مخنث ادبی لفظ ھے جو کہ ھیجڑے،( کھسرے۔۔ زنانے مرد یا خواجہ سرا) کو کہا جاتا ھے، مخنث دنیا کے ھر ملک اور معاشرے میں پائے جاتے ھیں ، یہ دنیا کی ادھوری اور نامکمل مخلوق تقریبا" ھر جاندار نسل میں کم و بیش پائی جاتی ھے اس ادھوری زندگی کو ادھورا بنانے میں " خدا" اور فطرت کا بہت بڑا ھاتھ ھے، اور پھر ماحول اور تربیت کا بہت بڑا عمل دخل ھے ، اس وقت ھم صرف انسانوں کے مطلق بات کریں گے،
عجب اتفاق ھے بائیولوجیکلی ھر مرد پیدائش کے وقت سے ھی %60 مرد ھوتا ھے اور %40 عورت ھوتا ھے اسی طرح ھر عورت پیدائیش کے وقت سے ھی %60 عورت اور%40 مرد ھوتی ھے، یہی وجہ ھر مرد و عورت میں کچھ عادات اور جنسی رغبت( اور کامپلکس) جنس مخالف والے عام پاے جاتے ھیں، کچھ مرد و زن اس کامپلکس اور جنسی رغبت کو بیڈ روم تک ھی محدود رکھتے ھیں جبکہ کچھ لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے ھیں اور وہ معاشرے میں سب کے سامنے اپنے اس جنسی رجحانات کا اظہار کر بیٹھتے ھیں، آپ نے اکثر دیکھا ھوگا اچانک محفل میں بردبار اور سنجیدہ قسم کے مرد وزن بھی اچانک جنس مخالف کی نکل اتارتے یا ان کے طور طریقوں کی مذاق ۔۔مذاق میں نقل کرتے دیکھا ھوگا، بظاھر یہ سب مذاق میں ھی ھو رھا ھوتا ھے مگر دراصل وہ اپنی اس لاشعوری جنسی خواہشات کی تشفی کر رھے ھوتے ھیں جو اندر ھی اندر کہیں مچل رھی ھوتی ھے، جو آزاد معاشرے کے لوگ اپنی ان خواہشات پر قابو نہیں رکھ سکتے وہ مدد کے لئے ڈاکٹرز اور ماھر نفسیات سے رابطہ کرتے ھیں، اسی لئیے آجکل جنس تبدیل کرانے کا عمل بہت عام ھوتا جا رھا ھے۔
اسی طرح کچھ عجیب و غریب کہاوتیں بھی پائی جاتی ھیں جیسے یہ مانا جاتا ھے کہ ھر مرد کے اندر ایک عورت چھپی ھوتی ھے اور ھر عورت کے اندر ایک مرد چھپا ھوتا ھے بلوغت پاتے ھی ھر مرد و زن اپنے اندر کی/کے جنس مخالف کو تلاش کرنے لگتا ھے اور اسی تلاش کو رومانیت میں" آئیڈیل کی تلاش " کہتے ھیں، کچھ خوش قسمت کو یہ نام نہاد آئیڈیل مل بھی جاتا ھے ورنہ اکثر کی تو ساری زندگی اس آئیڈیل کو ھی تلاش کرتے گزر جاتی ھے۔
ایک اور ھندو کہاوت پائ جاتی ھے کہ ھزاروں سال قبل مرد و زن ایک ھی جسم ھوتے تھے ھر جگہ یہ ساتھ ساتھ ھی رھتے تھے اور ھمیشہ ایک دوسرے میں گم رھتے تھے ناں و عبادت کرتے اور ناں ھی کسی دیوتا کو خاطر میں لاتے تھے " مہادیو " کو یہ بات بہت بری لگی ایک دن غصے میں آکر اس نے تلوار سے ان کو بیچ میں سے دو حصے کر دیا اور پھر ان کو دور دور پھینک دیا تب سے یہ منش اپنے گمشدہ حصے کی تلاش میں بھٹک رھا ھے، یونانی کہاوت نرگسیت بھی اس سے ملتی جلتی ھے۔
