پٹہ خزانہ جو ۱۹۴۴ میں کابل سے شائع ہوئی اس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ قدیم پشتون شعرا کی بیاص ہے اور اس کتاب میں ملتان کے اسمعیلیوں کو لودھی افغان بتایا گیا ہے اور اس کے مطابق شیخ حمید جس نے ملتان پر حکومت کی ایک پرہیزگار آدمی تھا ۔ شیخ حمید کا بھتیجا شیخ رضی تھا جو کہ پشتو شاعر اور عالم تھا ۔ یہ ملتان میں رہتا تھا مگر اسے شیخ حمید تبلیغ دین کے لئے پہاڑوں میں بھیجا کرتا تھا ۔ اس نے اپنے چچاذاد بھائی شیخ نصر کو الحاد کا راستہ اختیار کرنے پر برا بھلا کہا اور اس کو اپنی خاندانی روایات کی مخالفت کرنے پر طنز کیا ۔ شیخ رضی جو خود شاعر تھا اور اس کا تعلق ملحد علماء سے تھا ۔ جس کی وجہ سے وہ بھی الحاد کے راستے پر چل پڑا تھا ۔ اس شیخ رضی نے بھی طنزکا جواب شاعری میں دیا تھا ۔ ملتان کے اسمعیلیوں کو افغان ہونے کا ذکر ابو القاسم فرشتہ نے بھی کیا ہے ۔
فرشتہ لکھتا ہے کہ افغانوں نے راجہ کھکر اور لاہور کے راجہ سے دوستی کرلی تھی اور لاہور کے راجہ نے انہیں لمغان کے چند گاؤں اور خلجیوں کو اس شرط پر مراعت دیں کہ وہ افغانوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے مقابلے میں سرحد کی حفاظت کریں گے ۔ جب غزنی کی حکومت الپتگین کے ہاتھ آئی تو اس نے لوٹ مار مچائی اور بہت سے لونڈی غلام لے گیا ۔ جب افغانوں نے دہکھا کہ الپتگین سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی راہ نظر نہ آئی تو افغانوں نے راجہ لاہور جے پال سے الپتگین سے مقابلہ کرنے کے لئے مدد چاہی ۔ جے پال نے اس خیال کے پیش نظر کہ ہندوستان کی فوج سردی کے باعث سرد مقامات پر زیادہ عرصہ تک قیام نہیں کرسکتی ہے اس نے راجہ بھاٹیہ سے مشورہ کیا ۔ اس نے رائے دی اور اس کے مشورے کے مطابق ایک شخص جو افغانوں میں معتبر اور قابل اعتماد تھا اس ملک کا امیر مقرر کیا ۔ شیخ حمید نے لمغان اور ملتان کو قبضہ میں لے کر ہر مقام پر اپنے نائب مقرر کر دئیے اور اسی زمانے سے افغانوں میں سلطنت کا سلسلہ شروع ہوا ۔
الپتگین کی وفات کے بعد اس کے جانشین سبکتگین ہوا ۔ شیخ حمید نے سبکتگین کی مخالفت مناسب نہیں سمجھی اور اسے پیغام بھیجا کہ ہم مسلمان مذہب اسلام کے پیرو ہونے کی وجہ سے ایک ہیں ۔ اس لئے بادشاہ کو چاہیے کہ اس طبقے کو اپنا سمجھے اور جب مسلمانوں کا لشکر ہندوستان پر چڑھائی کرے گا تو اس کا لشکر رکاوٹ پیدا نہیں کرے گا ۔ سبکتگین نے مصلحت کے پیش نظر اس درخواست کو قبول کرلی اور جب اس نے جے پال پر فتح پائی تو اس نے افغانوں کی تواضع کی اور ملتان کے اکثر حصے انہیں عطا کئے ۔ لیکن جب سبکتگین کے بیٹے محمود نے اس کے برعکس کیا اور اس طبقہ کو سرنگوں اور مغلوب کیا ۔ ان میں جو سرکش تھے انہیں قتل کیا اور جو اطاعت کر تے تھے ان کے ساتھ ملازموں کا سلوک کیا ۔
فرشتہ پہلا مورخ ہے جس نے ملتان کے اسمعیلیوں کو افغان بتایا ہے ۔ اس سے پہلے کسی مورخ نے ان اسمعیلیوں کو افغان نہیں بتایا ہے ۔ اس سے پہلے کے تمام مورخین اور سیاح انہیں شیعہ ، قرامطہ اور اسمعیلی لکھتے رہے ہیں ۔ حتیٰ فرشتہ کے ہم عصر مورخین نے نعمت اللہ خان ہروی نے اپنی تصنیف ’ مخزن افغانی ‘ میں بھی ان کے متعلق کچھ بھی نہیں لکھا ہے اور بعد میں آنے والے پشتون مورخین نے اس کی پیروی کی اور انہیں لودھی پٹھان بتایا ہے ۔
