کیا ہم زندہ ہیں ؟ بجھی ہوئی ماچس کی تیلی ؟ جہاں ملک کی سیاست نے ذہنی طور پر ہمیں اپاہج بنا دیا ہے ؟ ہم اس نیے سیاسی نظام کو دیکھ رہے ہیں ، جہاں یا تو ہمارے لئے موت ہے یا پھر زندگی کے نام پر تھوڑی سی امید . ملک کے ایک بہت بڈے طبقے نے سوچنا چھوڑ دیا ہے .یہ طبقہ جشن میں شامل ہوتا ہے . روبوٹ کی طرح مودی مودی کی آواز نکالتا ہے .پھر ہزاروں لاکھوں کا مجمع منتشر ہو جاتا ہے . ابھی حال میں شہلا رشید نے بھی بیان دیا کہ ہندو ہونے کے نام پر مسلمانوں کی مخالفت میں ذہن سازی کی گیی ، جو بہت حد تک کامیاب رہی . بی جے پی میں صرف مودی اور شاہ بچے ہیں .باقی جشن میں شامل بھکتوں کی آواز بن چکے ہیں .ان میں وزیر بھی ہیں ، آر ایس ایس کے لوگ بھی . اور یہ اس بات سے واقف ہیں کہ مودی سے علیحدہ ہو کر انکی حیثیت کسی مسخرے جیسی ہے . ٢٠١٩ کے لئے جشن کا ماحول گہری اداسی میں تبدیل ہو چکا ہے .دیگر سیاسی پارٹیاں اپنی شناخت کے لئے حیران و پریشان ، اور ہوتا یہ ہے ..کہ ایک قداور مجسمے کی موجودگی میں ، باقی مجسمے پستہ قد نظر آتے ہیں .اس ملک کی جمہوریت تاریخ میں دفن مگر یہ سوچنا بھی لازمی ہو جاتا ہے کہ کیا یہ جمہوریت اس ملک میں کبھی تھی بھی یا نہیں ؟ اگر ہوتی تو ملک کا چوتھا موسم فرقہ وارانہ فسادات نہ ہوتے . انیس سو چوراسی نہ ہوتا ، چھ دسمبر نہ ہوتا ، بھاگلپور ، ملیانہ ، بھیونڈی اور ہاشم پورا کے دنگے نہ ہوتے ، گودھرا اور گجرات نہ ہوتا ..کیا کبھی اس گمشدہ جمہوریت کو تلاش کرنے کی کوشش بھی کی گیی ؟ تاریخ کی کتابوں سے لے کر سیاسی چہروں میں ؟ عوام سے لے کر آتش زدہ بیانوں میں ..؟ سرخ رنگ میں ..؟ خوف میں ؟ اندیشے اور وسوسوں میں ؟ بھوک میں اور جبر میں ؟ دانشور ، ادیب ، صحافی سب نے مان لیا کہ ایک فرضی مجسمہ ہندوستان کے نقشے پر آباد ہے ، جسے جمہوریت کہتے ہیں ..ستر برسوں میں ایک سیاسی پارٹی نے امبیڈکر کو اوٹ ڈیٹڈ سمجھ کر خارج کرنا شروع کیا .آیین کی کتاب ان برسوں میں بوسیدہ ہو چکی تھی .منو اسمرتی برہمن وادی نظام کے لئے ضروری اس لئے بھی تھی کہ اس کے بغیر بڑی سیاسی اتھل پتھل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا . قد اور مجسمہ اس حقیقت سے واقف تھا کہ جو لوگ الیکشن کمشنر اور ای وی ایم کے خلاف جنگ نہیں کر سکتے ، ان کو نظر انداز کر کے سب کچھ کیا جا سکتا ہے .اور یہی آج کا سچ ہے کہ دو مجسمے تمام پارٹیوں اور انکی فکر پر بھاری پڑ رہے ہیں . کیا کانگریس ، بسپا اور سپا الگ ہو کر بی جے پی کی فتح کو روک سکیں گے ؟ جواب ہے نہیں . کیا کانگریس اس خوش فہمی میں ہے کہ ایک بار پھر اسکا پرانا ووٹ بینک لوٹ آیا ہے تو یہ ایک مذاق ہے . سپا اور بسپا ابھی تک قد اور مجسمے کی طاقت کو سمجھ نہیں پاے . دلی میں کیجریوال مسلسل کانگریس کے خلاف بول رہے ہیں .مسلم ووٹ منتشر ہوگا اور صورت حال وہی ہوگی جو ٢٠١٤ میں تھی .
