یہ زندگی کیا ہے؟ اس زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ایک دن ہم سب مر جائیں گے۔ تو پھر اتنا لمبا عرصہ جینے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟ کیا میں اس سیارے پہ فقط اس لئے ہوں کہ میں کھاؤں پئیوں نو سے چار یونیورسٹی جاؤں نوکری کروں اور مر جاؤں؟
میری زندگی کا تو کوئی مقصد ہی نہیں، بہتر یہی ہے کہ مجھے مر جانا چاہیے۔ نہیں، نہیں، اگر میں مر گیا تو میرے پیاروں کا کیا ہوگا؟ لیکن! کیا واقعی میرے پیارے مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں جتنا میں کرتا ہوں؟ میری بیوی تو ہر وقت میری برائیاں کرتی ہے ایسے میں میرے جینے کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟ مجھے یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ فار گاڈ سیک اگر پیدا کرنے سے پہلے مجھ سے آنے کا نہیں پوچھا گیا تھا تو اب جان لو، میں یہاں نہیں رہنا چاہتا، مجھ سے میرا وجود واپس لے لو۔
وجود کا بحران
اوپر موجود دو جملے پڑھ کر آپ سمجھ رہے ہونگے شائد ضیغم کلینیکل ڈپریشن کا شکار ہو گیا ہے۔ وہیں آپ میں سے بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے ہونگے کہ آج تو ضیغم نے ہماری ترجمانی کر دی، واقعی ہی ہمارے وجود میں آنے کا کوئی مقصد نہیں ہے پھر ہم اس سیارے پہ کیوں ذلیل و خوار ہوں؟ آخر یہ غم ہمیں ہی کیوں لگتے ہیں؟ باقی دنیا تو خوش رہتی ہے۔
لیکن میں نا ہی ڈپریشن میں ہوں نا ہی میں کسی کے جذبات کی ترجمانی کی کوشش کر رہا ہوں بلکہ میں اس نفسیاتی حالت کا ذکر کرنے لگا ہوں جس سے اس کرہ ارض پہ موجود ہر شخص زندگی کے کسی نا کسی حصے میں گزرتا ہے اور وہ یہ شدت سے محسوس کرتا ہے کہ اسکے وجود کا کوئی مقصد ہی نہیں، اسے یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس بحران میں مبتلا بہت سے لوگ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچا بیٹھتے ہیں۔
انیسویں صدی تک وجود کے بحران یا existential crisis کا کسی کو بھی پتا نہیں تھا۔ فلسفی کرکگرد نے جہاں اس بحران کو موروثی کہا تو وہیں نطشے نے کہا کہ مذہب اور روایتی اخلاقیات سے دوری اس بحران کی وجہ بنے۔
مگر کیا واقعی ہی یہ سب اس بحران کی وجہ بنتے ہیں؟
کوئی بھی شخص وجودی بحران میں تب جاتا ہے جب وہ زندگی کے کسی اہم موڑ سے گزرتا ہے۔ جیسے نئے نئے بالغ ہوئے بچے یا عمر کا بہت بڑا حصہ گزار چکے بالغ، یہ لوگ اکثر خود سے اپنے وجود کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں اور اکثر کسی بھی جواب کو تسلی بخش نہ سمجھ کر یہ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح کسی قریبی عزیز کی موت یا پھر کسی ایسے شخص سے دوری جس سے ہمیں بے پناہ پیار ہو چکا تھا ایسی حالت کی طرف لیجاتی ہے۔
اس میں کوئی بھی شخص کسی بھی فیصلے کو قبول کرنے کی بجائے اپنے وجود پہ سوال اُٹھانا شروع کر دیتا ہے۔ جیسے کوئی بچہ والدین سے دور تعلیم حاصل کرنے جا رہا ہو یا کسی کا اپنا پیار چھوڑ کر چلا گیا ہو۔ یہ سب وجود کے بحران میں چلے جاتے ہیں۔
اس بارے میں ژاں پال سارترے، کرکگرد ، دوستوسکی اور نطشے کا بہت کام ہے۔ Existentialists کے بقول ہر شخص کو اپنی زندگی کے کسی نا کسی موقعہ پہ ایسی صورتحال سے گزرنا پڑتا ہے جس کے بعد اسکے جینے کا انداز بدل کر رہ جاتا ہے اور ایسا ہونا ناگزیر ہے۔
اس بحران کی کئی اقسام ہو سکتی ہیں جیسا کہ؛
فیصلہ کرنے اور احساس ذمہ داری کا خوف
ہم سب فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں اور اس آزادی کے بدلے میں ہم کو بہت سی ذمہ داریاں ملتی ہیں ایسے میں بعض موقعوں پہ کوئی یہ سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ ایک نا ایک دن میں نے مر ہی جانا ہے ایسے میں بڑی تصویر میں ان فیصلوں کا کیا مقصد ہوا؟ اور اگر میں نے کوئی غلط فیصلہ کر دیا تو؟
ہماری زندگی کے ہر موقعہ پہ ہمیں راہنمائی دینے کو کوئی بھی نہیں ہوتا مگر ہمیں اس فیصلہ سازی کی طاقت اور صلاحیت کو بطور اعزاز لیکر چلنا چاہیے ایسے میں ہمارے لئے یہ آزادی کی صلاحیت باعث رحمت ثابت ہوگی۔
زندگی کا مقصد تو کچھ نہیں!
