(قسط نمبر ایک)
ستمبر 1996 میں آریانا افغان ائیرلائن کی فلائٹ میں گیری شروئن کابل جا رہے تھے۔ چھبیس سال سے سی آئی اے میں کام کرنے والی شروئن اب اسلام آباد میں چیف آف سٹیشن تھے۔ فارسی اور دری زبان میں مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے اس سے چند ہفتے قبل کچھ سہولت کاروں کے ذریعے سوویت مخالف گوریلا کمانڈر احمد شاہ مسعود سے رابطہ کیا تھا۔ احمد شاہ مسعود جنگ سے تباہ حال اس ملک کی اندر سے شکست و ریخت کا شکار حکومت کے وزیرِ دفاع تھے۔
شروئن اور احمد شاہ مسعود کی آپس میں پچھلے پانچ سال سے بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ سوویت یونین کے ختم ہو جانے کے بعد دسمبر 1991 میں سی آئی اے کے افغانستان میں تمام آپریشن بند کر دئے گئے تھے۔
ملک منہدم ہو چکا تھا۔ کابل ۔۔۔ جو کبھی میں چوڑی سڑکوں اور بنجر پہاڑی علاقے کے درمیان باغوں سے آباد تھا ۔۔۔ اب کھنڈر اور انسانی مصائب کا شہر تھا۔ مسلح گروہوں میں، اور پھر ان گروہوں کے اندر مسلح گروہوں میں وقتاً فوقتاً لڑائی چھڑ جایا کرتی تھی۔ اس میں نشانہ شہر میں کھڑے مکان بھی بنا کرتے تھے۔ ملیشیا کے کمانڈر، جو ایک دوسرے سے نظریاتی اختلاف رکھتے تھے، جنگی قیدیوں کو ایک وقت میں سو سے زیادہ کی تعداد میں تپتی دھوپ میں دھاتی کنٹینر میں رکھ کر پکا کر مار دینے سے بھی احتراز نہیں کرتے تھے۔ شہر میں پچھلے تین برس سے بجلی نہیں تھی۔ کہیں کہیں پٹرول کے جنریٹر سے بلب روشن ہوا کرتے۔ کابل میں لاکھوں افراد ایسے تھے جو روزانہ کے کھانے اور چائے کے لئے بین الاقوامی خیراتی اداروں پر انحصار کرتے تھے۔ ملک کے اندر بے گھر ہو جانے والوں میں سے ہزاروں کا انتقال صرف اس وجہ سے ہوا تھا کہ ان عام بیماریوں کی دوا کے کلینک ان کے قریب نہیں تھے۔ اس خطے کے ممالک پاکستان، انڈیا، ایران، سعودی عرب اپنی پسند کے پروکسی گروپوں کو اسلحہ اور پیسے بھجوا رہے تھے۔ اسلحہ اور پیسے متمول افراد کی طرف سے بھی ملک میں آ رہے تھے۔ پچھلے پندرہ سال میں ساٹھ ارب ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ یہاں پہنچا تھا۔ اتنا اسلحہ جو دنیا کے کسی بھی اور ملک سے کہیں زیادہ تھا۔ روس، امریکہ، چین، فرانس سے طیارے، ٹینک، بکتربند گاڑیاں, راکٹ، میزائل، مشین گنیں، دور مار کرنے والے سنائپر رائفل، رات کو دیکھنے والے گوگل، ٹائم بم، عراق کی جنگ سے حاصل کیا جانے والا اسلحہ، اتنے زیادہ ذاتی ہتھیار جو پورے انڈیا اور پاکستان کے ذاتی ہتھیاروں سے زیادہ تھے ۔۔۔ یہاں پر سب کچھ پہنچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد شاہ مسعود افغانستان کے مضبوط ترین عسکری لیڈر تھے۔ طاقتور جسم، چھوٹی داڑھی اور عقابی نگاہ والی تاریک آنکھیں، وہ شمال مشرقی افغانستان میں کرشماتی شخصیت والے پاپولر لیڈر تھے۔ سوویت فوجوں کو ناکوں چنے چبوانے سے اور ان کے ساتھ معاملہ کرنے تک سیاست اور جنگ کو اکٹھا ہی دیکھتے تھے۔ پابندی وقت سے نماز کی ادائیگی کے علاوہ کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے تھے۔ فارسی شاعری، اسلامک تھیولوجی اور گوریلا جنگ کی تاریخ پسندیدہ مضامین تھے۔ انقلابی ڈاکٹرائن ان کو متاثر کرتی تھی جبکہ کھلے ذہن کے، روادار افغان نیشنلسٹ سمجھے جاتے تھے۔
