ملک مرا ایک مثال، پر منفی سی
صاحب طرز کالم نگار نصرت جاوید آج بھی "سیاپا" کرتے ہیں کہ میں نے کہا تھا، نواز شریف بطور وزیراعظم جے آئی ٹی کے انیس گریڈ کے اراکین کے سامنے پیش نہ ہوں لیکن وہ پیش ہوئے اب یاد رکھو ایک ایس ایچ او، وزیراعظم کو طلب کر لیا کرے گا۔۔۔۔ خیر ابھی ایسی نوبت تو نہیں آئی البتہ "نیب" کے نوٹس پر نہ نہ کرتے ہوے بھی نااہل شدہ وزیراعظم میاں نواز شریف آج صبح پونے آٹھ بجے اسلام آباد پہنچ گئے۔ کل عدالت کے سامنے پیش ہونگے۔ گرفتاری ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ ہو اس لیے سکتی ہے کہ اعتزاز احسن سمجھتے ہیں قانونا" انہیں گرفتار ہونا چاہیے۔ ہو اس لیے نہیں سکتی کہ ارباب اختیار نہیں چاہیں گے، نااہل کردہ وزیراعظم کی مزید پذیرائی ہو۔
ایسا نہیں ہے کہ کم ترقی یافتہ ملکوں جہاں نہ تو سیاست ترقی یافتہ ہوتی ہے اور نہ ہی غیر مستحکم حالات سے قائدہ اٹھانے کی خاطر نگاہیں گاڑے افراد کم ہوتے ہیں اور نہ غیر سیاسی ادارے سیاست کی بیخ کنی کرنے میں کچھ کم دلچسپی رکھتے ہیں، میں غیر متوقع صورت حالات پیدا نہیں ہوتی مگر جس طرح پاک سر زمین میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے ایسے شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔
دولت کمایا جانا کہیں بھی "کلین" نہیں البتہ ایسے قوانین ضرور بنا دیے جاتے ہیں جن کے اسقام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بے تحاشا دولت کمانا اور جمع کیے جانا اس قدر "ان کلین" نہ لگے۔ صرف زرداری صاحب یا میاں صاحب ہی امیر نہیں ہیں۔ بل گیٹ امیر ہے۔ سعودی عرب کا بادشاہ امیر ہے۔ روس کا ایک مسلمان اس قدر امیر ہے کہ وہ صرف اپنی ذکوٰۃ کے پیسے سے ہر سال پانچ ہزار افراد کو مفت حج کرواتا ہے۔ آپ کے خیال میں یہ سب لوگ کیا انتہائی دیانتداری سے پیسے کماتے ہونگے؟ مگر بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے ملکوں میں نہ کبھی مارشل لاء لگا، نہ کبھی کسی ضیاع الحق نے ملک کے آئین میں باسٹھ تریسٹھ نمبر شقیں گھسیڑیں۔
افراد پر تعزیر عائد کرنا اس معاشرے میں زیادہ مناسب لگتی ہے جو بذات خود اپنی ساخت اور ہئیت میں مناسب اور متناسب ہو۔ غیر مناسب اور غیر متناسب سماج میں تعزیر و سزا ماسوائے واویلے یا انتقام کے اور کچھ نہیں ہو سکتے۔ نواز شریف صاحب کے تو باپ نے کاروبار شروع کیا تھا۔ بہت بے ایمانی اور بددیانتی ہوئی ہوگی تب سے اب تک مگر فوج سے جرنیل ریٹائر ہونے والے پرویز مشرف کے پاس دولت کہاں سے آ گئی؟ ایک اور سابق کور کمانڈر کو نیب تین ارب کے قریب روپے لوٹانے کو کیوں کہہ رہا ہے؟ زرداری کی دولت میں بھی بے نظیر، ذوالفقار بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی وراثت کے کچھ حصے ہونگے مگر سرکاری افسروں، تاجروں اور عسکری خانوادوں کی بے تحاشا جائیدادیں اور بیرونی بینکوں میں جمع دولت کہاں سے آ گئی؟
ایک سابق وزیراعظم جسے سولی پر لٹکا دیا گیا کی بیٹی جو خود اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم تھی سر عام قتل ہو گئی اور جو غیر سیاسی شخص ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا وہ ایک عشرہ گذر جانے کے بعد مقتول وزیراعظم کے رنڈوے شوہر پر، جو اس آمر کی جگہ پاکستان کےصدر منتخب ہوئے، فرد جرم عائد کر رہا ہے کہ اس نے اپنی اہلیہ کو قتل کروایا تھا۔