زندگی میں بعض موقعوں پہ ہمارے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ہماری زندگی کا تو کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔ ایک نا ایک دن ہم سب مر جائیں گے تو اس دولت، اس احساس ذمہ داری اور اتنے سب کچھ کا کیا مقصد ہے؟
فرنچ فلاسفر کمس اس بارے خوب کہہ گئے ہیں کہ “زندگی کو بے مقصد سمجھنا دراصل زندگی کی تعریف کرنا ہے۔ اگر آپ آخر کے نتائج کی فکر کرنے کی بجائے اپنے حال کو دیکھنا شروع کریں اور لمحہ حال کی فکر کریں تو آپ زندگی کا اصل مزہ پا سکتے ہیں ” یہ خیال بہت ضروری ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ مایوسی میں صرف اسی لئے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ کہانی کو اختتام سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں ۔ جبکہ منزل کی بجائے سب سے اہم چیز راستہ اور آپکے ہم راہی ہیں اور ان کیساتھ گزارے گئے آپ کے قیمتی لمحات۔
زندگی کے تلخ لمحات
کسی کی موت، پیار کا نا ملنا، ناکامی یہ سب ہمیں وجودی بحران کی طرف لیجاتے ہیں۔ بہت سے بچے جب بالغ ہوتے ہیں اور بڑے جب آدھی عمر گزار چکے ہوتے ہیں تو وہ اس کیفیت سے ضرور گزرتے ہیں۔
کیا حقیقت کیا فسانہ؟
یہ سوال بہت ڈسٹربنگ سا اٹھتا ہے کہ زندگی میں اتنے زیادہ کام کرنے کے بعد جب آپ ستر اسی سال کی عمر میں فوت ہو جائیں گے تو اتنا سب کچھ کرنے کا کیا مقصد تھا؟ یہ ڈاکٹر بننا یہ انجینئر بننا یہ سب تو بے سود تھا کیونکہ موت اٹل ہے۔
یہ سوالات دراصل وجود کے بحران کی ہی نشاندہی ہیں اور اگر کسی کو یہ سوال اتنا تنگ کر رہے ہیں کہ وہ ڈپریشن کی طرف آہستہ آہستہ جا رہا ہے تو اس کو پراپر کاؤنسلنگ کی ضرورت پڑ سکتی ہیں۔ یہ انزائٹی ہمیں ہمارے وجود کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھانے پہ مجبور کر دیتی ہے۔
ہم Existentialist میں انزائٹی کو سائیکالوجی اور فلاسفی سے ہٹ کر ایک نئی نظر سے دیکھتے ہیں۔ موخر الذکر دونوں میں انزائٹی دراصل ایک بیماری سمجھی جاتی ہے لیکن ایگزسٹنشلزم میں یہ ایک ضروری لمحہ سمجھا جاتا ہے جس سے دنیا کا ہر شخص گزرتا ہے۔ اور اس سے فرار نا ممکن ہے۔
کرکگرڈ کے بقول “انزائٹی سے مثبت انداز میں گزرنے والا شخص سچائی تک پہنچ سکتا ہے” اور ایسا ہونا اٹل ہوتا ہے کہ ہم کبھی نا کبھی اور کہیں نا کہیں اس بحران کا شکار ہوں۔ لیکن اس کا حل یہ ہے کہ آپ بجائے وجود پہ سوال اٹھانے کے صرف اپنے روزمرہ کے امور پہ اپنا فوکس رکھیں اور ایسی سوچ سے دور رہنے کی کوشش کریں تو آپ ایک بھرپور زندگی گزار سکتے ہیں۔
کیا انسان ایک دم سے خودکشی کا ارادہ بنا لیتا ہے؟
