شوق بھی عجیب چیز ہے ۔ شوق عادت بن جائے تو غنیمت لیکن عادت عِلّت بن جائے تو مصیبت بن جاتی ہے۔ بہر حال شوق ہو یا عادت، تب تک فکر کی بات نہیں ہوتی جب تک ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی ہوش کو بھی دیوانگی سکھا دی جائے تو بڑے بڑے کارنامے وجود میں آتے ہیں۔ دراصل یہ جنون ہی ہوتا ہے جو فرہاد سے شیریں کے لئے نہر کھدواتا ہے۔ یہی جنون کسی ہلیری کو ہمالیہ کی چوٹی پر لے جاتا ہے تو کسی رابرٹ پیری کو قطب شمالی کے برفزار کی سیر کراتا ہے اور یہی پاگل پن کولمبس سے نئی دنیا دریافت کرواتا ہے۔
اور صاحبو شوق بھی عجیب طرح کے ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ہوا کرتے تھے۔ جب کبھی یار دوست گلی کے نکّڑ پر گپ شپ میں مشغول ہوتے، ان کی نظر آسمان پر ہوتی اور کبھی اچانک دوڑ پڑتے۔ ہم پوچھتے رہ جاتے بھئی کیا ہوا تو دوڑتے دوڑتے فرماتے کہ ” کلسرا صبح سے اڑ رہا ہے، نیا ہے ‘گردان ‘نہیں ہے، اسے اڈے پر واپس لانا ہے۔ ”
انہیں دراصل کبوتر بازی کا شوق تھا۔ کلسرا، گردان اور اڈہ سے کبوتر باز دوست یقیناً واقف ہونگے۔ ایک دوست ہمیشہ آنکھیں بند کئے ہاتھ کو عجیب انداز میں گھماتے رہتے پھر اچانک آنکھیں کھول کر کہتے” آہا آہا کیا سُر پکڑ میں آیا ہے۔ مزہ آگیا۔ اب بنے گی دھن ” ہمارے یہ دوست موسیقار بننا چاہتے تھے۔
ایسے ہی کچھ دوستوں کو گلوکاری ، تو کسی کو شاعری کا شوق ہوتا ہے اور وہ اپنے دوستوں کو تختہ مشق بناتے رہتے ہیں ” ابے دیکھ۔۔کیا زبردست شعر ہوا ہے” ۔
یہ بھی سچ ہے کہ شوق کے بغیر زندگی بھی کوئی زندگی ہے۔ اب میرا شوق جو عادت سے علّت بن گیا تھا وہ تھا کتابیں پڑھنا۔ جب سے اردو پڑھنا سیکھی، یعنی دوسری جماعت سے، تب سے گھر میں رسالے، کتابیں اور اخبارات دیکھے۔ ابا کی عادت تھی کہ رات سونے سے پہلے کوئی کتاب یا رسالہ ضرور پڑھتے تھے اور ضروری نہیں کہ یہ رسالہ یا کتاب اردو اور انگریزی میں ہو۔ وہ گجراتی اخبار بھی ہوسکتا تھا یا مراٹھی یا ہندی فلمی رسالہ۔
میرا اپنا یہ عالم تھا کہ کھانے کے ساتھ اگر کچھ پڑھنے کے لئے نہ ہو تو کھانے میں لطف نہیں آتا تھا۔ اس عادت پر امی کی ڈانٹ کھاتا۔ یہ عادت دفتر میں بھی تھی کہ کھانے سے پہلے اردو اخبارات کی ادارتی صفحے والے مضامین پرنٹ کرکے کینٹین کا ایسا گوشہ اور میز منتخب کرتا جہاں کوئی مخل نہ ہو اور میں کھانے کے دوران اطمینان سے پڑھتا رہوں۔ اب یہ عادت موبائل فون کو منتقل ہوگئی ہے۔
اس جنون کا یہ عالم تھا کہ ابن صفی کا نیا ناول لائبریری سے گھر لاتے ہوئے گھر پہنچنے کا انتظار نہیں کرتا بلکہ راستے میں ہی ورق گردانی کرتا ہوا آتا اور راہگیروں سے ٹکراتا اور گالیاں کھاتا ہوا چلتا۔
کورنگی میں بجلی کی روشنی نہیں پہنچی تھی تو راتوں کو جب سب گھر والے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے، میں سرہانے کرسی پر رکھی لالٹین کی لو دھیمی کرکے نسیم حجازی کے ناول پڑھا کرتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ساتویں جماعت سے ہی یہ موٹے شیشوں کی عینک لگ گئی۔
