“پیش گوئی مشکل کام ہے، خاص طور پر اگر یہ مستقبل کے بارے میں کرنی ہو۔”
یوگی بیرا
جب کچھ ہو جاتا ہے تو لگتا ہے کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ تمام آثار اور شواہد یہی بتا رہے تھے۔ یہ تو سب کو پتا ہی تھا یا پتا ہونا چاہیے تھا۔ ایسا ہونے سے پہلے کبھی نہیں لگتا۔ اس کا مطلب واقعہ رونما ہونے سے پہلے کی غیریقینیت کو فراموش کرنا ہے۔ نفسیات میں یہ ہائیڈ سائٹ بائیس کہلاتا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم میں جاپان نے ہوائی میں پرل ہاربر پر ایک سرپرائز حملہ کیا اور امریکی افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ چند واقعات اس سے پہلے کے
اس حملے سے کچھ ماہ قبل ٹوکیو سے ایک ایجنٹ نے ہونولولو کے ایک جاسوس کو ایک الارمنگ پیغام بھجوایا تھا جو پکڑ لیا گیا تھا اور بحریہ کی انٹیلی جنس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس میں جاپانی جاسوس سے کہا گیاتھا کہ وہ بندرگاہ میں بحری جہازوں سے متعلق معلومات فراہم کرے، خاص طور پر جنگی جہاز، ائیرکرافٹ کیرئیر اور ڈسٹرائیر کے بارے میں۔ یہ معلومات پانچ الگ حصوں کے بارے میں مانگی گئی تھی۔
اس سے کچھ ہفتوں بعد ایک اور واقعہ ہوا۔ امریکی مانیٹر جاپانی بحری بیڑے سے متعلق اپنی ٹریکنگ کھو بیٹھے۔ جاپانی بیڑے نے ایک ماہ میں دوسری بار اپنا کال سائن بدل لیا تھا۔ جاپانی عام طور پر چھ ماہ بعد اس کو تبدیل کیا کرتے تھے۔
اس سے دو دن بعد جاپانی سفارت کاروں اور کونسلرز جو ہانگ کانگ، سنگاپور، باٹاویا، منیلا، واشنگٹن اور لندن میں تعینات تھے، ان کو پیغامات بھیجے گئے کہ وہ خفیہ ڈاکومنٹس کو جلا کر ضائع کر دیں۔ یہ پیغامات ترسیل کے دوران سن لئے گئے تھے۔
ایف بی آئی نے ہوائی میں جاپانی قونصلیٹ کے باورچی کی فون کال پکڑی جس میں وہ خوشی خوشی بتا رہا تھا کہ سب ڈاکومنٹس جلائی جا رہی ہیں۔ یہ کال لیفٹننٹ کرنل جارج بکنل تک پہنچی۔ انہوں نے سوچا کہ اس کو آگے بتایا جائے یا نہیں۔ پانچ منٹ کے بعد اس کو نظر انداز کر دیا اور کھانا کھانے چلے گئے۔ اس سے اگلے روز یہ حملہ ہو گیا۔
کیا یہ سب واضح نہیں تھا؟ کیا تمام شواہد یہ اشارہ نہیں کر رہے تھے کہ جاپان کچھ بڑی پلاننگ کر رہا ہے؟ اس سب معلومات کے ہوتے ہوئے امریکی بے خبری میں کیوں مارے گئے؟ کیونکہ واقعہ رونما ہو جانے کے بعد جب ہم یہ سب کچھ دیکھتے ہیں تو ہمیں علم ہے کہ یہ ہو چکا۔ جب یہ ہو رہا تھا تو سب معلومات کو ملا کر نقطے جوڑ کر تصویر تیار کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ اس زگ زیگ دنیا میں سگنل صرف یہی نہیں تھے۔ ہزاروں سگنل اور واقعات اور بھی تھے۔ کونسے اہم ہیں اور دوسروں سے مل کر کیا بتا رہے ہیں؟ یہ واقعے سے پہلے کرنا اتنا آسان نہیں جتنا بعد میں دکھائی دیتا ہے۔ بعد میں تو اس میں سے کچھ ہی یاد رہ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی اور مستقبل میں سمٹری کا نہ ہونا ہمیں روزمرہ کی زندگی میں نظر آتا ہے۔ کوئی بھی واقعہ کیوں ہوا؟ ٹی وی اور اخبارات پر مقبول اور پراعتماد “ماہرین” اس بارے میں سب کچھ بتا دیں گے۔ مستقبل کے بارے میں ان کی پیشگوئی کے ٹھیک ہونے کا اگر ریکارڈ رکھا جائے اور ان کی پیش گوئیوں کا مقابلے طوطے کی فال سے کیا جائے تو طوطا ان میں سے آدھے ماہرین کو ہرا دے گا)۔ سٹاک ایکسچینج، تیل کی قیمتیں، سونے کے بھاوٗ اوپر یا نیچے کیوں گئے؟ ٹیم میچ کیوں جیتی یا ہاری؟ ایسے ماہرین کے پاس ان کے پاس اچھی وضاحت اور وجوہات ہوں گی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ سگنل کے شور میں سے طویل مدت کے ٹرینڈ ڈھونڈے نہیں جا سکتے۔ لیکن ان کی مدد سے مستقبل کا اندازہ لگا لینے والے چونکہ اس قدر پراعتماد نہیں ہوتے، اس لئے مقبول نہیں ہوتے۔ جو بات اعتماد سے بلا شک و شبہ کی جائے، اس کو سچ مان لینا بہت آسان ہے۔
اپنی ذاتی زندگی ہو، بزنس، کوئی بھی ادارہ یا ملک۔ طویل مدتی پلان عام طور پر جلد ہی غیرمتعلقہ ہو جاتے ہیں کہ دنیا کسی گھڑی کی طرح چلتے پیٹرن کی صورت میں ہمارے سامنے نہیں آتی۔ یہ اس سے زیادہ دلچسپ ہے۔ اس میں پلاننگ کے ساتھ ساتھ لچک، حوصلہ اور غیرمتوقع سے نبٹنے کی تیاری بھی ضروری ہے۔
اس حقیقت سے لاعلمی آپ کو مقبول شاید ایک مقبول تبصرہ نگار بنا دے کیونکہ جو ہوا، وہ سب کچھ تو آپ کو پہلے سے ہی پتا تھا۔