سوویت افغان جنگ کا ایک بڑا اہم کردار اس ملک کا مشرقی ہمسایہ تھا لیکن احمد شاہ مسعود کے اس سے تعلقات زیادہ گرم جوشی والے نہیں تھے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے بڑے حریف گلبدین حکمت یار تھے۔ ان دونوں گروپس نے ایک دوسرے کا بہت خون بہایا تھا۔ کابل پر قبضے میں احمد شاہ مسعود نے گلبدین کو شاہ مات کی تھی۔
لیکن ستمبر 1996 ان کی شہرت کے زوال کا وقت تھا۔ بغاوت سے حکومت تک کا سفر ان کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوا تھا۔ افغان کمیونزم کے گر جانے کے بعد وہ کابل میں فاتحانہ طور پر نئی حکومت کا حصہ بنے تھے۔ اپنے مخالف کمانڈرز کے خلاف ہونے والے خون خرابے کا حصہ تھے۔ ایک دوسرے پر حملہ، جوابِ حملہ اور پھر اس کا جواب۔ اس حکومت میں شامل لوگوں کا ایک دوسرے سے عجیب خونی اتحاد جاری تھی۔ شمال میں ان کے دوست ہیروئن سمگل کر رہے تھے۔ ملک کو متحد یا پرامن رکھنے میں ناکامی کا سامنا تھا۔ ان کی فوج نے اچھے ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ آپس میں ہونے والی لڑائیاں بے رحمانہ اور تباہ کن تھیں۔
اس سب سے نجات دلانے کا وعدہ کرنے والی ایک اور نئی ملشیا نے افغانستان کے جنوب سے 1994 میں ملک پر قبضے کا مارچ شروع کیا تھا۔ سفید جھنڈوں والی اس نئی فوج کے امیر نے شیرِ پنجشیر (احمد شاہ مسعود) کو قتل کر دینے کے ارادے کا اعلان کیا تھا۔ طالبان اب ملک کے جنوبی اور مغربی حصے پر قبضہ قائم کر چکے تھے۔ نئے چمکدار ٹویوٹا ڈبل کیبن ٹرک پر سوار اس فوج کے پاس اسلحے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ ان کی بڑھتی قوت نے احمد شاہ مسعود کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کابل میں امریکی سفارتخانہ سیکورٹی کی صورتحال کی وجہ سے جنوری 1989 سے بند پڑا تھا۔ سی آئی اے کے صرف چند ایجنٹ افغانستان میں ایمل کاسی کی تلاش میں تھے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں کیا ہو رہا تھا، امریکہ کو نہ خبر تھی اور نہ دلچسپی۔ افغانستان میں کارروائیوں کے لئے دسمبر 1991 میں بجٹ ختم کیا جا چکا تھا۔ گیری شروئن کے پاس ایجنٹ بھرتی کرنے، کسی کو آلات فراہم کرنے یا فیلڈ رپورٹس کے لئے کوئی فنڈ نہیں تھے۔ امریکہ کی افغان پالیسی کبھی کسی اہلکار کا امن کی خواہش کے حق میں بیان دے دینے سے زیادہ کچھ اور نہیں تھی۔ چار سال میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے افغانستان کے بارے میں کوئی سٹیٹمنٹ جاری نہیں کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سولہ برس سے سی آئی اے افغانستان میں اپنے مقاصد کے لئے امریکی ڈالروں کے صندوق استعمال کرتا آیا تھا۔ احمد شاہ مسعود کے افسر کئی بار اس بات پر مایوسی کا اظہار کرتے تھے کہ سی آئی اے ایسا سمجھتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ پیسوں کی خاطر کر رہے ہیں۔ خانہ جنگی پیچیدہ اور سفاک تھی لیکن وہ اپنے آپ کو قومی عزائم کے حصول کے لئے لڑنے والے جنگجو سمجھتے تھے جو اس کی خاطر اپنا خون بہا رہے تھے اور جو بھی تھوڑا بہت ان کے پاس تھا، اس کی قربانی دے رہے تھے۔ بڑے مشکل وقت میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے۔ وہ اس بات پر دکھ کا اظہار کرتے تھے کہ سی آئی اے کا خیال ہے کہ ان کے لئے پیسہ اپنے خاندان اور ملک سے زیادہ اہم ہے۔ یہ سب کچھ قومی جذبے کے تحت کر رہے تھے۔ البتہ انہوں نے پیسوں سے انکار کبھی نہیں کیا۔ پیسے کام آسان کر دیتے تھے۔ ایک وقت میں احمد شاہ مسعود بھی باقی افغان جنگ کے دوسرے تمام بڑے کمانڈروں کی طرح مشاہرہ لیا کرتے تھے تھے۔ یہ مشاہرہ کبھی دو لاکھ ڈالر ماہانہ بھی ہوا کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد شاہ مسعود یہ نہیں جانتے تھے کہ شروئن کس لئے ملنے آئے ہیں۔ مسعود امریکہ کو ناقابلِ اعتبار دوست سمجھتے آئے تھے۔ شروئن نے جنوری 1990 کا واقعہ یاد کروایا جب کابل پر نجیب اللہ کی حکومت تھی۔ اس وقت پلان بنایا گیا تھا کہ کابل کی رسد بند کی جائے گی۔ اس میں احمد شاہ مسعود نے سالنگ کی ہائی وے کو موسمِ سرما میں بند کرنا تھا۔ اس پر مسعود نے اتفاق کیا تھا لیکن اس کے لئے ماہانہ مشاہرے سے زیادہ رقم کی درخواست کی تھی۔ رقم پشاور میں مسعود کے بھائی کے حوالے کر دی گئی تھی۔
ہفتوں گزر گئے لیکن سالنگ ہائی وے بند نہیں کی گئی تھی۔ صرف چند روز بند رہنے کے بعد کھل گئی تھی۔ یہ عام شہریوں کے لئے بھی اہم راستہ تھا اور مسعود کی فوجوں کے لئے محصول کی آمدنی بھی یہاں سے ہوا کرتی تھی۔ وہ پہلے بھی اس کو بند کرنے میں ہچکچاتے رہے تھے۔ اس بار بھی کام نہیں کیا تھا۔
شروئن نے مسعود کو یہ یاد کروایا کہ مسعود چھ سال پہلے وعدہ کر کے مکر گئے تھے۔ شروئن نے خود اپنے ہاتھ سے پانچ لاکھ ڈالر ان کے بھائی کو دئے تھے۔ مسعود نے پوچھا، “کتنے؟” شروئن نے کہا، “پانچ لاکھ ڈالر”۔ مسعود کے ایک افسر نے کہا کہ ان کو اتنی رقم نہیں ملی تھی۔
