اس مضمون کے حصہ اول کو پذیرائی تو بہت ملی مگر دوستوں کی راے انتہائی متضاد اور الگ الگ تھی اکثریت نے اس موضوع پر لکھنے پر تعریف کی مگر کچھ دوستوں نے وقت کا ضیاع کہا جبکہ کچھ دوستوں نے انتہائی اھم معلومات بھی شئیر کی تھیں، بہرحال آپ سب کا بہت بہت شکریہ،
بنیادی طور پر میں اس موضوع پر لکھنے کے لئے کافی عرصے سے سوچ رھا تھا مگر موڈ نہیں بن پا رھا تھا، اور اس موضوع پر لکھنے کی وجہ کوئ سنسنی پھیلانا یا " چس " لینا نہیں تھا بلکہ ان کے ساتھ ھونے والی زیادتیوں کو اجاگر کرنا تھا۔ ویسے تو پاکستان اور انڈیا میں ھر غریب اور کمزور فرد بلا رنگ و نسل زیادتیوں کا مارا ھوا ھے، مگر کچھ ظلم اور زیادتیاں ناقابل فہم اور ناقابل حل ھوتی ھیں مثلا" پیدائشی مخنث (Gender Dysphoria) تیسری دنیا کے لوگوں کے لئے آج بھی ایک بدنام داغ (Stigma) ھے، کچھ رسمیں اور روایتں معاشرے نے بنائ ھیں تو بہت سی عجیب وغریب رسمیں اور سیاہ قانون خود ان مخنثوں نے بنا رکھے ھیں لہذا ھند و پاک میں صدیوں سے عجیب و غریب روایتیں اور رسمیں بن چکی ھیں مثلا " ھیجڑوں کے سردار کو جیسے ھی پتہ چلتا ھے کہ اس گھر میں کوئ مخنث بچہ رھتا ھے وہ اس بچے کو لینے پہچان جاتے ھیں، پیار محبت یا زبردستی سے وہ اس نوجوان کو اپنے ساتھ لے جاتے ھیں، اس پر وطیرہ ھے کہ والدین بھی مزاحمت نہیں کرتے ھیں، اور اکثر و بیشتر نوجوان خود بھی جانے کے لئے بے قرار ھوتا ھے اور وہ اپنی اس تیسری نسل کی دنیا میں خود کو زیادہ محفوظ اور آرام دہ محسوس کرتا ھے، اور والدین اور بہن بھائ اس بدنامی کے داغ کو خود سے دور رکھنے میں ھی اپنی " عزت اور غیرت کو محفوظ " سمجھتے ھیں۔ مخنثوں کی اپنی ھی ایک دنیا ھے جہاں ان کی ایک ماں یا گرو ھوتا ھے جہاں ان کی پہلی دفعہ آمد پر ان کے نئے نام رکھے جاتے ھیں جو عموما" اس وقت کی مشہور زمانہ فلمی اداکاروں کے نام ھی ھوتے ھیں، گلی گلی ناچنا اور بھیک مانگنا ان کا پیشہ ھوتا ھے، پھر ایک خاص وقت پر ان کی شادی بھی ھوتی ھے جو ایک مکمل مرد سے ھوتی ھے، (مگر وہ مرد بھی منشیات اور اغلام بازی کے شوقین ھوتے ھیں جنہیں عورت سے کوئ خاص رغبت نہیں ھوتی ان میں سے اکثریت کی بیویاں چھپ چھپا کر اپنی آگ کہیں اور بجھاتی ھیں) مگر اپنی بستی اور برادری یہ لوگ کبھی نہیں چھوڑتے ھیں، اسی طرح ان کی اپنی ایک خفیہ زبان بھی ھوتی ھے جو عام آدمی کی سمجھ و فہم سے بالکل بالاتر ھوتی ھے، سال دو سال بعد اپنی ماں یا کسی بہن سے چھپ چھپا کر مل آتے ھیں ورنہ مرد رشتے دار تو ان کو دیکھ کر ھی نفرت سے منہ پھیر لیتے ھیں، اور جب ہڈیوں اور گوشت کے علاوہ جنسی خواہش پر بھی بڑھاپا طاری ھونے لگتا ھے تب یہ لوگ توبہ تائب کرکے حج یا تیرتھ یاترا (ھندو گیرتھ یاترا کرتے ھیں ) کرکے گرو بن جاتے ھیں اور نیک بی بی بن جاتے ھیں۔ اس ادھوری تخلیق کے ساتھ جو زیادتیاں صدیوں سے ھوئ ھیں ان میں سب اھم تعلیم اور روزگار سے ان کو دور رکھنا ھے اور معاشرے میں انہیں کوئ عزت و مقام ناں دینا شامل ھے یہ لوگ صرف عید بارات یا بچہ پیدا ھونے کے خوشی میں گھروں میں جاکر ناچتے ھیں اور بخشش اکٹھی کرتے ھیں، بدقسمتی سے دیگر غریب اور کمزور لوگوں کی طرح انہیں بھی اکثر و بیشتر تشدد اور تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ھے اور بعض اوقات تو ان کو جنسی رقابت اور حصول قربت کے چکر میں قتل بھی کر دیا جاتا ھے، ویسے بڑی حیرانگی کی بات ھے کہ جسمانی طاقت میں یہ اچھے خاصے طاقتور مرد پر بھی بھاری پڑ جاتے ھیں میں نے ایک مخنث کو کئی کئی مردوں کو پچھاڑتے ھوے دیکھا ھے، لیکن میرا مشاہدہ ھے کہ پچھلی دس بارہ سال سے ان پر تشدد اور تذلیل بہت بڑھ گئی ھے اکثر قتل اور تشدد کرنے والے رشتہ دار یا نام نہاد عاشق ھوتے ھیں۔ اب تو دوران تشدد ان کی فلم بھی بنائ جاتی ھے اور اسے یو ٹیوب پر اپ لوڈ بھی کیا جاتا ھے پچھلے دنوں ایک مخنث کو پیٹرول چھڑک کر زندہ جلانے کا شرمناک واقعہ پیش آیا تھا،جبکہ اس سے پہلے متعدد قتل کی وارداتیں صوبے پختونخواہ واقع ھو چکی ھیں اور بدقسمتی سے عموما" پولیس ان کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رھتی ھے۔
ماضی میں بھی جب راجا مہاراجہ کے دور ھوتے تھے تو خوبصورت اور جاذیب نظر مخنث لڑکیوں کو مات دے کر راجاوں کے منظور نظر بن جاتے تھے۔ آج کے دور میں بھی حالات بدلے نہیں ھیں آج بھی کچھ مخنث میک اپ اور جسمانی تراش خراش سے خوبصورت لڑکیوں کا مقابلہ کرتے نظر آتے ھیں، تھائی لینڈ میں تو ھر سال مخنثوں (Transgender) کا مقابلہ حس ھوتا ھے اور دنیا بھر سے مخنث اس مقابلہ حسن میں حصہ لیتے ھیں، انڈیا اور پاکستان میں پچھلے چند سالوں سے مخنثوں کی زندگی میں اصلاح اور فلاح کے متعلق حکومت نے کچھ اقدامات اٹھاے جا رھے ھیں جن میں ان کی تعلیم اور نوکری میں مواقع دینا شامل ھے مگر ان مواقع کو حاصل کرنے کے لئے بھی پڑھے لکھے مخنثوں نے بڑی محنت اور جستجو کی ھے، بلکہ پچھلے دنوں تو ایک مخنث کسی پرائیویٹ ٹی وی چینلز میں میزبان بھی رکھی گئی ھے، اسی طرح ایک مخنث کسی کالج یا یونیورسٹی میں لیکچرر بھی تعینات ھوئ ھیں،
میرا ماننا ھے جس طرح کسی بچے کے اختیار میں یہ نہیں ھے کہ وہ امریکہ میں پیدا ھو یا پاکستان میں، سید/ برھمن کے گھر میں پیدا ھو یا شودر کے۔ بالکل اسی طرح مرد عورت یا مخنث پیدا ھونا کسی بچے کے اختیار میں نہیں ھے، یہ نامکمل اور ادھورا کروموسوم کسی کی بھی ذندگی کو ادھورا کر سکتا ھے مگر ۔۔۔مگر نسل کی بارآوری کے علاوہ یہ لوگ محبت اور عزت کے بھوکے ھوتے ھیں اور جواب میں سو گنا زیادہ محبت نچھاور کرتے ھیں احسان فراموش نہیں ھوتے اور خود غرض اور کمینے نہیں ھوتے ھیں۔ اس لئے ان کو جنسی اور ھوس بھری نظروں سے دیکھنے کے بجاے انہیں بھی انسان اور اشرف المخلوق ھی سمجھا جاے۔
“