ابن انشانے چاند پر ایک مشہور نظم لکھ کر اپنی چاند سی سوچ کا خوبصورت شاعرانہ اظہار کیا تھا:
چاند کی خاطر ضد نہیں کرتے، اے میرے اچھے انشاء چاند
چاند کو اُترے دیکھا ہم نے، چاند بھی کیسا؟ پورا چاند
انشاء جی ان چاہنے والی، دیکھنے والی آنکھوں نے
ملکوں ملکوں، شہروں شہروں، کیسا کیسا دیکھا چاند
ہر اک چاند کی اپنی دھج تھی، ہر اک چاند کا اپنا روپ
۔۔۔ اب جناب طارق محمود مرزا (سڈنی‘آسٹریلیا) کے سفر نامہ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند”کو پڑھ کر ڈنمارک ‘ سویڈن ‘ ناروے اور قطر کے چاندسے آنکھیں روشن کریں گے کہ ان ممالک کے سفر کے دوران ان کے تجربات و مشاہدات اور خیالات کونسی روشنی بکھیر رہے ہیں۔ یہ ان کا تیسرا سفر نامہ ہے۔ اس سے پہلے”خوشبو کا سفر“ اور”دنیا رنگ رنگیلی“ پہلے ہی سنگ میل پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوچکے ہیں۔آپ کا ادبی سفر جاری ہے۔ آپ پاک لٹریری فاونڈیشن آف آسٹریلیا کے نیو ساوتھ ویلز ونگ کے سرپرست ہیں ‘جس کے ذریعے کئی پروگرام ہوچکے ہیں۔
اسلوب کی سطح پر دیکھیں توسفرنامہ ایک بیانیہ صنف ادب ہے۔اس میں کسی بھی سفر کی روداد کو بیانیہ اسلوب میں اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والا بیان کنندہ کے تجربات و مشاہدات اور کیفیات واحساسات کی ایک ڈرامائی کیفیت سے گزرجاتا ہے۔سفر نامہ کے اسلوب کے تعلق سے ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:
”سفرنامے کی صنف میں تمام اصناف کواکٹھا کردیاجاتا ہے…. اس میں داستان کا داستانوی طرز‘ناول کی فسانہ طرازی‘ ڈرامے کی منظرکشی‘آبیتی کا مزہ اور جگ بیتی کا لطف ہوتا ہے۔ اور پھر سفر کرنے والا جزوتماشا ہوکراپنے تاثرات کو اس طرح قاری تک پہنچائے کہ اس کی تحریر پُرلطف بھی ہو اور معلومات افزا بھیمعلوم ہو۔“
دلنشیں اسلوب‘ حسن بیان اور مشاہدات و کیفیات کا شگفتہ اظہار سفرنامے کی قرأت میں جادو جگاتا ہے۔جس کی وجہ سے قاری فکری طور پرمحسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ ان جگہوں کی سیرخود کررہا ہو۔ سینٹ آگسٹائن نے سیر و سیاحت کی اہمیت کو فلسفیانہ انداز سے یوں اجاگر کیا تھا:
”The world is a book,and those who do not travel read only a page.”
