صفدر خان میرا یار تھا۔ وہ اس سال اپریل کے مہینے میں معلوم سے نامعلوم کی جانب سفر کر گیا۔ وہ میرا اسلام آباد میں سب سے پہلا یار تھا۔
یہ جون 1993 کی بات ہے جب میں ملکوال سے اسلام آباد آیا۔ 13 تاریخ تھی۔ لمبی کہانی ہے۔ پھر کبھی سہی، اگر جو مزاج ہوا تو۔ اسلام آباد میں میری سب سے پہلی سلام دعا ان دنوں کے لیفٹیننٹ شمیل سے ہوئی، جو آج کل بریگیڈئیر ہے۔ ہم دونوں اب اک دوسرے کو عموما مونہہ نہیں لگاتے۔ اسلام آباد میں، شمیل کے توسط سے ہی دوسری سلام دعا چوہدری عنصر، عرف باٹے سے ہوئی جس کا خاندانی تعلق ملکوال کے قریبی گاؤں، میانی، سے تھا۔
شمیل کا اک اور دوست، قاسم خان تھا، جو اب بھی میرا دوست ہے اور اک سرکاری ادارے میں عمدہ کام کرنے والا افسر ہے۔ قاسم سے میں صفدر خان سے متعارف ہوا۔
صفدر کا تعلق شاید سیالکوٹ/نارووال/سمبڑیال سے تھا اور وہ ان دنوں، میری ہی طرح، اک شدید مشقت کی زندگی گزار رہا تھا۔ شمیل، قاسم اور باٹا میرے ساتھ اردو میں بات کرتے تھے، جب کہ صفدر پنجابی میں۔ اپنی ماں کے سائے سے نکلا ہوا، میں اک دیہاتی بَوٹ، گویا اپنی ماں کی غیر موجودگی میں، صفدر کی زبانی ادا ہونے والی ماں بولی کے سائے میں چلا گیا۔ دیہاتی پس منظر کا اعتماد سے محروم بچہ، میں، اس اک رشتے سے اس کا دوست اور پھر یار بن گیا۔ باقی سب سے بھی سلام دعا تھی، اور ہے۔ اپنے تمام دوستوں میں سے میں نکمے پن کی اک شاندار مثال تھا، ہوں اور انشاءاللہ، آئندہ بھی رہونگا، مگر زندگی کی بہت تکلیف دہ مدوجزر بھلے رہے ہوں، ان چار احمقوں سے سلام دعا کسی بھی قسم کے کامپلیکس کے بغیر رہی۔
صفدر اور میری یاری مسلسل ملنے کی کبھی محتاج نہ رہی۔ ہم جنم جنم کے اتم یار تھے۔ باہمی ملاقاتوں میں کبھی کبھار، اسلام آباد کی سنت کے عین مطابق، سالوں کا وقفہ بھی آیا، مگر جب بھی کبھی ملاقات ہوئی، ابتدائیہ کچھ یوں ہی رہا: "کیہہ حال اے تیرا، یکا؟" "توں سنا پین یکا؟"
پین یکی کا تاج اسے پہننا پڑتا جو حال پہلے پوچھ لیتا تھا، اور اس میں صفدر کا اور میرا حصہ برابر ہی رہتا تھا۔
میں نے زندگی میں سب سے پہلی مرتبہ ٹی-بیگ والی چائے اسی کے دفتر میں پی تھی۔ صفدر کی محبتوں کے قصے اور بھی جب کبھی یاد آئی گے، سناتا رہونگا۔ فی الحال دو پڑھ لیجیے۔
