"زنانے مرد" اور "مرد عورتیں"
لندن کی مصروف زندگی میں سے وقت نکال کر کسی سنجیدہ موضوع پر لکھنا شاید اتنا آساں بھی نہیں ھے، اس لئیے تین دن کے وقفے پر معذرت۔
آج کا مضمون اس موضوع پر آخری حصہ ھے مگر یہ خالص نفسیاتی تجزیئے اور میرے ذاتی مشاہدے پر مبنی ھے،
ھماری زندگی کی نشونما میں دو عوامل بہت اھم ھیں، Nature and Nurture، فطرتی اور سماجی،
آج سے تقریبا" سو سال قبل مشہور زمانہ امریکی ماھر نفسیات ڈاکٹر جان واٹسن جو ایک Behaviorist Psychologist تھے انہوں نے دعوی کیا تھا کہ آپ مجھے چند نارمل بچے دیں اور ان پر ٹیگ لگا دیں کہ کسے ڈاکٹر بنانا ھے اور کسے ڈاکو، کسے استاد بنانا کسے چور، کسے سائنسدان بنانا ھے کسے پاگل، کسے بزنس مین بنانا ھے اور کسے مزدور؟ اور ایک مقررہ وقت پر آپ کو وہ بچے مطلوبہ کردار میں ڈھال دوں گا، اور مغرب میں یہ کامیاب تجربے ھو چکے ھیں جس کی واضح مثال گلیوں کا اسٹریٹ فائٹر اور غنڈہ مائیک ٹائسن اپنے دور کا سب سے خطرناک اور کامیاب باکسر بنا دیا گیا، اسی طرح غلط ماحول کی وجہ سے اپنے دور کا جینیس چارلس سوبھراج چور اور نقال بن کر آج تھائ لینڈ کی جیل میں بند ھے کیونکہ اسے کوئ صیح راہ دکھانے والا ناں تھا، اس طرح کی بے شمار مثالیں پاکستان میں بھی ھیں،میں خود سندھ کے ڈاکوؤں اور مجرموں پر یہی کام کرنا چاھتا تھا مگر ھاے رے افسر شاھی اور میرا نام۔۔۔۔۔ اس لئے خواب، خواب ھی رہ گئے،
زنانہ مرد جسمانی طور پر ایک مکمل مرد ھوتے ھیں جن میں بچے پیدا کرنے کی مکمل صلاحیت بھی ھوتی ھے اور اگر شادی شدہ ھوتے ھیں تو کئی کئی بچوں کے باپ بھی ھوتے ھیں، مگر ان کے اندر روح عورتوں والی ھوتی ھے، یہ لوگ تنہائ میں یا اپنے "مخصوص" گروپ میں عورتوں کی طرح ھی باتیں اور چھیڑ چھاڑ کرتے ھیں، بلکہ میں یہ بات بڑے وسوِخ سے کہ سکتا ھوں اکثر لڑکیوں سے ذیادہ یہ "ھائ اوی" جیسی ادائیں دکھاتے ھیں، پاکستانی معاشرے میں ان بیچاروں کی مرضی کے خلاف انکی شادیاں بھی عام ھوتی ھیں بلکہ ان کے زنانہ پن کو ڈھانپنے کے لئے ھی شادیاں رچائ جاتی ھیں، اکثر و بیشتر ان کی بیویاں ان کی حرکتوں کی وجہ سے شرمندہ اور نادم سی رھتی ھیں بلکہ پڑھی لکھی عورتیں تو ان کو چھوڑ ھی جاتی ھیں یا پھر ایک دوسرا " مرد" بھی رکھ لیتی ھیں، مگر کمزور ان پڑھ اور خاندانی رشتے والی عورتوں کے پاس دوسرے مرد کے علاوہ کوئ چارہ نہیں ھوتا ھے، جو عموما" شوھر کا بھائ یا عورت کا اپنا پرانا عاشق کزن ھی ھوتا ھے، جسے اکثر و بیشتر خاموشی سے یہ زنانہ مرد بھی تسلیم کر لیتا ھے، تسلیم کرنے کی دونوں کی اپنی اپنی مجبوریاں بھی ھوتی ھیں، زنانہ مرد اپنی بیوی کا شوھر کم اور سوتن ذیادہ ھوتا ھے اور ھر بات پر اس پے سوتنوں کی طرح تنقید اور خود سے موازنہ کرتا ھے اور بیوی کو زچ کرتا ھے، ادھر عورت بچپن سے ھی ایک حاوی اور رعب دار مرد کی عادی اور متمنی ھوتی ھے جو کبھی باپ، بڑے بھائ یا خاندان میں چاچے نامے کی صورت میں دیکھا ھوتا ھے اور پھر معاشرے اور فطرت کے Norms میں عورت کے مقابلے میں مرد بالکل ھی مخالف اور متضاد شخصیت کا مالک ھوتا ھے۔ ایسے میں جلد با دیر وہ تشنہ عورت ایک مکمل مرد ڈھونڈ ھی نکالتی ھے، ادھر زنانہ مرد کا نفساتی الجھاؤ(complex) یہ ھوتا ھے کہ اسے عورت کی خوبصورتی میں کوئ کشش نہیں ھوتی ھے، بلکہ وہ تو خود اپنی اندر کی عورت کی تشفی کے لئے کسی گبرو ھیرو کی تلاش میں ھوتا ھے جو وہ اکثر کنوارے نوجوانوں میں ڈھونڈ لیتے ھیں، اسطرح ادھر شادی سے پہلے کنواروں کا جوش بھی قابو میں رھتا ھے، اور ان زنانہ مردوں کی نفسیاتی کیفیت کا catharsis بھی ھوتا رھتا ھے، بدقسمتی سے ان زنانہ مردوں کی عورت بن کر لذت حاصل کرنے علت تمام عمر جان نہیں چھوڑتی ھے اور بڑھاپے میں تو پیسے دے کر بھی شوق پورے کئے جاتے ھیں۔
اب یہ سوال پیدا ھوتا ھے کہ جب جسمانی طور پر ایک مکمل مرد ھے تو پھر اس میں عورت کی روح(نفسیات) کیسے آگئی ھے ؟ ماھرین نفسیات اور بائیالوجسٹ کے لئے ایک چیلنج تو ھے؟ ، اگرچہ ماھرین غدودیات Endocrinologist کا ماننا ھے کہ یہ سب ھمارے جسم کے گلینڈ سے خارج ھونے والی رطوبیات یا ھارمون کی کمی یا ذیادتی کے سبب ھوتا ھے، جبکہ میرا مشاھدہ ھے کہ جو بچے بچپن سے ھی مخالف جنس کا رجحان رکھتے ھیں انہیں یہ کس خانے میں فٹ کرتے ھیں؟ (جس کا ذکر حصہ اول میں کر چکا ھوں)
دراصل انسان Nature and Nurture کا ایک خوبصورت امتزاج ھے، ایک ننگی آنکھ سے نظر ناں آنے والے y کروموسوم کے اندر ایک مکمل زندگی ھے اور وہ زندگی بیضہ میں جا کر فنا ھوتی ھے تو اک نئی زندگی جنم لیتی ھے، سابقہ زندگی آنے والی زندگی کو بےشمار قیمتی خزانے دے کر جاتی ھے جسے ھم Hereditary Characters کہتے ھیں، یہ وراثتی کردار نینو سیکنڈ سے لے کر نو مہینے تک ھمارے جسمانی اور نفسیاتی کردار کو بنانے سنوارنے میں مصروف رھتے ھیں، جس کا ادراک انتہائ معمولی سا ماں کو ھوتا ھے ورنہ سارا خود کار عمل Nature ھی کرتی ھے مگر ماں کے پیٹ میں بنتی ھوئ اک نئی ذندگی بے شمار اندرونی اور بیرونی نفسیاتی اور جسمانی۔۔۔ھارمونی تبدیلیوں اور حادثات سے بہت ذیادہ متاثر ھوتا ھے، ان حادثات و عوامل اور جذباتی کیفیات کا آنے والی زندگی پر براہ راست اثر پڑتا ھے یہی وجہ ھے کہ ھر فرد اپنے ساتھ مختلف قسم کے خوف ۔۔۔بیماریاں ۔۔۔الجھاو۔۔۔خوبیاں ۔۔خرابیاں اور جسمانی کمزوریوں کے ساتھ پیدا ھوتا ھے، جسے آج بھی جدید سائنس سمجھنے سے قاصر ھے، انہی میں سے ایک زنانہ مرد ھیں، میں نے بے شمار زنانہ مردوں کا مشاھدہ بھی کیا ھے اور بغیر مطلع کئے انٹرویو اور تجزیہ نفس (Psychoanalysis) بھی کیا ھے ان کی یہ روح و جسم کی جنگ خود ان کے لئے جیتے جی ایک جہنم سے کم نہیں ھے، مگر وہ اپنی اس نفسیاتی اور ذھنی کیفیت کو سمجھنے اور اس پر قابو پانے سے قاصر ھیں، ایک زنانہ مرد سے جب بات ھوئ تو اس کا براہ راست غصہ خدا پر تھا کہ جب میری روح عورتوں والی ھے تو جسم مردوں والا کیوں دیا جب کہ وہ کہتا ھے کہ میں نے بچپن سے جب سے ھوش سنبھالا ھے خود کو لڑکی ھی سمجھا ھے جبکہ میری ماں مجھے سختی سے کہتی تھی کہ تو لڑکا ھے مگر میں نہیں مانتا تھا ۔