بات یہ ہے جناب کہ زبان پھسل جائے تو دور تلک جاتی ہے ۔
عورت مارچ ایک ایسا لفظ ہے جس کے حق میں بولنے والا شخص باغی اور بے حیا گردانا جاتا ہے ۔تو جو مخالفت کردے وہ کم ظرف، پست ذہنیت اور جانے کون کون سے القابات سے نواز دیا جاتا ہے۔
میں " میرا جسم میری مرضی " سے ہٹ کے بات کرونگی ۔
اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا کب سے بے حیائی کے زمرے میں آگیا۔ زخم لگنے پہ بلبلانے کو کس قانون کے تحت بے غیرتی کہہ دیا گیا۔
یہ عورتیں جو ہاتھ میں بینرز اٹھائے سڑکوں پہ نکلی ہیں ۔وہ بے حیا ہیں، میں کہتی ہوں ۔ کیونکہ وہ آزادی کا مطلب غلط لے رہی ہیں ۔
لیکن عورت مارچ، یا حقوقِ نسواں کو مدنظر رکھتے ہوئے ۔
میرے معزز ذرا مجھے یہ بتائیں کہ زینب کے قاتل کہاں ہیں ۔
مرد کے ظلم کا شکار ہوتی ، بیٹی کی پیدائش پہ طلاق کا داغ دامن پہ سجائے سسکنے والی کو ، اپنی مرضی سے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے والی کو، اپنی پسند کا اظہار کرنے والی بہن، بیٹی کے لیے موت کا تحفہ کیوں، قید کی سزا کیوں ،کیا آپ نے ان کے حقوق پورے کیے ؟ عورت چاردیواری کے لیے ہے تو سفید پوش علاقوں میں کوہلو کے بیل کی طرح جتی عورت کے لیے کیا فیصلہ ہے آپ کا؟
میرے معززین عورت مارچ اور عورت کے نعرے سب غلط ہیں ۔
لیکن آپ کس بنیاد پہ انہیں غلط کہتے ہیں ۔کیا آپ درست ہیں ۔اگر ہیں تو لائیے کوئی ایک مثال جہاں بیٹی نے اپنے نکاح کے لیے اپنی پسند بتائی اور اسے زندہ رہنے دیا گیا۔ لائیے کہیں سے ایسی مثال جہاں بیٹی کی پیدائش پہ عورت کو زود وکوب نہ کیا گیا ہو۔طلاق کی دھمکی نہ دی گئی ہو ۔ لعن طعن کر کے اس کی عزت نفس مجروح نہ کی گئی ہو ۔
ٹھیک ہے نعرہ غلط ہے ۔یہ بھی مان لیا کہ بینرز غلط ہیں ۔ لیکن زیادتی کا شکار ہو کر اپنی جان کی بازی لگانے والی عورت اس معاشرے کو نظر کیوں نہیں آرہی۔
معصوم بچیاں محفوظ نہیں، کیا آپ نے کسی ایک بھی مجرم کو پھانسی دی، کسی ایک
کو بھی سزائے موت سنائی؟
جب یہ مرد اپنی ہوس بھری نگاہ سے ہر عورت کو تولتا ہے ۔ وہ باپردہ ہو یا مغربی لباس میں ملبوس ، سٹیج پہ رقص کر رہی ہو یا گھر کی چار دیواری میں خود کو مقید رکھے ہوئے ہو ۔ یہ کہیں بھی نہیں چھوڑتا یہ ایک ایسا سانپ ہے جو چھوٹے سے سوراخ سے بھی ڈس لینا چاہتا ہے ۔ تو آپ کو اپنا آپ نظر کیوں نہیں آتا ؟
میں ہر مرد کو اس ترازو میں نہیں تول رہی لیکن اکثریت یہی ہے ۔
کوئی بتائے گا مجھے کہ آخر مجرم کون ہے؟
ٹھیک ہے عورت نے جن نازیبا الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ غیر اخلاقی ہیں ۔
مگر وہ مرد حضرات بھی ذرا اپنے الفاظ پہ غور کریں ۔جو " میرا جسم میری مرضی " کا نعرہ لگانے والی عورت کو نشانہ بنا رہے ہیں آپ عورت کو گالی دے کے کون سی انسانیت کی بنیاد رکھ رہے ہیں ۔
اسلامی ملک میں دین اسلام کے مطابق انصاف نہیں کیا جاتا، عدالتوں میں سچائی کا صرف نام ہے، وجود نہیں ،آخر ہم اپنے مطلب کی خاطر دین اسلام کو اپنی زندگی میں کیوں شامل کرتے ہیں ؟
جب زینب کا باپ آپ سب کے پاؤں پکڑ کے انصاف کی بھیک مانگتا رہا ۔تب آپ کو دین اسلام کیوں یاد نہیں آیا۔
جب آپ پسند سے شادی کر لینے والی بیٹی کو چھری کے وار سے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے تھے تب دین اسلام کی طرف کیوں نہیں دیکھا۔
