نام…. وزیر احمد
تخلص…… بجواتی
دراصل بجوات میرا آبائی علاقہ ہے جو ضلع سیالکوٹ کے شمال میں دریائے چناب کے مشرقی کنارے پر آباد ہے- رب تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ تقریباً 84 دیہات پر مشتمل یہ علاقہ زرخیز اور خود کفیل بھی ہے- میرا تعلق اِسی علاقۂ بجوات کے ایک چھوٹے سے گاؤں دیوان پور سے ہے-
الحمد اللّہ…، ابتدائی تعلیم گاؤں ڈیرہ کے پرائمری اسکول سے حاصل کی…، اس کے بعد صرف ایک سال "کچھی ماند اسکول" میں زیر تعلیم رہا…، گھر کے معاشی حالات بہت خراب تھے- غربت کے سبب مکمل تعلیم بھی حاصل نہیں کرسکا اور بچپن سے روزگار کے لئے جدوجہد کرتا رہا… اور یہی جدّوجہد میرے لئے اللّہ کریم کی خاص رحمت کا ذریعہ بنی…، کیونکہ میں جہاں جہاں روزگار کے لئے گیا وہاں وہاں اللّہ کریم نے مجھے اچھے اور مخلص اساتذہ عطا کئے اور میرا بہت اچھا خیال رکھنے والے عزیز ساتھی بھی…، جن سے مجھے علم و ہنر کے ساتھ ساتھ اتنی محبّت ملی کہ جو قبر کی آغوش تک یاد رہے گی… آمین
جس فن سے آج میں وابستہ ہوں یہاں تک آنے کے لئے مجھے ایک طویل سفر طے کرنا پڑا… وجہ غربت اور گھریلو حالات تھے- لیکن پھر بھی اللّہ کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے مجھ جیسے حقیر انسان کو اپنے پیارے حبیب صَلّی اللّہ علیہ وسَلّم کے صدقہ و طفیل بھرپور کامیابی اور عزّتوں سے نوازا…
جہاں تک شاعری سے لگاؤ کی بات ہے تو ابتدا میں ہمارے پرائمری اسکول کے ٹیچر محترم ڈاکٹر زاہد صاحب جن کا تعلق علاقہ بجوات کے گاؤں کچھی ماند سے ہے انہوں نے مجھ پر شفقت کے ساتھ کافی محنت کی… چونکہ میری نوکری بھی پرنٹنگ پریس میں تھی یہاں بھی اچھے اساتذہ کرام مِلے جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ میں شاعری اکثر شعر گنگناتے ہوئے لکھتا ہوں چاہے حمد ہو یا نعت ، گیت ہو یا غزل… ابھی تک تو یہ لگاؤ صرف شوقیہ تھا لیکن اب اِن شاء اللّہ پروفیشن ہی بن گیا ہے…
درحقیقت میری شاعری تو لولی لنگڑی ہی تھی… لیکن اللّہ تعالی نے زندگی میں برموقع بہت اچھے ، نیک اور مخلص انسانوں سے ملاقات کروائی… جہاں ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کے بانی و سرپرست توصیف ترنل جیسے ایک اچھے دوست ملے تو وہی اسی گروپ کے توسط سے میرے استادِ محترم، مرحوم منوّر علی خان عرف علی مزمّل…، بھارت سے تعلق رکھنے والے عزیزم سر نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی… اور حفیظ مینا نگری صاحب جیسے استادانہ صلاحیتوں کے مالک دوستوں سے ملاقات ہوئی… موصوفیان نہ صرف میرے استاد ہیں بلکہ ہر مشکل وقت میں ایک سچّے دوست کی طرح ساتھ بھی نبھاتے ہیں… اللّہ تعالیٰ دونوں جہانوں میں انھیں شاد و آباد رکھے… آمین
گلوکاری کا شوق تو مجھے بچپن ہی سے تھا جس کی وجہ میرے بڑے بھائی جان تھے- وہ انڈین گیتوں کے ساتھ ساتھ نصرت فتح علی خان اور اسپیشل گرداس مان کو بہت سُنتے تھے- مجھے بھی ان سے خاص لگن ہے یعنی بھائی جان کی پسند، میری پسند تھی- خیر شروع میں تو میں نے گلوکاری کی کسی سے کلاس نہیں لی تھی… جب پہلا ملّی نغمہ رکارڈ کروایا تو احساس ہوا کہ ہر کام میں اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے… گلوکاری میں میرے ایک ہندو دوست ہیں درپن ان کے توسّط سے ایک استاد مِلے جو بہت ہی قابل ہے اور گلوکاری میں مہارت رکھتے ہیں… ان کے ساتھ ساتھ ماسٹر نوین داتاری صاحب…، استاد قمر صاحب اور مشہور قوّال جناب زماں زکی تاجی صاحب سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے… گلوکاری میں میرے آئیڈیل محمّد رفیع صاحب، نصرت فتح علی خان صاحب، گرداس مان صاحب، محمّد عزیز صاحب، مہدی حسن خان صاحب وغیرہ استاد شخصیتں شامل ہیں… ویسے تو سینکڑوں فنکار ہیں جو استادانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اور جن کی تعریف کرنا بھی میرے بس کی بات نہیں…
2018 میں میرا پہلا آڈیو/ویڈیو نعتیہ البم منظرِ عام پر آیا… جس میں مجھ ناچیز کے ساتھ ساتھ عزیزم سر نفیس احمد نفیسؔ ناندوروی (انڈیا)، سر شوزیب کاشر کشمیر اور مرحوم سر نوازش علی نازش (انڈیا) کا کلام شامل ہیں… جس کی شائقینِ ادب نے حددرجہ پزیرائی فرمائی تھی… اخیر میں اپنی حالاتِ زندگی پر اپنا ہی ایک شعر پیشِ خدمت ہے کہ…،
کیا یہ سچ ہے یا ہے فریب کوئی
مجھ کو لگتا یہ خواب جیسا ہے