عزیزو قصہ کچھ یوں ہے کہ 2018 کے عام انتخابات کی آمد آمد تھی اور جیسے تیسے کرکے تحریک انصاف کو اقتدار میں لانا تھا۔صوبہ پنجاب کے شمالی اور وسطی حصوں میں تحریک انصاف کو ن لیگ ٹف ٹائم دے رہی تھی۔ نمبرز گیم میں نمبر پورے نہیں ہورہے تھے۔ایسے میں جنوبی پنجاب کام آیا۔ افراتفری میں جنوبی پنجاب صوبہ محاز بنایا گیا۔جن کو کامیاب ہونا تھا ان کو اس محاز میں شامل کرایا گیا پھر اس محاز نے عمران خان کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کیا جس میں کپتان سمیت سب کو نیلی اجرکیں پہنائی گئیں اور ایک تحریری معاہدہ ہوا کہ کپتان وزیراعظم بننے کے بعد اگلے 100 روز میں سرائیکی صوبہ بنائیں گے ۔اس کے بعد محاز کے غبارے میں ہوا بھری گئی۔ ۔اور یوں وزارت عظمیٰ کے لیے مطلوبہ نمبرز حاصل ہوگئے۔
کپتان نے اپنے عہد حکمرانی میں جتنے یو ٹرن لیئے ان میں سے ایک سرائیکی صوبہ بنانے کے وعدہ کا یو ٹرن بھی شامل ہے ۔تاہم سرائیکی خطے سے وزیراعلیٰ لے کر اورجنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ملتان اور بہاولپور میں بنا کر سرائیکیوں کی اشک شوئی کرنے کی کوشش کی گئی مگر جنوبی پنجاب صوبہ کا مطالبہ شدت اختیار کرتا گیا اور سرائیکی جنوبی پنجاب کے نام سے ہی چڑ کھانے لگے۔تبدیلی سرکار کے عہد حکمرانی کے تین سال گذر گئے ہیں اور بقیہ دو سال آئندہ عام انتخابات کی تیاری ہوگئی اور حکومت اسی بنیاد پر ترقیاتی منصوبے مکمل کرا رہی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں اپنی عوامی خدمت کے بدلے میں کامیابی حاصل کرسکے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کپتان جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ بنا کر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے وعدے کا کفارہ ادا کرچکے ہیں ؟ کیا یہ اقدامات سرائیکیوں کو قبول ہوں گے ؟تو فی الوقت زمینی حقائق یہ ہے کہ کپتان صوبہ بنائے گا تو جان چھوٹے گی وگرنہ اگلے عام انتخابات میں اپنے سیاسی نقصان کے لیے تیار رہے۔علاوہ ازیں ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے وعدے اور ہوشربا مہنگائی نے بھی کپتان کی مقبولیت کے چاند کو گرہن لگا دیا ہے۔عوام پریشان بھی ہیں اور حکومتی دعووں اور نعروں سے بیزار بھی اور یہ بیزاری اپوزیشن کے جلسوں میں بھرپور شرکت سے نظر آرہی ہے
ن لیگ کی بطور جماعت اپنی الجھنیں ختم ہونے میں نہیں آرہی ہیں ۔بظاہر ن لیگ میں دو دھڑے مذاحمتی ن لیگ اور مفاہمتی ن لیگ بن چکے ہیں اب ن لیگ کے ورکر کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ آئندہ عام انتخابات میں ن یا ش میں سے کس کا بیانیہ چلے گا۔اگر ن کا چلتا ہے تو الیکٹیبلز بھاگتے ہیں اور اگر ش کی مفاہمت کی پالیسی ہوگی تو الیکشن کیسے جیتیں گے گویا آگے گڑھا اور پیچھے کھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت ن لیگ بطور جماعت جنوبی پنجاب میں متحرک نظر نہیں آرہی اور پارٹی کے اندر کی کھینچا تانی بھی بڑھتی جارہی ہے جو پارٹی کے لیئے نقصان دہ ہے