جب خود عورت کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا لیتے ہو تب خدا کیوں یاد نہیں آتا۔
آپ کو خدا صرف اس وقت ہی کیوں یاد آتا ہے جب کوئی دوسرا گناہ کرنے لگتا ہے ۔
اور اب تو ایک ادیب خلیل الرحمٰن قمر صاحب نے بھی عورت کو گالی سے نواز دیا ۔
میں پوچھتی ہوں ۔دین اسلام کے ٹھیکیدارو! کہاں لکھا ہے کہ بھٹکے ہوئے کو راہ راست پہ لانے کے لیے اسے گالیاں دی جائیں ۔
بروں کے ساتھ برے طریقے سے پیش آکے دین پھیلتا ہے؟ کس نے کہا ہے، کہاں لکھا ہے ۔
عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ کیا سوچ کے کھینچ تان کے سیدھی کرنے کی تگ ودو میں ہو
طوائف کا رقص دیکھنے کے بعد اس پہ لعنت بھیجنے والو کبھی طوائف کے سر پہ چادر ڈالنے کا سوچا ہے؟ نہیں نا۔۔۔ تو پھر کس حق سے خود کو اعلیٰ اور سڑک پہ آزادی کے نعرے لگانے والی عورت کو حقیر کہتے ہو ۔ کبھی اسے سیدھے راستے کی طرف بلانے کی جسارت ہی نہیں کی تو یاد رکھو
عورت مارچ میں بے حیائی بھرے نعرے لگانے والی بے وقوف عورتوں کے ساتھ آپ مہذب لوگ بھی مجرم ہو ۔برابر کے شریک ہو ۔
بلکہ سارا قصور ہی آپ کا ہے ۔
اپنے کپڑے جھاڑ لینے سے آپ کا نامہ اعمال صاف نہیں ہوگا ۔
اگر اتنے ہی حق اور حیا کے علمبردار ہو تو
چادر ڈالو ان کے سروں پہ، نکاح کرو ان سے ،عزت دو انہیں ،حقوق دو
تالے لگواؤ ان کوٹھوں پہ ،پابندی لگاؤ مجروں پہ،
ارے آپ میں کہاں اتنی ہمت ،آپ تو وہ درندے ہیں جن سے بنت حوّا دار الامان میں بھی محفوظ نہیں ۔
آخر پہ ان بے وقوف عورتوں کے لیے بھی کہنا چاہوں گی ۔ کہ میرا جسم میری مرضی جیسی خرافات بکنے والیو۔۔۔وہ جو اوپر بیٹھا ہے ناں اس نے جوڑے بنائے ہیں۔
نہ عورت مرد کے بنا اس معاشرے سے لڑ سکتی ہے اور نہ ہی مرد عورت کے سہارے کے بنا جیت سکتا ہے ۔
جو عورت مرد کے سہارے کے بنا رہتی ہے ناں ۔وہ طوائف، ناچنے والی، بےحیا اور سب کچھ ہوتی ہے لیکن عورت نہیں ہوتی ۔
بہن، بیٹی، بیوی یا ماں کے عہدے پہ فائز ہونے سے پہلے ایک عورت ہے ۔ عورت نہیں تو یہ مقدس رشتے بھی نہیں ۔
پھر وہ مغربی تہذیب میں سسکتی ایک سوکھی شاخ ہے، جسے کبھی بھی کہیں بھی پھینکا جا سکتا ہے ۔جلایا جا سکتا ہے ۔
اور کم عقل عورت یہ جسم نہ تیرا ہے نا کسی اور کا۔۔۔ یہ اس کا ہے جس نے اس میں روح پھونکی ہے ۔یہ اس کا ہے جو روح قبض کرنے کے بعد ہمیں ہلنے کی سکت بھی نہیں دیتا ۔ آخری بار آپ اس جسم کو غسل تک نہیں دے سکتیں تو بھئی آپ کا جسم کیسے ہوا ؟ کس حق سے ہوا؟
عورت چار دیواری کی حسین ملکہ ہے ۔ سورہ نساء جو عورت کے حقوق کے لیے نازل کی گئی ۔ اس میں عورت کو پردے کا حکم دیا گیا ہے ۔
اور افسوس ہے آپ نے پردے کو کم ظرفی کا نام دے دیا ۔
اگر خود قرآن کے احکام کو جھٹلاتی ہو تو انسانوں سے کون سے حقوق کا مطالبہ کرتی ہو؟
جب پیدا کرنے والے نے حدود مقرر کر دی تو آپ کیا سوچ کے کہتی ہو کہ مرد نے تمہیں قید کر دیا۔
جب بنانے والے نے تمہارے اور مرد کے ذمّے کام لگا دیے تو کیا سوچ کے مخالفت کرتی ہو؟
اپنی اقدار خود بھول چکی ہو ۔ اور گناہگار مرد کو ٹھہراتی ہو۔
کبھی خود کا احتساب کیا ہے کہ آخر اصل گناہگار کون ہے ؟ یقیناََ نہیں ورنہ یوں سڑکوں پہ ماری ماری نہ پھر رہی ہوتی ۔
ختم شدہ ۔
اک ستارہ تھا میں
ایک تو سفر کی تھکاوٹ، پھر تقریب میں شرکت کا طویل وقت، اور پھر تقریب سے رہائش گاہ تک کا...