– صفدر نے ان دنوں بلیوایریا، فضلِ حق روڈ پر رائل سٹی نامی ٹریول ایجنسی میں ملازمت حاصل کی۔ مجھے معلوم ہوا تو میں اس کے پاس چائے پینے چلا گیا۔ اس دن "پین یک" میں رہا۔ دفتر میں سٹنگ ایریا میں بیٹھا تو چائے کا کہا۔ تھوڑی دیر بعد ٹرے آ گئی، مگر اس میں چائے نہ تھی۔ میں نے سوچا کہ چائے ابھی آتی ہوگی۔ چار پانچ منٹ بعد اس نے کہا: "اؤئے توں چا نئیں پیا پیندا؟" میں نے جواب دیا: "حرامیا، چا ہے کتھے وے؟" جواب ملا: "ایہہ کپ چ تیری باجی بیٹھی؟" کپ میں گتے کے پھندنے کے ساتھ اک تھیلا تھا جس میں پتی نما چیز دِکھ رہی تھی۔ میں نے کہا: "ایہہ تیری باجی ہونی، مینوں چا پیا۔" جواب ملا: "دھر فٹے مونہہ تیرا۔ ایہہ چا ای او۔" اور پھر اس نے مجھے ٹی-بیگ سے چائے بنا کر دکھائی، پلائی۔ یہ میری زندگی کا پہلا ٹی-بیگ تھا۔ اب ٹی-بیگ کو برُو کرنے کے بعد، اسے مہارت سے چمچ پر رکھ کر نچوڑتے ہوئے، مجھے صفدر کی یاد آتی ہے۔
– اسلام آباد میں میری ملازمت کے سلسلے کا پہلا انٹرویو تھا۔ میرے پاس مناسب پینٹ اور جوتے نہیں تھے۔ مکمل اتفاق رہا کہ انٹرویو سے دو دن قبل شام کے وقت میری صفدر سے جی-سکس-فور کی گلی نمبر 55 میں ملاقات ہوئی۔ حال احوال کے بعد میں نے اسے بتایا کہ پرسوں میرا انٹرویو ہے۔ اس نے مبارک دی اور پوچھا کہ کوئی کپڑے وغیرہ بھی ہیں کہ نہیں؟ میں نے جواب دیا کہ ہیں تو سہی، جو پہن رکھے ہیں۔ جواب آیا: "٭٭٭٭٭٭٭٭۔ ایہناں کپڑیاں چ گیا تے اوناں تیری ٹوئی تے لت مار کے باہر کڈھ دینا۔" میں حیران ہوا اور پوچھا کہ کیا مطلب؟ اس نے پھر مجھے ڈریس پینٹ اور نیچے فارمل جوتوں کے بارے میں بتایا اور پوچھا کہ پیسے ہیں؟ میرے پاس نہیں تھے تو اس نے مجھے ہزار روپے ادھار دئیے جس سے میں نے جی-نائن-مرکز جا کر ہی-اینڈ-شی سے براؤن رنگ کی پینٹ خریدی اور باہر فٹ پاتھ پر سجے لنڈے سے جوتے۔ یہ 1993 کے اکتوبر کی بات ہو گی۔ میں یہ لباس پہن کر ان دنوں کے ہالیڈے-ان، اور آج کے اسلام آباد ہوٹل انٹرویو دینے گیا تھا۔ میری ملازمت نہ ہو سکی۔ بیچ میں اک ملازمت ہوئی، اس کی الگ کہانی ہے، مگر صفدر کو میں نے 1،000 روپے شاید 1994 کے اپریل میں واپس کیے جب میں اک چھوٹی سی کمپنی میں ملازمت ہوئی اور اسے دوسری تنخواہ میں سے ادائیگی کی۔ ادائیگی کے وقت بھی ہماری کافی گالم گلوچ ہوئی۔ وہ پیسے لینے سے انکاری تھا۔
صفدر، تُو مر گیا ہے یار۔ تیری عمر نہ تھی۔ کالے بالوں اور جھریوں سے بچے ہوئے چہروں کو نہیں مرنا چاہیے۔ مجھے اس نظام کی کوئی سمجھ نہیں آتی، میرے دوست۔ میں تشکک والا شخص تھا، ہوں اور رہوں گا بھی۔ میری ذات کے ساحل پر تیقن کی موجیں کبھی کبھی آتی ہیں۔ میری باری بھی آ ہی جائے گی مرنے کی۔ میرے مرنے پر شاید ہی کوئی "مبشر اپنے صفدر" کو یاد کرے گا۔ مگر ہاں، اگر مرنے کے بعد آنکھیں دوبارہ کھلیں، تجھ سے ملاقات ہوئی، تو میں یہی کہوں گا: "اوئے، کیہہ حال اے تیرا یکا؟"
اس دن تُو بےشک مجھے ہی پین یک بنا دینا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...