اُردو کے دلبر اور دلیر ادیب، مختار مسعود 15 اپریل2017ء کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ اُن کی وفات، صرف ایک شخصیت کا بچھڑنا نہیں، بلکہ ایک مخلص انسان، ایک دردِ مند شہری، ایک سچا پاکستانی، ایک دیانت دار سرکاری افسر اور اُردو کا ایک صاحبِ طرز ادیب گُم ہو گیا۔
فرانسس بیکن کے بقول ’’کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں، جنہیں صرف چکھنا چاہیے، باقی کو نِگل لینا چاہیے، لیکن چند ہی ایسی ہوتی ہیں، جن کو اچھی طرح چبا کر ہضم کرنا چاہیے۔‘‘ مختار مسعود کی کتابوں کا شمار بھی ان کتابوںمیں کیا جانا چاہیے، جنہیں خوب اچھی طرح پڑھ کر جزوِ ذہن بنانا چاہیے، کیونکہ مختار مسعود کی کتابوں کو جلدی یا رواروی میں پڑھنا خود پر ظلم کرنا ہے۔ بھلا بتائیے، جن کتابوں میں ہر صفحے پر ایسے جملے ہوں، جن کو بار بار، رُک کر پڑھنا اور لطف اندوز ہونا، ایک عجیب مسرت اور تحیر کا سامان رکھتا ہو، انہیں سرسری پڑھنا بدذوقی اور ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔
جنوری 1973ء میں مختار مسعود کی پہلی کتاب ’’آوازِ دوست‘‘ شائع ہوئی تو اس نے راتوں رات انہیں شہرت کی بلندی پر پہنچا دیا۔ مصنف کے گہرے تاریخی شعور، دردمندی، منفرد اسلوب اور خوب صورت زبان نے قارئین اور ناقدین دونوں کو چونکا دیا، گو اس سے پہلے وہ مشہور تو تھے ہی، لیکن ایک اعلیٰ سرکاری عہدے دار اور ایک دیانت افسر کے طور پر۔ پھر ایک مانے ہوئے ادیب بھی کہلائے۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ کرنل محمد خان کے ساتھ ہوا تھا۔ 1966ء میں کرنل صاحب کی پہلی کتاب’’بجنگ آمد‘‘ منظرِ عام پر آئی تو تہلکہ مچ گیا، کیا قاری کیا نقاد، سب ہی چونک اٹھے تھے کہ پہلی کتاب اور تحریر میں ایسی پختگی، جو اچھے اچھوں کو ایک عمر کی ریاضت کے بعد بھی نصیب نہیںہوتی، اس طرح کرنل صاحب بھی پہلی ہی کتاب سے بڑے ادیب تسلیم کر لیے گئے تھے۔
’’بجنگ آمد‘‘ ہی کی طرح ’’آوازِ دوست‘‘ کا پہلا ایڈیشن صرف چند مہینوں میں فروخت ہو گیا اور دوسرا ایڈیشن عجلت میں چھاپنا پڑا، اس کے بعد کئی ایڈیشن مختصر عرصے میں نکل گئے۔ اس بات کا خاص طور پر ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اُردو کی کتاب کا پہلا ہی ایڈیشن بِک جانا بڑی بات ہوتی ہے، چہ جائیکہ دو برس میں تین ایڈیشن نکل جائیں۔ مختار مسعود کی دوسری کتاب ’’سفر نصیب‘‘ جنوری 1981ء میں آئی اور اسی طرح ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ تیسری کتاب ’’لوحِ ایام‘‘ جنوری 1996ء میں شائع ہوئی اور اُردو کی شاہکار کتابوں میں شامل ہو گئی۔ آخر مختار مسعود کی کتابوں میں ایسی کیا بات ہے؟
مختار مسعود کا شمار اُردو کے اُن ادیبوں میں ہوتا ہے، جنہیں صاحبِ طرز کہا جاتا ہے۔ اُردو کے صاحبِ طرز نثر نگاروں کے نام لیجیے: میر اَمن، رجب علی بیگ سرور، مرزا غالب، محمد حسین آزاد، ابوالکلام آزاد، قرۃ العین حیدر، ابن انشا، مشتاق احمد یوسفی، جمیل جالبی اور مختار مسعود۔ کچھ نام اور شامل کر لیجیے۔ گو ان سب کا اپنا اپنا الگ اور منفرد اسلوب ہے اور تحریر کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں لیکن ایک بات ان سب میں مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ان کی تحریر پڑھتے ہی آپ کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تو فلاں کا انداز ہے۔ بس اسی کو صاحبِ طرز ادیب کہتے ہیں، البتہ مختار مسعود کا معاملہ ایک اور لحاظ سے بھی منفرد ہے۔ ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک بڑے سرکاری افسر بھی تھے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، ان کی دیانت داری اور اصول پسندی مثالی تھی، کبھی نہ غلط کام کرتے تھے اور نہ اصولوں پر کوئی سمجھوتا کرتے تھے، اسی وجہ سے انہیں بہت اہم ذمے داریوں پر فائز کیا جاتا رہا، لیکن اس کا ذکر ذرا آگے آئے گا۔
مختار مسعود کی تاریخِ پیدائش اور مقامِ پیدائش کے بارے میں بہت مغالطے رہے ہیں۔ کسی نے ان کا سالِ پیدائش 1918ء لکھا تو کسی نے 1928ء۔ کسی نے علی گڑھ کو ان کی جائے پیدائش قرار دیا تو کسی نے انہیں گجرات(پنجاب) میں اتارا، لیکن پنجاب یونیورسٹی میں لکھے گئے ایک حالیہ تحقیقی مقالے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مختار مسعود 15دسمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ دراصل مختار مسعود صاحب نے خود اپنی تاریخِ پیدائش اور جائے پیدائش کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی، بلکہ ایک طرح سے ان باتوں کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا۔ مقامِ پیدائش کے مغالطے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مختار مسعود کے والد، معروف اقبال شناس اور معاشیات کے استاد پروفیسر شیخ عطاء اللہ کا تعلق ضلع گجرات کے شہر جلال پور جٹاں سے تھا، وہ وہیں 1896ء میں پیدا ہوئے تھے۔ شیخ عطاء اللہ 1929ء میں علی گڑھ میں معاشیات کے پروفیسر بنے تو علی گڑھ میں سکونت پذیر ہو گئے۔
شیخ عطاء اللہ کو علامہ محمداقبال سے بڑی عقیدت تھی، انہوں نے ’’اقبال نامہ‘‘ کے عنوان سے علامہ محمد اقبال کے خطوط دو جلدوں میں بڑی کاوش سے مرتب کیے۔ معروف اقبال شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مطابق ’’عقیدت مندی کے ساتھ کی جانے والی اس کاوش کے نتیجے میں مکاتبِ اقبال کا ایسا مجموعہ فراہم ہو گیا، جو تعدادِ مکاتب کے اعتبار سے آج بھی اقبال کا سب سے بڑا مجموعۂ خطوط ہے۔‘‘ شیخ عطاء اللہ پروفیسر معاشیات کے تھے، لیکن ادیب اُردو کے تھے۔ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کے مطابق شیخ عطاء اللہ نے اورنگ زیب عالم گیر کے خطوط کا ترجمہ کیا اور محمد مارماڈیوک پکتھال کے اُن خطبات کا بھی ترجمہ کیا، جو اُنہوں نے مدراس میں اسلامی کلچر کے موضوع پر دئیے تھے۔ شیخ صاحب نے پکتھال کی ایک انگریزی کتاب کا بھی اُردو میں ترجمہ کیا تھا، جو ’’اورینٹل ان کاونٹرز‘‘ کے نام سے تھی۔ ظاہر ہے کہ والدکے ان علمی کاموں اور اقبال سے عقیدت کا اثر مختار مسعود پر بھی پڑنا تھا اور اسے ان کی کتابوں میں جھلکنا بھی تھا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مختار مسعود اُردو، اسلام، اقبال اور پاکستان سے جذباتی وابستگی رکھتے تھے۔