بنیادی طور پر اصل مخنث/ ھیجڑے کروموسوم کی خرابی کی وجہ پیدا ھوتے ھیں یعنی باپ کی طرف سے جو نطفہ ملتا ھے وہ ھی نامکمل ھوتا ھے(عجب ستم ظریفی دیکھئے کہ باپ ھی ساری زندگی اسے دھتکارتا ھے اور اپنی نام نہاد غیرت دکھاتا ھے )، دوسری اھم وجہ حاملہ ماں کی بیٹی کی وہ شدید نفسیاتی خواہش ھوتی ھے جو بچے کے ذھن پر پیدائش سے پہلے نو ماہ تک، اور پھر پیدائش کے بعد بھی بلوغت تک پہنچنے تک، ماں اور ماحول اسے عورت بنانے پر مجبور کرتے ھیں، مثلا" لڑکیوں والے کپڑے پہنانا، میک اپ کرنا،کھیلنے کے لئے گڑیا اور لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے دینا، اسے لڑکیوں کے نام سے پکارنا وغیرہ(سوتیلی مائیں ایسے کام ذیادہ کرتی ھیں)۔ایک اور بھی قسم ھے جو نقلی اور بناوٹی ھے مگر اب بہت ذیادہ عام ھوگئی ھے یہ وہ قسم ھے جو بچے کو مجبوری حالت مثلا" غربت،غلط ماحول اور تربیت جنسی مفعولیت کی لت ڈال دیتا ھے جو آگے چل کر عادت بن جاتی ھے، ھم جنس پرستی ھزاروں سالوں سے انسان کی سرشت میں موجود ھے بائبل میں حضرت لوط کی قوم کا ذکر پایا جاتا ھے، یونان میں یہ چلن عام تھا بلکہ راقم نے تو چند ایسی قدیم پینٹنگز بھی دیکھی ھیں جہاں قدیم یونان کے روسا مرد زنی کر رھے ھیں اور برھنہ عورتیں بیچاری کھڑی ھو کر ان کو پنکھے سے ھوا دے رھی ھیں، اسی طرح اسلامی کہاوتوں میں حوروں کے ساتھ ساتھ غلمانوں کا بھی ذکر خیر آتا ھے، اسی طرح ھندوستان کی تاریخ میں بادشاہوں کے دربار و حرم میں لونڈیوں کے علاوہ نو خیز لڑکوں کا بھی ذکر عام ملتا ھے، جن میں محمود غزنوی و ایاز، اور واجد شاہ کی داستانیں آج تک لوگوں کی زبان پر ھیں،
دلچسپ بات ھے کہ مخنث صرف مردوں میں ھی نہیں پاے جاتے ھیں بلکہ یہ کمی عورتوں میں بھی پائ جاتی ھے اور وہ مردانہ اوصاف لئے ھوتی ھیں بدقسمتی سے ان کے چہرے اور جسم پر مردانہ سختی اور جنسیاتی اعضاء کا ادھورا پن ھوتا ھے اکثر وہ بھی بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں ھوتی ھیں مگر آجکل سائنس نے اتنی ترقی کر لی ھے کہ سرجری سے انہیں مکمل مرد یا عورت بنایا جاسکتا ھے اب تو پاکستان میں بھی ایسے آپریشن عام ھونے لگے ھیں۔
یہ بےضرر اور مظلوم انسان اپنی جنسی اور جسمانی کمی کی وجہ سے ھزاروں سالوں سے عتاب کا شکار ھیں خاص طور پر موجودہ وقت میں بھی ان پر ھر قسم کے دروازے بند ھیں ان کا تمسخر اڑایا جاتا ھے انہیں ذلیل کیا جاتا ھے ھر وھمی معاشرے میں آج بھی یہ توھم اور تعصب کا شکار ھیں، مگر ھم آج یہاں صرف پاکستانی معاشرے کی بات کریں گے (جاری ھے)
"