اخبار بینی بھی اسی شوق کی دین تھی۔ حالت یہ تھی کہ اگر پڑھنے کو اخبار کو ٹکڑا بھی مل جائے تو چاہے اس میں ” ٹینڈر نوٹس” والے سرکاری اشتہار ہوں، یا ضرور رشتہ اور ” مشتری ہوشیار باش ” قسم کے اشتہار جن میں عجیب جناتی قسم کی منشیوں والی زبان ہوتی کہ ” ہر خاص وعام کو اطلاع ہووے کہ مسمی نیاز دین، ساکن چک ۱۲’ موضع کچا کھوہ، ضلع داؤد خیل ۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔۔
وہ اچھے دن تھے۔ ملکی حالات آج کی نسبت بہت ہی پرسکون تھے۔ اور یہ بھی تھا کہ زرائع ابلاغ صرف اخبار اور ریڈیو تک ہی محدود تھے۔ یہ میں ساٹھ اور ستر کے عشرے کی بات کررہا ہوں۔ ٹی وی بہت بعد میں آیا اور ہر ایک کی پہنچ میں نہیں تھا۔ ریڈیو بھی کسی کسی گھر میں ہی ہوتا تھا ۔ لے دے کہ اخبار ہی تھے جو معلومات کا زریعہ تھے۔
اور چونکہ راوی زیادہ تر چین ہی چین لکھتا تھا چنانچہ ہم باہر کی دنیا پر بھی نظر ڈال لیتے تھے اور کچھ خبر دنیا کے دوسرے حصوں کی بھی ہوتی تھی۔ آج زرائع ابلاغ کی بے تحاشہ فراوانی کے باوجود ہمیں سوائے قندیل بلوچ، عامر لیاقت، گلالئی، دھرنا اور پانامہ قسم کی خبروں کے علاوہ کچھ علم نہیں ہوتا کہ دنیا میں کیا کچھ ہورہا ہے۔ ٹاک شوز کی بدعت کی بدولت ہماری سوئی مقامی اور ملکی موضوعات پر ہی اٹکی رہتی ہے۔
آج ذرا دوستوں کو یاد دلانا ہے کہ ان دنوں ہماری خبروں میں کیسے ہمیں دنیا بھر کی شخصیات اور واقعات کا علم رہتا تھا۔ یہ وہ تھے جن کی خبریں اخباروں میں پڑھتے یا ریڈیو پر سنتے۔ یہ سب یادیں ذہن کے کسی گوشے میں چھپی ہوئی ہیں۔ جو دوست میرے ہم عمر ہیں انہیں ان میں سے بہت سے نام یاد آجائیں گے۔ یہ چند ایک ہی شخصیات ہیں ان کے علاوہ بھی بے شمار لوگ ہیں جن کا تذکرہ ہونا چاہئیے لیکن اس وقت یاد نہیں آرہے۔
کسوٹی والے عبیداللہ بیگ اور افتخار عارف شخصیت کا تعین کرنے کے لئے قریش پور سے پوچھتے” وجہ شہرت اچھی یا بری” ۔۔۔ ان شخصیات کی وجہ شہرت مختلف نوعیت کی ہے۔ میں یہاں ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دے رہا۔ بعض کے بارے میں تو مجھے کچھ علم نہیں بس صرف خبروں میں نام سنا یا ان میں سے کوئی پاکستان کے دورے پر آیا تو ان کا نام دل کے نہاں خانوں میں کہیں محفوظ ہوگیا۔
یہ احباب کی معلومات کا امتحان نہیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ کس دوست سے کتنی ذہنی ہم آہنگی ہے اور کتنے دوستوں کو کتنے نام یا واقعات یاد ہیں۔
نکروما
۔۔۔۔۔
یہ گھانا کے صدر یا وزیراعظم تھے۔ پاکستان آئے تھے یا شاید کچھ گھنٹے کراچی ایرپورٹ پر ٹھہرے تھے۔ اکثر خبروں میں رہتے۔ افریقی اتحاد کی تنظیم کے بانی رکن تھے اور انہیں لینن امن انعام بھی ملا تھا۔
شومبے اور لوممبا
۔۔۔۔۔۔۔۔،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نام اپنی ندرت کی وجہ سے کبھی نہ بھول پایا۔ اور یوں بھی یاد ہے کہ ایک بار جنگ میں اپنے فٹبال کھلاڑیوں کی تصویر دیکھتے ہوئے ایک دوست نے تبصرہ کیا کہ یا یہ کھلاڑی تو بالکل شومبے لگتا ہے۔
یہ کانگو اور کتا نگا کے لیڈر تھے۔ ان کا آپس میں شاید کوئی پھڈّا رہتا تھا۔ شومبے کو شاید سزائے موت سنائی گئی تھی لیکن ان کا انتقال جلاوطنی میں ہوا۔