مشکل یہ ہے کہ ہم کچھ لوگوں پر ، کچھ طاقتوں پر ، کچھ پارٹیوں پر یقین کر لیتے ہیں اور ہماری جواب دیہی ختم ہو جاتی ہے .
ہندتو ، رام جنم بھومی ، ہجومی تشدد ، ہلاکت ، انتشار ، بے نیازی ، سرد مہری ، زبان بندی ، خوف : سیاست کے اس کولاز میں ہماری زندگی گروی پڑی ہے . ہم کہاں ہیں ؟ لفظ کہاں ہیں ؟ ترک ناول نگار ارحان پامک کے الفاظ دستک دیتے ہیں ..مصنف وہ شخص ہے جو صبر اور تحمل سے اپنے آپ کو تلاش کرتا ہے. اس دنیا کو دیکھتا ہے ،جس کا وہ خالق ہے .اپنے وجود اور الفاظ سے وہ ایک نیی دنیا تعمیر کرتا ہے . مشہور ناول نگار گنٹر گراس نے اپنے ناول د ٹن ڈرم میں دوسری جنگ عظیم کے پس منظر میں جرمنی کو دیکھا . پستہ قد آسکر جو اپنی چیخ کے ساتھ شیشے کو توڑ سکتا ہے، اور اپنے معمولی ٹن ڈرام کو بجا کر پوری آرکسٹرا کی آواز کو خارج کر سکتا ہے. آسکر غضب کا کردار ہے .وہ کثیف روشنی کے ملبے میں پیدا ہوا ..اسے ایک ڈرم ملا ..ڈرم کو بجایا .مشرق و مغرب کی سیر کی .ڈرم کو قبر سے نکالا .جیل گیا پھر آزاد ہو گیا ..میں اس چیخ کو محسوس کرتا رہا جو آسکر نے اپنے وجود میں پیوست کر لی تھی ..یہ چیخ کہاں ہے ؟ فسطائی طاقت نے ہمیں ملبے میں دفن کر دیا ہے .آسکر کی طرح ہمیں اس ملبے سے نکلنا ہوگا . گمشدہ آواز کو زندہ کرنا ہوگا .
ہندوستانی معاشرہ آج ایک مذاق بن چکا ہے . . یہاں ایک یوگی ایک تانترک ایک ریاست کی باگ ڈور سنبھالتا ہے .کمپیوٹر بابا وزیر بنا دیا جاتا ہے . لکڑی کی بنی کنجی سے سینٹرل جیل کا تالا کھل جاتا ہے . آکسیجن کی کمی سے بچوں کو بچانے والا مسیحا ، ولین بنا کر جیل میں بھیج دیا جاتا ہے . آندھرا یونی ورسٹیی کے وائس چانسلر کا عجیب و غریب بیان آتا ہے کہ دس سر رکھنے والے راون کے پاس پشپک طیارہ کے علاوہ بھی ٢٣ قسم کے طیارے تھے .مہابھارت کے مشہور کردار پانڈوون کی پیدائش ٹیسٹ ٹیوب سے ہوئی تھی .. دادری میں فریج میں رکھا ہوا مٹن ، حکومت کے جادو سے بیف بن جاتا ہے .مگر بینک نوٹ بندی میں خالی ہو جاتے ہیں .یہاں جادو کا زور نہیں چلتا .٣٢ سے زیادہ انڈسٹریلسٹ بینک سے کروڑوں کا غبن کر کے ملک سے فرار ہو جاتے ہیں ، کویی پشپک ومان انہیں واپس ہندوستان نہیں لاتا . یہ چند مثالیں ہیں .ایسی ہزاروں مثالیں صرف ان پانچ برسوں میں سامنے آیی ہیں جس نے ملک سے زیادہ ہندو قوم کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے . کیا کسی تھذیب یافتہ ملک میں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ انسان کی ہلاکت کویی معنی نہیں رکھتی لیکن گایوں کا تحفظ انسان سے زیادہ ضروری ہے . ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کے تخت پر ایک ایسے مسخرے کو بیٹھا دیا گیا ، جسکا ہر بیان ہندوستان ، ہندو مذھب اور ہندو قوم پر سیدھے چوٹ کر رہا ہے .
