فوج کے بجٹ کا دفاع کرنے والے قومی بجٹ پر اپنے سوال اٹھاتے ہیں۔ اور وہ اس بات کی 'تردید' کرتے ہیں۔ کہ پاکستان کا بھاری بجٹ فوج پر خرچ ہورہا ہے۔ اس سلسلے میں وہ بھی اعداد وشمار کا اپنا داو پیچ چلاتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کا اصل ٹکراو بھی فوجی بمقابلہ سویلین ہے۔ فوج ایک لازمی اور قابل احترام ادارہ بھی ہے۔ لیکن جنرلوں نے اپنے اور ادارے کے مفادات کے حفاظت میں جارحانہ انداز 70 سال سے اپنا رکھا ہے۔ اس باہمی تنازعہ کا ایک حصہ پالیسی سوچ سے اور ایک حصہ بجت کی تقسیم پر ہے۔
فوجی بجٹ کے حامی کہتے ہیں۔ کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا ہے کہ آدھا بجٹ فوج لے جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، بجٹ کی ایلوکیشن دیکھ لیں۔ بجٹ کا سب سے بڑا حصہ قرضوں اور سود کی واپسی ہے۔ دوسرا سب سے بڑا 'خرچہ' نقصان پر جانے والے قومی ادارے ہیں، تیسرا سب سے بڑا حصہ ملک کا ترقیاتی بجٹ ہے، جب چوتھے نمبر پر فوجی بجٹ آتا ہے۔
آیئے اس کی کچھ سرجری کریں۔
دفاع کا بجٹ 'قومی بجٹ' کے حجم سے کے تناسب سے نہیں دیکھنا چاہئے، یہ سراسر غلط ہے۔ اسے قومی آمدنی کے تناست بے دیکھنا چاہئے، کہ ہماری آمدنی کتنی ہے اور ہم اس کو دفاع پر کتنا خرچ کررہے ہیں۔ گذشتہ مالی سال میں مشکل سے 35 سو ارب کی ٹیکس آمدنی ہوئی ہے۔ اب مسئلہ یہ آ جاتا ہے دفاع کے بجٹ میں جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اسے جان بوجھ کرکم دکھایا جاتا ہے۔ پچھلے سال 11 سو ارب دکھایا گیا ہے۔ 300 ارب روپے کی فوجی پینشز سول بجٹ کے کھاتے میں ڈالی ہوئی ہیں۔ ہو گیا 14 سو ارب، اب اس میں سٹریٹیجک سائڈ کے خرچے اور Contingency یعنی کسی وقت بھی کوئی دفاعی ایشو پرمزید خرچ ہو سکتا ہے، اور بیرونی فوجی امداد کو شامل نہیں کیا جاتا۔ ان کو بجٹ میں نہیں دکھایا جاتا۔ محتاط اندازے کے مطابق دفاع کا اصل بجٹ 15 – 16 سو ارب سے کسی طور کم نہیں۔ یہ ہماری قومی آمدنی کا تقریبا 50٪ ہی بنتا ہے۔ پچھلے بجٹ میں ترقیاتی بجٹ تقریبا 7 سو ارب رکھا گیا تھا۔ دفاعی بجٹ کے حمائتی ایک اور بات بھول جاتے ہیں۔ کہ 70 سال کا ریکارڈ نکال کردیکھ لیں۔ ترقیاتی بجٹ کا 40 فیصد سے زائد ہر سال 'سرنڈر' ہوجاتا ہے۔ کبھی 60 ٪ سے زائد مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے خرچ نہیں کیا۔ گویا ترقیاتی بجٹ کا جو حجم قومی میں بجٹ مین دکھایا جاتا ہے۔ وہ اس کا مشکل سے 60٪ ہوتا ہے، جب کہ 70 سال کی تاریخ کا ریکارڈ نکال کردیکھ لیں۔ دفاع کا بجٹ نہ صرف 100 ٪ خرچ کردیا جاتا ہے۔ بلکہ شائد ہی کوئی سال آپ کو ملے جب دفاع والوں نے سپلیمینٹری اضافی بجٹ حکومت سے نہ لیا ہو۔۔ (مزید کئی سو ارب)
