ملکوں کی روحیں ۔
جس طرح ہر انسان ، جانور ، پرند ، چرند کی ایک روح ہوتی ہے اسی طرح ہر ملک کی ایک باقاعدہ روح ہے ، جو اس ملک کہ باسیوں کو پیار ، محبت اور اخلاقیات کے عنصر کے ساتھ پوری کائنات سے جوڑی رکھتی ہے ۔
آجکل میں John Meacham کی کتاب The Soul of America پڑھ رہا ہوں ۔ اس کتاب کا sub title بہت ہی دلچسپ ہے ، جس کہ گرد بنیادی طور پر اس کتاب کی روح ہے ۔ وہ ہے
The battle for our better Angels
میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیسے کیسے زبردست لکھاری امریکہ میں بستے ہیں ۔ ہر روز Barnes & Noble گھستا ہوں سینکڑوں نئ کتابیں مختلف موضوعات پر ۔ ہم پاکستان میں عمران سیریز اور سیاستدانوں کے بھونڈے رقص کی داستانوں سے ہی باہر نہیں نکل سکے ۔ دکھ ہوتا ہے ۔
کتاب کا شروعات ہی بہت زبردست quotes سے کیا گیا ہے ، James Baldwin کو quote کیا ہے تاریخ یعنی history کی تعریف کے لیے۔ Baldwin تاریخ کو ہم روحانی شخصیات کی طرح ماضی کا حصہ نہیں کہتا بلکہ ایک جاری و ساری کہانی ۔ اس کہ نزدیک تارئخ ایک صرف پڑھنے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس سے کہیں آگے کی۔ ہم اسے ہر وقت ساتھ لے کر چل رہے ہیں، اور یہ بلکل کوئ ماضی کی داستان نہیں ۔ ہمارا ہر عمل غیر دانستہ طور پر اس جاری و ساری تاریخ میں سمویا ہوا ہے ۔ ایک مسلسل عمل ہے ۔ جس طرح دن ڈھلتا ہے شام اور رات اسی طرح ہر تاریخ کہ ایک واقعہ کہ بعد دوسرا، تیسرا ۔
ایک اور quote وہ صدر رُوزویلٹ کا بیان کرتا ہے جو بہت ہی زبردست ہے ، جس میں رُوزویلٹ کہتا ہے کہ صدارت کوئ administrative مینیجمنٹ کا نام ہی نہیں بلکہ وہ تو بہت کم ہے اس میں ۔ صدرات روزویلٹ کے نزدیک انجنیرنگ سے بھی بہت بڑا عمل ہے ۔ ایک اخلاقی لیڈرشپ فراہم کرنے کی جگہ اور موقع ۔
میچم اسی theme کو پوری کتاب میں لے کر چلتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس وقت امریکہ کی روح کو بہت سارے خطرات لاحق ہیں اور ان کا کیسے تدارک کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ کتاب کا سرورق ہی اس نے بارش میں بھیگا امریکی جھنڈا دکھایا ہوا ہے جو اچھی خاصی پریشانی کی علامت ہے ۔ میچم کے نزدیک امریکہ کی روح آزادی ، پیار اور محبت ہے اور انہی چیزوں کے نام پر ملک وجود میں آیا تھا لیکن مادہ پرستی نے اس کی تباہی پھیر دی ۔ ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت ۔
پاکستان کے حالات تو اس سے بھی بدتر ہیں بلکہ بدترین ۔ وہاں تو میچم جیسی باتیں کرنے والا بھی غدار کہلوایا جاتا ہے ۔ لیکن اس کتاب سے ایک بات میری سمجھ میں بخوبی آ گئ کہ یہ DNA یا ہم پاکستانیوں کی جینز کا مسئلہ نہیں بلکہ وہ ہماری تاریخ ہے جو ہمارے حال کہ فیصلوں پر بھی حاوی ہے ۔ ماضی اور مستقبل چونکہ دراصل حال ہی ہے لہٰزا اسی کا عکس اس میں نظر آئے گا ۔ کرما کے معاملات ۔ کل ایک صحافی مجھے پاکستان سے کہ رہا تھا کہ پورے پاکستان میں نواز شریف کی وفادار بیوریکریسی نگرانوں نے لگا دی تو وہ پھر ہارے گا کیسے ؟ میرا جواب تھا یہی تو قدرت کے کام ہیں ۔ جام صادق جب آخری دنوں میں موت کی کشمکش میں زندگی گزار رہا تھا تو وہ اس وقت سندھ کا ایک بہت طاقتور وزیر اعلی تھا۔ لوگوں نے کہا زندگی نے ساتھ نہیں دیا ۔ آج کلثوم نواز بھی بستر مرگ پر اقتدار کے بھیانک دھوکہ کو یاد کر کر کہ مر رہی ہے ۔
میچم نے better angels کی بات کی ہے ۔ وہ کون ہیں ؟ وہ دراصل forces of good ہیں ۔ جب evil forces کا غلبہ ہو جاتا ہے تو پھر better angels اس پر غالب آنے کے لیے میدان میں اتر آتے ہیں ۔ قدرت کا نظام ہے ۔ پھر انسان پر منحصر ہوتا ہے کہ اپنی اعلی اخلاقی قدروں سے ، پیار ، محبت اور بھائ چارے کے عمل سے جو کہ better angels کا ایندھن ہے ، شیطانی طاقتوں کو شکست دیں ۔ یہی معشیت ایزدی ہے ۔
ہم اپنے ساتھ ایک بدنما تاریخ کو تو ضرور لیے ہوئے ہیں لیکن اجالوں کا راستہ بھی تو ہم ہی نے متعین کرنا ہے better angels کی مدد سے ۔ پاکستان کی روح تڑپ رہی ہے اچھے انسانوں کے لیے ۔ اچھے عمل کے لیے ۔ کیوں نہ ہم سب اس کی سنیں ۔ اس کی دُھن میں رقص کریں ۔ اس وقت تو ہم اُس کے بلکل اُلٹ جا رہے ہیں ۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہو گا، اگر ہم نے زندہ رہنا ہے اور ہماری ماں دھرتی پاکستان نے قائم و دائم رہنا ہے ۔ اس وقت تو پاکستان کے حالات پر مجروح سلطانپوری کہ اشعار یاد آرہے ہیں ۔
جب دل ہی ٹوٹ گیا
ہم جی کہ کیا کریں گے —
الفت کا دیا ہم نے اس دل میں جلایا تھا
امید کے پھولوں سے اس گھر کو سجایا تھا
اک بھیدی لُوٹ گیا —
اللہ نگہبان
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