مجھے شاہی بازار میں رہنے دیں
———————————-
ابھی ابھی وہ سیمیں تن
بالکونی پر آئی
تو وقت کے پھیرے
ازخود پرکار کی صورت
دائرہ در دائرہ
پھیل رہے تھے
اور کہیں اس
وقت کے نین نقش میں ایسے
سیمیں تن کی مہک ان
گلیاروں سے
کمل روپ کی مہکار پہن کر
یوں پھیل رہی تھی کہ
اوپر کسی بالکونی میں آواز اک آئی
بیٹا! ذرا سُن لیں
جی اماں!
یہ ٹوکری لے کر کچھ چیزیں شوکت کے دکاں سے لے کر بھیجیں
جی اچھا،
کیا دیکھتا ہوں کہ پہناوا بھی مجھ سے گویا ہے
اور گاؤن بھی اس
پریت نگر کا من بھاتا ہے
جب بالکونی کے نیچے گزرتا
تو سامنے پیر و جواں کے من بھاتا پرتو
اکثر دیکھے
اور یونہی مَیں کہہ اٹھتا کہ
ابھی لاتا ہوں
تب سے یہ منظر
بالکونی، دالان، بلند عمارتوں کے نین نقش کبھی اُس کی
آون جاون کو
منور کرتے
اور مَیں کسی کونے میں دبک کر
بیھٹتا ہوں
ایک قصہ گو کی طرح
گویا ہوتا ہوں
اور اس بیچ
باقیات میں سے جو کچھ
حصے میں آیا
قصہ پن جینے کو
کریمک ہوٹل میں لٹکی پرانی قندیل
ایک چھوٹے سےکباٹ میں کچھ
بوسیدہ ورق
اس میں کچھ مسطور بھی ہے
پر خواب شکستِ خواب کی صورت
ایک تسبیح جو کم پڑتے دانوں کی اذیت
سہہ نہ پائی
سامنے بیٹھے
بے سطر لبوں سے
بے سمت نظروں کی تصویروں میں خود کو
کھوج رہے تھے
یونہی دفعتاً کریمک کی آواز جو آئی
سب پر سکتہ طاری ہوئی
کہ یہ اب کے ہم میں کیسے
ان کو تو مرے ہوئے عرصہ بیت گئے
پر ایک بات سمجھ میں آئی کہ
یہ جو ایک ٹیپ ریکارڈر ابھی اسی کیسٹ کے ساتھ لگا ہوا ہے
یہ تو ابھی وہ ڈال کے گئے تھے کہ لال بخش پان والے کی دکاں پر چائے دے کر آتا ہوں
پر کوئی ریل نہ بدلے
اور مکیش کی آواز نے سارنگا کے بھیتر جھانکا تو
دانے بھی ساتھ ہی ٹوٹ گرے اور
غفور کے چہرے پر دکھ کی جھالر
آڑھی ترچھی لکیر کی صورت
اور سماوار کا دھواں پہن کر
برخود جینے کے احساس کو لے کر
جاگ رہا ہے۔
***********
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“