فرشتہ کا بیان اور افغانوں کے نسلی دعویٰ تاریخ سے ماخذ نہیں ہیں ۔ فرشتہ کے بیان پر پشتون مورخین مزید اضافہ کرکے انہیں لودھی پٹھان بتایا ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے تاریخی ماخذ دیکھنے اور انہیں پرکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی ۔ اس لئے فرشتہ کے بیان اور ان کے افغان ہونے کے دعوے کے بارے میں تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔
فرشتہ کے اس بیان میں بھی تاریخی سقم موجود ہے۔ فرشتہ کے بیان کے مطابق لمغان سے ملتان تک شیخ حمید کی حکومت قائم ہوگئی تھی ۔ یہ بات کسی تاریخ ماخذ میں نہیں ملتی ہے ۔ جب کہ لمغان پر اس وقت حکمرانی ہندو شاہی خاندان کی تھی اور اسے ہی فرشتہ نے راجہ لاہور لکھا ہے ۔ یہ موجودہ لاہور نہیں تھا کیوں کہ موجودہ لاہور تو وجود میں نہیں آیا تھا ۔ ہنونگ یسانگ اور البیرونی نے ملتان اور سیالکوٹ کا ذکر کیا ہے مگر لاہور کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ یہ لاہور صوابی کا لاہور ہے جس کے قریب اوہند ( ویہنڈ ) ( جسے ترنگی راج میں ادھے پانڈے کہا گیا ہے ) کا راجہ تھا ۔ اس خاندان کی بنیاد کاپسیا میں پڑی تھی اور جب افغانستان کے مشرقی حصہ پر اسلامی لشکر کا قبضہ ہو گیا تو دارلحکومت گردیز اور کابل ، کابل سے اوہنڈ ( ویہنڈ ) منتقل ہوگیا تھا ۔
بنو سامہ
ملتان پر عربوں نے پہلی صدی ہجری میں قبضہ کرلیا تھا اور یہ اس وقت تک خلافت کے زیر اثر رہا جب تک مرکزی حکومت مظبوط رہی ۔ مگر خلافت عباسیہ کی کمزوری سے دور دراز کے علاقے خود مختیار ہوگئے ، وہاں ملتان بھی خود مختیار ہوگیا ۔ یہ اگرچہ ابتدا میں منصورہ کے ماتحت رہا ، مگر تیسری صدی ہجری کے وسط میں ملتان سندھ سے علحیدہ ہو کر ایک خود مختیار ریاست بن گیا ۔
مسعودی کا بیان ہے کہ وہ ۳۰۳ھ میں ملتان پہنچا تو ملتان کا حکمران سامہ بن لوی کی نسل سے تھا ۔ اس نے قریب وجوار کے بہت سے علاقے فتح کرلئے تھے ۔ جس میں سندھ و قنوج کے علاقہ بھی تھے ۔ مسعودی لکھتا ہے میں نے ملتان اور ہا ابو الہباب المتہ بن اسد قریشی کی مملکت تیسری صدی ہجری کے بعد دیکھی تھی ۔
بنو سامہ عمان میں حکمران نے ابو طاہر قرمطی نے عمان سے ان کی حکومت ۳۱۷ھ میں ختم کردی تھی ۔ مگر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ خاندان اس سے پہلے ملتان میں اپنی حکومت قائم کرچکا تھا ۔ جیسا کہ ابن رستہ ۲۹۰ھ میں ذکر کرتا ہے کہ ملتان میں ایک قوم رہتی ہے ۔ جو کہ سامہ بن لوی کے خاندان سے ہے اور لوگ انہیں بنومنبہ بھی کہتے ہیں اور وہ ہی یہاں کے حکمران ہیں اور امیر المومنین کا خطبہ پڑھتے ہیں ۔ مسعودی جو ابن رستہ کے دس سال کے بعد ۳۰۰ھ میں ملتان آیا تھا ۔ وہ لکھتا ہے کہ یہاں سامہ بن لوی کی حکومت تھی ۔ اصطخری جو مسعودی کے چالیس سال کے بعد ۳۴۰ھ میں ملتان میں آیا ۔ وہ لکھتا ے کہ یہاں کا بادشاہ نسلاً قریشی ہے اور سامہ بن لوی کی نسل سے ہے ۔ وہ منصورہ یا کسی اور امیر کے تابع نہیں ہے اور صرف خلیفہ کے نام کا خطبہ پڑھتا ہے ۔ اصطخری کے چھالیس سال کے بعد ۳۶۷ھ میں ابن حوقل ملتان آتا ہے ۔ اس نے بھی ایسا کوئی تذکرہ نہیں کیاہے کہ جس سے معلوم ہو کہ یہاں اسمعیلیوں کی حکومت ہے ۔ یہاں تک کہ مورخوں اور جغرافیہ دانوں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ملتان میں سامہ بن لوی کی حکومت ہے جو قریشی النسل اور سنی ہیں اور عباسی خلفاء کا خطبہ پڑھتے تھے ۔ ان ہی بنی لوی کو پٹہ خزانہ میں لوی کی نسبت سے اور فرشتہ کے بیان کا فائدہ اٹھا کر جعلسازی کی گئی اور پٹہ خزانہ میں اسمعلیوں کو لودی پٹھان شاعر بنا کر پیش کیا گیا ۔
اسمعیلی
ابن حوقل کے آٹھ سال کے بعد ۳۷۵ھ میں بشاری المقدسی ملتان آتا ہے ۔ اس کا بیان ہے کہ ملتان کے لوگ شیعہ ہیں اور اذان میں ’ حئی علی خیر العمل ‘ کہتے ہیں اور امامت میں دو دفعہ تکبیریں کہتے ہیں ۔ خطبے میں فاطمی خلیفہ کا نام لیا جاتا ہے اور اس کے حکم سے ہی یہاں کے انتظامات ہوتے ہیں اور یہاں سے برابر تحائف ملتان بھیجے جاتے ہیں ۔
جلم بن شیان
ملتان میں اسمعیلی حکومت ۳۶۷ ھ تا ۳۷۵ ھ کے درمیان قائم ہوئی تھی ۔اب یہ امر حل طلب ہے کہ یہ وہی بنو سامہ کا خاندان تھا اور سنی سے اسمعیلی ہوگئے تھے یا کوئی اور خاندان تھا ۔ پہلے اسمعیلی حکمران کا نام جلم بن شبان بتایا جاتا ہے یہ کون تھا ؟
دور ستر کے انیسویں داعی ادریس بن حسن ( ۸۳۲ھ تا ۸۷۲ھ ) کی کتاب ’ عیون الاخبار ‘ جو کہ اسمعلیوں میں نہایت مستند اور معتبر مانی جاتی ہے روشنی پڑتی ہے ۔ اس کتاب میں درج ہے کہ خلیفہ مغز ( ۳۴۱ھ تا ۳۶۵ھ ) نے ایک داعی علم بن شبان کو دہلی بھیجا تھا۔ اس داعی کے بارے میں روایت ملتی ہے کہ اس نے سیتا پور کے راجہ اور وہاں کے اکثر باشندوں کو تبلغ کے ذریعے مسلمان کرلیا تھا ۔ یہ علم بن شبان غالباً نقل کی غلطی ہے کیوں کہ اسعیلیوں کی بعد کی کتاب ’ موسم بہار ‘ میں یہ نام جلہ بن شبان ملتا ہے ۔
ملتان کا حکمران جلم بن شبان یہی داعی جلہ بن شبان معلوم ہوتا ہے ۔ مگر سیتا پور کے بارے میں جو روایت درج کی گئی ہے وہ درست نہیں معلوم نہیں ہوتی ہے ۔ کیوں کہ اسمعیلیوں کے مقاصد سیاسی ہوا کرتے تھے ۔ اس لئے اسمعیلی داعی صرف مسلمانوں میں تبلیغ کرتے تھے ۔ مغز کی وفات ۳۶۵ھ میں ہوئی تھی ۔ گویا یہ اس سے پہلے آیا ہوگا ۔ کیوں کہ اس کی آمد کی تاریخ نہیں ملتی ہے ۔ گویا یہ تقریباً بیس سال پہلے آیا ہوگا اور اس نے اس عرسہ میں وہاں کے لوگوں کو تبلیغ کے ذریعے اسمعیلی بنالیا ہوگا اور مقامی طور پر بغاوت کرکے بنو سامہ کو برطرف کرکے جلم بن شبان نے اقتدار سنھال لیا ہوگا ۔
جلم بن شبعان نے ملتان پر قبضہ کرکے اس نے فاطمی سکہ و خطبہ جاری کیا ۔ اسے آس پاس کی اسلامی حکومتوں سے تعاون کی امید نہیں تھی ، اس لئے اس نے ہندو راجاؤں سے محاہدے کرکے اپنی سلطنت کو مظبوط بنایا ۔ جلم بن شبان نے ملتان پر کب تک حکومت کی اس کی صراحیت نہیں ملتی ہے تاہم وہ ۳۷۶ھ کے بعد بھی زندہ رہا ہوگا ۔