مختار مسعود نے علی گڑھ ہی میں بنیادی تعلیم حاصل کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ پاکستان بننے کے بعد شیخ عطاء اللہ نے اس سرزمین سے ہجرت کا فیصلہ کیا، جس کا خواب ان کے ممدوح علامہ محمداقبال نے دیکھا تھا۔ مختار مسعود بھی اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آئے اور پاکستان میں ہونے والے مقابلے کے امتحانات منعقدہ 1949ء میں شریک ہو کر کامیاب قرار پائے۔ سول سروس میں وہ مختلف اعلیٰ عہدوں پر رہے، کئی اداروں کے سربراہ اور وفاقی سیکریٹری بھی رہے، جس زمانے میں لاہور میں مینارِ پاکستان زیرِ تعمیر تھا، اُس وقت اس کو ’’یادگارِ پاکستان‘‘ کہا جاتا تھا، اُسی دوران مختار مسعود لاہور کے کمشنر بن گئے اور انہوں نے اس کا نام ’’مینارِ پاکستان‘‘ کروا دیا، کیونکہ ’’یادگار‘‘ تو مرنے والوں کی ہوتی ہے اور پاکستان ایک زندہ حقیقت ہے، جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ’’آوازِ دوست‘‘ میں انہوں نے بتایا ہے کہ جب وہ تعمیراتی کمیٹی کے اجلاس میں پہلی بار شریک ہوئے تو یہ نکتہ اٹھایا۔ لکھتے ہیں کہ
’’جب کارروائی کے لیے پہلے مسئلہ پیش ہوا تو میں نے کہا اسے ملتوی کیجیے، تاکہ ایک اور ضروری بات پر بحث ہو سکے۔ میز پر لغات کا ڈھیر لگ گیا۔ سب متفق ہوئے کہ یادگار، وہ نشانِ خیر ہے، جو مرنے کے بعد باقی رہے۔ جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا و بقا کے تصور سے جدا نہ پایا تو منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کر دیا۔ میز صاف کی گئی، لغات کی جگہ مینارِ پاکستان کے نقشے پھیلائے گئے۔‘‘
مختار مسعود کا اپنی ذات اور شہرت سے بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ نہ کبھی اپنی تاریخِ پیدائش وغیرہ کے جھنجھٹ میں پڑے اور نہ کبھی کسی سے اپنی کتابوں پر فرمائشی مقدمہ لکھوایا، نہ کبھی کتابوں کی رونمائی کروائی اور نہ کسی سے اپنی تعریف میں تنقیدی مضامین لکھوائے، حالاںکہ اتنے بڑے عہدوں پر تھے کہ ایک اشارہ کرتے تو خوشامدیوں کی فوجِ ظفر موج ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی اور انہیں اُردو کیا، دنیا کا سب سے بڑا ادیب قرار دے دیتی، ادبی جرائد ان پر خصوصی نمبر شائع کرتے، یونی ورسٹیاں ان پر تحقیق کرواتیں اور نقاد انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے، ان پر کتابیں لکھی جاتیں، لیکن مختار مسعود ان چھوٹی باتوں سے بہت بلند تھے۔ اپنی کسی کتاب پر کسی نقاد یا محقق کی رائے شائع نہیں کی۔ اپنی تمام کتابوں کے مختصر دیباچے بھی خود ہی لکھے۔ ’’آوازِ دوست‘‘ کا دیباچہ تین سطروں پر مبنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اس کتاب میں صرف دو مضمون ہیں، ایک طویل اور دوسرا طویل تر۔ ان دونوں مضامین میں فکر اور خون کا رشتہ ہے۔ فکر سے مراد فکرِفردا ہے اور خون سے خونِ تمنا۔‘‘
واقعی آوازِ دوست میں انہوں نے خونِ تمنا اور خونِ جگر دونوں ہی صرف کر دئیے، ورنہ اس طرح کے نثر پارے بھلا کہاں سے آتے، جن کے بلیغ اور عالمانہ جملے قولِ زرّیں اور ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دیکھیے:
