ادارہ دفاع کرنے کی انتہائی جذباتیت زدہ کوشیش کی ہے لیکن فوج کے طے شدہ ڈسپلن اور قانون وآئین کی خلاف ورزی کرنے والے ہر جرنیل اور فوجی آمر کی بھی اسی شدت سے مڈمت کی ہے لیکن سیاست دانوں کو فساد کی اصل جڑ قرار دیتے ہوئے انہوں نے سوائے قائداعظم کے سب کو رگڑا لگایا جس سے اختلاف کیا جاسکتا پے لیکن بات ایسے مواقع پر ان کے اسلوب کی کمزوری کی ہورہی تھی کیوں کہ کسی مصنف کو اس کا اسلوب ہی ادیب بناتا ہے۔
کتاب کے آخری حصے میں انہوں نے خاص طور پراپنے چند ایسے احباب کا ذکر کیاہے جو ان کے بڑھاپے کا عشق ہیں اور ان سے عہد جوانی کے دوستوں جیسی بے تکلفی عنقا ہے اس لئے یہاں ان کا اسلوب بھی اضمحلال اور کہولت کا شکار ہوگیا ہے۔
جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا گیا یہ درویش نے اس ڈاہڈے (زبردست ) کی دیگر کتابوں کا مطالعہ نہیں کر پایا اس لئے زیر نظر کتاب کو ان کے انداز و سالوں کی نمائندہ قرار دینا اس کے لئے مشکل ہے لیکن اسے یہ تازہ اور صحت بخش ہوا کا ایک جھونکا ضرور محسوس ہوئی ہے۔۔۔ کرنل محمد خاں بھی شاید اعوان ہی تھے یا کم از کم مجھے وہ اپنے انداز اور اسلوب لگتے ہیں ۔۔۔ غلام نبی اعوان کی یہ تحریر انہی کی روایت کی ایک اناز کی توسیع لگی اگرچہ اس کی اپنی انفرادیت اور ر نگ بھی بہت نمایاں ہے