کیا ہندتو کا ہتھیار اس قدر موثر ہے کہ پانچ برسوں کی ناکامیاں کویی معنی نہیں رکھتیں .؟ میڈیا اور اندھے بھکت بے حس ہندوستان کی علامت ہیں .یہاں میڈیا ہلاکت کی زمین تیار کرتی ہیں ..نفرت پھیلاتی ہے ..اندھے بھکت آر ایس ایس کی شاخوں سے پیسے لیتے ہیں . ان میں سے کویی ایک مسخرہ دن دہاڑے ایک مسلمان مزدور کو جنگل میں لے جاتا ہے .بے رحمی سے قتل کرتا ہے .لاش کو آگ لگاتا ہے پھر اسکا ویڈیو تیار کرتا ہے اور اندھے بھکتوں کے درمیان ہیرو بن جاتا ہے …امرتیہ سین ، نصیر الدین شاہ جیسے جینیس بھی حیران ہیں کہ آخر اس ملک میں کیا ہو رہا ہے ؟ ملک کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سموسے اور پکوڑے بیچنے کی صلاح حکومت کی طرف سے بار بار دی جاتی ہے .تعلیم کے بجٹ کو کم کیا جاتا ہے .اسکول کالج سائنس اور ٹکنالوجی کو فروغ دینے کی جگہ تین ہزار کروڑ کی لاگت سے پٹیل کی مورتی تیار کی جاتی ہے .گایوں کے تحفظ کے لئے سرکاری محکمہ قائم کیا جاتا ہے اور سڑک پر دن دہاڑے اقلیتوں کو ہلاک کیا جاتا ہے . ایسا ملک جہاں میڈیا بھی حکومت کے ہر کاروبار کو فروغ دے رہا ہے .سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے دلیلیں پیش کر رہا ہے …ایک تھذیب یافتہ دور میں ، ایک زعفرانی پارٹی ملک کو رام جنم بھومی اور گایوں کا واسطہ دے کر مہابھارت اور رامائن کے دور میں لے جانے کی تیاری کر رہی ہے ..کمبھ میلہ ، گایوں کے تحفظ اور پٹیل کی مورتی پر ہزاروں کروڑ خرچ کرنے والی حکومت نے ہندوستان کے مستقبل کو نفرت کے سلگتے شعلوں میں جھونک دیا ہے .ملک اب ڈیجیٹل عھد میں نہیں ، رامائن عھد میں پیچھے کی طرف جا رہا ہے . البئر کامو کے ناول دی پلیگ کی یاد آتی ہے ..شہر میں ہر طرف چوہے مر رہے ہیں .پلیگ پھیل گیا ہے ..جب پلیگ کا خاتمہ ہوتا ہے تو ہزاروں جانیں جا چکی ہوتی ہیں .اس موقع پر ڈاکٹر ریو کہتا ہے ، اس کے باوجود نیی زندگی کا سورج طلو ع نہیں ہوگا .پلیگ پھر اے گا . جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی .. انسان مر رہے ہیں .ذرائع ابلاغ پر پابندی لگایی جا رہی ہے . ستر برسوں میں مذھب پلیگ کی طرح پھیلتا چلا گیا . دنگے ہوئے .فسادات ہوئے ..جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں . حکومت اب یہی کر رہی ہے . سنسر شپ ، پابندیاں .. انسان کی طاقت کو کم کر دو ، حکومت کا یہ بھی موثر طریقہ رہا ہے ..اب یہ طریقہ ہم پر آزمایا جا رہا ہے .. یہ سب ہو رہا ہے لیکن ہم کہاں ہیں ؟
ہم اداس موسم کے درمیان اپنی اپنی قبروں میں ہیں . پنجابی شاعر اوتار سنگھ پاش کی ایک نظم تھی .
.سب سے خطرناک ہوتا ہے ، ہمارے سپنوں کا مر جانا / سب سے خطرناک ہوتا ہے مردہ شانتی کا بھر جانا /
تڑپ نہ ہونا ، سب کچھ سہہ لینا / گھر سے نکلنا کام پر اور کام سے لوٹ کر گھر جانا /
سب سے خطرناک وہ گھڑی ہوتی ہے /جو آپکی کلایی پر چلتے ہوئے بھی رکی ہوتی ہے /
سب سے خطرناک وہ آنکھ ہوتی ہے ، جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی برف میں جمی ہوتی ہے /
سب سے خطرناک وہ رات ہوتی ہے جو زندہ روح کے آسمانوں میں ڈھل جاتی ہے /
اوتار سنگھ پاش کم سنی میں دہشت گرد کی گولیوں کا نشانہ بن گئے .لیکن پاش کی چیخ اب بھی کانوں میں صدا دیتی ہے …سب سے خطرناک ہوتا ہے ، ہمارے سپنوں کا مر جانا .. سپنوں کی موت کے ساتھ لفظ بھی مردہ ہو جاتے ہیں
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...