جلم بن شبان کے بعد ملتان کے اسمعیلی حکمران کا نام شیخ حمید ملتا ہے ۔ یہ امیر ناصرالدین سبکتگین کا ہم عصر تھا ۔ امیر سبکتگین ۳۶۶ھ میں تخت نشین ہوا تھا ۔ اس طرح جلم بن شبان اور شیخ حمید دونوں شیخ حمید دونوں کا ہم عصر ہوگا ۔ عام طور پر گمان کیا جاتا ہے کہ اسمعیلیوں میں باپ کا کانشین بیٹا ہوتا ہے ۔ اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ شیخ حمیدجلم بن شبان کا بیٹا ہوگا ۔ مگر ایسا اس وقت ہوتا ہے کہ جب امام مستور ہو یا امام سے رابطہ ٹوٹا ہو ۔ لیکن جب امام ظاہر ہو تو اس وقت داعی کو اپنا جانشین بنا نے کے لئے اجازت لینی پڑتی ہے ۔ لیکن جب امام مستور ہو تو اس وقت داعی امام کے الہام کی مدد سے اپنا جانشین مقرر کرتا ہے ، اسے داعی مطلق کہتے ہیں ۔ داعیوں میں برخلاف اماموں کے باپ کے بیٹے ہی قائم مقام ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ ہی کسی خاندانی خصوصیات اور ملکی خصودیت کا لحاظ کیا جاتا ہے ۔
اسمعیلی جن امور کی شدد سے پابندی کرتے ہیں ان میں وہ تبلغ کے لئے کم از کم دو داعیوں کو ہمیشہ بھیجا کرتے تھے ۔ تاکہ ایک کوئی ناگہانی مصیبت میں گرفتار ہوجائے یا انتقال کرجائے ۔ تو دوسرا اس کی نیابت کے لئے موجود رہے ۔ اس طرح تعین کیا جاسکتا ہے کہ شیخ حمید جلم بن شبان کا بیٹا نہیں تھا بلکہ اس کا ساتھی داعی ہو گا اور جلم بن شبان کے ساتھ ملتان آیا گا ۔ گو اس کے بارے میں تاریخ سے کوئی صراحیت نہیں ملتی ہے کہ شیخ حمید کون تھا ؟ لیکن حمید کے ساتھ شیخ کا لائقہ لگا ہوا ہے اور اسمعیلی داعیوں کو شیخ کے لائقہ سے پکارتے تھے ۔ اس لئے یقیناًوہ جلم بن شبان کا نائب اور اس کے ساتھ آیا ہوگا اور اس کی وفات کے بعد شیخ حمید ملتان کا حاکم بن گیا ہوگا ۔
سلطان سبکتگین نے ۱۸ ۔ ۳۸۲ھ میں ملتان پر حملہ کیا تھا ۔ جس پر شیخ حمید نے خراج دینا منظور کرلیا ۔ شیخ حمید کا بیٹا شیخ نصر تھا ۔ مگر اس نے ملتان پر حکومت کی یا نہیں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملتا ہے ۔
سلطان محمود غزنوی نے جب ہندو راجاؤں کے خلاف فوج کشی کی تو داؤد بن نصر اس وقت ملتان کا حکمران تھا ۔ جو شیخ نصر کا بیٹا تھا ۔ داؤد نے ہند راجاؤں کا ساتھ دیا ۔ خاص کر جب محمود نے راجہ بھاٹیہ کے خلاف فوج کشی کی تو ملتان کے اسمعیلیوں نے راجہ بجے رائے کی مدد کی تھی ۔ اس لئے سلطان محمود نے اگلہ حملہ ملتان پر کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ چنانچہ وہ ۳۹۶ھ میں درہ بولان کا قریبی راستہ چھوڑ کر درہ خیبر کے راستے سے اس لئے روانہ ہوا کہ داؤد کو علم نہ ہو کہ وہ ملتان پر جملہ آور ہورہا ہے ۔ راستے میں راجہ انند پال نے محمود نے راستہ روکنے کی کوشش کی ۔ حلانکہ سلطان محمود غزنوی نے پہلے ہی اسے خبر دے دی تھی کہ وہ ملتان پر حملہ آور ہو رہا ہے ۔ پشاور کے مقام پر آنند پال نے سلطان محمود غزنوی کا راستہ روکنے کی مگر شکست کھائی اور کی طرف پیچھے ہٹ گیا ۔ ادھر داؤد کو بھی خبر ہوچکی تھی ، اس لئے وہ سلطان محمود کی آمد کا سن کر قلعہ بند ہوگیا ۔ سلطان محمود نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا اور یہ محاصرہ سات روز تک جاری رہا ۔ آخر داؤد سلطان کی خدمت میں عاجزانہ صلح کی درخواست کی ۔ سلطان محمود نے دو لاکھ درہم سالانہ خراج پر اور دریائے سندھ سے متصل علاقہ سلطان کو دے کر صلح کرلی ۔