کوئی بھی خودکشی کرنے کا ارادہ ایک دم سے نہیں کرتا بلکہ اس ارادے کے پیچھے ایسے سینکڑوں دن ہیں جن میں اس کا دل توڑا جاتا ہے اس کے احساسات کو روندا جاتا ہے اس کو ایموشنل ٹراما سے گزارا جاتا ہے۔ تب جا کے وہ خودکشی کرتا ہے۔ اور بالکل ایسے ہی ہوتا ہے۔ یہ بات بالکل سچ ہے۔
ایسے میں غلط وہ شخص نہیں ہوتا جو خودکشی کرتا ہے بلکہ غلط اس کے اپنے ہوتے ہیں جو اس کو ایسا کرنے پہ مجبور کرتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی مجموعی طور پہ ایک ڈپریشن زدہ سوسائٹی ہے جہاں ہر شخص کو دوسرے شخص سے گلِہ ہے۔ مگر کوئی بھی اپنا آپ نہیں دیکھتا کہ وہ اپنی جگہ کتنا جابر بن کر بیٹھا ہے۔ یہاں کسی دوسرے شخص کی ایموشنل صحت کا خیال رکھنے کا کوئی بھی نہیں سوچتا ہر کوئی ایک ایسی دوڑ میں لگا ہے جس سے بس وہ زیادہ سے زیادہ خوش ہو مگر ایسا کرکے سب لوگ ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں آنے والی خوشیوں کی عالمی فہرست میں پاکستان نیچے دور کہیں چلا گیا کیونکہ ہمارا بہیوئر دن بدن بدتر ہوا جا رہا ہے جس میں ہم دوسروں کے احساسات کی قدر کی بجائے اپنا دل سخت سے سخت کر رہے ہیں۔ اور اس سفر سے واپسی بہت مشکل ہے کیونکہ غصہ ایک منفی ایموشن ہے اور ہمارے دماغ کی وائرنگ ایسی ہے کہ ایک بار اگر اس ایموشن کو ہم خود پہ قابو پا لینے دیں تو باقاعدہ تھیراپی کے بغیر واپسی نا ممکن لگتی ہے۔
پولینڈ خوشیوں کی فہرست میں باسٹھویں نمبر پہ ہے مگر یہاں کے لوگوں کا ایک کام بہت مزے کا ہے۔ جب بھی آپ یہاں کسی سے پوچھتے ہیں کہ تم کیسے ہو تو ہماری طرح چاہے اندر سے ٹوٹا دل رکھ رہے ہوں اور اسکے باوجود الحمدللہ یا فائن کہنے کی بجائے یہ لوگ ایک ایک ٹینشن بتانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور یہ انسانی نفسیات ہے کہ اگر آپ کسی اپنے کو دل کی بات بتائیں گے تو آپ تب ہی اپنا غم ختم کر سکتے ہیں اسی لئے سائیک تھیراپی میں پہلا کام ہی مریض کی اپنی کیفیات جاننا ہوتا ہے. کیونکہ جب تک آپ اپنا غم نہیں بتا سکتے تب تک آپ اپنا دل ڈپریشن اور منفی خیالات سے پاک نہیں کر سکتے۔
اسی لئے ایک مشورہ یہ ہے کہ جب بھی آپ دیکھیں کہ آپ کو کسی پہ بے حد غصہ آ رہا ہے تو ایک گلاس پانی پئیں اور خاموش ہو جائیں۔ دو منٹ کی یہ خاموشی آپ کو وہ اطمینان دے گی جو آپ غصہ کرکے کبھی نہیں پا سکتے اور یہ خاموشی اگلے شخص کو اس ٹراما سے بھی بچا دے گی جو آپ غصے کا اظہار کرکے پہنچا سکتے ہیں۔
اسی لئے حدیث بھی ہے؛
وإن أبعد الناس من ﷲ القلب القاسی. کہ اللہ سے سب سے زیادہ دور شخص سخت دل شخص ہے۔ اور سخت دل شخص وہ ہے جو غصہ پہ قابو پانا نہیں جانتا۔
