آپ کا ملازم درست ہی تو کہتا ہے۔ آپ چپ چاپ اس کی بات مان لیجیے۔ اسی میں آپ کی عافیت ہے!
آپ نے اسے اپنے گھر میں ملازم رکھا تھا۔ ایک تنخواہ مقرر ہوئی تھی۔ اسے بتایا گیا تھا کہ اس نے فلاں فلاں کام کرنا ہوگا۔ کچھ کام باورچی خانے کا ہوگا‘ کچھ خواب گاہوں کی صفائی کا ہوگا۔ بازار سے سودا سلف لانا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
کچھ عرصہ یہ معاہدہ چلتا رہا۔ آہستہ آہستہ اُس نے پالیسی امور میں حصہ لینا شروع کردیا۔ فلاں کمرے میں پلنگ اسی طرح بچھانا ہے جیسا کہ وہ چاہتا ہے۔ چھوٹے صاحب بالائی منزل پر منتقل ہو جائیں۔ آج کریلے نہیں‘ شلغم پکیں گے۔ مہمان کے لیے مرغی کا نہیں‘ بکرے کاگوشت منگوایا جائے۔ کچھ دن آپ نے صبر کیا۔ پھر ہمت جواب دے گئی۔ ایک دن آپ نے اُسے آنے والے مہینے کی تنخواہ بھی دی اور بتایا کہ تم آج سے فارغ ہو۔ ایک ماہ کا معاوضہ زائد اس لیے دیا ہے کہ بندوبست کرنے کے لیے وقت مل جائے۔ آپ کے تعجب کی انتہا نہ رہی جب دو گھنٹے بعد ا ٓپ کے دروازے کی گھنٹی بجی۔ آپ باہر گئے تو دس بارہ افراد کھڑے تھے۔ یہ سب وہ تھے جو آپ کی گلی کے مختلف گھروں میں ملازم ہیں۔ وہ سب بیک زبان ہو کر آپ سے کہہ رہے تھے کہ آپ اپنے ملازم کو نوکری سے نہیں نکال سکتے ورنہ وہ گلی میں دھرنا دیں گے۔ نعرے لگائیں گے۔ آپ کا اور آپ کے اہلِ خانہ کا گھر سے نکلنا محال ہو جائے گا۔ آپ ایک شریف آدمی ہیں۔ آپ چپ چاپ یہ مطالبہ مان لیتے ہیں۔ آپ غالب کی طرح موت سے نہیں ڈرتے مگر فقدانِ راحت سے ڈرتے ہیں۔
یہ ہے وہ صورتِ حال جو آج اس ملک کے بڑے بڑے اداروں کو درپیش ہے۔ آپ جانتے ہیں ہر ملک کا ایک صدر یا وزیراعظم یا دونوں ہوتے ہیں۔ وہ جس شہر میں بیٹھ کر امورِ سلطنت چلاتے ہیں اسے اردو میں ملک کا صدر مقام یا دارالحکومت کہتے ہیں۔ انگریزی میں کیپٹل‘ فارسی میں پایۂ تخت اور عربی میں العاصمہ کہتے ہیں۔ پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد ہے۔ یہ سب بنیادی حقائق وہ ہیں جو دوسری تیسری جماعت کے بچوں کو بھی معلوم ہیں۔ مسئلہ اس سے آگے کا ہے۔
یہ دارالحکومت پورے ملک کا ہے۔ بیس بائیس کروڑ کی آبادی کا یہ واحد دارالحکومت ہے۔ پورے ملک کے ٹیکسوں سے اس پر اور اس میں مقیم حکمرانوں پر اٹھنے والے اخراجات ادا کیے جاتے ہیں۔ پورے ملک کی آبادی کو اس کی پالیسیوں پر اختیار ہے اور حق بھی ہے۔ اس کے بعد اس میں رہنے والوں کا اختیار اور حق ہے۔ اس میں بیس بائیس لاکھ افراد رہتے ہیں۔ تقریباً اتنے ہی اس سے ملحقہ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ دارالحکومت کا نظام کس طرح چلنا چاہیے‘ اس میں مقامی حکومت کے کیا خطوط ہوں گے‘ صفائی کا نظام کیا ہوگا‘ تعمیراتی قوانین کیا ہوں گے‘ مزید ترقی کیسے ہوگی۔ یہ سب امور وہ ہیں جن کا فیصلہ کرنے کا اختیار پورے ملک کی آبادی کو ہے۔ اس کے منتخب نمائندوں کو ہے۔ حکومت اور حکومت کے وزیروں کو ہے اور دارالحکومت میں رہنے والی تیس چالیس لاکھ آبادی کو ہے۔