(دنیا ایک کتاب ہے‘جو سفر نہیں کرتے وہ اس کتاب کا ایک ہی صفحہ پڑھتے ہیں۔)
طارق مرزا کے سفر نامہ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“کا دلنشیں اسلوب‘حسن بیان‘ تجربات ومشاہدات اورمناظر کا شگفتہ اظہار دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے دنیا کی اس کتاب کے کئی صفحات کو دیکھا بلکہ کتابی صورت میں اس طرح سے سجایا ہے کہ جیسے ہم لوگ بھی ان ممالک کی سیاحت سے محظوظ ہورہے ہیں۔یہ اس سفرنامے کی ایک اہم خوبی قراردی جاسکتی ہے۔
سفرنامہ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“ کابیشتر حصہ اسکینڈے نیویاکے تین ممالک ڈنمارک‘ سویڈن اور ناروے اور قطر کی سیاحت پر مشتمل ہے۔ اسکینڈے نیویا کے ان تین ممالک کا ذکر مصنف پیش لفظ میں کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
”اسکینڈے نیویا کا شمار دنیا کے حسین ترین خطوں میں ہوتا ہے اور ان ملکوں میں عوام کو حاصل وسائل حیات مثالی ہیں۔ انہیں دیکھ کر انسان ان حکومتوں کے حسن انتظام کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ (ص:۹)
کہا جاتا ہے کہ ”شنیدہ کَے بود مانند دیدہ“یعنی سنا ہوا کب دیکھے ہوئے کے برابر ہوسکتا ہے۔‘اس لئے اس کتاب میں سنے ہوئے کے ساتھ ساتھ دیکھے ہوئے احوال بھی پیش ہوئے ہیں اور اس احوال کو مختلف خوبصورت عنوانات کے تحت شامل کتاب کیاگیا ہے‘ جیسے‘ خوش وخرم لوگوں کا ملک۔۔۔ڈنمارک‘ جزیروں کے دیس میں‘ پل جس نے دو ملکوں کو ملا رکھا ہے‘ ڈینش قوم کی دلچسپ و خاص باتیں‘ کوپن ہیگن کی عجیب بستی‘ ڈنمارک کی پہچان حسین سمندری مخلوق‘ مسجد جس میں سکون ہی سکون تھا‘سنگ مرمر کا فریڈرک چرچ..الفریڈ نوبل کا دیس… سویڈن‘ نوبل یونیورسٹی میں ایک غیر نوبل شخص‘ اسٹاک ہوم کی پرسکوت شام‘ نوبل کمیٹی کی جائے تقریب اور سنہرا کمرا‘ تاریخ بادشاہوں کے حالات زندگی کا نام ہے‘سویڈن میں ادب وثقافت کے رنگ ڈھنگ‘امیر ملک کا غریب وزیراعظم‘میں نے فن لینڈ دیکھا ‘…طویل ساحلوں کا دیس ناروے‘جہاں راتیں جاگتی ہیں‘دنیا کے آخری کنارے کا سفر‘ناروے کے دلچسپ حقائق‘ناروے فلاحی مملکت‘اوسلو کی رات…سمندری موتیوں کادیس..قطر‘ بدلا ہوا مشرقی وسطیٰ‘ قطر کا قدیم اور روایتی بازار سوق الوقف‘قطر کے ادبی رنگ‘سمندری موتیوں کی مالا‘اسلامی فن و ثقافت کا گراں بہا ورثہ۔۔۔وغیرہ۔
اسفار کی لطافت اور اہمیت کااحاطہ کرتے ہوئے طارق محمود مرزالکھتے ہیں کہ ”عمر کے ساتھ ساتھ انسان کی سوچ سمجھ میں نکھار آتاجاتا ہے۔تجربے کی روشنی اورشعور کی پختگی کے ساتھ قوت مشاہدہمیں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسے میں چیزوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا زاویہ بدل جاتا ہے۔انسان میں مزید وسعت نظراور عمیق نگاہی آجاتی ہے جس کی وجہ سے دنیا مزید دلچسپ‘حسین اوررنگین محسوس ہوتی ہے۔“ (ص: ۹۱)
