میں دُہرا ہو رہا ہوں؟ دیکھنے والو مجھے کُبڑا نہ سمجھو! ہماری حکومت نے داعش کو روکنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے!
سینیٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی کے سامنے سیکرٹری وزارتِ خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ داعش پاکستان کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے؛ چنانچہ روک تھام کے لیے باقاعدہ پروگرام وضع کیا گیا ہے۔ سات نکاتی منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے اور چوٹی کی سکیورٹی ایجنسیوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اس ابھرتے ہوئے خطرے کا انسداد کریں تاکہ مقامی دہشت گرد تنظیمیں داعش سے تعلقات نہ قائم کر سکیں۔ امیگریشن حکام کو حکم دیا گیا ہے کہ پاکستان سے اس ضمن میں کوئی باہر نہ جا سکے۔ سکیورٹی ایجنسیاں مذہبی اداروں کی نگرانی کریں گی تاکہ داعش کے ہمدرد وہاں نفوذ نہ کر سکیں۔
وزارت خارجہ کے سیکرٹری نے سینیٹ کمیٹی میں متعلقہ ممالک کے ساتھ سفارتی روابط بڑھانے پر زور دیا۔ بالخصوص شرق اوسط کے ملکوں کے ساتھ۔ تاکہ انتہا پسند گروہوں کے بارے میں اطلاعات کا تبادلہ کیا جا سکے۔ ’’ہم پاکستان کے دہشت پسند گروپوں کی داعش کے ساتھ مبینہ وابستگی کا انکار کرتے ہیں‘‘ سیکرٹری صاحب کا کہنا تھا!
میں یہ سب سنتا ہوں اور دُہرا ہو جاتا ہوں۔ لیکن دیکھنے والو! مجھے کُبڑا نہ سمجھو۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ دارالحکومت کی بغل میں واقع صرف تحصیل گوجر خان میں دو لاکھ غیر ملکی آباد ہیں۔ ان کی کوئی شناخت نہیں۔ کاروبار کر رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کا بزنس ہے۔ کچھ تو زمینداری کا شوق بھی پورا کر رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم گوجر خان کے راجہ پرویز اشرف نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں ان لوگوں کا ریکارڈ مرتب نہ کرا سکے۔ ہزاروں غیر ملکیوں نے سٹال لگائے ہوئے ہیں مگر ان کی شناخت کوئی نہیں! ایس ایس پی کھلی کچہری منعقد کرتا ہے۔ بنفس نفیس وہاں موجود ہے۔ کچہری کی کارروائی کے دوران ایک شخص اٹھتا ہے اور ویڈیو بنانا شروع کردیتا ہے۔ اسے پوری تقریب میں کوئی نہیں جانتا! میڈیا والے اس کا نام پوچھتے ہیں۔ میں دُہرا ہو جاتا ہوں!
خبر دوبارہ سنتا ہوں۔ امیگریشن حکام کو خبردار رہنے کا حکم ملا ہے تاکہ داعش میں شامل ہونے کے لیے کوئی ملک سے باہر جا ہی نہ سکے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت غیر ملکیوں کی جو جانچ پڑتال حال ہی میں کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا ہے کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین تو سولہ لاکھ ہیں ہی‘ غیر رجسٹرڈ کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ دس لاکھ غیر ملکی جو غیر قانونی طور پر مطلوبہ دستاویزات کے بغیر رہ رہے ہیں‘ امیگریشن حکام کی موجودگی ہی میں تو سرحدوں سے اندر داخل ہوئے ہیں! دو روز قبل سترہ افغانی نوجوان‘ جن کے پاس دستاویزات نہیں تھیں اٹک روڈ پر پکڑے گئے۔ جس گاڑی میں وہ سوار تھے اس کی نمبر پلیٹ بھی جعلی تھی۔ یہ افغان سرحد سے چلے۔ پورا صوبہ کے پی کراس کیا۔ دریائے سندھ کا پُل عبور کیا۔ آپ کا کیا خیال ہے انہیں امیگریشن والوں نے پکڑا؟ یا پولیس نے؟ نہیں! انہیں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے عملہ نے پکڑا! ان کے شناختی کارڈ جعلی نکلے۔ صوبائی سرحدوں اور قومی بارڈر کی حرمت کا اندازہ لگایئے۔ امیگریشن والے داعش کی روک تھام کریں گے! میں دُہرا ہو جاتا ہوں۔ دارالحکومت کے ایئرپورٹ پر پاکستانی افسر برطانوی بزنس مین کو فراخ دلانہ پیشکش کرتا ہے کہ دس پونڈ مرحمت فرما دیجیے‘ آپ کا سامان چیک نہیں کروں گا۔ داعش کی روک تھام! ہا ہاہا! میں دُہرا ہو جاتا ہوں!