۳۹۹ھ میں آنند پال نے ہندستان کے راجاؤں کا ایک وفاق سلطان محمود سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیا ۔ اس میں ملتان کے حاکم داؤد نے بھی شرکت کی ۔ اس متحدہ لشکر کو محمود نے شکست دی ۔ محمود غزنوی کو داؤد کی اس حرکت پر بڑا طیش آیا ۔ چنانچہ سلطان نحمود غزنوی نے ۴۰۱ ھ میں پوری تیاریوں کے ساتھ اچانک ملتان پر سخت حملہ کیا اور ملتان کو فتح کرکے داؤد کو غور کے قلعہ میں نظر بند کردیا ۔ اس طرح ملتان کی اسمعیلی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ۔
مولاناسید سلیمان ندوی نے دروزیوں کی مقدس کتاب میں فاطمی خلیفہ حاکم باللہ کا ایک خط پیش کیا ہے ۔ جو کہ ملتان اور ہندوستان اور کے محدوں اور سومرہ راجہ کے لکھا گیا تھا ۔ خط کا متن یہَ ملتان اور ہندوستان کے اہل توحید کے نام عموماً اور سیخ ابن سومر راجہ بل کے نام خصوصاً ۔
اے معزز رجہ اپنے خاندان کو اٹھا ۔ موحدین داؤد اصغر کو اپنے سچے دین میں واپس لاکہ مسعود نے جو ایسے حال میں قید اور غلامی سے آزاد کیا ہے ۔ وہ اس وجہ سے کہ تو اس فرض کو انجام دے سکے ۔ جو تجھ کو اس کے بھانجہ عبداللہ اور ملتان کے تمام باشندوں کے برخلاف انجام دینے کے لئے مقرر کیا گیا ہے تاکہ تقدس اور توحید کے مانے والے جہالت ، ضد اور سرکش اور بغاوت کرنے والی جماعت سے ممتاز ہوجائیں ۔
اس خط سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسمعیلی عقائد ترک کرچکے تھے ، اس لئے مسعود غزنوی نے انہیں چھوڑ دیا تھا ۔ اس خط کے ذریعے سومر راجہ کو کہا گیا تھا کہ ان لوگوں کو دوبارہ اسمعیلی عقائد اختیار کرنے کی ترغیب دے اور انہیں دوبارہ اسمعیلی جماعت میں لانے کی کوشش کرے ۔
بالاالذکر بحث سے یہ نتیجہ بخوبی اخذ کیا جاسکتا کہ تاریخی حوالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملتان میں اسمعیلی حکمران تھے اور ان سے پہلے بنو سامہ حکمران تھا ، جو قریشی النسل تھا اور عمان سے آیا تھا ۔ جو کہ فرضی محمد ہوتک کے دعویٰ کے برعکس ہے ۔ اس سے صاف ظاہر کے فرضی محمد ہوتک کی آڑ میں عبدالحئی کی پیروی میں فرضی شعرا اور تاریخی ناموں کی مدد سے یہ کتاب مرتب کی ہے اور انہیں تاریخی حقائق کا علم ہونے کے باوجو دانستہ یہ حرکت سرز کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ پشتو زبان کی قدامت کو ثابت کیا جاسکتے ۔ جس پر پشتون مورخین اور مصنفین اس کی سچائی پر آنکھیں بند کرکے اصرار کرتے رہے ہیں ۔ ہم اسے خود فریبی کہیں گے ۔
تحقیق و تحریر
)عبدالمعین انصاری(
پروفیسر پری شان خٹک ۔ مقدمہ پشتو شاعری
سیّد سلیمان ندوی ۔ عرب و سندھ کے تعلقات
اعجاز الحق قدوسی ۔ تاریخ سندھ ، جلد اول
ڈاکٹر زاہد علی ۔ تاریخ فاطمین ، جلد دوم
ڈاکٹر زاہد علی ۔ تاریخ فاطمین جلد اول
مسعودی ۔ المذہب جلد اول
ابو القاسم فرشتہ ۔ تاریخ فرشتہ ، جلد اولTop of Form
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...