مذکورہ اقتباس میں سفر کرنے کے دوران جن چیزوں کے بارے میں بتایا گیا ہے وہ بلاشبہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ جو لوگ محدود دائرے سے باہر نہیں نکلتے ہیں وہ اپنے ہی خول میں رہ کر محدود فکروسوچ کے مالک ہوتے ہیں اور اسی محدود فکروسوچ کو سب کچھ سمجھ کر کنویں کے مینڈک بن جاتے ہیں۔پیش نظر سفر نامہ کا مطالعہ یہ خوشگوار تاثر ضرور چھوڑ جاتا ہے کہ واقعی طارق محمود مرزا کا شعور اور تجربہ اسفار کے دوران بڑھ چکا ہے کیونکہ انہوں نے صرف سفری روداد پیش نہیں کی ہے بلکہ ان ممالک کی تہذیب و ثقافت‘ رہن سہن‘ قدرتی مناظر‘تاریخی حقائق‘ اخلاقی معیار‘معاشی ترقی اور تعلیمی وادبی سرگرمیوں وغیرہ کا تذکر ہ معلومات افزا اسلوب میں کیا ہے۔یہ سیاحتی سفر فضائی‘بحری اور بری سفر پر مشتمل رہا تھا۔کتاب میں کئی اہم باتوں کا ذکر کیا گیا ہے جس سے کس ملک کی انفرادیت سامنے آتی ہے جیسے سیاح نے گھر یعنی سڈنی سے نکلتے وقت قطر کے سفر کا انتخاب کیا تھاجو کہ پندرہ گھنٹے کے فضائی سفر میں طے ہوا تھا۔ قطر کی راجدھانی دوحہ ہے اوردوحہ کا حماد ائیر پورٹ دنیا کا مشہور ائیر پورٹ مانا جاتا ہے۔اس ائیرپورٹ کی خصوصیت کے تعلق سے لکھا گیا ہے:
”حماد ائیرپورٹ دوحہ جدید بین الاقوامی ائیر پورٹ ہے۔اس کی عماری زگ زیگ(Zig Zag) شکل اور نشیب وفراز کی وجہ سے منفرد ہے۔ جہاز تھما تو ہم نے دیکھا کہ رن وے پر قطر ائیر لائن اور دوسری فضائی کمپنیوں کے درجنوں جہاز کھڑے تھے۔ جس سے ائیرپورٹ کی مصروفیت کااندازہ ہوتا ہے۔ دوحہ ائیر پورٹ کی اس مصروفیت اور بین الاقوامی مسافروں کی قطرمیں آمدکی سب سے بڑی وجہ قطر ائیر لائن ہے۔
یہ ائیرلائن اتنی معیاری ہے کہ مسافر اسے ترجیع دیتے ہیں۔چونکہ مختلف بین الاقوامی روٹ پر سفر کرتے کرتے ہوئے قطر ائیر لائن کے مسافر طیارے قطر نیں قیام کرتے ہیں اس لئے دنیا بھر کے مسافر دوحہ میں رکتے اور سیر وسیاحت کرتے ہیں جس سے ملک کو مذید فائدہ ہوتا ہے۔‘‘ (ص: ۵۲)
کتاب میں منظر نگاری کا ایسا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جیسے کوئی عربی شاعر فطری مناظر کی خوبصورتی کو شعری پیکر میں ڈھال رہا ہو۔قطر سے نکل کر جب جہاز ڈنمارک کی فضاؤں میں پہنچ جاتا ہے تو مسافر ڈنمارک کے خوبصورت مناظرکا لفظی نظارہ یوں کروارہا ہے:
”ہمارا طیارہ زمین کے قریب محو پروازتھا۔صبح کی سنہری کرنوں میں ڈنمارک کی سرسبز و شاداب سرزمین‘
جگہ جگہ بہتے چشمے‘ جھیلیں‘ پگھلتی برفیں‘ اشجار کے جھنڈ‘پھولوں کے رنگین قطعات‘مویشیوں کی چراگاہیں
اور سرخ ٹائلوں والے دلکش مکانات (سے سجی نظر آرہی تھی۔) پانی اور سبزہ سارے منظر پر حاوی تھا۔ جھیلوں‘ندیوں‘نالوں‘تالابوں اور نہروں میں بہتا پانی سورج کی کرنوں میں خوب چمک رہا تھا۔پانی کے ساتھ ساتھ ہر سو سبزے کی بہارتھی۔وسیع وعریض چراگاہیں‘جہاں گھوڑے‘ گائیں اور بھیڑ بکریاں چررہی تھیں۔یہ فارم اتنے بڑے تھے کہ ان کا درمیانی فاصلہ میلوں پر محیط تھا۔ان سبزہ زاروں کے علاوہ نیلے پانیوں والا دلکش سمندر بھی جیسے محوخواب تھا۔ادھر کوپن ہیگن شہر کی عمارتیں سراٹھا ئے کھڑی تھیں۔شہر پر ایک چکر لگا کر ہمارا طیارہ شہر سے قدرے باہر ائیر پورٹ پراترنے لگا۔زمین پر اترنے سے پہلے پائلٹ نے دانستہ کوپن ہیگن اور اس کے گردونواح کے دلکش نظاروں پر نچلی پرواز کی تاکہ مسافر ان مناظر سےشادمان ہوسکیں۔ “ (ص:۰۳)
