مکتبہ فکر: دیوبند
مدارس کی تنظیم: وفاق المدارس العربیہ
زیر الحاق مدارس کی تعداد: 18600
مدارس کی تعداد میں سالانہ اضافہ کی شرح: بارہ فیصد
زیر تعلیم طلبہ کی تعداد: بیس لاکھ
مکتبہ فکر: بریلوی
مدارس کی تنظیم: تنظیم المدارس
زیر الحاق مدارس کی تعداد: 9000
مدارس کی تعداد میں سالانہ اضافہ کی شرح: آٹھ فیصد
زیر تعلیم طلبہ کی تعداد: تیرہ لاکھ
مکتبہ فکر: اہلحدیث
مدارس کی تنظیم: وفاق المدارس السلفیہ
زیر الحاق مدارس کی تعداد: 1400
مدارس کی تعداد میں سالانہ اضافہ کی شرح: دو فیصد
زیر تعلیم طلبہ کی تعداد: چالیس ہزار
مکتبہ فکر: اہل تشیع
مدارس کی تنظیم: وفاق المدارس الشیعہ
زیر الحاق مدارس کی تعداد: 460
مدارس کی تعداد میں سالانہ اضافہ کی شرح: تین فیصد
زیر تعلیم طلبہ کی تعداد: اٹھارہ ہزار
جماعت اسلامی کے مدارس کی بھی علیحدہ تنظیم ہے جسکا نام رابطہ المدارس الاسلامیہ ہے
زیر الحاق مدارس کی تعداد: 1018
مدارس کی تعداد میں سالانہ اضافہ کی شرح: پندرہ فیصد
زیر تعلیم طلبہ کی تعداد: ایک لاکھ
مجموعی طور پر ان تمام مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد "چونتیس لاکھ اٹھاون ہزار" ہے
حیرت کی بات یہ ہے کہ خواہ روشن خیالی کی دعویدار کسی سیاسی جماعت کا دور اقتدار ہو یا کسی آمر کا،
مدارس کی تعداد میں اضافہ کا تناسب بیحد مستقل و منظم ہے،
ایک محتاط اندازہ کے مطابق اگر سالانہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کی شرح سالانہ بیس فیصد بھی ہے تو ہر سال سات لاکھ ایسے لوگ معاشرہ میں شامل ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کی روٹی روزی کا ذریعہ مذہب ہے
اور چونکہ یہ سب مختلف مکاتب و مسالک فکر سے تعلق رکھتے ہیں تو لا محالہ مقبولیت کے حصول کے لیے مذہبی تعصب و منافرت کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں، جسکا مظاہرہ آپ آج کل تو نہایت آسانی سے آۓ روز نت نئے بننے والے علما و زاکرین کے یوٹیوب چینلز پر ہونے والی اختلافی مسائل کی جنگ و جدل کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں
عوام نا صرف انکی بات مانتے ہیں بلکہ وہ ان کے لیے کٹ مرنے اور مارنے کو بھی تیار ہیں مذہب ریاست کی دوسری بڑی طاقت اور عام عوام کی دکھتی رگ ہونے کے ساتھ ہی پہلی بڑی طاقت کا سب سے بھروسہ مند اتحادی اور تیسری دست نگر طاقت یعنی سیاسی قوتوں کی عوامی بیساکھی بھی ہے اور ضرورت پڑنے پر پہلی طاقت اور تیسرے فریق کے بیچ ثالث بھی ہے
عوامی راۓ کو مذہبی پس منظر میں ہموار رکھنے کے لیے ہر سیاسی جماعت کے پاس مذہب کارڈ کو بوقت ضرورت استعمال کرنے کے لیے ایک اتحادی مولوی کی موجودگی لازم ہے
اور اس کارڈ کی اثر انگیزی کے پیچھے انہی مدارس کی افرادی قوت کارفرما رہتی ہے
جنکا زکر پیشتر پیش کیے گئے اعداد و شمار میں کیا گیا ہے
سوال بہت سادہ سا ہے کہ باوجود کمزور امکانات کہ کیا پہلی طاقت کے آئین کے مطابق اپنی حدود میں چلے جانے کے بعد روشن خیالی کی دعویدار سیاسی قوتیں جنکا ماضی میں اس حوالہ سے کردار کچھ خاص قابل زکر نہیں اور ایک لبرل و سیکولر معاشرے کے خواہاں عوام اس دوسری بڑی طاقت کی افرادی قوت کے مقابل کس طرح ٹک پائیں گے؟
کیا مذہب کی بیساکھی کی دست نگر سیاسی قوتوں کے پاس ایسی کوئ جادو کی چھڑی موجود ہے جسکے گھومتے ہی لاکھوں کی تعداد میں موجود مساجد کے منبر پر بیٹھے عوام کی ذہن سازی کرنے والے علما کو سیکولر ریاست کی افادیت اور فلاحی پہلو سمجھ آنے لگیں گے؟
نوٹ: منظم خانقاہی نظام سے جڑے کٹر مذہبی ذہنیت رکھنے اور شریعت کے نفاذ کے خواہشمند عوام کے اعداد شمار اسکے علاوہ ہیں
نیز
پیش کیے گئے اعداد و شمار ڈوئچے ویلے کے سنہ دو ہزار سولہ میں چھپے ایک مضمون سے لیے گئے ہیں