اب آ گیا بیرونی قرضوں کا ایشو ۔ پاکستان کی برآمدات اپنی درآمدات سے تقریبا ہمیشہ آدھی سائز کی رہی ہیں۔ جو چیز ایک اور دھوکے میں رکھی جاتی ہے۔ وہ ہے ہماری ملڑی امپورٹس، پاکستان دنیا کا 9واں بڑا اسلحہ کا عالمی خریدار ہے۔ جو کم از کم 7 ارب ڈالر بنتا ہے۔۔ اس 'پاجامے' کا کبھی ذکر نہیں کیا جاتا۔۔ یہ 7 ارب ڈالر جناب کہاں سے ہر سال دیئے جاتے ہیں۔۔؟ قرضوں سے۔۔۔ باقی جو بیرونی قرضہ ہوتا ہے وہ ترقیاتی بڑے بڑے پراجیکٹس پرلگتا ہے۔ بندرگاہیں، موٹرویز، ہائی ویز، ڈیمز، بجلی اور گیس کے پراجیکٹس ان کے لئے اربوں کھربوں پیسا درکار ہوتا ہے۔ یہ کوئی آج کی نئی چیز نہیں، کہ پاکستان نے پچھلے قرضے ادا کرنے کے لئے اگلے قرضے لئے کیونکہ دفاع کی خریداری اور ترقیاتی کام نہیں رک سکتے۔۔ ایک طرف ہر روز نئے نئے جنگی طیارے، جنگی آبدوزین اور بحری جہاز، نئے نئے ٹینکس، ایٹم بموں کے ذخیرے، رور مار مزائلوں کے ڈھیر مفت میں نہیں بنتے۔ ان پر لامحدود زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔۔ وہ ڈالر آسمان سے نہیں اترتے۔۔ اس لئے پاکستان Debt servicing کوئی جدا قسم کی چیز نہیں، اس میں دفاع کا پورا پورا حصہ ہے۔ اس کو سیاست دانوں کے متھے لگا دیا جاتا ہے۔ اور لوٹ گے لوٹ کا فراڈ شور مچا دیا جاتا ہے۔
پاکستانی عوام دس کروڑ ناخواندہ ہے۔ باقی دس کروڑ نیم خواندہ ہے۔ 5 پرسنٹ بھی یونیورسٹی گریجویٹ نہیں۔ اور وہ بھی عقل کم جذبات اور پروپیگنڈے پر چلتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سطح پر جھوٹ بولا اور سنایا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ جھوٹ مذہب کے حوالے سے ہو، یا وطن کے حوالے، کوئی اسے تنقیدی یا تحقیقی نظر سے نہیں دیکھتا، اندھا ہو کرایمان لے آتا ہے جو بھی سنایا جائے۔ پاکستانیوں کو جاہل اس لئے رکھا ہوا ہے تاکہ انہی کٹھ پتلیوں کی طرح پیچھے خفیہ قوتیں آسانی سے چلاتی رہیں۔ اس ملک کے نظام تعلیم میں critical thinking اس لئے نہیں رکھی گئی۔ کہ لوگ سوچنا شروع نہ کردیں۔ ان کو اندھے ایمان اور اندھے جذبات کی عادت ہی ڈالی رکھو۔
پاکستان کی 70 سال سے قرضہ معیشت چلی آرہی ہے۔ وقت کے ساتھ وہ بڑھتی اس لئے جارہی ہے۔ کہ ہماری عالمی دفاعی خریداری بھی بڑھ رہی ہے۔ اور ترقیاتی کام بھی۔۔ پچھلے دور میں 12 ہزار میگا واٹ بجلی ہوئی ہے وہ مفت میں نہیں بنی، اربوں ڈالر اس پر خرچ ہوئے ہیں۔ 5۔ 7 ارب ڈالر سے کوئی منصوبہ کم نہیں ہوتا۔
“