”مجھے تو یہی بتایا گیا تھا“
————————
”انہوں نے مجھے ایک شام وزیراعظم ہاﺅس میں بلا لیا۔ وزیراعظم صاحب بڑے تپاک سے ملے اور انہوں نے گفتگو کے آغاز ہی میں یہ وضاحت پیش کردی کہ میں بڑا نظریاتی آدمی ہوں۔ قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہوں۔ میری حکومت نے مشرف کو سپریم کورٹ حکم پر ملک چھوڑنے کی اجازت دی ہے۔ میں نے وزیراعظم صاحب سے اختلاف کیا اور بتایا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے حکم کو برقرار تو رکھا لیکن اپنے فیصلے میں صاف لکھا کہ وفاقی حکومت مشرف کے خلاف آئین کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کا مقدمہ جاری رکھنے اور ان کی نقل و حرکت کے با رے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ یہ سن کر وزیراعظم صاحب نے حیرانی ظاہر کی تو میں نے عرض کیا کہ جناب سپریم کورٹ کا فیصلہ منگوا لیں۔ کچھ ہی دیر میں فیصلہ آ گیا جو صرف دو صفحات پر مشتمل تھا۔ میں نے وزیراعظم کو یہ فیصلہ پڑھ کر سنایا تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو یہی بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کو مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنا پڑے گا۔“
یہ پیرا گراف ایک معروف صحافی کے کالم کا حصہ ہے جو سات اگست کو شائع ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ جو صرف دو صفحات پر مشتمل تھا‘ سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کے مطالعے سے محروم رہا۔ جنرل مشرف نے ان کے اقتدار کو ختم کر کے حکومت پر قبضہ کرلیا تھا۔ پھر میاں صاحب معاہدہ کر کے ملک سے باہر چلے گئے تو اس نے انہیں واپس نہیں آنے دیا۔ آئے تو ایئرپورٹ ہی سے واپس بھیج دیا۔ اگر میاں صاحب دشمنوں کی فہرست بنائیں تو کیا عجب‘ جنرل پرویز مشرف کا نام کئی دوسرے ناموں سے اوپر ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ پانچ نام بھی‘ جن کا میاں صاحب جی ٹی روڈ پر ذکر کرتے رہے‘ جنرل صاحب کے نام کے نیچے ہی جگہ پائیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اتنے بڑے دشمن کے حوالے سے عدالت عظمیٰ فیصلہ دیتی ہے۔ فیصلہ سینکڑوں نہیں‘ صرف دو صفحوں پر مشتمل ہے۔ مگر میاں صاحب یہ دو صفحے بھی نہیں پڑھتے۔
آخر وجہ کیا تھی؟ کیا وہ پڑھنے سے قاصر تھے‘ یا پڑھنا کسر شان سمجھتے تھے؟ بہرطور وجہ کوئی بھی ہو‘ یہ طے ہے کہ وہ پڑھتے لکھتے کچھ نہیں تھے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ وہ فائلیں خود پڑھتے تھے نہ ان پر کچھ لکھتے تھے۔ تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ ایک زبردست موضوع ہے۔ وزارت عظمیٰ کے تین ادوار میں کتنی فائلوں پر ان کے لکھے ہوئے نوٹ یا احکام ان محققین کو ملیں گے؟ طریق کار‘ جو سننے میں آیا ہے یہ تھا کہ ان کے میر منشی‘ جو ڈپٹی پرائم منسٹر تھے‘ ان سے فائلیں ”Discuss“ کرتے تھے اور پھر فائلوں پر خود ہی احکام لکھتے تھے۔
میاں صاحب کے اس ”طرز حکومت“ کی ایک اور مثال اس وقت نمایاں ہوئی جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ای سی سی کی صدارت اسحاق ڈار صاحب سے لے کر اپنے آپ کو سونپی۔