ڈینش سے متعلق ایک اہم تاریخی بات بتائی گئی ہے کہ ڈینش دنیا میں سب سے زیادہ خوش طبع قوم ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے ڈنمارک زندہ دلی میں اول نمبرپر آتاہے اور ڈنمارک کے لوگوں کے اس اخلاقی معیار کا ذکر دلچسپ انداز سے کیا گیا ہے کہ:
”ڈینش ایک لفظ یا محاورہ Jante loven اکثر استعمال کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔یہ محاورہ ڈینش تمدن کا اہم اصول بن گیا ہے۔اس قوم نے تہیہ کرلیاہے کہ ہرشخص کو چاہئے وہ امیر ہو یا غریب‘گورا ہو یا کالا کوبرابری کی حیثیت حاصل ہے۔“
یہ تعلیم تو ہمیں رسول رحمتﷺنے دی تھی جیسا کہ آگے مصنف نے بھی اس کا ذکر کیا ہے کہ”کسی عجمی پر کسی عربی کو تقوی کے سوا کوئی فضلیت نہیں“لیکن ہم ہر جگہ بس تفخر کی آگ میں جلتے ہوئے خود کو سب سے بڑا سمجھتے رہتے ہیں اور ڈنمارک زندہ دلی اور دیانت داری میں اول نمبر پر آتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مصنف ڈنمارک کے تصورآزادی کے اس پہلو کو بھی ناپسند کرتا ہے کہ کوئی نیم پاگل مذہبی جذبات سے کھیلتا رہے اور اسے اس کی کھلی چھوٹ ہو۔ڈنمارک میں کئی احباب کی مہمان نوازی اور علمی وادبی لیاقت کا ذکر بھی ہوا ہے جن میں نصرملک صاحب بھی شامل ہیں۔نصر ملک صاحب کے بارے میں مصنف نے کیا لکھا ہے‘انہیں کے الفاظ سے محظوظ ہوجائیں:
”طاہر عدیل مجھے لے کر نصر ملک کے دولت خانہ پر پہنچے۔ان کی عمارت کے اردگرد بے شمار اشجار‘پودے‘پھل دار پیڑ‘رنگین پھول اورسبزگھاس کی وجہ سے انتہائی حسین منظر تھا۔گھنے سرسبز درختوں اور گلہائے رنگین میں گھری اکلوتی عمارت کے سامنے جاکر رکے تھے کہ نصر ملک تشریف لے آئے۔دونوں میزبان شعر وادب سے تعلق رکھتے ہیں۔طاہر عدیل اردو‘پنجابی اور انگریزی تینوں زبانوں میں عمدہ شاعری کرتے ہیں۔جبکہ نصر ملک توادب وصحافت کی یونیورسٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔“ (ص:۲۶)
چونکہ نصر ملک صاحب سے میری شناسائی ہے اور میں ان کے علم وتدبر سے واقف ہوں‘اس لئے ان کے بارے میں طارق صاحب کا فرمانا بجا ہے۔
سویڈن‘نوبیل پرائز اور الفریڈ نوبل سے شاذ ہی کو ئی باشعور تعلیم یافتہ فرد ناواقف ہو۔ڈنمارک کی سیاحت کے بعد طارق محمود مرزا کا دوسرا سیاحتی پڑاؤسویڈن تھا۔یہاں پر سویڈن میں مقیم معروف دانشور عارف کسانہ صاحب اس کے میزان تھے۔سویڈن میں گزارے گئے ایام کے تجربات و مشاہدات بھی دلچسپ نظرآتے ہیں خصوصاََ وہاں کے وزیر اعظم کے بارے میں یہ جانکاری حیرت انگیز لگتی ہے کیونکہ ہمارے یہاں کا حال ہی کچھ دوسرا ہے:
”سویڈش وزیراعظم کے لئے یہ رہائش گاہ ۸۸۹۱ ء میں خریدی گئی۔اس سے قبل وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ نہیں تھی۔ بلکہ وہ اپنے گھر میں رہتے تھے۔کئی وزرائے اعظم کااپنا گھر نہیں تھا اور وہ کرائے کے فلیٹ میں ہتے رہے۔‘‘ (۲۵۱)
اور وزیر اعظم کی رہائش گاہ کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف اپنے دوست سائیں رحمت سے لطیفہ انداز میں کہتا ہے کہ”رحمت صاحب‘ سویڈش حکومت اور وزیراعظم بے چارہ مسکین معلوم ہوتا ہے اس سے بڑی اور شاندار عمارتیں تو ہمارے دیہات میں نظر آتی ہیں۔“(۲۵۱)