جنوبی پنجاب میں ن لیگ کی کمزور پوزیشن سے تحریک انصاف کو فائدہ پہنچ سکتا تھا ایسے میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے قبل از وقت جنوبی پنجاب میں سیاسی مہم جوئی کررہے ہیں اور ن لیگ کے اندرونی انتشار کے سبب پیدا ہونے سیاسی خلا کو پر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔پارٹی ورکر کو متحرک کرنا اور الیکٹیبلز کے ساتھ ملاقاتیں پارٹی کو جنوبی پنجاب میں بہتر پوزیشن دلا سکتی ہیں۔کیونکہ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ جنوبی پنجاب سے پیپلزپارٹی نشستیں حاصل کرسکتی ہے اور اسی لیئے چیئرمین بلاول بھٹو کا حالیہ دورہ اور عوام کی طرف سے پذیرائی اس تاثر کومزید تقویت دے رہی ہے۔اس ضمن میں اگر پیپلزپارٹی ملتان کے بلاول ہاوس کو مستقبل آباد رکھتی ہے اور پارٹی تنظیموں کو فعال کرتی ہے تو بلاشبہ جنوبی پنجاب سے بہتر انتخابی نتائج حاصل کرسکتی ہے
ایسے میں حکمران جماعت تحریک انصاف پوری کوشش کرئے گی کہ جنوبی پنجاب سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرئے تاہم اس کواپنی پرفارمنس بہتر کرنی ہوگی۔مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے اور نوکریوں کے وعدے پورے کرنے ہوں گے سب سے بڑھ کر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے وعدہ پر عمل کرنا ہوگا۔جبکہ ن لیگ کو بہتر نتائج کے لیے اپنی سیاسی سمت واضح کرنی ہوگی کہ ان کی آئندہ کی سیاست مذاحمتی ہوگی یا مفاہمتی ہوگی۔اس کے بعد ہی الیکٹیبلز فیصلہ کریں گے کہ وہ شیر کے نشان پر الیکشن لڑیں گے یا نہیں۔اس وقت تک جو نظر آرہا ہے وہ یہی ہے کہ 2023 کا الیکشن ن لیگ کا نہیں ہے اب اگر الیکشن کے قریب کوئی سیاسی تبدیلی ہوجاتی ہے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
قصہ مختصر کہ آئندہ عام انتخابات میں جنوبی پنجاب کے انتخابی نتائج ملکی سیاسی منظر نامے کا تعین کریں گے ۔یہاں کی عوام کا اکثریتی فیصلہ طے کرئے گا کہ کون مسند اقتدار پر براجمان ہوتا ہے ۔جنوبی پنجاب کی سیاست ملکی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ ہوگی۔اگر پیپلزپارٹی کو وفاق میں اقتدارمیں آنا ہے تو جنوبی پنجاب سے جیتنا ہوگا اگر تحریک انصاف کو اقتدار قائم رکھنا ہے تو جنوبی پنجاب فتح کرنا لازمی ہے اور اگر ن لیگ کو پنجاب پر سیاسی اجارہ داری قائم رکھنی ہے تو اس کو جنوبی پنجاب میں کامیاب ہونا پڑے گا یاد رکھ لیں جوبھی سیاسی جماعت جنوبی پنجاب سے ہارے گی وہ اقتدار کے کھیل سے باہر ہوجائے گی۔
تاہم یہ ساری باتیں اس وقت تک کارآمد ہیں جب تک فری اینڈ فئیر الیکشن نہیں ہوتے اگر 2018 والا سین دوبارہ چلنا ہے اور بقول چیئرمین بلاول بھٹو سلیکشن ہوئی ہے اور اگر دوبارہ بھی سلیکشن ہوئی تو پھر سارے سیاسی تجزیے اور اندازے ردی کی ٹوکری میں جائیں گے۔پھر ہوگا وہی جو مزاج یار ہوگا۔پھر ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں ہو گا ایک بارپھرقوم کے مزید پانچ سال ایک نئے تجربے کی بھینٹ چڑھ جائیں گے مگر اس کا افسوس بھی نہیں اور گلہ بھی نہیں کررہے ۔بس اتنی سی عرضی ہے کہ اگر اپوزیشن کے مطابق دوبارہ بھی سلیکشن ہوئی تو خدارا سلیکشن کا معیار تھوڑا سا بہتر ہونا چاہیے ۔تا کہ اگر مسلط ہونی ہے تو کوئی ڈھنگ کی چیز مسلط ہو۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...