ایک تخت حیدر آباد میں بچھا تھا جس پر نظام بیٹھا تھا۔ ایک لکھنؤ میں تھا جس پر واجدعلی شاہ متمکن تھے اور بھنگن سے عقد کرکے اُسے مصفّٰی بیگم کا خطاب دے رہے تھے۔پٹیالہ، کپورتھلہ، اَلوَر، جے پُور اور دوسری ریاستیں الگ تھیں۔ کہیں گڈّے اور گڑیا کیشادی پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے تھے اور کہیں کُتّے اور کتیا کے بیاہ پر اکیسہزار پائونڈ لگ رہے تھے۔
تخت آج بھی بچھے ہیں۔ ایک تخت بلاول ہائوس میں بچھا ہے۔ اس پر شہزادہ بلاول بیٹھاہے۔ سامنے ہاتھ باندھے خورشید شاہ، کائرہ صاحب، میاں رضا ربانی اور دوسرے معمر سفیدسر سیاستدان کھڑے ہیں۔ ایک تخت لاہور میں ہے۔ اس پر شہزادہ حمزہ شہباز جلوہ افروز ہے۔خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، احسن اقبال دربار میں ایستادہ ہیں۔ ایک اور راجدھانی گجرات میںہے۔ شہزادہ مُونس الٰہی وہاں تخت نشین ہے۔ امیر حیدر خان ہوتی اور شاہی سید بھی شاہیخاندان سے ہیں۔ فرق اس زمانے میں اور اس زمانے میں یہ ہے کہ اس وقت عوام کو معلوم ہوجاتا تھا کہ گڈّے اور گڑیا اور کتے اور کتیا کے بیاہ پر کتنی دولت خرچ ہو رہی ہے اورکس راجے کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں۔ مثلاً نواں نگر کے جام صاحب کے پاس ایک سوستاون کاریں اور اس کی بیگم کے پاس ایک ہزار سات سو ساڑھیاں تھیں۔ لیکن آجپاکستان کے عوام کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں کہ شہزادہ بلاول،شہزادہ حمزہ اور شہزادہ مونس الٰہی کے پاس کتنی گاڑیاں ہیں۔ ان کا روزمرہ کا بجٹ کتناہے۔ ان کا بزنس آج کہاں تک پھیلا ہوا ہے اور پانچ سال پہلے کتنا تھا؟ ان کے بیرونیسفر ایک سال میں کتنے ہوئے ہیں اور ان پر کس قدر اخراجات اٹھے ہیں؟
عوام کے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ وفاق میں سرکاری خزانے کا کسی قدرحصّہ حکومتی پارٹی یعنی پیپلزپارٹی پر صرف ہو رہا ہے اور صوبے میں خزانے کا کتناحصّہ حکومتی پارٹی یعنی مسلم لیگ نون پر خرچ ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ نون کے سربراہکے کتنے معاون صوبائی حکومت کے خرچ پر پَل رہے ہیں؟ کتنے محلات کو ’’چیف منسٹرہائوس‘‘ قرار دیا گیا ہے اور ہر ماہ سرکاری خزانے سے کتنی رقم پولیس کے ان ارکان پرصرف ہو رہی ہے جو رائے ونڈ سے لے کر لاہور شہر کی آبادیوں تک پھیلے ہوئے اِنمحلات پر پہرہ دے رہے ہیں؟
یہ ساری اطلاعات، یہ سارے اعداد و شمار، عوام کے علم میں اس لیے نہیں آتے کہ ہمارےشاہی خاندان ایک دوسرے کو تحفُّظ دے رہے ہیں۔ اس کی صرف ایک مثال دیکھیے۔ کل کےاخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ… ’’پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اس بات کا عندیہ دیا ہےکہ اگر پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں نیا قائدِ ایوان (وزیراعظم) لائے گی تو وہ اسے اعتماد کاووٹ دے گی۔ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کیطرف سے بالواسطہ طور پر صدر زرداری کو یہ پیغام بھیجا گیا ہے کہ نئے قائدِ ایوانکے انتخاب میں پیپلزپارٹی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے ارکاننئے وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دیں گے۔‘‘