اوتھانٹ ۔۔۔یا ..یوتھانٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا نام تو یقیناً اکثر دوستوں کو یاد ہوگا۔ برما سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے اس سکریٹری جنرل کا نام ہم دن رات ریڈیو پر سنتے یا اخبار میں پڑھتے۔ یہ سب سے زیادہ عرصہ سکریٹری جنرل رہے اور اس عہدے پر فائز ہونے والے پہلے غیر یورپی تھے۔ جس طرح محمد علی کلے کے بعد کسی کو علم نہیں رہتا کہ موجودہ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن کون ہے اسی طرح اوتھانٹ کے بعد بہت کم لوگوں کو دوسرے سکریٹری جنرل کا نام یاد ہوگا۔ جیسے کہ مجھے علم نہیں کہ آج کل کون صاحب اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل ہیں۔
جنرل نے ون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ برما کے صدر ، وزیراعظم اور سپہ سالار تھے۔ دراصل یہ بہت بڑے ڈکٹیٹر تھے۔ ایوب دور میں پاکستان تشریف لائے تھے۔
ایوب کے دور میں ایسے ہی لوگ پاکستان آسکتے تھے۔
جمال گرسل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایوب، شاہ ایران اور جمال گرسل نے مل کر آر سی ڈی کی بنیاد رکھی تھی۔ گرسل ترکی کے صدر تھے اور ترکی کے ہر صدر اور وزیر اعظم سے پاکستانی ہمیشہ محبت کرتے آئے ہیں۔ ان کا ذکر ہمیشہ اچھے الفاظ میں ہوتا۔
عصمت انونو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا نام اگر ترکی کی تاریخ سے نکال دیا جائے تو نجانے ترکوں کی تاریخ میں کیا بچے گا،
مصطفے کمال اتاترک کے بعد ان کا اثر ترکی سیاست پر سب سے زیادہ رہا۔ انقلاب کے بعد یعنی ۱۹۲۳۔۱۹۲۵میں بھی وزیراعظم تھے تو ساٹھ ستر کے عشرے میں بھی وزیراعظم منتخب ہوتے رہے۔ ترکوں سے محبت ہم پاکستانیوں کی عادت ہے اور ہم عصمت انونو کا ذکر محبت سے کرتے تھے لیکن۔ ترکی میں شاید یہ اتنے غیر متنازعہ نہیں تھے۔
شاہ فاروق اور ملکہ نریمان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید کچھ دوستوں کو کپری کے ساحل پر کالا چشمہ لگائے، بڑی سی توند والے موٹے سے بڑے میاں کی تصویریں یاد ہوں جن کی بغل میں ہمیشہ کوئی قتالہ عالم نظر آتی۔
یہ مصر کے آخری بادشاہ شاہ فاروق تھے۔ ملکہ نریمان ان کی دوسری بیوی تھیں۔ انہیں بھی طلاق ہوگئی تھی۔ لیکن ہمیں ان کی تصویریں بہت بھاتیں گو کہ ہماری عمر اس وقت سات آٹھ سال ہی تھی ۔
شاہ فاروق کہ بہن کی شادی شاہ ایران سے ہوئی تھی جنہیں بعد میں شہنشاہ ایران نے طلاق دے دی تھی۔ فاروق نے ملکہ فریدہ کو طلاق دے کر اولاد نرینہ کی خاطر نریمان سے شادی کی۔ شاہ ایران نے لڑکے کی تمنا میں شاہ فاروق کی بہن کو طلاق دی اور ثریا سیے شادی کی پھر اسے بھی طلاق دے کر فرح دیبا کو ملکہ بنایا۔
اب شاہوں کے شوق تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔
شاہ فاروق کا قول بچپن میں بہت سنا کہ ” دنیا میں صرف پانچ بادشاہ رہ جائیں گے۔۔چار تاش کے اور ایک انگلستان کا’
چواین لائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحر الکاہل سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی پاک چین دوستی کا جب بھی ذکر آئے گا چواین لائی کو بھی یاد کیا جائے گا۔
چواین لائی کو ہمیشہ عزت واکرام سے یا رکھا جاتا ہے، پاکستان کے مخلص ترین دوست۔۔۔اور اس دوستی میں ایوب خان اور بھٹو کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔
کوسیجن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن پینسٹھ کی جنگ، معاہدہ تاشقند ، بھارتی وزیراعظم شاستری کی تاشقند میں موت کے ساتھ ہی کوسیجن کی یاد آتی ہے جنہوں نے ایوب اور شاستری کو تاشقند بلا کر لڑائی لڑائی معاف کرنے کو کہا تھا۔ وہ جنگ جس کے دونوں فریقین آج تک خود کو فاتح سمجھتے ہیں۔
کیسنجر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ کا اگر کسی وزیر خارجہ کا نام یاد ہو نہ ہو، ہنری کسنجر کا نام ضرور یاد رہے گا۔ امریکہ اور چین کی دوستی میں اس کا بڑا کردار ہے،
لیکن اسی بدبخت نے ہمارے بھٹو صاحب کو دھمکی دی تھی کہ ایٹم بم بناؤ گے تو تمہیں عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا، اور اس کم بخت نے یہ کرکے چھوڑا، مجھے تو کم ازکم یہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
ڈاکو محمد خاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں نہیں تھا کہ ہمارے اخبارات پر صرف باہر کے لوگوں ہی کا ذکر ہوتا تھا۔ بشیر ساربان کاقصہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور ساتھ ہی شہزادی ثروت اور اردن کے شہزادہ طلال کی شادی کا بھی ذکر ہوچکا ہے۔ شہناز گل اور مصطفے زیدی کی کہانی بھی کئی بار دہرائی جا چکی ہے۔
اس دور کی ایک نابغہ ہستی، ڈاکو محمد خان تھا۔ دہشت کی علامت۔ مجھے اس کی بڑی بڑی مونچھوں والی تصویریں یاد ہیں۔ کچھ کچھ نواب کالا باغ جیسا لگتا تھا۔ ویسے ان دونوں میں زیادہ فرق بھی نہیں تھا۔
محمد خان کو چار بار موت کی سزا دی گئی تھی جو ہوتے ہوتے دوبار اور آخر کار عمر قید میں تبدیل ہوئی جسے پوری کرنے کے بعد اور رہا ہونے کے بعد ہی اس کا انتقال ہوا۔
جمال ناصر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمال گرسل کی بہ نسبت جمال ناصر کو پاکستان میں زیادہ پسند نہیں کیا گیا۔ وہ ناصر جو مصر اور عرب دنیا میں دیومالائی حیثیت رکھتا ہے، پاکستان کی بہ نسبت ہندوستان سے زیادہ قریب تھا۔ نہرو ،.مارشل ٹیٹو، نکرومہ اور سوئیکارنو کے ساتھ مل کر غیروابستہ ممالک کی تنظیم کی بنیاد ڈالنے والے ناصر کو اخوان المسلمون کے خلاف سخت اقدامات اور حسن البنا اور سید قطب جیسی شخصیات کو موت کے گھاٹ اتارنے کے سبب دینی حلقوں نے ہمیشہ نفرت کی نظر سے دیکھا۔
ریٹا فریا
۔۔۔۔۔۔۔
یہ سانولی سلونی اور دبلی پتلی سی لڑکی، پہلی ہندوستانی اور ایشیائی خاتون تھی جو عالمی ملکہ حسن کے مرتبے پر فائز ہوئی۔ اخباروں میں اس کا نام اور تصویریں چھپتیں۔
آج اس کی تصویر تلاش کرنے کے لئے گوگل پر دیکھا تو سمجھ نہیں آیا کہ ملکہ حسن کیا دیکھ کر منتخب کیا جاتا ہے؟
لیلٰی خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسطینی مجاہدہ، پہلی خاتون ہائ جیکر۔ شاید میں نے طیارہ اغوا ہونے کا واقعہ پہلی بار تب ہی سنا تھا۔
۱۹۶۹ میں ٹی ڈبلو آے کے جہاز کو اغوا کرنے والوں کی ساتھی، جنہوں نے شاید جہاز کو دمشق کے قریب تباہ کردیا تھا۔ بہرحال صحیح یا غلط، اس کے بعد فلسطینی تحریک آزادی، یاسر عرفات اور الفتح وغیرہ دنیا کی نظروں میں اہمیت پاگئے۔
