جنگ آزادی مل جل کر لڑی گئی ۔آزادی کے متوالوں نے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا ۔آزادی کی جنگ میں اردو ادب کا بہت بڑا حصہ ہے ۔مولانا آزاد کی تحریر اور مولانا محمد علی جوہر کی تقریر نے فرنگی حکومت کے دروبام ہلا دیے۔آزاد نے الہلال اور البلاغ جاری کیے ۔جوہر کے ،،ہمدرد ،،نے آزادی کے متوالوں میں ایک نیا جوش بھر دیا ۔جوش کی شاعری نے مہمیز کا کام کیا ۔جہاں جوہر نے کہا ،
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تیری انتہا کے بعد
وہیں بسمل نے کہا ،
سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
تو وہیں مجاز کہہ اٹھے،
تیرے ماتھے کا یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا
جانباز سپاہیوں کی قربانیاں اور اردو ادب کا نعرہ ،،انقلاب زندہ باد،، رنگ لایا ،ہم نے آزادی حاصل کی ۔۔بقول جانثار اختر ،
سینے کے آدھی رات کے
پھوٹی وہ سورج کی کرن
وہ وجد میں آیا گگن
آزاد ہے
آزاد ہے
آزاد ہے اپنا وطن
ہمیں آزادی تو ملی مگر لاشوں کے انبار پر ۔تقسیم کا سانحہ قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا ۔ملک تقسیم ہوا ،دل تقسیم ہوئے مگر یہاں بھی اردو ادب نے زخموں پر مرہم رکھا ۔۔۔منٹو نے ،،ٹوبہ ٹیک سنگھ ،،تو سلام بن رزاق نے افسانہ ،،بٹوارہ ،،لکھا ۔اردو اپنے دیس میں بیگانگی ہوئی لیکن اس نے ملک کی سلامتی اور بقا میں ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ۔اقبال کے حب الوطنی کے گیت،
سارے جہاں سے اچھا ۔۔۔۔
کو کون بھول پائے گا ! اردو نے ہمیشہ قومی یکجہتی پر زور دیا ۔ملک کی سالمیت اور بقا کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہی ۔شعراء نے اس کے دریاؤں کی تعریف کی ،اس کے سبزہ زاروں کی تعریف کی ،اس کے پہاڑوں ،آبشاروں اور ریگ زاروں کے گیت گائے ۔۔ادیبوں نے ملک کی سالمیت کے لیے افسانے لکھے ۔کل ہند مشاعرے ادب و ثقافت کے مظہر ہیں ۔۔۔ساحر نے امن عالم کی خاطرِ بڑے کرب ناک انداز میں فرمایا ،
اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
اور ہمارے تمہارے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
اردو نے سرکشی اور بغاوت نہیں سکھائی ،بلکہ اس کے خمیر میں عفو و درگزر ہے ۔اردو نے دلوں کو توڑا نہیں جوڑا ہے ۔یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے والے عناصر کے خلاف دبی زبان میں احتجاج کیا ۔اردو نے ہمیشہ اہنسا کے گیت گائے ،گاندھیائی اصولوں کا احترام کیا ۔۔ہم وطنوں کو یکجہتی کے لیے دلنشین انداز میں سمجھایا ،
احساس ستم تم بھی کرو ہم بھی کریں گے
مظلوم کا غم تم بھی کرو ہم بھی کریں گے
جو ہاتھ بڑھے امن کی بستی کو جلانے
وہ ہاتھ قلم تم بھی کرو ہم بھی کریں گے
اردو کا قاری امن پسند وحب الوطن ہے ۔۔اردو ادب نے ملک وقوم کی خدمت کی ہے ۔اردو کے متوالے ملک کی بقا اور سالمیت کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے ،
کیونکہ بقول اقبال ،
شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے