’’جہاں تک الٰہ آباد کے خطبے کا تعلق ہے آپ اس بات پر بھی غور کریں کہ یہ پاکستان کس نے بنایا ہے؟ میں تو کہتا ہوں کہ ہندوئوں نے بنایا ہے۔ ہم نے بنایا ہی نہیں! ہم اس قابل ہی نہیں ہیں کہ کوئی چیز کر سکیں! میرا استدلال یہ ہے کہ اس طرح ہندوئوں نے بنایا ہے کہ جہاں تک الٰہ آبادکا خطبہ ہے، اس میں تو علیحدگی کا تصور ہی نہیں ہے۔ وہ الٰہ آباد کا خطبہ آپ ایک طرف رکھیں اور کیبنٹ مشن کا پلان جو جناح صاحب نے accept
کر لیا تھا، دوسری طرف اُس کو رکھیں تو وہ بالکل وہی ہے۔ یعنی
It Was full autonomy within the indian union
۔یہ تصور تھا جو جناح صاحب نے قبول کیا اور نہرو نے Reject
کیا۔ اب ہندو خود مان رہے ہیں۔ جسونت سنگھ کی کتاب پڑھیں۔مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’انڈیا ونز فریڈم‘‘ کا وہ حصہ پڑھیں جو انہوں نے کہا تھا کہ میری موت کے بعد شائع کیا جائے۔ سارے اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں۔ میری تو ایک تجویز ہے۔ میرا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ ایک فکری تجویز ہے کہ ہمیں دنیائے اسلام کو چھوڑنا چاہیے۔They should proceed with their own future
ہمارے ساتھ ان کی کہیں بھی مطابقت نہیں۔ اگر انڈیا کشمیر کو وہ سٹیٹس
(Status)
دینے کو تیار ہو جائے جو اس وقت نیپال کو ہے یا بھوٹان کو ہے تو ہم اپنا حصہ اس کشمیر میں شامل کر لیں،
Let kashmir be independent state
اور وہ
Independence
اس طرح کی ہو جیسے نیپال کو انہوں نے
Accept
کیا پھر پاکستان، انڈیا، سری لنکا
And if possible bangla desh
، یہ جمع ہو کر
Why can`t they make a kind of ٰEuropean union?
اگر انڈیا اس میں کشمیر کو اس طرح کی آزادی دینے کو تیار ہو جائے تو پاکستان کو بھی اپنا حصہ دے دینا چاہیے۔
Azad kashmir is more Acceptable in
this Scheme than having insisting on
uniting Kashmir
۔آپ کے ساتھ مل کے وہ کیا کریں گے؟ آپ کی کیا حالت ہے؟ میں تو اگر کشمیری ہوں، اگرچہ ہوں، لیکن اگر میں کشمیر کا باسی ہوں تو
I would not like to Join Pakistan. I will rather like to be independent
یہ کشمیر اگر
independent
ہو جاتا ہے اور آپ چاروں ہندوستان، پاکستان، چائنا اور رشیا اس کو
Accept
کر لیتے ہو تو یہ تو سوئٹزرلینڈ بن جاتا ہے۔ ٹورازم کے لیے سوئٹزرلینڈ بن سکتا ہے۔ اتنی بڑی قوت بن سکتا ہے۔ اس کا تو بڑا فیوچر ہے۔ اور اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ یونین کسی طرح وجود میں آ سکتی ہے۔ مگر یہ یونین آپ کو وجود میں مُلّا نہیں لانے دے گا۔ چونکہ یہ ایک طرح کا سیکولرازم ہو گا۔
This will in fact amount to having Religion as personal affair.
اور اب بھی آپ کا
It is a personal affair
لیکن آپ
Accept
نہیں اس کو کرتے۔‘‘
یہ گفتگو ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کی ہے جو سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر سنی اور دیکھی جا رہی ہے۔ یہاں یہ بالکل انہی کے الفاظ میں نقل کی گئی ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال، علامہ اقبال کے فرزند تھے۔ اُن کے سوانح نگار اور ان کے شارح بھی! مگر ایک پڑھے لکھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی کی حیثیت سے ان کا اپنا مقام بھی تھا۔ وہ فلسفے میں ولایت سے پی ایچ ڈی تھے۔ عدلیہ میں بلند ترین مناصب پر فائز رہے۔ تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ لیکچر دیئے اور اپنے خیالات کا اظہار آخر تک کسی خوف یا رو رعایت کے بغیر کرتے رہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے خیالات یا ان کی تجاویز پر بحث و مباحثہ ہونا چاہیے۔ مکالمہ ہونا چاہیے۔ اگر ہمیں کسی کے نظریات سے اتفاق نہ ہو تو پھر بھی حوصلے اور دلجمعی کے ساتھ اس کی دلیل سننی چاہیے برداشت کا یہ کلچر ابھی تک ہم میں رائج نہیں ہو سکا۔ مگر تابہ کے؟ کب تک ہم جذبات، جوش، طعنے اور دشنام کو اپنی شناخت کیے رکھیں گے؟
ڈاکٹر جاوید اقبال کی یہ گفتگو بہت سے سوال اٹھاتی ہے۔ مثلاً:
اگر کانگرس کیبنٹ مشن پلان کی مخالفت نہ کرتی اور مسلم لیگ کی طرح اس منصوبے کو تسلیم کر لیتی تو برصغیر کا مستقبل کیا ہوتا؟ کیا متحدہ برصغیر کا وجود قائم رہتا یا ہندوئوں کے مائنڈ سیٹ کی وجہ سے(جس کا تجربہ اب مسلمانوں کو اور اہلِ پاکستان کو ہو رہا ہے) جلد یا بدیر الگ ملک کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی؟
دنیائے اسلام کو چھوڑنے کی تجویز دیتے وقت ڈاکٹر جاوید اقبال یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ان کی کہیں بھی مطابقت نہیں! یہ دلیل کہاں تک حقیقت پسندانہ ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ مذہب کے سوا ہمارا دنیائے اسلام کے ساتھ کوئی اور تعلق نہیں۔ زبان، لباس، طرزِ معاشرت، سب کچھ الگ ہے۔ پھر عرب، غیر عربوں کو مسلمانی کا وہ درجہ دینے میں ہمیشہ متامل رہے ہیں جو وہ عرب مسلمانوں کو دیتے ہیں۔ سعودی عرب کا معاملہ اور ہے۔ ہمارے اس کے ساتھ خصوصی تعلقات ہیں۔ ہمارے مقدس مقامات بھی وہیں ہیں لیکن کیا باقی مسلمان ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات، جیسے مثال کے طور پر، چین کے ساتھ ہیں، موجود ہیں؟ کشمیر کے مسئلہ پر کن مسلمان ملکوں نے غیر مشروط حمایت کی ہے؟ یاسر عرفات اور صدر ناصر کے تعلقات بھارت کے ساتھ قریبی تھے یا پاکستان کے ساتھ؟ حال ہی میں یو اے ای نے جس طرح وزیر اعظم مودی کی پذیرائی کی ہے اور بھارت کو بھاری مالی امداد دی ہے، کیا وہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ نہیں؟ چین کی مدد سے جو ہم راہداری بنا رہے ہیں کیا ایران بھارت کے ساتھ مل کر اسے سبوتاژ نہیں کر رہا؟ رہے الجزائر، لیبیا، تیونس اور مراکش، یا انڈونیشیا، ملائیشیا اور برونائی، تو ان کے ساتھ ہمارے تعلقات کس حد تک گہرے ہیں؟
مگر دوسری طرف کیا ہم امتِ مسلمہ کے تصور کو ترک کر سکتے ہیں؟ کیا روحانی حوالے سے ہم عالمِ اسلام کا حصہ نہیں؟ مسئلہ صرف دماغ کا نہیں، دل کا بھی ہے۔ دل ہمارا عالمِ اسلام کے ساتھ دھڑکتا ہے؟ ڈاکٹر جاوید اقبال کی یہ تجویز، حقیقت پسندانہ ہونے کے باوجود، ہمارے لیے کس حد تک قابلِ عمل ہے؟
ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے خود مختار کشمیر کا تصور پیش کرتے وقت یہ فرض کیسے کر لیا کہ بھارت اس کے لیے تیار ہو جائے گا؟ کیا کشمیر کا نیپال اور بھوٹان کے ساتھ موازنہ کرنا حد سے زیادہ تصوراتی نہیں؟ بھارت اور پاکستانی دونوں کشمیر کے محلِ وقوع کو اپنے اپنے دفاع کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے کیا پاکستان کے لیے آزاد کشمیر سے دستبردار ہونا ممکن ہو گا؟
ہم جس طرح اس وقت فرقہ واریت کا شکار ہیں اور یہ فرقہ واریت جس طرح سیاست میں بھی درآئی ہے کہ عقاید کا اختلاف سیاسی جماعتوں کی تشکیل میں بھی کردار ادا کرنے لگ گیا ہے اور ملک کی وجہ سے جو قتل و غارت ہو رہی ہے، کیا اُس کا مداوا اس میں نہیں کہ مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دیا جائے؟ مگر دوسری طرف سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا اسلام، عیسائیت یا دوسرے مذاہب کی طرح ذاتی معاملہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس صورت میں ’’اسلامی ریاست‘‘ کے تصور کا کیا مستقبل ہو گا؟ اس معاملہ میں صرف مُلّا آڑے آئے گا یا پاکستانیوں کی اکثریت بھی اس تصور کی مخالفت کرے گی؟
یہ ہیں وہ چند سوالات جو مکالمے کے متقاضی ہیں۔ ایسا مکالمہ جو تحمل، برداشت اور باہمی احترام و اعتماد کے ساتھ کیا جائے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