یوں تو مردوں کو زندگی میں بے شمار مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے دھنیے پودینے میں فرق کرنا، میٹھے خربوزے خریدنا، کسی خوبرو دوشیزہ کو بیوی کے سامنے نظرانداز کردینا، سسرال والوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، ساس کے طویل قیام کو جھیلنا لیکن ان سب میں مشکل ترین بیوی کے ایک سوال کا جواب دینا ہے اور سوال ہے “سنیں، کیا میں موٹی ہو گئ ہوں”۔
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دیتے ہوئے اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ سچ بولنا بھی مشکل اور جھوٹ بولنا بھی۔ اس کا جواب عموما مرد ایسے دیتے ہیں؛ “بالکل بھی نہی۔ کس نے کہا؟؟؟ کچھ گھاگ قسم کے مرد اس معاملے میں پکا کام کرتے ہیں۔ انتہائی اعتماد سے کہیں گے؛ ” بیگم تم پہ یہ وزن سوٹ کرتا ہے۔ تمہاری شخصیت بارعب لگنے لگی ہے۔ تمہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے کسی کمپنی کی سی ای او یا کسی اسکول کی پرنسپل ہو۔ مجھے تمہارا یہ سراپا پہلے سے زیادہ پرکشش لگتا ہے”۔ اے شاوے شے۔ آپ نے جیک پاٹ ہٹ کر لیا۔ اب بیگم مہینوں شاد رہیں گی بلکہ ناشتے میں آپ سے حلوہ پوری اور قیمے بھرے پراٹھوں کی بھی فرمائش کریں جو آپ فورا خوشی خوشی پوری کریں گے۔
اس ٹریپ میں پھنستے سادہ دل، معصوم اور سچے لوگ ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ جی بیگم صاحبہ، آپ کا وزن بڑھ رہا، آپ گول گپا ہوتی جا رہی ہیں۔ خیال کیجئے اپنا۔ بس آگئی آپ کی شامت۔ آپ نے اپنے پاؤں پہ کلہاڑی نہیں کلہاڑی پہ پاؤں مارا ہے۔
بیگم فورا جم جوائن کریں گی، ڈائٹ شروع اور گھر میں جم اکویپمنٹس کی آمد بھی۔ ساتھ میں ایک منحوس چیز جسے آپ ویٹ مشین کہتے ہیں وہ بھی وارد ہوجائے گی۔ کچھ ہی عرصے میں آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ نے شادی کسی خاتون سے نہیں کسی جم انسٹریکٹر سے کی ہے۔ آپ سوچ سوچ کر پریشان ہونگے کہ کوئی انسان کیسے سوچ سکتا ہے کہ ایک رات میں اس کا وزن تین کلو کم ہوسکتا ہے۔ بیگم صاحبہ صبح اٹھنے کے فورا بعد، سونے سے پہلے، واش روم میں جانے سے پہلے، جانے کے بعد، کھانا کھانے سے پہلے، کھانا کھانے کے بعد اپنا وزن چیک کریں گی اور ساتھ میں آپ کے کان کھائیں گی، “صبح سے کچھ نہیں کھایا، دو گھنٹے جم میں خوار ہو کر آئی ہوں پھر بھی صرف تین سو گرام وزن کم ہوا ہے۔” آپ تسلی دیں گے اور اس گھڑی کو کوسیں گے جب آپ نے بیگم صاحبہ کو وزن کم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
آپ یہ سوچ کر دنگ رہ جائیں گے کہ چربی سے بھرا پیٹ آئینے میں مسلسل دیکھنے سے کیسے کم ہو سکتا ہے۔ کولہوں کو دیوار پہ زور زور سے مارنے سے کولہے کم ہوتے تو ہماری پنجابی اور پشتو فلموں کی ہیروئینز انتہائی سلم اور سمارٹ ہوتیں۔ آپ اس شخص کو تو یقینا قتل کرنا چاہیں گے جس نے گرین ٹی ایجاد کی۔ آپ ششدر ہونگے اس سوچ پہ کہ برسوں سے جمی ہوئی چربی ایک ہفتہ گرین ٹی پینے سے پگھل سکتی ہے۔
بیگم اگر جم گئیں تو ظاہر ہے ڈائٹ پلان بھی ساتھ ہی آئے گا۔ چونکہ بیگم صاحبہ ڈائٹنگ پر ہیں اس لئے وہ کسی کو بھی کھاتا پیتا، خوش ہوتا، موج کرتا نہیں دیکھ سکتیں۔ آپ ہر وقت اس قسم کی باتیں سنیں گے، “خبردار جو وائٹ بریڈ لائے، ہول وھیٹ لایئے۔ رات سات بجے کے بعد کچھ نہیں کھانا چاہیئے۔ چاول کھانے سے پیٹ باہر آجاتا ہے۔ کولڈ ڈرنکس نہیں پینی چاہیئے۔ معلوم ہے اس میں گیارہ چمچ شگر ہوتی ہے۔ آپ پھر بیکری کے آئیٹمز اٹھا کر لے آئے۔ آپ کو پتا ہے ایک چکن پیٹیس میں کتنی کیلوریز ہوتی ہیں۔ یہ میدے، گھی اور چینی سے بھرے بسکٹس کتنا موٹا کرتے ہیں اور یہ آلو والے سموسے۔ آپ کو پتا ہے کہ ایک آلو کا سموسہ کھانے کا مطلب ہے میں جم میں ساڑھے تین گھنٹے ایکسرسائز کروں۔ فائدہ کیا میرے جم جانے کا جب آپ یہ سب الابلا اٹھا لائیں گے۔ آپ عرض کریں گے تم نہ کھاؤ، ہمیں تو کھانے دو تو آنسوؤں میں بھیگا جواب ملے گا، “میں جب دو گھنٹے جم میں خوار ہو کر آتی ہوں تو میرا دل کرتا ہے بھوکی شیرنی کی طرح ہر کھانے والی چیز ہڑپ کر جاؤں۔ صبح ناشتے میں صرف ایک سوکھا براؤن ٹوسٹ اور ایک گرین ٹی پی کر جاتی ہوں۔ واپسی میں دل کرتا ہے بچوں کے ہاتھوں سے چپس، چاکلیٹس، بسکٹس چھین چھین کر کھا جاؤں۔”
بہرحال یہ روٹین چند ہفتے چلے گی۔ اس کے بعد بیگم صاحبہ ہر روز کے بجائے ہفتے میں تین پھر دو پھر رفتہ رفتہ جم جانے کا خیال ترک کر دیں گی۔ آہستہ آہستہ پلیٹیں بھر بھر کر بریانی کھانا شروع کر دیں گی۔ آپ کو شام کو فون کریں گی، “سنیے موسم اتنا اچھا ہو رہا ہے۔ آتے وقت یونائیٹڈ کنگ بیکری سے آلو بھرے سموسے، چکن پیٹس اور گلاب جامن لیتے آئیے گا۔ اور سنیں میٹھی چٹنی زیادہ لیجیے گا۔” باقی رہے جم ایکوپمنٹس تو جناب ٹریڈ مل پہ بچوں کے چڈی، بنیان اور موزے لٹکے ہوئے ملیں گے۔ یوگا میٹ پہ بچے لوٹ رہے ہونگے۔ مسئلہ ہوگا ڈمب بیلز کا، گھر میں لڑھکتے پھرتے ہیں جس سے آپ کے پاؤں کے ناخنوں کے شدید زخمی ہونے کا اندیشہ ہے۔