’’اس برِعظیم میں عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا وہ مینارِ قراردادِ پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں لیکن ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت جس میں سکھوں کا گردوارہ اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہیں تین صدیوں پر محیط ہے۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان تین گمشدہ صدیوں کا ماتم کر رہا تھا۔ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی بات کہہ دی، جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں، جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے، ملک کے بجائے مفاد اور ملّت کے بجائے مصلحت عزیز ہو، اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہوجائے، تو صدیاں یونہی گم ہو جاتی ہیں۔‘‘
اس تاریخی شعور اور تجزیے کی جھلک کئی مقامات پر ملتی ہے۔ مثلاً علی گڑھ کالج کا سنگِ بنیاد رکھے جانے کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’نصب ہونے والا پتھر یوں تو ایک کالج کا سنگ بنیاد تھا، مگر جس روز یہ نصب ہوا، گویا اس روز مینارِ پاکستان کی بنیادیں بھی بھری گئیں۔ لیجیے ہم علی گڑھ کی بنیادوں میں مینارِ پاکستان کی بنیادوں کو ڈھونڈ رہے تھے اور سپاس نامہ کہتا ہے کہ علی گڑھ کی بنیادیں، تاریخ کے تقاضوں میں ملیں گی۔‘‘
’’آوازِ دوست‘‘ کا عنوان فارسی کے ایک شعر سے مستعار ہے اور اس حقیقت کا عکاس ہے کہ محبوبِ حقیقی ہو یا مجازی، لیلیٰ ہو یا وطن، اس کی آواز بہر طور محب تک پہنچ جاتی ہے اور محب اس پر حیران بھی ہوتا ہے کہ یہ صدا مجھ تک کیسے اور کن ذرائع سے پہنچی۔ مختار مسعود کا محبوب پاکستان تھا۔ یہ کتاب ان کے اپنے دل کی بھی آواز ہے اور ان کے محبوب کی بھی، اس آواز کی تعبیر اور تفسیر اسی وقت ممکن ہے، جب آپ نے بھی کسی سے، وطن سے، محبت کی ہو اور اس محبِ صادق کے جذبہ صادق میں جزوی طور پر ہی سہی شریک ہوں، ورنہ یہ صدا آپ کی بھی سماعت سے ٹکرا کر لوٹ جائے گی اور دل تک نہ پہنچ پائے گی، اسی طرح جس طرح کئی نام نہاد دانش وروں کے لیے اس کی تفہیم ممکن نہیں ہوئی۔
اس کا پہلا مضمون ’’مینارِ پاکستان‘‘ اس قومی نشانِ عظمت کے توسط سے تحریکِ پاکستان کے وہ گوشے روشن کرتا ہے، جن پر تاریخ کی کتابوں میں تو روشنی ڈالی گئی ہے، لیکن ہم پاکستانیوں نے انہیں محبت کی سنہری روشنی میں نہیں دیکھا۔ مختار مسعود اس مضمون میں وہ جادوئی قندیل لے کر کھڑے ہیں، جس کی سنہری روشنی میں پاکستان اور اس کی بنیادوں میں محفوظ صدیوں کا قیمتی تاریخی ورثہ جگمگا رہا ہے۔ کاش ہماری نئی نسل اور نام نہاد پڑھے لکھے سیاست دان بھی اسے پڑھ لیں۔ کتاب کا دوسرا مضمون ’’قحط الرجال‘‘ اس الم ناک حقیقت کا دل سوز احساس دلاتا ہے کہ اب ہم نے بڑے آدمی پیدا کرنے بند کر دئیے ہیں، اب ہمارے ہاں بونے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔‘‘ قحط الرجال کے بارے میں مزید لکھا کہ ’’اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار اور مردم شناسی ہو تو نایاب۔‘‘ لیکن کتنی مثالیں پیش کی جائیں اور کس کس صفحے سے کہ ان کے لکھے ہوئے جملوں میں قولِ زرّیں بننے کی یہ خوبی تو اتنی کثرت سے ہے کہ کتابوں کا خاصا حصہ ہی نقل کرنا پڑے گا۔