یہاں تھوڑی سی وضاحت ای سی سی کے بارے میں ضروری ہے تاکہ قارئین کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے۔ اس کا پورا نام ”اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی“ ہے۔ یہ حکومت کی اہم ترین کمیٹی ہے جو معیشت اور معاشی ترقی کے ضمن میں بنیادی فیصلے کرتی ہے۔ اقتصادی پالیسیاں‘ مالی استحکام کے لیے اقدامات‘ صنعت و تجارت‘ زراعت‘ درآمدات و برآمدات‘ ٹیرف‘ دیگر محصولات توانائی‘ غرض تمام مسائل جو ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں‘ ای سی سی میں زیربحث آتے ہیں اور فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ اس کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ کلیدی محکموں کے انچارج وزرا اس کے اجلاس بطور ممبر اٹنڈ کرتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو اور شوکت عزیز بطور وزیراعظم اس کے اجلاسوں کی صدارت بنفس نفیس کرتے تھے۔ یوسف رضا گیلانی بھی خود ہی کرتے رہے۔ گیلانی صاحب کے عہد کے اواخر میں شوکت ترین وزیر خزانہ تعینات ہوئے تو وہ کرنے لگے۔ تاہم جب تک میاں نوازشریف وزیراعظم رہے‘ چار سال میں انہوں نے ملک کے اس اہم ترین ادارے کے کسی ایک اجلاس کی صدارت بھی نہ کی۔
اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ وہی وجہ ہے جس کی بنا پر انہوں نے دو صفحوں کا فیصلہ نہ پڑھا اور کسی فائل کو شرف التفات نہ بخشا۔ یعنی بے نیازی اور قبائلی طرزِ حکومت۔ وہ کسی ایسے جھنجھٹ میں پڑنا پسند ہی نہ کرتے تھے جس میں دماغ پر زور ڈالنا پڑے۔ حکومت اسحاق ڈار صاحب کرتے تھے۔ وزیراعظم مری‘ لاہور اور بیرون ملک آمدورفت میں مشغول رہتے تھے۔
ایسا شخص جو دو صفحے بھی نہیں پڑھتا‘ فائل بھی نہیں دیکھتا‘ کسی اہم اجلاس کی‘ جس میں اعداد و شمار اور اقتصادی پیچیدگیاں ہوں‘ صدارت بھی نہیں کرتا‘ اس نے زندگی میں کوئی کتاب کیا پڑھی ہوگی؟ کوئی کتاب رسالہ دیکھتے تو معلوم ہوتا کہ انقلاب کسے کہتے ہیں۔ یہ جو جاتی امرا کے قریب پہنچ کر انہوں نے انقلاب کا نعرہ لگایا ہے تو وہ صرف اور صرف وزیراعظم ہاﺅس میں اپنی واپسی کو انقلاب سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو چار سال میں انہوں نے کسی انقلاب کا نام کیوں نہ لیا؟ ان کے دہنِ مبارک سے کبھی کسی تعلیمی‘ زرعی یا معاشی پالیسی کی وضاحت نہیں سنی۔ ترقی سے مراد ان کی شاہراہیں ہیں اورانقلاب سے مراد یہ ہے کہ وزیراعظم بنیں اور رہیں۔
پرانے زمانوں میں جب بادشاہ شکار کھیلتے تھے تو ایک جم غفیر لشکریوں اور درباریوں کا ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔ پورے جنگل پر قبضہ کرلیا جاتا تھا۔ شکار کو ہر طرف سے گھیر گھار کر بادشاہ کے نرغے میں لایا جاتا تھا۔ یوں جہاں پناہ شیر یا چیتے یا ہاتھی کا ”شکار“ کرتے تھے۔ سابق وزیراعظم بھی درباریوں کا جم غفیر لے کر نکلے۔ دو ہزار کی نفری تو اس انقلاب کے لیے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے ہی نے مہیا کردی۔ سات سو گاڑیاں بھی۔ پورے وفاقی حکومت‘ اس حکومت کے جملہ وسائل‘ پوری پنجاب حکومت‘ پنجاب حکومت کی افرادی قوت‘ گاڑیاں اور مالی وسائل بروئے کار لائے گئے۔ ان سب نے انقلاب کے گرد گھیرا تنگ کیا اور لاہور پہنچ کر وہ میاں صاحب کے مکمل نرغے میں آ گیا۔ اسی انقلاب کا اعلان وہاں یا اس کے قریب پہنچ کر کیا گیا۔
اس انقلاب کے اجزا کیا ہے؟ اڑھائی تین کروڑ کی گھڑی‘ کروڑوں اربوں کے فلیٹ‘ درجنوں کارخانے‘ جائیدادیں‘ محلات‘ سرکاری خزانے کا بے تحاشا استعمال۔
انقلاب آیا تو پہلا ہدف اس انقلاب کا وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں ہوں گی۔ انقلاب تبدیلی لے کر آتا ہے۔ میاں صاحب ایک لمحہ کے لیے بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ وفاق میں انہی کی پارٹی کی حکومت ہے۔ وہ ایسا انقلاب چاہتے ہیں جس میں وہ اور صرف وہ و زیراعظم ہوں۔