خود اس آمر کو عدالت نے وزیراعظم مذکور کے قتل میں ملزم گردانا ہے مگر یہ لندن میں بیٹھا وہیں سے گیدڑ بھبھکیاں دیتا ہے مگر عدالت میں حاضر ہونے کو آ کر نہیں دیتا۔ اور تو اور مرحومہ کے بچوں کو مخاطب کرتا ہے تاکہ وہ باپ کے مخالف ہو جائیں۔ سچ کہتے ہیں جس کا کام اسی کو ساجھے اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ سیاست دان طرح طرح کی چک پھیریاں لیتے ہیں، بیانات تبدیل کرتے ہیں۔ جو کہتے ہیں وہ نہیں کرتے جو کرتے ہیں اس کے بارے میں کہتے نہیں مگر اس سب میں کسی نہ کسی طرح کا ربط ہوتا ہے، بات وقت کی مناسبت سے کی جاتی ہے۔ ایسے نہیں کہ خود پر بات آئی تو جو منہ میں آیا کہہ ڈالا۔ سیاست سوچ، سمجھ اور چابک دستی کا کھیل ہے۔ عمر بھر حکم چلانے والے سیاست نہیں کر سکتے۔
مگر ان کو ڈر رہتا ہے کہ اگر ملک میں سیاست فی الواقعی فائق ہو گئی تو نفرت کا جو کھیل انہوں نے کھیلا ہوا ہے وہ ٹھپ ہو جائے گا۔ پھرسیاست دان عدلیہ کے سامنے مجرم بن کر شرمسار نہیں ہونگے بلکہ ان کے جرائم کو پول کھلے گا۔ انہیں سزائیں ہونگی، انہیں فرار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ان کا بھی احتساب ہوگا۔ جو باعزت اور پیشہ ور ہونگے وہ لالچی اور غیر پیشہ ور رفقائے کار کو منہ نہیں لگائیں گے۔ ادارے کی اصلاح ہو جائے گی۔ ادارہ خود اپنے اندر چھپی چونا پھری کالی بھیڑوں کو اپنے ہی نلکے پر دھو کر سب کے سامنے لے آئے گا۔
یہ نہ خام خیالی ہے نہ مبالغہ آرائی، وقت نے اپنی چال چلنی ہوتی ہے۔ جس طرح ذرائع ابلاغ اور ذرائع ارتباط دنیا میں عام ہوئے جاتے ہیں اسی طرح دنیا میں جمہوری رویے بھی پھیلیں گے۔ ذرائع ابلاغ و ارتباط کو پھیلانا نظام سرمایہ داری کی ضرورت ہے، جمہوری رویوں کو عام کرنا بھی اس کی ہی ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
مختلف ملکوں میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست میں آمد اور پذیرائی ظاہر کرتی ہے کہ انتخاب محدود ہوتا جا رہا ہے۔ اکثریت میں ہمیشہ بہتر اور پائیدار برانڈ مقبول ہوا کرتا ہے۔ بنیاد پرستی ہو یا دہشت گردی، انتہائی دائیں بازو کی سیاست ہو یا نو فسطائی انداز حکومت یہ بہتر اور پائیدار جمہوریت کے آگے بہت دیر تک نہیں جم پائیں گے۔
سب دیکھ رہے ہیں کہ ضیاع کا لگایا ہوا پودا اب پیڑ بن کر جعلی ہوا کے زور پر رخ نہیں بدل رہا بلکہ خود ساختہ ہوا کے جھکڑوں سے بچنے کی خاطر پینترے بدل رہا ہے۔ مہم جوئی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کی مثال سابق صدر پاکستان آصف زرداری نے پیش کی تھی۔ میاں نواز شریف بھی کچھ ایسا ہی کر رہے ہیں مگر اپنے انداز میں۔ زرداری صاحب نے قطعی مفاہمت کا رویہ اپنایا تھا تو میاں صاحب مفاہمت کے ساتھ ساتھ مزاحمت کے نشان بھی چھوڑتے جا رہے ہیں۔
مرے ملک کے سیاستدانوں کو اب کچھ کرنا ہی ہوگا تاکہ سیاستدانوں کی ساکھ بحال ہو۔ مرا ملک اب بہت دیر تک اپنی مثال آپ، پر کچھ منفی انداز میں بنا نہیں رہ سکتا۔ ان کو بھی احساس ہے اور ان کو بھی شعور۔ وہ بقا کی خاطر دیوار بننے کا کھیل کھیل رہے ہیں اور یہ جمہوریت کے دریا کو جاری رکھنے کی خاطر غیر ضروری بند ہٹائے جانے میں اس طرح کوشاں تاکہ نہ سیلاب آئے نہ تباہی ہو، جمہوریت کا دریا چلتا اور سیراب کرتا رہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“