فارلینڈ کے دارالحکومت کےعین بیچوں بیچ ایک بلند و بالا عمارت یوں تو دیگر فلک بوس عمارتوں جیسی ہی تھی، لیکن یہاں سیکیورٹی کے سخت انتظام تلے بہت حساس نوعیت کا کام ہوتا تھا۔ اس جگہ وہی لوگ داخل ہو سکتے تھے جنھیں خفیہ ایجنسیاں خاصی چھان بین کے بعد مکمل کلئیرنس دے چکی ہوتیں۔ یہ عمارت سٹیٹ خفیہ ایجنسی کا مرکزی دفتر تھی۔ اس کی پانچویں منزل ساری کی ساری ایک ایسے کام کے لیے مخصوص تھی جس کے بغیر اس کثیر ثقافتی ملک کی خفیہ کئی لحاظ سے بے دست و پا تھی۔ یہ پانچویں منزل ماہرینِ لسانیات اور مترجمین کے تصرف میں تھی۔ حقائق کی چھان بین، جرائم پیشہ افراد کی پکڑ، اور انصاف تک رسائی کے سبھی کام اس پانچویں منزل سے ہو کر نیچے یا اوپر جاتے تھے۔ اسی منزل کے ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں کئی کیبن بنے ہوئے تھے۔ یہاں ہر وقت مکمل سکوت چھایا رہتا، سوائے کی بورڈ پر انگلیوں کی داب سے ابھرنے والی ٹک ٹک کے یا کبھی کبھار مرکزی دروازہ کھلنے یا بند ہونے کی آواز سے۔ مختلف خطوں اور زبانوں کے ماہرین اپنے اپنے کیبنوں میں کمپیوٹر سکرین پر نگاہیں جمائے، ہیڈ فون کانوں سے لگائے، خفیہ طور پر ریکارڈ شدہ فون کالز/ گفتگو سنتے اور اسے انگریزی میں ترجمہ کرکے ٹائپ کرتے جاتے تھے۔ یہ انتہائی ذمہ داری کا کام تھا۔ یہاں کام کرنے والے سبھی مترجمین، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ سخت ضابطہ اخلاق کے پابند تھے۔ وہ کڑے انتخاب اور چھان بین کے بعد نہایت عمدہ مشاہرے پر اس کام کے لیے منتخب کیے جاتے تھے۔ انھی میں ایک وہ بھی تھی جو یہاں کچھ عرصہ سے فری لانسر کی حیثیت سے کام کر رہی تھی۔
لیکن ۔۔۔۔۔ آج اسے محسوس ہوا کہ شاید کوئی غیر معمولی طور پر حساس معاملہ تھا۔ کیونکہ کام حوالے کرنے سے پہلے اس کے سپروائزر نے خاص طور سے ضابطہ اخلاق کے کاغذ پر اس کے دستخط لیے تھے۔ اور اس کاغذ کی فوٹو کاپی اسے بھی دے دی تھی۔ یہ ضابطہ اخلاق بھی عجیب تھا، مگر ضروری بھی تھا، یہ انسان کو مشین بنانے کا ضابطہ تھا۔ آپ پوری غیر جانبداری سے، گفتگو یا تحریر کا ترجمہ بنا اضافے یا تخفیف کے، ہر ممکن درستی کے ساتھ کریں گے۔ ملزم یا مشکوک فرد/گروہ خواہ آپ کے سابقہ قومی پس منظر سے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو آپ نے مشین کی طرح غیر جانبدار رہنا ہے، کسی وابستگی کا اگر ذرا بھی ایسا معاملہ ہو جو آپ کی معروضیت کو متاثر کر سکتا ہو تو آپ کو وہیں اس کام سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ آپ راز داری کے پابند ہیں۔ کام کے دوران حاصل ہونے والی کوئی بھی معلومات صرف اور صرف آپ تک محدود رہیں گی۔
اس نے سرسری طور پر ضابطہ اخلاق پر ایک نگاہ ڈالی، اور مشین میں ڈھل جانے کے وصف پر اپنے اعتماد کو محسوس کرکے مسکرا دی۔ یہ ایک طویل فون کال کی ریکارڈنگ تھی۔ دو بھائیوں کے بیچ گفتگو ہو رہی تھی۔ چھوٹا بھائی اب گرفتار شدہ دہشت گردوں کے لیے بنائی گئی انتہائی حفاظت کی جیل میں تھا۔ اور اپنے بڑے بھائی سے بچوں کی طرح رو رو کر التجا کر رہا تھا کہ اسے اس قید خانے سے نکالا جائے۔ وہ ایک بے حد ذہین اور اتنا ہی حساس طالبِ علم تھا۔ فارلینڈ آنے کے بعد عبادت کے لیے وہ ایک مسجد میں باقاعدگی سے جایا کرتا تھا۔ وہیں اس پر ذہن سازی کا کام ہوا، جس کے بعد اس پر مظلوم کشمیری بہنوں کی پکار سن کر محمد بن قاسم بننے کا جنون سوار ہو گیا۔ جلد ہی وہ یونیورسٹی میں گرمیوں کی طویل چھٹیوں کے دوران ایک عالمی سطح کی ممنوعہ جنگجو تنظیم کے کیمپ میں تربیت حاصل کرنے اپنے آبائی وطن واپس پہنچ گیا۔ ظاہر ہے کہ اس کی جہادی ذہن سازی کے پیچھے ایک نیٹ ورک تھا جس کے لیے اس جیسے حساس جذباتی نوجوان عمدہ خام مال تھے۔ فارلینڈ میں اس کی گرفتاری کن حالات میں اور کیسے ہوئی یہ ایک الگ تفصیل ہے لیکن اس وقت وہ گرفتار ہونے کے بعد اس جنونی کیفیت سے باہر آ چکا تھا جس کے زیرِ اثر اس نے جہاد کی تربیت لی تھی۔ اس نے صرف تربیت لی تھی اور واپس آ کر اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کر لیا تھا۔ اس کا ارادہ تعلیم مکمل کر چکنے کے بعد عملی جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب اسے گرفتار کیا گیا اس وقت تک وہ اپنے جہادی نظریات سے تائب ہو چکا ہو۔ لیکن اس کے قبضے سے جہاد کی تربیت، نظریات اور مستقبل کے عزائم سے متعلق تحریری مواد اتنی وافر مقدار میں ملا تھا کہ اسے ایک لمبی مدت کی قید کی سزا کا امکان موجود تھا۔ اس فون کال میں اس کی جو گفتگو اس کے بھائی سے ہوئی تھی اس میں پچھتاوے کا احساس غالب تھا۔ اسے یقین تھا کہ جہاد کی تربیت لینے کے لیے اس نے اپنے والدین کی جو نافرمانی کی تھی اس کی گرفتاری اسی نافرمانی کی سزا تھی۔
وہ خاتون مترجم جسے اپنی پیشہ ورانہ سخت گیری پر بلا کا اعتماد تھا اس نے بالکل معمول کے معروضی رویے سے کانوں پر ہیڈ فون لگا کر فون کال کی ریکارڈنگ سننا شروع کی تھی۔ وہ ماہرانہ چابکدستی سے فون کال سننے کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر سکرین پر انگریزی ترجمہ ٹائپ کرنے لگی۔ لیکن جلد ہی اسے اپنی پیشہ ورانہ معروضیت کے قدم اکھڑتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اس کا اعتماد ڈولنے لگا۔ اسے واضح طور پر اپنے دل کی دھڑکن سنائی دینے لگی۔ ملزم کی آواز مجسم ہو کر ایک خوبصورت انسان کا روپ دھار رہی تھی۔ ایسا انسان جو اپنی ذات کو حاصل شدہ آرام دہ زندگی اور خونی محبتوں کے محفوظ حصار سے نکل کر مجبور انسانوں کی پکار کو سننے کا انمول وصف رکھتا ہے، ایسے انسانوں میں سے ایک جن کی مظلوم انسان سے محبت کے دوسرے کنارے پر ظالموں سے نفرت کا الاو روشن ہوتا ہے۔ ایسے انسان جو تعداد میں زیادہ نہیں ہوتے، عجیب سی مٹی سے گوندھے جاتے ہیں، قربانی کے جذبے سے سرشار، زندگی کو حسین بنانے کے لیے، زندگی کی شمعیں گل کرنے کو تیار۔ آنسووں کو مٹانے کے لیے اپنے ہاتھوں کو خون میں ڈبونے کو بیقرار، ان لوگوں میں سے ایک جو درست راہوں پر چل نکلیں تو زندگی کی زلفیں سنوار دیتے ہیں ۔۔۔۔ مترجم کی پیشہ ورانہ ذمہ داری کے قدم احساس کی پلصراط پر چلتے چلتے لہو لہان ہو گئے ۔۔۔۔ ضابطہ اخلاق کی نقل کا کاغذ جس پر اس کے دستخط تھے، اور جو اس کے چہرے کے عین نیچے میز پر دھرا تھا، جانے کب اس کے جانبدار آنسووں سے بھیگ گیا تھا۔
گو وہ اس روز اپنے کام کو مکمل ذمہ داری سے کرنے میں کامیاب رہی۔ لیکن دوسرے دن اس نے اپنے سپروائزر کو فون کرکے اس مخصوص نوجوان کے کیس پر مزید کام کرنے سے معذرت کر لی۔ پیشہ ورانہ ضابطہ اخلاق کا یہی تقاضا تھا۔