آپ دنیا کے واحد حکومتی سربراہ تھے جو فائل خود نہ پڑھتے تھے نہ اس پر کچھ لکھتے تھے۔ ای سی سی کے اجلاس بھی خود نہیں اٹنڈ کرتے تھے۔ دو صفحے کا فیصلہ پڑھنا ان کے لیے عذاب تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے وزارت خارجہ کی پالیسی کتنی فائلیں اپنوں نے دیکھی اور پڑھی ہوں گی؟ افغانستان‘ ایران‘ سعودی عرب اور بھارت کے معاملات میں انہوں نے کیا کچھ ان فائلوں پر تحریر کیا ہوگا؟ آپ ان کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ سعودی عرب میں جس اجلاس میں امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کو دہشت گردی کا شکار قرار دیا اور پاکستان کا ذکر تک نہ کیا‘ اس میں وہ بنفس نفیس شریک تھے۔ انہوں نے پاکستان کی اس سبکی پر چوں تک نہ کی۔ کوئی اور ہوتا تو سٹیج پر جا کر وضاحت کرتا۔ میزبان حکومت سے احتجاج کرتا۔
جب ہم قبائلی طرز حکومت کہتے ہیں تو یوں ہی نہیں کہتے۔ قبائلی طرز حکومت میں قبیلے کا سردار ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ کسی ادارے‘ وزارت یا محکمے کے مشورے کا پابند نہیں ہوتا۔ وزارت خارجہ کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں اور ملک کا وزیراعظم جندال سے ملاقات کررہا ہے۔ وزارت خارجہ کو علم ہی نہیں اور بھارتی وزیراعظم جاتی امرا پہنچ جاتا ہے۔ وزارت خارجہ بے خبر ہے اور قطر سے وفد آ جاتا ہے۔ مہینوں لندن رہتے ہیں اور کوئی قائم مقام وزیراعظم ملک میں نہیں ہوتا۔ قبیلے کے سردار کی صاحبزادی عملاً سرداری سنبھال لیتی ہے۔
امید واثق ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو‘ جس کی بنا پر آپ نااہل ہوئے آپ نے ابھی تک نہیں پڑھا۔ کالم کے شروع میں معروف صحافی کے کالم کا جو اقتباس دیا گیا ہے اس کی رُو سے ”وزیراعظم صاحب نے یہ سن کر حیرانی ظاہر کی۔“ اب بھی انہیں یہی بتایا گیا ہے کہ آپ نے تنخواہ نہیں لی۔ اس لیے نااہل قرار دیئے گئے۔ کوئی جا کر انہیں پورا فیصلہ سنائے تو وہ یقینا حیرت سے کہیں گے۔ ”مجھے تو یہی بتایا گیا۔“
اکبر اعظم ناخواندہ تھا مگر ہر کتاب‘ ہر فائل‘ ہر کاغذ پڑھواتا تھا اور فیصلے لکھواتا تھا۔ اعظم اس کے نام کا پیدائشی حصہ نہ تھا۔ پچاس برس دن رات کام کر کے یہ لقب کمایا۔ ایک ایک گھوڑا اس کے سامنے داغا جاتا تھا۔ میاں صاحب ناخواندہ نہیں۔ ماشاءاللہ تعلیم یافتہ ہیں مگر جو اسلوب حکومت کرنے کا انہوں نے دکھایا اس سے یہ قطعاً معلوم نہیں ہوتا کہ تعلیم یافتہ ہیں۔ کسی سے معاشی ترقی ہی کی تعریف پوچھ لیتے۔ معلوم ہو جاتا کہ صرف سڑکوں کو ترقی نہیں کہتے۔ اس میں صحت‘ تعلیم‘ صنعت‘ زراعت‘ افرادی قوت اور بہت کچھ اور بھی شامل ہے۔
چار سال میں انہوں نے ملک میں کتنی یونیورسٹیوں‘ کتنے کالجوں‘ کتنے ہسپتالوں کا دورہ کیا۔ زرعی پالیسی میں کیا حصہ ڈالا اور تو اور سینٹ اور قومی اسمبلی میں بھی مہینوں نہیں گئے۔ کابینہ کے وزرا ملاقات کے لیے ترستے رہتے تھے اور صحافیوں کی مدد لینے کے لیے مجبور تھے۔
انقلاب جاتی امرا سے چل پڑا ہے۔ بس پہنچنے ہی والا ہے۔ بیوی بہت دیر سے کہہ رہی ہے کہ پکانے کے لیے گھر میں کچھ نہیں۔ سبزی لا کر دو۔ میں اس ڈر سے دکان پر نہیں جا رہا کہ پیچھے سے انقلاب نہ آ جائے۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