جو ہوا، سو ہوا پر اتفاق کر کے دونوں نے آگے کی بات شروع کی۔ احمد شاہ مسعود نے اپنے شکوے گنوانا شروع کئے۔ سی آئی اے اور امریکہ افغانستاان کو اکیلا چھوڑ گئے تھے۔ ان کے لوگوں کی طرف سے منہ موڑ لیا تھا۔ شروئن نے کہا کہ اب وہ اس سلسلے کو واپس شروع کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کی دلچسپیی واپس بڑھنا شروع ہو گئی ہے، اگرچہ اس پر ایک یا دو سال لگ جائیں گے۔ اور اس کی وجہ ایک بڑا مختلف خدشہ ہے جو 1993 سے شروع ہونے والے چند واقعات کے پیشِ نظر سامنے آنا شروع ہوا تھا ۔۔۔۔ دہشت گردی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے چند ماہ پہلے ایک اور طیارہ افغانستان میں داخل ہوا تھا۔ اس میں آنے والے مہمان کو سوڈان سے نکالا گیا تھا اور ٹریک کیا جا رہا تھا اور گیری شروئن یہ رابطہ اس لئے کرنے آئے تھے کہ اس ابھرتی طاقت کے خلاف دوست ڈھونڈے جا سکیں۔ کیا احمد شاہ مسعود اس میں حلیف ہو سکتے تھے؟ اس پر سی آئی اے میں اختلاف تھا۔ اور یہ اختلاف پانچ سال بعد آنے والے ستمبر تک رہنا تھا۔ دونوں بے خبر تھے لیکن امریکہ اور احمد شاہ مسعود کی قسمت ایک دوسرے سے جان لیوا طور پر الجھی ہوئی تھی۔
گیری شروئن کے پاس فنڈ نہیں تھے لیکن ان کے ہاتھ میں ایک اور پتہ تھا۔ ایک اور ڈیل تھی۔ سٹنگر میزائل۔
سٹنگر 1986 میں افغانستان پہنچے تھے۔ کندھے سے وار کیا جانے والا ہتھیار جس کا حرارت کو تلاش کر کے گائیڈ کرنے والا سسٹم بہت اچھا کام کرتا تھا۔ سی آئی اے کے سپلائی کردہ سٹنگر سوویت ہیلی کاپٹر اور ٹرانسپورٹ کے طیاروں کو 1986 سے 1989 تک گرانے کے کام آتے رہے۔ اس نے جنگ کے توازن پر بڑا اثر ڈالا تھا۔
جب سوویت چلے گئے تھے تو امریکہ کو خطرہ محسوس ہوا تھا کہ یہ دہشت گرد گروپ یا دشمن حکومتوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں اور خاص طور پر ان سے مسافر طیارے گرائے جانے کا خطرہ بھی تھا۔ سی آئی اے دو سے اڑھائی ہزار کے قریب سٹنگر افغانستان بھجوا چکی تھی۔ ان میں سے کئی امریکہ مخالف کمانڈرز کے پاس پہنچ گئے تھے۔ چند ایک ایران کے ہاتھ بھی لگ گئے تھے۔
صدر جارج بش اور پھر بل کلنٹن نے ایک خفیہ پروگرام کی منظوری دی تھی جو سی آئی اے کا سٹنگر واپس خریدنے کا پروگرام تھا۔ یہ افغان جنگجووٗں کے لئے کیش پروگرام بن گیا تھا۔ فی میزائل اسی ہزار سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر ادا کئے جاتے تھے۔ افغان خانہ جنگی میں ان کا کوئی کام نہیں تھا۔ کمانڈر ان کو بیچنے پر تیار تھے۔ اس پروگرام پر بھاری رقم خرچ کی گئی۔ اس سے فضائی سفر تو محفوظ ہو گیا لیکن ڈالروں کے ڈبے افغان شہروں اور دیہاتوں کو تباہ کرنے والے ہتھیار خریدنے میں مدد کرتے رہے۔ احمد شاہ مسعود نے ابھی تک کوئی میزائل نہیں بیچا تھا۔ اگر وہ اس میں شریک ہو جاتے تھے تو پیسے کما سکتے تھے۔ اس سے تعاون حاصل کیا جا سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شروئن نے یہ ڈیل سامنے رکھی۔ مسعود نے کہا کہ “کیا آپ جانتے ہیں کہ مجھے پوری جنگ میں کتنے سٹنگر دئے گئے تھے؟ کُل ملا کر آٹھ۔ اور وہ بھی اس وقت جب جنگ خاتمے کے قریب تھی”۔ شروئن یہ نہیں جانتے تھے۔ مسعود ٹھیک کہہ رہے تھے۔ شروئن کے لئے یہ حیران کن تھا۔