کتاب کااگلا حصہ ناروے کی سیاحت پر تحریر ہوا ہے۔ ناروے میں معروف افسانہ نگار فیصل نواز چوہدری بھی رہتے ہیں۔چند برس قبل انہوں نے اپنا افسانوی مجموعہ ”آزاد قیدی“مجھے بذریعہ ڈاک بھیجا تھا۔جس پر میرا ایک مضمون بھی شائع ہوا تھا۔ طارق محمود صاحب کا سفرنامہ ناروے پڑھتے ہوئے مجھے فیصل نواز صاحب نے ان افسانوں کی کہانیاں ذہن میں آتی رہیں جوناروے سے متعلق ہیں۔ طارق محمود نے ناروے سے متعلق مفصل جانکاری فراہم کی ہے۔اس سفر نامے میں ہر ایک ملک کی کسی نہ کسی خصوصیت کا ذکر بھی ہوا ہے جو کہ قارئین کی معلومات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔تیل کی پیدوار میں ناروے کاشمار سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے لیکن ماحولیاتی آلودگی سے ملک کو صاف رکھنے کے لئے وہاں پر الیکٹرک اور ہائی برڈ گاڑیوں کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔اس تعلق سے حکومتی سطح پر الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو عام کرنے کے لئے لکھا گیا ہے:
”ناروے کی حکومت الیکٹرک کاروں کوٹیکس سے استثیٰ قراردینے سمت دیگر اقدمات کے ذریعے سرعت سے پیٹرول انجن کے خاتمہ کی راہ پر گامزن ہے۔اب تک ناروے میں نصف سے زیادہ گاڑیاں بجلی سےچلتی ہیں۔اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ان کا ہدف یہ ہے کہ ۵۲۰۲ء تک چلنے والی تمام چھوٹی بڑی گاڑیاں برقی توانائی سے چلیں۔یوں ناروے اور اس کے پڑوسی ممالک ماحول کی کثافت دور رکھنے
اور اسے صاف وشفاف رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔“(ص:۲۳۲)
کتاب کے مطالعہ کے دوران‘ان ممالک کے لوگوں کے رہن سہن‘فکروسوچ‘بلند خیالی‘زندگی کو جدید تقاضوں کے مطابق چلانے کے اقدامات اور اپنے اپنے ملکوں کی تہذیب وثقافت کے تحفظ اور زندگی کوخوشحال بنانے کی لگن دیکھ کر میں سوچ رہاتھا کہ ہم لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ابھی تک یہاں کے ممالک کے لوگوں اور ارباب اقتدار نے جینے کا صحیح ڈھنگ بھی نہیں سیکھا ہے۔بس پتھر کے دور کے لوگوں کی طرح غیر مہذب سوچ کے حامل ہیں۔یہ ممالک ابھی تک پیاز اور تیل کی سیاست سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں اور میڈیا جیسے سانڈوں کو لڑوا رہا ہو۔
سفرنامہ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“ چارملکوں…ڈنمارک ‘ سویڈن ‘ ناروے اور قطر کی تاریخی وسیاسی‘سماجی وثقافتی اور ادبی و سیاحتی موضوعات کاایک ایسا دلکش منظرنامہ سامنے لاتا ہے کہ ان ممالک کی ترقی و خوشحالی اور زندگی جینے کی صلاحیتوں پر رشک آتا ہے۔سفرنامہ نگار نے بڑے سلیقے سے ہر منظر اور مشاہدے و تجرے کی جیسی تحریری ڈاکومینٹری پیش کی ہے اور ادبی اسلوب نے اس کی چاشنی کا لطف دوبالا کردیا ہے۔طارق محمود مرزا کی سفر نامہ نگاری کا احاطہ کرتے ہوئے شامل کتاب مضمون ”کیسا کیسا دیکھا چاند“ میں ڈاکٹرعلی محمد خان لکھتے ہیں:
”طارق محمود مرزا کا سفر نامہ”ملکوں ملکوں دیکھا چاند“منظرکشی‘ لفظی مرقع کاری‘برمحل موازنہ ومقابلہ‘ عمدہ زبان وبیان‘نادرتشبیہات واستعارات اور دلکش اسلوب بیان کا ایسا دل آویز مرقع ہے جو اردو سفرناموں میں ممتاز و مشرف مقام ومرتبے کا حق دار ہے۔“ (ص:۸۱)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...