’’سفر نصیب‘‘ جسے اکثر لوگ غلط طور پر ’’سفرِ نصیب‘‘ پڑھتے اور لکھتے ہیں، یوں اس خوب صورت ترکیب کا مفہوم ہی بگاڑ دیتے ہیں، یہ بھی ایسی ہی کتاب ہے، جو اپنے نام کی طرح یاد رہ جانے والی باتوں سے مملو ہے۔ اس کا بھی نام ایک فارسی مصرعے سے لیا گیا ہے۔ ’’خوش نصیب‘‘ کی طرح کی اس فارسی ترکیب کا مطلب ہے ’’جس کے نصیب میں بہت سفر ہو۔‘‘ اس عنوان کے ذریعے مختار مسعود کہہ رہے ہیں کہ ’’جن کے نصیب میں سفر کثرت سے ہو، ان کے نصیب میں منزل بھی ہوتی ہے، یا وہ صرف سفر کی صورت میں بھٹکتے رہتے ہیں؟ اور سفر سے مراد صرف جسمانی سفر ہی نہیں نظریاتی سفر بھی ہے، یہ سفر ذاتی اور انفرادی ہی نہیں اجتماعی اور قومی بھی ہے۔‘‘ اس میں وہ یہ سوال مختلف انداز سے کئی بار پوچھتے ہیں۔ حسبِ دستور مختصراً لکھے گئے دیباچے میں کہتے ہیں کہ ’’اس کتاب کے دو حصے ہیں، ہر حصے میں دو مضمون ہیں، ایک سفری داستان اور ایک شخصی خاکہ۔ داستان جادہ ہے اور خاکہ سنگِ میل — ہر عمل سفر ہے اور ہر اعمال نامہ ایک سفرنامہ ہے۔‘‘ اور ہمارے قومی سفر نامے یا اعمال نامے پر یوں تبصرہ کرتے ہیں کہ ’’سیاست ہو یا سفر‘‘ اقتدار کی مسند ہو کہ جہاز کی نشست، کرسی کے حصول کے اصول یکساں ہوتے ہیں۔‘‘
مختار مسعود کو 1978ء میں چار سال کے لیے آر سی ڈی، یعنی علاقائی تعاون برائے ترقی کا جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا تھا اور ان کی تعیناتی تہران میں ہوئی تھی، اُس زمانے میں ایران میں شاہ کے خلاف تحریک زوروں پر تھی۔ مختار مسعود، ایران کے اس اسلامی انقلاب کے چشم دید گواہ تھے۔ تاریخ کے اس دیوانے کو خوشی یہ تھی کہ تحریک پاکستان کے بعد ایک بار پھر تاریخ کو بنتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، بلکہ خود اس کا حصہ ہوں اور انقلاب کے معنی ایران میں پڑھ یا سن نہیں رہا، بلکہ دیکھ رہا ہوں۔ اُن کی تیسری کتاب’’لوحِ ایام‘‘ انہیں ایام کی روداد ہے۔ شاہ کو ایران سے بھاگنا پڑا اور نئی انقلابی حکوت نے 1979ء میں آر سی ڈی کو تحلیل کر دیا، اس طرح مختار مسعود اس عالمی تنظیم کے آخری سیکریٹری جنرل ٹھہرے، جس کے رکنِ اس خطے میں سینٹو(Cento) کے رکن ممالک یعنی پاکستان، ایران اور ترکی تھے۔
’’لوحِ ایام‘‘ میں مختار مسعود کی دیگر کتابوں کی طرح تاریخی شعور بھی ہے، احساسِ قومی بھی، ملتِ اسلامیہ کا درد بھی۔ یہ کتاب اُردو میں انقلابِ ایران کے اہم مآخذات میں یوں شامل ہے کہ یہ ایک درد مند اور دیانت دار چشم دید گواہ کا بیان ہے، جسے اپنی قومی اور تاریخی ذمے داریوں کا بھی شعور ہے اور تاریخ کو بنتا دیکھنے کی اہمیت کا احساس بھی۔
مختار مسعود کے منفرد اسلوب میں ان کی زبان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فارسی اور اُردو ادب سے گہرا لگائو، نپی تلی نثر، جنچے ہوئے جملے، احتیاط سے تراشی ہوئی ترکیبیں اور تاریخ و ادب کے حوالے، اُن کی تحریر کو ایک امتیازی شان عطا کرتے ہیں۔ وہی شان، جو صاحبِ طرز اور صاحبِ اسلوب نثر نگاروں کی پہچان ہوتی ہے، پھر اس پر مستزاد ہے، ان کا مدلل تجزیہ اور بے خوفی سے اسے پیش کرنے کا دو ٹوک انداز، جو اُن کی تحریر کو دلبری کے ساتھ دلیری بھی دیتا ہے۔ افسوس کہ ہم نے اُن کی وہ قدر نہ کی، جو کرنی چاہیے تھی۔ 2003ء میں ملنے والا ستارئہ امتیاز اُن کی امتیازی خصوصیات کا ایک چھوٹا سا اعتراف تھا اور اس اعزاز کے ملنے سے انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑا ہو گا، البتہ اس اعزاز کے لیے یہ اعزاز ہے کہ مختار مسعود نے اسے قبول کر لیا۔ مختار مسعود کے محبوب شاعر، اقبال کا یہ مصرع خود اقبال اور مختار مسعود دونوں پر صادق آتا ہے:
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...