بیسیوں ایجنسیاں ملک کے اطراف و اکناف میں دندناتی پھر رہی ہیں۔ ہر تیسری چوتھی گاڑی کسی نہ کسی ایجنسی کی ہے۔ امیگریشن ہے‘ پولیس ہے‘ اربوں روپے ان پر صرف ہو رہے ہیں۔ ان کی موجودگی میں لاکھوں غیر ملکی غیر قانونی طور پر ہر شہر ہر قصبے یہاں تک کہ ہر گائوں میں موجود ہیں۔ اٹک چکوال اور ملحقہ علاقوں میں مونگ پھلی کی فصل تیار ہوتی ہے تو کھیت‘ شاہراہیں‘ کھلیان‘ پگڈنڈیاں غیر ملکی ’’مزدوروں‘‘ سے چھلکنے لگتی ہیں۔ پولیس چوکیاں جگہ جگہ موجود ہیں‘ تھانوں کا جال بچھا ہے‘ پولیس والے ان کے درمیان اور یہ پولیس والوں کے درمیان گھومتے پھرتے ہیں۔ کسی کے پاس شناخت ہے نہ کوئی دستاویز! ان سارے محکموں کی موجودگی میں واہگہ سے لے کر پشاور تک اور کراچی سے لے کر اسلام آباد تک دھماکے ہوئے۔ عوام کے پرخچے اڑ گئے۔ اغوا برائے تاوان کی صنعت اس وقت ملک کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نفع آور انڈسٹری ہے۔ ڈاکٹر جو ریٹائرڈ جرنیل ہیں‘ ایک ایک کروڑ روپے بھتہ دے چکے ہیں۔ اور یہ خفیہ اطلاع نہیں‘ قومی اخبارات کے پہلے صفحوں پر یہ خبریں شائع ہوئی ہیں۔ کوئی جرم رُکا نہ انسداد ہوا۔ پرائیویٹ محافظ (گارڈ) سپلائی کرنے کا ’’بزنس‘‘ اربوں روپے کا کاروبار کر رہا ہے! اور قوم کو خوشخبری دی جا رہی ہے کہ داعش کی روک تھام ہوگی! میں پھر دُہرا ہو جاتا ہوں!
ویسے داعش کے آ جانے سے ایک عام پاکستانی کا کیا بگڑ جائے گا؟ اُس کے بچے کو تو اب بھی ملازمت نہیں مل رہی اس لیے کہ اس کے پاس سفارش نہیں ہے۔ بجلی اور گیس کے بلوں نے اس کی کمر پہلے ہی توڑی ہوئی ہے۔ لوڈشیڈنگ کی اندھی اندھیری صعوبتیں الگ ہیں۔ گرانی کا یہ عالم ہے کہ ماہانہ سودا لے کر وہ سٹور سے نکلتا ہے تو کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہوتا ہے۔ اس کا موٹر سائیکل یا آٹھ سو سی سی کی کار چوری ہوتی ہے تو ملنے کا دور دور تک امکان نہیں ہوتا۔ چوروں‘ ڈاکوئوں سے اسے بچانے والا کوئی نہیں! کچہری میں باپ بیٹے کا مکان یا بیٹا باپ کی زمین اپنے نام کرانے جائے تو بھیڑیوں کے غول اُسے چیر پھاڑ دیتے ہیں۔
پاکستان کی کچہریوں میں‘ بالخصوص زمین یا مکان کے انتقال میں… ننانوے فیصد معاملات میں رشوت لی جاتی ہے۔ نرخ متعین ہیں۔ اگر داعش والے آ کر یہ لعنت ختم کردیں تو؟ اگر داعش والوں کے آنے سے غریب پاکستانی کی‘ ایک عام پاکستانی کی زندگی تھوڑی سی باعزت ہو جائے تو؟ نہیں معلوم وہ آئے تو ان کا کیا طرزِ حکمرانی ہوگا مگر فرض کیجیے‘ ان کے آنے سے ہٹو بچو والا رُوٹ لگنا بند ہو جائے اور عوام کو حکمرانوں کے شاہانہ جلوس گزرتے وقت غلاموں کی طرح شاہراہوں پر بند کرنا موقوف کردیا جائے تو؟
داعش کے آنے سے خطرہ انہیں ہے جن کے پورے پورے خاندان ’’منتخب‘‘ اداروں میں متمکن ہیں‘ جنہیں اپنی جاگیروں کی حدود معلوم ہیں نہ تجوریوں کی تعداد! اور جن کے ایک ایک مہینے کے اخراجات ایک ایک خلیفہ کے ذمے ہیں!
میں پھر دُہرا ہو رہا ہوں! مگر آپ مجھے کبڑا تو نہ سمجھیں! صوبے کے حکمران اعلیٰ کے پاس نو ماہ یعنی آٹھ ماہ چھبیس دن تک صوبائی اسمبلی میں آنے کے لیے وقت نہ تھا۔ کیوں کہ انہوں نے غیر ملکی دوروں کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ خاتون کو ملاقات کا وقت دینا ہے اور اُن سفیروں کو بھی جو اسلام آباد سے بابِ عالی کی جانب رواں رہتے ہیں۔ بیلاروس کا سفیر صوبائی دارالحکومت میں حاضر ہوا۔ وفاقی دارالحکومت میں آخر دوسرے ملک کے سفیر کا کیا کام! ’’پاکستان میں… بالخصوص پنجاب میں زراعت‘ لائیوسٹاک‘ آئی ٹی‘ صنعت اور دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کے بہت مواقع ہیں‘‘! اس سے پہلے افغانستان کے صدر نے کابل اور پنجاب کے تعلقات بڑھانے کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ یہ سب کچھ اگر کوئی چھوٹا صوبہ کرتا تو اب تک علیحدگی پسندگی کے الزامات اس شوروغوغا کے ساتھ لگ چکے ہوتے کہ گرد آسمان کو ڈھانپ لیتی۔ میں دُہرا ہو رہا ہوں مگر… بقول ظفر اقبال ؎
مجھے کُبڑا نہ سمجھو‘ زندگی پر
میں ہنستے ہنستے دُہرا ہو گیا ہوں
پسِ تحریر: بھارتی صوبے مہاراشٹر کی حکومت نے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے مختص پانچ فیصد کوٹہ ختم کردیا ہے۔ مرہٹہ اکثریت کے مقابلے میں پسماندہ مسلمانوں کے لیے یہ پانچ فیصد کوٹہ پہلے ہی اونٹ کے منہ میں زیرہ تھا۔ اب وہ بھی ختم کردیا گیا۔ عوام کے خرچ پر عمرے ادا کرنے والے پاکستانی حکمرانوں کو وقت ملے تو بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر بھی ایک دو حرف کہنے کی جسارت کر لیں۔ اگر مودی ناراض ہوئے تو آموں کے کریٹوں اور مٹھائی کے ٹوکروں سے راضی بھی ہو جائیں گے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