ہم سب کا یہ چھوٹا سا رویہ پورے ملک کو خوش و خرم بنا سکتا ہے۔ اپنے دل کا حال کبھی مت چھپائیں وہیں اپنا غصہ ہر بار چھپائیں دنیا کا کوئی ایشو ایسا نہیں جو بغیر غصے کے حل نا ہو اور ہر کسی کو اپنی زندگی جینا سکھائیں۔ اس میں مداخلت کم سے کم کریں یہی خوشحال نفسیات کا تقاضہ ہے۔
سائنس کیا کہتی ہے؟
زندگی کا مقصد، ہمارے وجود کا مقصد یا پھر کائنات کا وجود یہ سب سائنس سے اتنا ریلیٹڈ نہیں ہیں جتنا یہ سوال فلسفے سے ریلیٹڈ ہیں۔ سائنس صرف حقائق کی بنا پہ ہمیں اشیا کے وجود کے بارے میں بتاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آپ سائنس کی ایک کتاب جلا دیں اسکے نظریات غائب کردیں تو سو سال بعد کوئی شخص اگر صفر سے ان پہ تحقیق شروع کرے گا تو وہ انہی نتائج پہ پہنچے گا جن پہ سو سال پہلے کوئی شخص پہنچا تھا۔ جبکہ فلاسفی ایسی نہیں۔ یہاں آپ ایک نظریے کو آج دفن کرینگے تو دس سال بعد وہ نظریہ مکمل طور پہ نا پید ہو جائے گا۔
ایسے میں زندگی اور اسکے وجود کے بارے میں سائنس ایک طرح سے خاموش ہے۔ اب یہ سائنس کے قاری کی ذاتی تشریح ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی نفسیات کی تشنگی کے لئے ان نظریات کو کیسے استعمال کرتا ہے۔ اور اسی استعمال کی وجہ سے سائنس دو طبقہ ہائے فکر میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ جس میں ایک طبقہ زندگی کے بامقصد ہونے کو بتاتا ہے تو وہیں دوسرا طبقہ یہ بتاتا ہے کہ زندگی کا as such کوئی مقصد نہیں بلکہ یہ ہماری ذاتی پسند ہے کہ ہم اس کو کس سمت میں لیجاتے ہیں۔
انسانی نفسیات کا یہ ٹاپک بہت وسیع ہے جس پر گھنٹوں بات کرنا بھی کم ہے۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ انسانی آبادی کا ننانوے فیصد حصہ اس بحران سے کبھی نا کبھی گزرتا ہے چونکہ ہم اس سیارے کی وہ واحد مخلوق ہیں جو اتنی زیادہ “ذہین” ہے اور اتنی زیادہ “سوچ بچار” کی صلاحیت رکھتی ہے تو اس لئے ہمارا ان حالات سے گزرنا ناگزیر ہوجاتا ہے ورنہ اس سیارے پہ ارب ہا دوسری مخلوقات اپنے وجود پہ سوال اٹھائے بغیر کھا پی کر اس جہان سے کوچ کر جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے لئے ذہانت ایک زحمت ثابت ہوئی اور وہ سیارہ جہاں پہ ہر مخلوق اپنے وجود پہ سوال اٹھانے کا سوچ تک نہیں سکتی انسان نا صرف سوچتے ہیں بلکہ جواب نا ملنے پہ اپنے ہم جنسوں کو اور خود کو بھی نقصان پہنچا بیٹھتے ہیں۔ لیکن وہیں اگر کوئی انسان ایسے سوال ذہن میں آنے پہ کسی ایک تشریح کو اپنی زندگی کے مطلب کیمطابق ڈھال لے تو وہ معاشرے کا کارآمد پرزہ بن سکتا ہے وہیں اگر ایسا نا ہو تو وہ خود سمیت دوسروں کو بھی نقصان پہنچا بیٹھتا ہے۔ یہ سلسلہ ذہانت کے ارتقاء کیساتھ ہی شروع ہوا تھا اور اب اے آئی کے آنے کے بعد نئی منازل کی طرف چلا جائے گا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...