اس صورت حال کے لیے انگریز جو جملہ بولتے ہیں وہ یہ ہے کہ تم میری پیٹھ کھجلائو،میں تمہاری پیٹھ کھجلاتا ہوں۔ فارسی میں کہتے ہیں کہ من ترا حاجی بگویم تُو مرا حاجیبگو، اور جو لفظ آج اس ملک میں زبان زدخاص و عام ہے وہ مُک مُکا ہے۔ پاکستان میں مُک مُکا اسقدر مستحکم ہے کہ اسے جَڑ سے اُکھاڑ پھینکنا آسان نہیں ہے۔ اس مُک مُکا کا ایک ادنیٰ ساکرشمہ یہ ہے کہ ایسے وفاقی وزیر کو جن کے بارے میں پورے پاکستان کو معلوم ہے کہان کے صاحبزادے کی شادی پر کراچی میں کُنڈا لگا کر بجلی حاصل کی گئی تھی اورجو سفارشی تعیناتیاں کرانے کے لیے مشہور و معروف ہیں، نیا وزیراعظم بنانے کے لیےغور و فکر ہو رہا ہے۔ ایسے ایسے ’’دیانت دار‘‘ اصحاب وزیر بنے ہوئے ہیں کہ ان کے بنکاکائونٹ میں چار چار کروڑ روپے جمع کرائے گئے اور پھر نکلوائے گئے۔ کسی شاہیخاندان کو ایسی کسی ’’صفت‘‘ پر کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔
اس ملک میں، بھلا ہو انگریزوں کا، حکومت کا اعلیٰ افسر بننے کے لیے ایک مقابلے کاامتحان پاس کرنا پڑتا ہے یہ امتحان ایک اعلیٰ اختیاراتی بلند مرتبہ ادارہ منعقد کرتا ہے۔ اسادارے کا نام فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہے۔ مقابلے کا یہ امتحان دو سال کے عرصہ پرمحیط ہوتا ہے۔ پہلے تحریری امتحان لیا جاتا ہے جس میں بارہ سے زیادہ پرچے ہوتے ہیں۔ اسکا نتیجہ آنے میں کئی مہینے لگتے ہیں جو امیدوار اس تحریری امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں،ان کا لمبا چوڑا زبانی امتحان لیا جاتا ہے۔ اس زبانی امتحان سے پہلے ہر امیدوار کو نفسیاتیلحاظ سے جانچا جاتا ہے۔ اس کے بعد آخر میں حتمی انٹرویو ہوتا ہے جس میں فیڈرل پبلکسروس کمیشن کے چار یا پانچ ارکان موجود ہوتے ہیں اور کمیشن کا سربراہ صدارت کررہا ہوتا ہے۔ اس انٹرویو پر آدھا گھنٹہ بھی لگ سکتا ہے، ایک گھنٹہ بھی اور اس سے زیادہوقت بھی! پھر جب حتمی نتیجہ نکلتا ہے تو کامیاب امیدواروں میں سے بھی صرف انخوش نصیبوں کو اعلیٰ ملازمتیں دی جاتی ہیں جن کے نام پہلی بار ڈیڑھ یا دو سو پوزیشنوںمیں آتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ کُل کتنے امیدوار یہ امتحان دیتے ہیں اور کتنے کامیابہوتے ہیں؟ اوسط تعداد اس امتحان میں ہر سال بیٹھنے والے امیدواروں کی سات یا آٹھ ہزارہوتی ہے۔ ہزاروں کی اس تعداد میں سے صرف چھ یا سات سو تحریری امتحان میں کامیابہو پاتے ہیں اور ان میں سے صرف ڈیڑھ یا دو سو امیدوار ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں۔ اسکے بعد ان افسروں کی تربیت کا مرحلہ آتا ہے جو کم از کم ایک سال کے عرصہ پرمحیط ہوتا ہے۔ فارن سروس کی مثال لے لیجیے، جو نوجوان فارن سروس کے لیے اسامتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد منتخب ہوتے ہیں وہ ایک سال کی تربیت سولسروس اکیڈیمی میں حاصل کرتے ہیں اور پھر ایک سال کی مزید تربیت وزارت خارجہ کےاپنی تربیتی ادارے میں لیتے ہیں۔ بیرونِ ملک تعیناتی کم از کم تین چار سال کے بعد کیجاتی ہے۔ لیکن آپ مُک مُکا کا معجزہ دیکھیے کہ اگر کوئی وفاقی وزیر ہے تو اس کیصاحبزادی ان سارے مراحل سے گزرے بغیر، امتحان میں بیٹھنے والے ہزاروں امیدواروں کامُنہ چڑاتے ہوئے، براہ راست اپنے پسندیدہ ملک میں تعینات ہو جاتی ہے۔ اور ’’فرینڈلیاپوزیشن‘‘ کے ارب پتی افراد اس دھاندلی اور بدعنوانی پر آمنا و صدقنا کہتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم سے پہلے یورپ میں جو صورت حال تھی اس پر اقبالؒ نے کہا تھا ؎
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
یوں لگتا ہے آج پاکستانی عوام کو کچلنے کے لیے شاہی خاندان اور ان کی غلام سیاسیجماعتیں مُک مُکا کی زرہ میں دوش تا کمر ڈوب چکی ہیں۔
http://columns.izharulhaq.net/2013/01/blog-post_20.html
“