مگر نہیں! اب یہ سارے اختیارات اُن پندرہ ہزار افراد کے ہاتھ میں آ گئے ہیں جنہیں دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کو چلانے کے لیے ملازم رکھا گیا تھا۔ ان کی تنخواہیں مقرر کی گئی تھیں جو انہیں باقاعدگی سے مل رہی ہیں۔ ان کا اصل کام یہ تھا کہ عوام کے نمائندے جو پالیسی بنائیں گے‘ وہ اُس پالیسی کو نافذ کریں گے۔ مگر اب یہ ملازمین کہتے ہیں کہ نہیں‘ پالیسی بھی ہم خود بنائیں گے۔ اگر مقامی حکومت بنی تو پھر اختیارات مقامی حکومت کو نہیں ملنے چاہئیں۔ فرض کیجیے مقامی حکومت ترقیاتی منصوبے خود چلانے کا ارادہ رکھتی ہے تو یہ ادارے کے ملازمین کو منظور نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عوامی نمائندے بورڈ کے ارکان کی طرح ادارے کے ملازم بن کر کام کریں۔
ہم قارئین کو گواہ بن کر اعلان کرتے ہیں کہ ہم ادارے کے ملازمین کے ساتھ ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں دارالحکومت میں اس وقت پانی کی شدید قلت ہے۔ ہر گھر میں بور کرایا جا رہا ہے۔ سکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں نجی گارڈ گلیوں میں پہرا دے رہے ہیں۔ جا بجا کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پڑے ہیں۔ مگر یہ سب کام غیر اہم ہیں۔ اہم ترین کام یہ ہے کہ ترقیاتی ادارے کے ملازمین کا مستقبل ’’محفوظ‘‘ ہو۔ ان کی ہر بات مانی جائے۔ وزیراعظم ہیں یا وزیر داخلہ یا ترقیاتی امور کے وزیر‘ یا مقامی حکومت یا اسمبلیوں میں بیٹھے عوامی نمائندے‘ کوئی بھی کچھ کرنا چاہتا ہے تو پہلے ادارے کے ملازمین یا ان ملازمین کے نمائندوں کی خدمت میں حاضر ہو‘ مدعا بیان کرے اور اجازت لے۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو خوشی سے تالیاں بجائے ورنہ چون و چرا کے بغیر ان کے احکام کی پیروی کرے۔ بہترین حل مسئلے کا یہ ہے کہ مقامی حکومت یا میئر یا متعلقہ وزیر‘ سب حضرات ادارے کے ملازمین کے ماتحت ہو کر کام کریں۔
یہ وہ بہترین پالیسی ہے جو دوسرے اداروں میں بھی مشعلِ راہ ہونی چاہیے۔ سعد رفیق ریلوے کو اس کی گزشتہ شان و شوکت واپس دلوانا چاہتے ہیں‘ مگر انہیں چاہیے کہ ریلوے ملازمین کے نمائندوں کی مرضی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ کہیں وہ خدانخواستہ ناراض نہ ہو جائیں۔ قومی ایئرلائن کو بھی چاہیے کہ جہازوں کی تعداد کے بارے میں کوئی فکر نہ کرے۔ تین چار جہاز بھی کافی ہوں گے‘ مگر یہ جو بیس ہزار ملازمین ہیں‘ ان کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔ ہو سکے تو ان کے بچوں اور پھر ان کے بچوں کو بھی جانشینی کا حق ادا کرتے ہوئے اس ادارے میں ملازم رکھ لینا چاہیے۔
آخری گزارش یہ ہے کہ جو لوگ دارالحکومت کو خیرباد کہہ کر عسکری رہائشی کالونیوں میں آباد ہو رہے ہیں تو ان کالونیوں میں بھی ملازمین کی تنظیم بنائی جائے۔ پھر عسکری حکام بھی تنظیم سے اجازت لے کر سانس لیا کریں بالکل اسی طرح جیسے ترقیاتی ادارے کے مجبور اور مقہور افسر کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ عسکری رہائشی کالونیوں میں بھی اُسی ’’خوش انتظامی‘‘ کا دور دورہ ہوگا جس کی فصل آج ترقیاتی ادارہ کاٹ رہا ہے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“