البتہ مسعود نے یہ ہتھیار بیچنے اور دوسرے کمانڈرز سے مڈل مین بن کر ڈیل کروانے میں دلچسپی ظاہر کی۔ ان حاصل کردہ ہتھیاروں کو افغانستان سے باہر ایک امریکی فوجی طیارے سی 130 نے لے کر جانا تھا۔
اگلا موضوع اسامہ بن لادن تھے۔ مسعود کے خیال میں وہ ایک بڑے مسئلے کا چھوٹا حصہ تھے۔ ایک بہت بڑے نیٹ ورک کا صرف نظر آنے والا چہرہ۔ مسعود کے لئے بڑا خطرہ طالبان کی پیشقدمی تھی۔ شروئن اور مسعود کی یہ ملاقات رات دو بجے تک جاری رہی۔ اس میں بات چیت کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ یہ صرف ایک دوسرے کے خیالات جاننے کے لئے تعارفی ملاقات تھی۔ اگلے روز شروئن واپس پاکستان آ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ احمد شاہ مسعود کو اپنی زندگی کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ طالبان جلال آباد سے آئے تھے۔ ان کے پاس جدید ہتھیاروں اور وسائل کی کمی نہ تھی۔ 25 ستمبر کو انہوں نے سروبی پر قبضہ کر لیا۔ اس سے اگلے روز سہہ پہر تین بجے مسعود اور سینئیر کمانڈروں کی میٹنگ نے صورتحال دیکھ کر فیصلہ کیا یہ مزید تباہی سے بچنے کے لئے پسپا ہو جانا بہترین حکمتِ عملی ہو گی۔ حکومتی فورس نے تیزی سے شمال کا رخ کیا۔ جتنا اسلحہ اور عسکری ساز و سامان لے جا سکتے تھے، ساتھ لے گئے۔ 26 ستمبر کی رات کو کابل ایک مرتبہ پھر فتح ہو چکا تھا۔ اس بار اس کو فتح کرنے والے ملا عمر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ کی اس خطے کے بارے میں لاعلمی کا اندازہ اس ملاقات سے لگایا جا سکتا تھا۔ ان کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ افغان حکومت کس قدر کمزور ہے۔ احمد شاہ مسعود اس پوزیشن میں ہی نہیں کہ ان سے کوئی ڈیل کی جا سکے۔ ان کا اہم اہلکار ایسے علاقے میں ایسی حکومت سے اگلے ایک سے دو سال کے پلان کے بارے میں ڈسکس کرنے گیا تھا جس میں وہ خود بھی پھنس سکتا تھا۔
دوسری طرف امریکہ میں اس وقت صدارتی مہم کی گہما گہمی تھی۔ سٹاک مارکیٹ میں تیزی تھی۔ بیروزگاری گر رہی تھی۔ امریکی اور سوویت نیوکلئیر اسلحہ ضائع کیا جا رہا تھا۔ دنیا امن کی طرف بڑھ رہی تھی۔ راوی چین لکھتا تھا۔ اس کے بیچ میں کابل کا ایک اور بار فتح ہو جانا امریکہ میں کسی اخبار کے پچھلے صفحے کی خبر بھی نہیں تھی۔ جارج بش اور بل کلنٹن کے درمیان ہونے والے اس مقابلے میں افغانستان کا ذکر ایک مرتبہ بھی کہیں نہیں آیا۔ چند سال پہلے خبروں میں اور صدارتی بریفنگز میں مسلسل رہنے والا ملک اب ہر ایک کی یاد سے محو ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس کتاب سے لیا گیا ہے۔ ّاس کتاب کو 2005 میں نان فکشن پر لکھی گئی بہترین کتاب پر پولٹرزر پرائز ملا تھا۔
Ghost Wars: Steve Coll