احمد بن بیلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ خوبصورت سا نوجوان الجزائر کی تحریک آزادی کا رہنما اور الجزائر کا پہلا صدر تھا۔ مجھے تو بہت اچھا لگتا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں حواری بو مدین نے اسے برطرف کرکے قید میں ڈال دیا تھا۔ لیکن تیسری دنیا اور مسلم ممالک کی تاریخ میں یہ کوئی ایسی عجیب بات بھی نہیں تھی۔
ڈاکٹر برنارڈ اور وشکانسکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیس سو سڑسٹھ میں پہلی بار دل کی تبدیلی کا کامیاب آپریشن کرکے جنوبی افریقہ کے سرجن کرسچن برنارڈ نے دنیا کو حیران کردیا اور دل کے علاج کی نئی راہیں کھول دیں۔ ان کا مریض ‘وشکانسکی ‘ اس آپریشن کے اٹھارہ دن بعد نمونیہ سے مرگیا تھا۔
ویلینٹینا ٹرشکووا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے میں کیسے کیسے نام یاد دلا رہا ہوں۔۔۔ روس کی پہلی خلاباز خاتون جس نے تین دن میں زمین کے گرد اڑتالیس چکر لگائے۔
خیر یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں۔ ہماری بیگمات ایک دن میں ہمیں اس سے کہیں زیادہ چکر لگوادیتی ہیں۔
لائکا
۔۔۔۔۔
رو سی یہاں بھی امریکیوں سے بازی لے گئے جب انہوں نے لائکا نامی کتیا کو خلا کیں بھیجا۔
اپنے ایک مولوی صاحب سے کسی نے کہا کہ دیکھیں دوسری قومیں تو خلا نو ردی کررہی ہیں اور ہم کہاں ہے تو مولانا نے فرمایا “خلا میں تو کتّے جارہے ہیں۔ ”
سوئکارنو
۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈونیشیا کی تحریک آزادی کا راہنما، انڈونیشیا کا صدر، پاکستان کا بے لوث دوست۔۔۔سننے میں آیا ہے کہ پینسٹھ کی جنگ میں اس نے اپنے اسلحہ خانے کی چابی ایوب خان کے حوالے کردی تھی۔
اسلحہ خانے کی چابی کتنی بڑی ہوتی ہے اور کیسے حوالے کی جاتی ہے اس کا تو علم نہیں۔ لیکن سوئیکارنو کو پاکستانی عوام نے ٹوٹ کر چاہا۔ آج بھی پشاور کا سوئیکارنو چوک اس محبت کی یادگار ہے۔
لیکن جیسا میں نے کہا ناں کہ مسلم دنیا کی تاریخ بڑی ہی عجیب ہے۔۔۔سوئیکارنو کے حکومت کا تختہ الٹ کر اسے بھی پابند سلاسل کردیا گیا۔
کرسٹائن کیلر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جی تھام کر بیٹھو کہ مری باری آئی۔
میں نے شہناز گل کا تذکرہ اس لئے بھی نہیں کیا تھا لہ اس سے کہیں زیادہ چٹپٹا قصہ کرسٹائن کیلر کا تھا
یہ خاتون کوئی ماڈل یا کال گرل تھیں جنہوں نے ساٹھ کے عشرے میں برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ میکملن کی حکومت کی چولیں ہلا دی تھیں۔
ان کی دوستی روسی سفارتخانے کے کسی اعلی افسر سے تھی اور ساتھ ہی برطانوی وزیر جنگ جان پروفومو کو بھی اپنی زلفوں کا اسیر بنا رکھا تھا۔ اب نجانے خلوت میں روسی راز برطانیہ کو ملتے تھے یا برطانوی خفیہ معلومات روس منتقل ہوتی تھیں۔ بہرحال بات تھی بڑی رسوائی کی۔
جان پروفومو کو استعفا دینا پڑا۔ ان کی ایک دو ست مینڈی ڈیوس کا بھی نام سننے میں آتا تھا۔
لیکن سب سے زیادہ مزیدار بات یہ تھی کہ ان کی یا کرسٹائن کیلر پر لکھی گئی کسی کتاب میں اس سوئمنگ پول کا تذکرہ ہے جس میں کیلر اور جان پروفومو کے ساتھ ہمارے صدر ایوب صاحب بھی تیراکی فرمارہے تھے۔ واللہ اعلم
تو دوستو یہ کچھ قصے تھے۔ اگر آپ کو یہ سب نام یاد ہیں تو یقیناً آپ اور میں ہم عمر ہیں ، اگر زیادہ یاد ہیں توآپ میرے بزرگ ہیں اور کم یاد ہیں تو آپ ابھی بر خوردار ہیں ۔
***
تحریر: شکور پٹھان