اگرچہ لوگوں نے اس سے فراریت کے لئے بڑے بڑے جتن بھی کئے ھیں مثلا" مذھب میں پناہ داڑھی بڑھا کر نماز روزے کی پابندی، تعلیم پر بہت زیادہ توجہ، کھیلوں کو بہت ذیادہ وقت دینا خاص طور پر ورزش اور پہلوانی پر، اور اس طرح مخالف مرد کے حسم سے میلاپ سے ایک طرح سے نفسیاتی تشفی بھی ھو جاتی ھے، ایک خاص وقت پر جب جنسی قوت (Libido) لاوے کی طرح پھٹ پڑتا ھے تو اندر کا زنانہ پن بیرونی مردانہ پن پر حاوی ھو جاتا ھے ایسے میں وہ رقص بھی کرتا ھے زنانہ لباس بھی پہنتا ھے اور میک کرکے عورت بننے کی ناکام کوشس بھی کرتا ھے اور ایسے میں اسے کسی مرد ساتھی کی تلاش ھوتی ھے جو عورت سمجھ کر اسے استعمال کرے، اگرچہ آج کی دنیا صرف مرد و عورت کو ھی تسلیم کرتے ھیں مگر وقت آگیا ھے کہ انسانوں میں بھی مرد و عورت کے علاوہ دوسرے جنس (Gander) کو بھی عزت و تکریم کے ساتھ انسان تسلم کیا جاے، جب جانوروں کے حقوق کی بات کی جاتی ھے تو نفسیاتی الجھاؤ میں پھنسے انسانوں کی حقوق کی بات کیوں ناں کی جاے؟
مردانہ عورتیں، عورتوں میں یہ قسم بھی پائ جاتی ھے اچھا پاکستان کے گاوں دیہات میں نے کچھ عورتین ایسی بھی دیکھی ھیں جن کے نام اور کپڑے تو عورتوں والے ھوتے ھیں مگر ان کے چہرے جسم اور چال ڈھال سے وہ ناں مرد لگتی ھیں اور ناں ھی عورت، انہیں اکثر ٹام بواے بھی کہا جاتا ھے یہ عورت بھی مکمل عورت ھوتی ھے مگر والدین یا سماجی ماحول کی وجہ سے یہ لڑکی کا روپ دھار لیتی ھیں اور آج کے دود میں انہوں نے ایک نیا روپ اختیار کر لیا ھے جسے یہ فیمینیسٹ Feminist کہتی ھیں یہ بھی فراریت کی ایک راہ ھے یہ مردوں جیسے بال اور کپڑے اور بودوباش اختیار کرکے خود کو مرد ثابت کرنے کی کوشش کرتی ھیں مگر بدقسمتی سے ان میں اکثریت ھم جنس پرست Lesbian ھو جاتی ھیں اور خود کو مرد سے آزاد سمجھتی ھیں مگر لاشعوری طور پر یہ مرد سے نفرت کا،اظہار ھوتا ھے اور جب جب بھی اسے موقع ملتا ھے مردوں سے اپنی نفرت ضرور دیکھاتی ھیں، یہ خالص نفسیاتی اور معاشرتی الجھاو ھے جو پچپن کے تلخ اور برے برتاو کی وجہ سے لاشعور میں چھپا ھوتا ھے جسے علاج کے ساتھ ٹھیک کیا جا سکتا ھے مگر آج کل اسے مغرب اور اب پاکستان میں بھی بغاوت اور آزادی کے نشان symbol کے طور پر لیا جاتا ھے۔
میں نے کوشش کی ھے جس قدر ھو سکے اس موضوع کو مختصر کرکے لکھوں ورنہ یہ موضوع ایک کتاب کا احاطہ کرتا ھے۔
آپ کی آراء کا انتظار رھے گا
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...